پنڈت دینا ناتھ مدن معجز دہلوی - مترجم گیتا کی ادبی خدمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-23

پنڈت دینا ناتھ مدن معجز دہلوی - مترجم گیتا کی ادبی خدمات

پنڈت دینا ناتھ مدن معجز دہلوی ایک ممتاز علمی خاندان کے فرد تھے۔ افسوس کہ معاصر کتابوں میں ان کی زندگی اور تعلیم و تربیت کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں پائی جاتی۔ ان کے ذریعے کیے گئے گیتا کے ترجمے "مخزنِ اسرار" کی اشاعت پر کچھ روزناموں اور رسالوں نے ان کے ذاتی کوائف اور خاندانی حالات پر تبصرہ کیا تھا۔ اِن ضمنی باتوں کو یکجا کرنے سے جو صورت بنتی ہے، وہ پیشِ خدمت ہے۔
معجز دہلوی پر یہ اہم تحقیقی مقالہ ڈاکٹر محمد آصف زہری (پروفیسر سنٹر آف انڈین لینگویجز، جواہرلال نہرو یونیورسٹی، دہلی) اور آصف مبین (رسرچ اسکالر، سنٹر آف انڈین لینگویجز، جواہرلال نہرو یونیورسٹی) نے مشترکہ طور پر تحریر کیا ہے۔

نوٹ: یہ مقالہ آئی سی ایس ایس آر کے ذریعے دیے گئے پروجیکٹ کا حصہ ہے۔

پنڈت دینا ناتھ مدن معجز دہلوی کی پیدائش ان کے آبائی مکان لال حویلی محلہ چوڑیگران، دہلی میں ہوئی۔ وہ شاہجہان آباد کی ان مایۂ ناز شخصیات میں تھےجنھوں نے اپنی علمی و اَدبی خدمات کے ذریعے اِس تاریخی شہر اور اس کی تاریخ کو فضیلت بخشی۔ آپ کا تعلق کشمیر کے ایک مقتدر اور صاحبِ علم خاندانی سلسلے سے تھا جسےدہلی کی سماجی زندگی میں"مدن فیملی"کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اِس خانوادے کےاَرکان شروع سے ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ معجز دہلوی کے والد مرحوم رائے بہادر پنڈت جانکی ناتھ مدن سنسکرت، فارسی اور اردو کے بڑے عالم ہونے کے ساتھ عرفان حقیقی و عشق الٰہی کے حامل تھے۔ آپ نے اردو زبان میں شریمد بھگوت گیتا کا بے نظیر ترجمہ "فلسفۂ الوہیّت" کے نام سے کیا۔ پنڈت جانکی ناتھ مدن کی ایک تصنیف برہم درشن گرنتھ بھی ہے۔


معجز دہلوی کے برادرِ معظم پنڈت اَمرناتھ ساحر بحرِ علم کی شناوری کے ساتھ ادبِ عرفان کے بھی ذائقہ شناس تھے۔ وہ اپنے زمانے میں علم و عرفان کی ایسی غنیمت ہستی تھے، جس کی ذات سے علم و ادب اور طریقت و حقیقت کا چراغ روشن تھا۔ ساحر کا دیوان موسوم بہ "کفرِ عشق" جون 1937ء میں امپیریل پرنٹنگ پریس دھلی سے چھپا تھا۔ اس اشاعت کی پیشانی پر ساحر کے دو شعر درج ہیں اور حق ہے کہ یہ شعر نہ صرف ساحر بلکہ اس پورے خاندان کی فکری و اخلاقی قدروں کے ترجمان ہیں:
پیا ہے میکدۂ عشق میں وہ جامِ فنا
کہ بیخودی میں نہ صورت رہی نہ نام رہا
امیدو بیمِ ثواب و عذاب سے چھوٹا
صفائے قلب سے ساحر ترا غلام رہا


ساحر کے دیوان کا دیباچہ معجز نے رقم کیا ہے۔ معجز نے اپنے بھائی پنڈت امرناتھ ساحردہلوی کی شاعری پر جو باتیں لکھیں، یہ وہی باتیں ہیں جو خود ان کی اپنی شاعری پر صادق آتی ہیں گویا ساحر کے پردے میں معجز کا تذکرہ کرگئے اور ذکرِ یار میں ذکرِ ذات والی بات پیدا ہوگئی، لکھتے ہیں:


