خواجہ احمد عباس (پیدائش: 7/جون 1914 ، وفات: یکم/جون 1987) - صف اول کے ناول نگار، افسانہ نگار، دانشور، مفکر ، انگریزی اور اردو کے صحافی اور اعلی درجے کے فلم ساز تھے۔ وہ اردو، ہندی، اور انگریزی تینوں زبانوں پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ ان کی چھوٹی بڑی ستّر سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ جب ایک قلمکار احمد سلیم کو سنایا تو انہوں نے اسے یادگار کہانی "اداس دیواریں" میں تبدیل کر دیا، جو کتابی سلسلہ "دریافت" (کراچی) کے 'خواجہ احمد عباس نمبر' مارچ-1989 میں شائع ہوئی۔ خواجہ احمد عباس کی زندگی کی یہ نازک اور المناک کہانی قارئین کے لیے پیش ہے۔ہاں، میری بیوی، میری مجّی بہت بہادر تھی۔ کمبخت کی بہادری اس حد تک پہنچ گئی کہ جب اسے دل کی تکلیف ہوئی، اس نے وہ بھی مجھ سے چھپا لی۔ پتہ نہیں یہ کس طرح کی بہادری ہوتی ہے۔ مجّی جیسے تو کسی کو دل دے کر بھی ، دل کا درد اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
ایک سال گزر گیا ، مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ اس کا دل کیسے دھڑک رہا ہے، کیسے ڈر رہا ہے، کیسے اپنے درد کو دبا رہا ہے۔
ایک دن میں نے اسے سیڑھیاں چڑھتے دیکھا، وہ پانچویں سیڑھی پر پہنچ کر ہانپنے لگی اور رک گئی۔ مجھے شک گزرا تو میں اسے زبردستی ڈاکٹر بالگا کے پاس لے گیا۔ اس نے معائنے کے بعد بتایا کہ دل تک پورا خون نہیں پہنچ رہا ہے۔ میں اتفاق سے روس جا رہا تھا۔ اسے بھی ساتھ لے گیا۔ وہاں اسپتال میں دکھایا تو انہوں نے بستر سے اٹھنے نہیں دیا، اور کہا:
"اسے یہاں پورا مہینہ رہنا پڑے گا۔"
جب میں اسے اسپتال میں داخل کرا کے واپس ہندوستان آیا تھا تو وہ وہاں ہنس کھیل رہی تھی۔ ایک ماہ بعد روسی ڈاکٹروں نے مرض کو لاعلاج بتا کر اسے واپس بھیج دیا۔
بمبئی میں میں پھر ڈاکٹر بالگا سے صلاح مشورے کر رہا تھا، جب عالمی ادارۂ صحت کے لوگ وہاں آئے تو معلوم ہوا کہ وہ کچھ مریضوں کے آپریشن کریں گے لیکن پھر ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آپریشن کے لئے چھ افراد کو وہ پہلے ہی چن چکے ہیں۔ان چھ مریضوں میں دو لڑکیاں بھی تھیں جن میں سے ایک کا تعلق فلم کے شعبے سے بھی تھا۔ جب آپریشن کئے گئے تو دونوں لڑکیوں میں سے ایک لڑکی بعد میں مر گئی۔ میں نے سوچا کہ اگر عالمی ادارہ صحت نے ساتواں مریض قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا تو اچھا ہی کیا تھا۔
میری مجّی اکھڑے اکھڑے سانس لے رہی تھی، لیکن لے رہی تھی۔ وہ میرے پاس تھی اور یہی بات ہم دونوں کے لئے وجہ تسلی بھی تھی۔ لیکن اکھڑے سانسوں کی تسلی کب تک چل سکتی تھی۔ ڈاکٹر بالگا نے بتایا کہ کے۔ ایم ہسپتال کے ڈاکٹر سیٹھ سے اچھا کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ ہم اس سے ملے تو وہ آپریشن کرنے پر رضا مند ہو گیا۔ مشکل یہ تھی کہ اس اسپتال میں کوئی اسپیشل وارڈ نہیں تھا ، صرف جنرل وارڈ تھا۔ جہاں مریض کے ارد گرد چیخیں تھیں اور موت کے سائے تھے۔ ڈاکٹر سیٹھ نے کافی مہربانی کے بعد برآمدے کے کونے میں مسہری بچھوانے کے بعد پردہ لٹکا کر مجّی کے لئے ایک اسپیشل وارڈ بنوا دیا۔
اور جناب مجّی کے پاس ہونٹوں سے پھول بانٹنے کا جو ہنر تھا، اس کی وجہ سے ڈاکٹر سیٹھ اس کا قریبی دوست بن گیا، پھر جس دن آُریشن ہونا تھا اس رات مجّی نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں، رات اس کے نام خط لکھوں ، صبح پانچ بجے اسے وہ خط دوں جس کے ایک ایک لفظ کو وہ اپنی روح میں سمو کر آپریشن تھیٹر جائے گی اور ضرور زندہ رہے گی۔
میں نے اس رات مجّی کے نام اٹھارہ صفحوں کا طویل خط لکھا۔ صبح پانچ بجے اس کے حوالے کیا اور چھ بجے تک اس کا فیصلہ تھا کہ وہ نہیں مرے گی اس نے بے ہوش ہونے تک خط کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے رکھا۔
نہیں جی، وہ خط میرے پاس نہیں ہے۔ اس نے کہا تھا:
" نرسوں کو ہدایت کردو کہ وہ میرے بے ہوش ہوجانے کے بعد خط کو سنبھال کر رکھیں۔"
لیکن اس وقت اتنی گھبراہٹ تھی کہ میں نرسوں کو یہ ہدایت دینا بھول گیا۔
تین گھنٹے آپریشن ہوتا رہا، میں باہر منتظر رہا، سانس رو کے !