"معجز ہیچمدان۔۔۔اَربابِ سخن شناس و نکتہ رس کی توجہ اس مجموعہ غزلیاتِ اردو کی طرف منعطف کراتا ہے جو اوس کے برادرِ معظم جناب پنڈت اَمرناتھ صاحب مدن ساحر دہلوی کے کلام راحت انجام سےحال میں مرتب ہوا ہے۔ حضرتِ ساحر نے یہہ غزلیں وقتاً فوقتاً مختلف مشاعروں کی طرحونپر ارشاد فرمائی ہیں تاہم انمیں ایک خاص رنگِ سخن موجود ہے جو اہلِ نظر کو غور کرنے سے معلوم ہوگا۔ ہر غزل کا موضوع کوئی مسئلہ توحید و تصو ف کا ہے جسکا نام پیشانی پر درج ہے چنانچہ اس التزام کے بموجب غزل اور نظم کے مقاصد کی یکجائی نظر آتی ہے اور ہر ایک شعر شرح چاہتا ہے۔" (1)


حق یہ ہے کہ اردو زبان کے ذریعے ہندو فلسفہ کی نشرواشاعت میں اس خاندان نے جو حصہ لیا ہے اس کی مدّت مدید تک قدر کی جائے گی اور آئندہ نسلیں اس پر فخر کریں گی۔ جو ادبی و علمی ورثہ اور خداشناسی کا جو ماحول معجز دہلوی کو ملا، یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنے خاندانی ماحول سے غیر متاثر رہتے چنانچہ سنسکرت میں ہندو فلسفہ کے بارے میں جو زبردست اور معرکۃ الآرا کتابیں موجود ہیں ان کو اس وقت کی لنگوا فرینکایعنی اردو زبان میں منتقل کرنے کے کام کو انھوں نے اپنا وظیفہ بنا لیا۔


ادبی خدمات

معجز دہلوی کی علمی حیثیت اور ادبی فضیلت کا اعتراف اس وقت کی ممتاز شخصیات نےکیا ہے۔ خاندانی ورثے اور علمی دلچسپی و لگن کی بدولت انھوں نے اس وقت کی علمی و ادبی سوسائٹی سے اپنا لوہا منوایا۔ ان کے علمی ورثے میں نثر کے ساتھ ادبی منظوم تراجم بھی شامل ہیں۔ "مخزنِ اسرار"، "پیامِ سالک" کے علاوہ ایک مجموعۂ غزلیات بنام "گلزارِ معانی" ان کے علمی و ادبی مرتنے کے گواہ ہیں، ایک ایسا کمال جو علمی بھی تھا اور فنی بھی۔ ایک چیز جو دورانِ مطالعہ شدت کے ساتھ محسوس ہوئی، وہ ان کی شاعرانہ صلاحیت ہے جس میں گہرائی و گیرائی کا وصف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ معجز کی کوئی بھی تخلیق ان کی شاعرانہ دلچسپی نہیں بچ سکی۔ گیتا کے علوم و معارف کو تصوف کی سنجیدہ اور بھاری اصطلاحات میں بیان کرتے وقت بھی ان کا شعری شعور اپنا کام کرتا رہا اور زیر تخلیق مضامین کے کتنے ہی باریک نکتے ہیں، جن پر غزلوں کی آ مد ہوئی۔ رہی معجز کی شاعری، تو ان کے برادرِ بزرگ پنڈت اَمرناتھ ساحر دہلوی کی زبان میں کہہ سکتے ہیں:
زبانِ شستہ و فکرِ بلند و جذبۂ عشق
اِنہیں کا ایک مرکّب ہے شاعری کیا ہے


پنڈت دینا ناتھ مدن معجز دہلوی کی نثری و نظمیہ تالیفات کا اعتراف مختلف اوقات میں ہوتا رہا ہے۔ مثلاً "مخزنِ اسرار" کی اشاعت پر اس وقت کی سیاسی، سماجی و ادبی شخصیات کی رائیں اور اخبارات و رسائل کے وہ تبصرے جو مخزنِ اسرار کی ابتدا میں شامل ہیں۔اِن میں سے کچھ کا ذکر یہاں مناسب ہے۔


روزانہ "وطن" دہلی اپنی اشاعت مؤرخہ 2/فروری 1931ء کے اپنے تبصرے میں لکھتا ہے:
"ہم تنقید و تبصرہ کی تمام ذمہ داریوں کو مدِّ نظر رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ پنڈت دنیا ناتھ صاحب معجز گیتاکے منظوم ترجمہ میں بدرجۂ اتم کامیاب ہوئے ہیں۔"


اخبار "ریاست" دہلی بابت ماہ جنوری 1931ء "مخزنِ اسرار" کے حوالے سے معجزکی علمی و ادبی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"بھگوت گیتا ایک روحانی کتاب ہے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ اِس کو اردو نظم کا جامہ بھی ایک ایسے انشا پرداز نے پہنایا ہے جس کو بظاہر روحانیت سے خود بھی شغف ہے۔ اردو اشعار نہایت سلیس اور عام فہم ہیں اور اصل کتاب کے نفس مطلب کو کہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ ہمارے خیال میں شریمد بھگوت گیتا کا اس سے بہتر ترجمہ آج تک ہندوستان کی کسی زبان میں نہیں ہوا۔ جناب معجز دہلوی نے اس اہم ادبی و روحانی خدمت کو انجام دیکر نہ صرف ہندو بلکہ دنیائے تصوّف پر احسان کیا ہے۔"


اس کے علاوہ دہلی ہی کے اخبار "تیج" نے مؤرخہ 21/ اگست 1930ء کو مخزنِ اسرار پر ریویو لکھا۔ رسالہ "چاند" الہ آباد بابت ماہ جنوری 1931ء اور رسالہ "زمانہ" کانپور بابت ماہ ستمبر 1930ء اور اِن کے علاوہ دیگر اخبارات و رسائل نے " مخزن اسرار" مذہبی و ادبی افادیت اور معجز کے ہنر و فن پر اپنا تبصرہ تحریر کیا۔


مخزنِ اسرار
یہ شریمد بھگوت گیتا کے اٹھارہ ادھیاؤں کا اردو میں نظم میں نہایت سلیس اور عام منتر وار فہم ترجمہ ہے جو بلحاظ چستی و بندش اور اختصارِ مضمون اپنی نظیر آپ ہے۔ معجز دہلوی کے اس ترجمے کو دہلی پرنٹنگ ورکس دہلی نے تیسری بار ماہ جون 1930ء میں شائع کیا۔ معجز نے ترجمے کے لیےاردو زبان کا انتخاب کیوں کیا؟
اِس سوال کا جواب ہمیں مخزنِ اسرار کے ابتدائیہ میں ملتا ہے جہاں معجز دہلوی لکھتے ہیں:
"تاریخ ہند بتلاتی ہے کہ قریباً چھ صدی کا عرصہ ہوا جب ہندی بھاشا اور فارسی زبان کے اتّصال نے دہلی کے پایہ تخت میں اردو زبان پیدا کی جو وقتاً فوقتاً شعرائے باکمال اور انشاپردازانِ شیریں مقال کے زیرِ سایہ پرورش پاکر اپنے شباب کی جانب بڑھتی رہی۔ ایسے وقت پروردگار کےفضل سے ایک مغربی تہذیب کے معلّم نے اس کی تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا جو قریباً ایک صدی سے اب تک جاری ہے۔ ہندی اور فارسی زبانیں ایشیائی ممالک میں رائج تھیں اِس لئے وہ اہل مشرق کے خیالات اور جذبات سے معمور تھیں اور دونوں کا علمِ معاد سے خاص تعلق تھا۔ مغربی تہذیب نے اس ملک میں رواج اور رسوخ پاکر نئے طرزِ خیال و جذبات کو اردو زبان میں داخل کیا اور ہرکس و ناکس کو علمِ معاش کی طرف رجوع دلایا۔" (2)


مخزنِ اسرار میں بھگوت گیتا کے فلسفیانہ نتائج سے بحث کرتے ہوئے انسانی زندگی میں اس کی تطبیق کی صورتیں پیش کی گئی ہیں۔ طریقۂ بحث اسلامی تصوف و طریقت کا انداز لیے ہوئے ہے۔ معجز اس سے قبل گیتا کے سات اَدھیاؤں کا منظوم اردو ترجمہ کرچکے تھے جو 1915ء میں شائع ہوکر ارباب دانش سے سندِ قبول حاصل کرچکا تھا۔ گیتا کا یہ مکمل ترجمہ اس کے کچھ سال بعد مکمل ہوکر شائع ہوا۔ اس ترجمے کی اشاعت پردہلی کے اخبار"ریاست"نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا:
"بھگوت گیتا کے دامن میں تصوف اور فلسفہ کے جو بیش قیمت جواہرات پوشیدہ ہیں وہ ارباب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ باوجودیکہ اس کتاب کی متعدد شرحیں لکھی جاچکی ہیں لیکن یہ وہ سمندر ہے کہ اس میں جس قدر غواصی کی جاتی ہے اسی قدر قیمتی لآلیِ روحانیت برآمد ہوتے ہیں۔" (3)


اِبتدا میں منظوم دیباچہ اور اس کے بعدنقشوں کی تفصیل ہے۔ کتاب کا دیباچہ منظوم ہےاور خود مترجم کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔


دیباچۂ منظوم
بصیرت کی نظر سے حق و باطل دیکہتے جاؤ
خدائی اور خودی کی حدِّ فاصل دیکھتے جاؤ