آپریشن کے دوران زندگی کا خاتمہ کر دینے والا ایک حادثہ ہو گیا۔ ڈاکٹر سیٹھ کے ہاتھ سے وہ رگ پھسل گئی جسے دوسری جگہ جوڑنا تھا، لیکن لہو کے سیلاب میں ، اس رگ کو تلاش کر لینے کے بعد بھی ڈاکٹر سیٹھ اس قدر گھبرایا ہوا تھا کہ وہ ڈاکٹر بالگا کو مریضہ کے پاس چھوڑ کر باہر آ گیا۔ باہر اس نے ایک سگریٹ پیا ، اپنے آپ کو سنبھالا اور دوبارہ آپریشن تھیٹر میں چلا گیا۔
میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ ڈاکٹر سیٹھ، میری مجّی کا قریبی دوست بن گیا تھا چنانچہ اسے بھی اپنے حصے کی دوستی کا درد سہنا پڑا۔ وہ درد اس نے سہہ لیا اور آپریشن کامیاب ہو گیا۔ لیکن آئندہ تین دن ، ہم سب پر بہت بھاری تھے۔ مجّی کی حالت نازک تھی۔ تین راتیں ، میں سر کے نیچے ہاتھ یا کوئی کتاب رکھ کر سوتا رہا تھا۔
ان دنوں میرے دن، میرے نہیں تھے ، وہ گروی رکھے ہوئے تھے۔ میں فلم "چار دل چار راہیں" بنا رہا تھا جس میں نمّی بھی تھی۔ اور مینا کماری بھی۔ شوٹنگ کے لئے روز صبح اسّی میل دور جانا پڑتا تھا۔
نہیں جی، شوٹنگ آگے پیچھے نہیں ہو سکتی تھی۔ مینا کماری کے شوہر کمال امروہوی نے مجھے صرف پندہ دن دئیے تھے۔ سولہویں دن کی سزا یہ ہوتی کہ سولہواں دن اور اس کے بعد آنے والا دن دگنے پیسوں کے حساب سے خریدنا پڑتا۔ میں یہ بھی کر سکتا تھا، لیکن فلم ختم ہوتی نظر نہیں آتی تھی۔ اس بات سے گھبرا کر کمال امروہوی نے مجھ پر دعویٰ دائر کر دیا تھا، ساتھ ہی نمّی نے بھی دعویٰ کر دیا کہ شاید میں اس کے پیسے اپنے وعدے کے مطابق ادا نہیں کروں گا۔ سو مجھے عدالت کی تاریخیں بھی بھگتنا پڑتی تھیں اور شوٹنگ بھی کرنا ہوتی تھی ، لیکن رات میری ہوتی تھی، میری اپنی ، اس لئے میں نے بے ہوش مجّی کو ہاتھ پکڑ کر کہا تھا:
"مجّی! تمہیں زندہ رہنا ہے۔۔۔ زندہ رہنا ہے۔۔ زندہ رہنا ہے۔۔ !"
اور جس گھڑی میں کتاب پر سر رکھ کر سو جاتا، نیند میں بھی میرے ہونٹ ہلتے رہتے اور میں خود اپنی آواز سے جاگ پڑتا ، کہہ رہا ہوتا:
"مجّی! تمہیں نہیں مرنا ہے ، زندہ رہنا ہے !"