ادھر ہے شانِ یکتائی اِدھر سامانِ نیرنگی
برابر وحدت وکثرت کی محفل دیکھتے جاؤ


اگر کچھ دیکہنا منظور ہے چشمانِ باطن سے
صفا کا آئینہ رکھ کر مقابل دیکھتے جاؤ



بشر کی ہستئیِ موہوم کو اِس بحرِ عالم میں
حباب آسا علیحدہ اور شامل دیکھتے جاؤ


ازل سے نطقِ انساں میں ہے حرف و صوت کی شرکت
مرکّب لفظ میں معنی کو داخل دیکھتے جاؤ


وفورِ عشق کا انجامِ باہم بے حجابی ہے
نگاہِ قیس سے لیلےٰ کا محمل دیکھتے جاؤ


رموزِ باطنی کے لطف سے محروم واعظ کی
طبیعت گلشنِ رضواں پہ مائل دیکھتے جاؤ


تماشاگاہِ عالم میں غرضمندوں کی نظرونکے
مقابل پردۂ پندار حائل دیکہتے جاؤ


غمِ دنیا و مافیہا سے حاصل کرکے یک سوئی
دلِ بے مدّعا میں جذبِ کامل دیکھتے جاؤ


رضائے ناخدا پر چھوڑ کر کشتی تلاطم میں
توکّل کی نگہ سے سوئے ساحل دیکہتے جاؤ


بزرگانِ سلف کا شاہراہِ دین و دنیا میں
نشانِ نقشِ پا منزل بہ منزل دیکہتے جاؤ


انانیّت جدا کرکے بنی آدم کی خِلقت میں
خمیرِ آب و باد و آتش و گِل دیکھتے جاؤ


محاسب بن کے نیکی و بدی کا لوحِ ہستی پر
حسابِ عمر کی باقی و فاضل دیکھتے جاؤ


کبھی تو عکسِ محبوبِ حقیقی رو برو ہوگا
نگاہِ شوق سے آئینۂ دِل دیکھتے جاؤ


یہ مانا ساری دنیا سیرگاہِ حسن ہے معجز
جو جلوہ ہے نگاہ و دل کے قابل دیکھتے جاؤ


یہ منظوم دیباچہ نہیں بلکہ خدا پرستی اور بھکتی کے عارفانہ نکتوں اور قلندرانہ جلووں کی ایک مالا ہے جو مصنف نے تیار کردی ہے۔ غور سے دیکھیے تو منظوم دیباچہ ان تمام بنیادی نکات کو شامل ہے جو مقدس گیتا کی تعلیمات سے ابھرتے ہیں۔


دیباچے کے بعد "جلوۂ جہاں نما" کے نام سے ایک نقشہ ہے جس میں بھگوت گیتا کے روحانی فلسفہ کو مختلف منازل طریقت میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آپ نے طریقت کی منزلوں کو جس طرح نقشے کے ذریعے سمجھایا ہے اس سے مترجم کی تعلیماتِ تصوف میں دسترس اندازہ ہوتا ہے۔ یہ نقشہ گیتا کے عارفانہ مضامین پرمشتمل ہےاور کوزے کودریا میں بند کرنے کی اچھی مثال ہے۔ ایک نظر میں پیش آمدہ تفصیل کا اجمال نگاہوں کے سامنےہوتا ہے۔ جس طرح جنت اور دوزخ کے مقامات کے بیان کے لیے ابنِ عربی اور ورجِل نے طربیہِ خداوندی میں نقشوں کی تفصیل سے کام لیا ہے، اسی طرح 'مخزنِ اسرار' کے فاضل مصنف نے کتاب کی ہر منزل کو ایک طلسم حیرت سے باندھ رکھا ہے۔ اگلی بحث میں مصنف نے "فلسفہ بھگوت گیتا پر ایک نظر" کا عنوان قائم کرکے گیتا کی باطنی تعلیمات کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے۔


"فلسفہ بھگوت گیتاپر ایک نظر"؛ کتاب کے اِس حصے کو گیتا کے رموز و معرفت کا نچوڑ کہنا چاہیے۔ یہ جز معجز دہلوی کے اوصافِ باطنی کا مظہر ہے۔ اَدھیا کے معنی کے لیے تصوف کی اصطلاح کا استعمال کیا گیا ہے اور اسے منزل کا نام دیا گیا ہے۔ پھر اس اصطلاح کا مفہوم اسلامی تصوف کی زبان میں سمجھاکر پورے اَدھیا کا خلاصہ "نشانات" کے نام سے دیا گیا ہے۔ مثلاً پہلے اَدھیا کا نقشہ کچھ یوں بٹھایا ہے:


نمبر اَدھیامنزلطریقتنشانات
1پندارِ خودیپابندیِ افعالانسان میں جہل و اضطراب کی حالت کو پابندیِ افعال کہتے ہیں یعنی جبتک اسکی عقل پر خودی کا پردہ پڑا ہے اور اسکا دل بیم و امید میں گرفتار ہے، وہ علمِ ذات کی آزادی سے محروم رہتا ہے۔ اس نقص کو رفع کرنیکے لئےجسم و جاں کی حقیقت کا انکشاف جسے تمئیزِ حق و باطل کہتے ہیں لازمی ہے۔ (4)

پانچواں اَدھیا (منزل:رموزِ معرفت، طریقت:ترکِ تمنا) کے عارفانہ نکات کو "نشانات" کی شکل میں کچھ یوں بیان کیا ہے:
"نظامِ ہستی میں مادّی ارادّی اور علمی تین تثلیث موجود ہیں جن پر یہ ہر دو طریقت یکساں حاوی ہیں۔ ثلاثہ کو توحید میں محو کرنا حقیقت کا درجہ کہلاتا ہے۔ تو حید کا جلوہ تثلیث میں مشاہدہ کرنا معرفت ہے۔ جو کوئی علمِ حقیقت میں درجۂ کمال پر پہنچتا ہے اسے مجذوب کہتے ہیں اور جو رموزِ معرفت سے آگاہ ہوجاتا ہے وہ سالکِ نامزد ہوتا ہے۔ ایسی بزرگ ہستیوں سے جتنے افعال لازمی وقوع میں آتے ہیں ان کا وجود عدم کے برابر ہوجاتا ہے۔ افعال میں ترکِ افعال اور ترکِ افعال میں افعال کا مشاہدہ اِسی کیفیت کا بیان ہے اور حیاتِ انسانی بسر کرنے کا یہ سب سے اعلیٰ اصول ہے۔ لیکن اس نصب العین پر قیام کیلئے مزاولت درکار ہے۔ چنانچہ صاحبانِ باکمال علمِ ذات سے مستفیض ہوکربھی بہرکٹی یعنے شغلِ شمسی پر توجہ رکھتے ہیں کہ اس پر عمل کاربند ہونیسے انکی عقلِ سلیم کو حواس گمراہ نہیں کر سکتے۔" (5)


اِس طریقے سے یہ گیتا کے اسرار کے "خلاصے" والی بات اٹھارہوں اَدھیا تک جاتی ہے۔ اس میں جو تحقیقات درج کی گئی ہیں دلچسپ اور مفید ہیں اور ان پر بحث کرنے کے لیے ایک علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ یہ بات دھیان دینے کی ہے کہ مصنف نے ہر مرحلے پر ترتیب و انتظام کا خاص خیال رکھا ہے۔ تاکہ پڑھنے والے کا ذہن مطلب کو پانے اور مفہوم کو اخذ کرنے میں کوئی دشواری نہ محسوس کرے۔ یہ پورا بیان بذات خود ایک چھوٹی گیتا اور صاحبانِ ذوق کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ معجز نے ہندو میتھالوجی کے فلسفے کو تصوف کی اصطلاحات و بیان کے پردے میں اس طرح پیش کیا ہے کہ برصغیر کی اِن دونوں قوموں کی توجہ کی چیز بن گئی ہے۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ گیتا کے ترجمے سے پہلے ان فلسفیانہ مباحث کی اپنی اہمیت ہے اور منظوم ترجمہ پڑھتے وقت یہی نکات پس نوشت کے طور پر کام آتے ہیں۔


اس کے بعد منظوم ترجمہ شروع ہوتا ہے۔ شروع سے آخر تک اس ترجمہ کو مسلسل دلچسپی کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ یوں تو مذہبی فلسفے کا بیان خشک ہوتا ہے مگر معجز صاحب نے زبان و بیان کی ادبیت کے ساتھ اِس کو جاذب نظر بنادیا ہے۔ جابجا مسائلِ مذکورہ کی تشریح کے لیے نقشے بھی درج ہیں۔ مصنف نے ترجمے کے حصے کو نئے باب کی حیثیت سے شروع کیا ہے بلکہ اس کو ایک علاحدہ جز سمجھنا چاہیے کہ اس کے صفحات کی تقسیم نئے سرے سے کی گئی ہے جو ایک سو انّاسی صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ اس پوری تصنیف کا مرکزی حصہ ہے کیونکہ گیتا کے اَدھیاؤں کا منظوم ترجمہ اسی حصے میں ہے۔ گیتا کی تعلیمات سے واقفیت، زبان ، بیان پر قدرت اور شاعرانہ اظہار میں مہارت کی ایک نادر مثال ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔


کتاب کا تیسرا حصہ جسے گیتا کی ادبی تفسیر کہنا چاہیے، دو سرخیوں "بھگوت گیتا کا دستور العمل" اور "بھگوت گیتا کی عظمت" پر مشتمل ہے۔ یہاں مصنف نے لوگوں کو گیتا کی تعلیمات کو قبول کرنے اور اس کےبتائے راستے کو اپنانے پر زور دیا ہے۔ کہتے ہیں:


"طالبانِ حق ذرا دلمیں سوچیں کہ حیاتِ انسانی کے کیا معنی ہیں۔ یہ جسم کہاں سے کیونکر اور کس لئے پیدا ہوا ہے اور اس کا عالمِ بیرونی سے کیا تعلق ہے۔ اور وہ کب تک رہ سکتا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ دنیا میں انسان کی پیدائش اس واسطے نہیں ہوئی ہےکہ وہ مثل دیگر جانداروں کے اپنی نفسانی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کرتا رہے اور اسی جدوجہد میں ساری عمر گذار کر قالبِ عنصری ترک کردے۔" (6)


یہ اہم بات ہے کہ اِس موقعے پر دینا ناتھ معجز اہلِ ہند کی سیکڑوں برس کی غفلت کا ذکر کرتے ہوئے افسوس ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن اسی وقت خوش بھی ہوتے ہیں کہ بارے اب وہ غفلت کی نیند سے بیدار ہو رہے ہیں اور اپنے آبا و اجداد کی دولتِ موروثی کے حصول پر کمر بستہ ہورہے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے ہندوستان کی دوقوموں ہندوومسلم کے لیے یہ عبوری دور تھا اور آثار پتا دے رہے تھے کہ ایک کا اقبال غروب اور دوسرے کی ترقیوں اور کامیابیوں کا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ گذشتہ آٹھ نَو صدیوں سے مسلم بادشاہوں اور امیروں کی حکمرانی رہی تھی اور اب انگریزوں کے واسطے اقتدار کی منتقلی کے آثار پیدا ہوچلے تھے۔
اہل ہنود کا فکرمند طبقہ اس موقعے کو غنیمت اور پچھلے زمانے کو دورِ غفلت و نکبت شمار کررہا تھا، معجز لکھتے ہیں:
"اہلِ ہند آٹھ نو صدی سے ایسی غفلت کی نیند سوتے رہے ہیں کہ وہ اپنے آبا و اجداد کے ان انمول جواہرات کو جو ان کا ترکہ تھے غیروں کی نذر کرکے خود محروم ہوچکے ہیں۔ مگر اب ان کے دلمیں آبائی ترکہ کھونے کا رنج اور اس کی تلاش کا شوق پیدا ہونے لگا ہے اِس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کی بیداری کا وقت قریب آرہا ہے۔" (7)


معجزدہلوی نے اس جگہ ان دشواریوں کا بھی ذکر کیا ہےجو اہل ہند(معجز صاحب کو اہلِ ہنود لکھنا چاہیے تھا) کو اپنے بزرگوں کے خیالات اور مذہبی اعتقادات کے حصول میں آرہی تھیں۔ اسی سلسلے میں چھٹی پریشانی کے طور پر انھوں نے ہندوؤں میں فرقہ بندی اور مسلکی تفرقے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔


عنوان "بھگوت گیتا کی عظمت" کے تحت معجز نے گیتا کے مختصر روایتی پس منظر کے ساتھ اس کی دینی و دنیوی اہمیت بتلائی ہے۔ اخیر میں گیتا کی ادبی اہمیت کے حوالے سے کہتے ہیں:
"روحانی شاعری کی جس منزل پر یہ نادر صحیفہ پہنچا ہے وہاں موجودہ کتب میں سے کسی کی رسائی نہیں ہے۔ یہ بلاغت کی معیار ہے۔ اگر فصاحت کے اعتبار سے اس کی جانچ کیجائے تو کوئی تصنیف معلوم نہیں ہوتی جسمیں ایسے باریک اور اہم مسائل اتنی آسان مختصر اور سلیس زبان میں ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ عجیب و دلکش خیالات کا ایسا مجموعہ ہے جسے ہر بار پڑھنے کے بعد ایک نئی بات معلوم ہوتی ہے اور باوجود بار بار پڑھنے کے طبیعت سیر نہیں ہوتی۔" (8)


کتاب کے چوتھے اور آخری جز کا عنوان "اکابرینِ عالم کا اظہارِ عقیدت" ہے جس میں گیتا کے سلسلے میں بزرگ سماجی و ادبی شخصیات کو تبصرے اور رایوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ رائیں اردو و انگریزی زبان میں درج ہیں اور ترجمےکی اہمیت و وقعت میں اضافہ کرتی ہیں۔
مثلاً رائے بہادر پنڈت شیو نرائن شمیم (Rai Bahadur Pandit Shiv Narain Shamim) ایڈوکیٹ چیف کورٹ پنجاب لاہور، ڈاکٹر تیج بہادر سپرو (Tej Bahadur Sapru) ایڈوکیٹ ہائی کورٹ الہٰ آباد، پنڈت تربھون ناتھ (عرف کاٹہجو) ریونیو سکریٹری فرمانروائے جاورہ سنٹرل انڈیا۔ مذکرہ لوگوں کے علاوہ؛ پنڈت مدنموہن مالوی، لوکمانیہ بال گنگادھر تلک، سوامی وویکانند، مہاتما گاندھی، پروفیسر ریچرڈ گاردےو جنا ب مظفر حسین شمیم کے علاوہ مشہور فلسفی و شاعر ڈاکٹر سر محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا، لاہور کی رائے بھی کتاب کی زینت ہے۔ کتاب کے خاتمے پر پنڈت برج نرائن چکبست کا یہ مشہور شعر درج ہے:
چمن زارِ محبت میں اسی کی آبیاری ہے
کہ جس نے اپنی محنت ہی کو محنت کا ثمر جانا


گلزارِ معانی

یہ معجز دہلوی کی غزلیات کا مجموعہ ہے۔ اوپر پنڈت امرناتھ ساحردہلوی کے تعلق سے معجز دہلوی کے فکروخیال کی بات آچکی ہے۔ یہ مجموعہ معجز صاحب کی شخصیت کے بارے میں انہی تاثر ات کی تصدیق کرتا ہے، جو انھوں نے اپنے بھائی ساحردہلوی کی بابت لکھے تھے۔ معجز کی اِن غزلیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے فکر و فلسفے پربرتر ہستی سے تعلق اور روحانیت کی چھاپ ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ یہ غزلیات حقیقت و طریقت کے باریک نکات کا ترجمہ و تفسیر ہیں۔ اور انسانی زندگی کے اندرون رواں دواں باطنی کائنات سے ایک بہترین خطاب ہیں۔ اِن غزلیات کی اشاعت اپریل 1934ء میں جامع پریس دہلی سے عمل میں آئی۔
مجموعے کے سرورق پر مندرجہ ذیل شعر ہے:
مدّتوں سینچا جسے اِک دیدۂ خونبار نے
آج گلزارِ معانی ہے وہ خارستانِ دل


پنڈت دیناناتھ مدن معجز دہلوی نے گیتا کے علوم و معرفت کو اردو شاعری کی شکل میں منتقل کیا تھا۔ وہ "پیامِ سالک" کے نام سے اشٹاوکر گیتا کا بھی ترجمہ و تفسیر اردو زبان میں کرچکے تھے۔ حق و معرفت کی تلاش اور انکارِ ذات کی تمام صورتیں ان کی زندگی پر پرچھائیں بن کر پڑ رہی تھیں۔ اِس سے بری نہ شاعری رہ سکی، نہ غزل۔ ان کی غزلوں پر بھی حقیقت و طریقت کا رنگ چڑھا اور انھیں ایک خاص رنگ میں رنگ دیا۔
"تمہید" کے نام سے جو غزل ہے، اس میں لکھتے ہیں:


خوشرنگ تخیّل ہے خوشبوئے وفا بھی ہے
تفریح کا ساماں یہ گلزارِ معانی ہے
اِخلاص کے رشتہ سے کچھ قافیہ بندی ہے
کچھ برگِ تصوّف پر مضمون نگاری ہے
ایثار کی شاخوں پر کچھ زمزمہ سنجی ہے
کچھ حسن کی گلریزی عاشق کی زبانی ہے
اعمال کی تربت پر کچھ مرثیہ خوانی ہے
جمعیّتِ خاطر کا کچھ رازِ نہانی ہے
کہلتا ہے کسی بیخود پر راز حقیقت کا
گو ہر کس و ناکس کو زعمِ ہمہ دانی ہے
خدمت دلِ مرشد کی ہے سعیِ رضا کاری
ثمرہ ہمہ آغوشی کا راحتِ جانی ہے
دلکش نہ ہو کیا معنیِ توحید کا افسانہ
معجز کی زباں میں گر اعجاز بیانی ہے (9)


ایک اور غزل کے کچھ شعر اس طرح ہیں:
مری آسودگی کا راز افشا ہونہیں سکتا
کہ تاروپودِ ہستی دامِ عنقا ہو نہیں سکتا
سرائے علم عرفاں میں یہ دل آرام پاتا ہے
من و تو کے فنا ہونے سے جھگڑا ہونہیں سکتا
برے بھی بیٹھکر اچھّوں کی صحبت میں سدھرتے ہیں
سیہ خال اک رخِ روشن پہ دھبّہ ہو نہیں سکتا
لغاتِ عاشقاں میں لفظ ناممکن ہے بے معنی
بدولت عشق کے سب کچھ ہے اور کیا ہونہیں سکتا
زبانی داخلہ کس منہہ سے تو کرتا ہے اے معجز
دمِ عیسیٰ سے گر کارِ مسیحا ہو نہیں سکتا (10)


مذکورہ اشعار معجز دہلوی کی ایک غزل کے ہیں۔ اِن اشعار اور اوپر کے منتخب اشعار کا رنگ وہی رنگ ہے جو ان کی تمام غزلیات پر حاوی ہے۔ یہ معجز دہلوی کی ایک عمومی خصوصیت ہے کہ وہ معبودِ حقیقی اور مرشدِ روحانی کے ذکر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میں یہاں نمونے کے طور پر ایک پوری غزل درج کرنا چاہتا ہوں جس سے ان کے فکروخیال کے مرکزی نکتے کا اندازہ لگانا آسان ہوگا۔
یہ غزل ادبیت کےساتھ روحانیت کی چاشنی لیے ہوئے ہے اور معجز دہلوی کے ذوق و ہنر کی گواہ ہے:


اے طائرِ خیال تری حد کہیں نہ ہو
بالائے آسماں نہ ہو زیرِ زمیں نہ ہو
عارف ہے وہ جو پاس میں اندوہگیں نہ ہو
آفات کے نزول پر چیں بر جبیں نہ ہو
چشمانِ معتبر ہوں دلِ رازدار ہو
جاری زبانِ حال سے ہاں ہو نہیں نہ ہو
جذبہ وہ ہے کہ جس سے گریبان چاک ہو
دامن فنا ہو جیب اڑے آستیں نہو
دارِ فنا میں آنے کا مقصد یہی تو ہے
انساں کو خوفِ مرگ دمِ واپسیں نہو
پھرتی ہیں چشمِ شوق میں باطل کی صورتیں
جب تک کسی کو وحدتِ حق دلنشیں نہو
بے لطف دیدہ ہیچ مذاقِ شنید ہے
علم الیقیں بدل کے جو عین الیقیں نہو
بیم و امید خاک میں ملتے نہیں کبھی
پندار سوز گر نفسِ آتشیں نہ ہو
بحری سفر کے واسطے درکار ہے جہاز
گو اس پہ دستکاریِ نقّاشِ چیں نہو
معجز تو سادہ لوحی سے لکھ ڈال ایک غزل
مضموں وہ ہو کہ جس پہ کوئی نکتہ چیں نہو (11)


ایک غزل غالب کی زمین میں ہے اور خوب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے معجز نےغزل کے قلم سے حق شناسی و حقیقت شناسی کی تفسیر لکھ دی ہے، کہتے ہیں:
جلوہ گر آفاق میں برکاتِ یزداں ہوگئیں
عقلِ انساں بنگئیں اور نفسِ حیواں ہوگئیں
عشق کی تاثیر سے وہ حسنِ خوباں ہوگئیں
نور سے ملکر جمالِ ماہ تاباں ہوگئیں
سوز میں آکر فروغ شعلہ رویاں ہوگئیں
روشنیِ کرّہ مہرِ درخشاں ہوگئیں
جذبۂ الفت سے چشمِ اَشکِ گریاں ہوگئیں
قطرہ و دریا و بحر سازوساماں ہوگئیں
عنصری قالب میں پنہاں صورتِ جاں ہوگئیں
بو صفت رونق دہِ خاکِ گلستاں ہوگئیں
عاملانِ باصفا کے دل میں عرفاں ہوگئیں
زاہدانِ بے ریا کا دین و و ایماں ہوگئیں
سنگِ اَسود بنگئیں وہ پیروِ اسلام کا
بت پرستوں کیلئے سیبِ زنخداں ہوگئیں
شوخئِ رنگِ شفق سے بنگئیں امّیدِ صبح
سرخروئی کیلئے خونِ شہیداں ہوگئیں
رشتۂ الفت بنیں وہ طالب و مطلوب میں
دوستانِ باوفا کا عہدو پیماں ہوگئیں
عہدِ پیری میں فراست نوجوانونکا شباب
دِلکے بہلانے کا ساماں بہرِ طفلاں ہوگئیں
تاکہ مخلوقات کو حاصل ہو لطفِ زندگی
جملہ محسوسات کے باطن میں پنہاں ہوگئیں
ایک عالم ان کی رعنائی کا منظر بن گیا
ساتھ ہی وہ ذرّہ ذرّہ میں نمایاں ہوگئیں
خود بخود معجز کے دل پر رازِ وحدت کھل گیا
جس گھڑی تکلیف و راحت دونوں یکساں ہوگئیں (12)


خاتمۂ کتاب کے طور پر پنڈت امرناتھ ساحردہلوی کی غزل زیبِ کتاب ہے، جس میں کہتے ہیں:
ہے سر کے قلم ہونے سے خامہ کی روانی
اور شمع کی گلگیر سے ہے شعلہ زبانی
روشن ہے انالحق سے کہیں راست بیانی
اور سر کو کہیں دوش پہ رہنے سے گرانی
اے طالبِ دیدار بہل ہوش میں