قیامت کے تتین دن گزر گئے ، اور مجّی ہوش میں آ گئی۔ ڈاکٹر سیٹھ نے مارے خوشی کے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: " اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔"
مجّی بچ گئی تھی۔ وہ اب صرف کمزور تھی اس کمزوری کی حالت میں اسے خاص حفاظت میں رکھنا تھا۔ اس لئے ڈاکٹر سیٹھ کے کہنے پر میں نے ایک اچھے سے نرسنگ ہوم کا بندوبست کیا، مجّی وہاں رہنے لگی اور روز بہ روز صحت مند ہوتی چلی گئی۔
آپ کو راز کی ایک بات بتاؤں، اس کمزوری کی حالت میں ، جب مجّی کو میری مصیبتوں کا پتہ چلا تو اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں آئندہ اپنی کسی فلم میں کسی"اسٹار" کو نہیں لوں گا۔ مجّی سے کیا ہوا یہ وعدہ میں اب تک پورا کر رہا ہوں لیکن اس سے اگلا درد صرف میں سمجھ سکتا ہوں ، کہ مجّی نے ان دنوں میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا ، وہ پورا نہیں کیا۔
مجّی جب روز بہ روز صحت مند ہورہی تھی ، اسے اچانک نمونیہ ہو گیا اور وہ۔۔۔ اور وہ۔۔۔۔
خواجہ احمد عباس کی یہ سچی کہانی سن کر ان کے کمرے کی دیواریں اداس ہو گئیں۔ پھر دیواروں نے ان کی طرف نہیں بلکہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
ایک دیوار، دوسری دیوار سے کہنے لگی کہ اس شریف آدمی کو جو گھن لگ چکا ہے ، اس کے بارے میں، وہ اور کسی کو نہیں بتائے گا۔ اس کے بارے میں صرف خدا جانتا ہے یا ہم دیواریں جانتی ہیں۔ حساس دل کا ہونا بھی شاید گناہ کی بات ہے۔ یہ بندہ اس گناہ کے درد کو اپنے دل میں چھپائے بیٹھا ہے اور سوچتا ہے: اگر ایک دن نرسنگ ہوم میں ، وہ مجّی کے لمس کو بہت قریب سے محسوس نہ کرتا ، اس کے لبوں سے اپنی حکایت دل نہ کہتا تو مجّی نہ مرتی۔
وہ سوچتا ہے کہ مجّی کے لبوں سے حکایت دل کہنے کے سبب نمونئے کے جراثیم مجّی کے اندر چلے گئے تھے۔ وہ تو صحت مند ہو رہی تھی، سنبھل رہی تھی اور ہر وقت ہنستی رہتی تھی۔ لیکن ایک دن جب بڑے لاڈ میں آکر اس نے اپنے لبوں کی تشنگی عباس کے لمسِ لب کے سپرد کر دی تھی تو اسے سنبھل جانا چاہئے تھا۔ مجّی کی زندگی تو کسی کچے دھاگے کی طرح تھی۔ اس نے جب عباس کو اپنے قریب کیا تو شاید وہ اسی وقت دھاگے کی طرح ٹوٹ گئی۔ باہر شہر کی ہوا میں جانے کتنے جراثیم بھرے ہوتے ہیں ، وہ شہر کی خاک چھانتا آیا تھا اور نمونئے کے جراثیم کو بھی وہ کہیں سے ضرور اپنی سانسوں میں بسا کر لایا ہوگا۔
دوسری دیوار نے پہلی دیوار کی بات پر ہنکارا بھرا اور بولی: اس صبح بھی تو کچہری میں تاریخ تھی ، وہ نمّی اور مینا کماری کے مقدمے سے نمٹ رہا تھا۔ وہ سوچتا ہے کہ کچہریوں ہی میں نہیں، بلکہ طرح طرح کے لوگوں میں ، طرح طرح کے جراثیم ہوتے ہیں۔
گھر کی دو دیواروں کی بات چیت میں تیسری دیوار نے بھی اپنی آواز شامل کر دی۔ "اسی لئے تو وہ سچا ہے کہ بے اعتباریوں اور بے انصافیوں کو بھی انسانی بیماریاں سمجھتا ہے۔ جس ہوا میں ، ان بیماریوں کے جراثیم ہو سکتے ہیں ، اس ہوا میں اور کون سے جراثیم نہیں ہو سکتے!"
تینوں اداس دیواروں کا چہرہ دیکھنے کے بعد چوتھی دیوار نے دروازے کی طرف دیکھا اور بولی:
"اس دروازے میں سے گزر کر جب وہ گھر میں آیا کرتا تھا ، ایک سکون بھی اس کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا تھا۔ اب وہ بے چین ہو کر باہر جاتا ہے اور بے چین ہی لوٹتا ہے۔ سوچتا ہے مجّی سے حکایتِ دل کہنا اس کا گناہ تھا"۔
پھر چاروں دیواروں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا جسے کھول کر آہستہ سے عباس کمرے میں اس طرح داخل ہو رہا تھا جیسے کوئی گنہگار شخص دیواروں سے بھی نظریں چرا رہا ہو۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
خواجہ احمد عباس کا سوانحی خاکہ - از ڈاکٹر خلیق انجم
مینا کماری - بالی ووڈ فلمی صنعت کی ہیروئین نمبر ون - خواجہ احمد عباس
خواجہ احمد عباس اردو کا ہمہ جہت قلمکار - از: ندیم صدیقی
ماخوذ:
"دریافت" (کتابی سلسلہ، خواجہ احمد عباس نمبر)۔
ناشر: ادبی معیار پبلی کیشنز، کراچی۔ سن اشاعت: مارچ 1989ء۔
"دریافت" (کتابی سلسلہ، خواجہ احمد عباس نمبر)۔
ناشر: ادبی معیار پبلی کیشنز، کراچی۔ سن اشاعت: مارچ 1989ء۔
Udaas Deewaarein. Short Story by: Khwaja Ahmad Abbas
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں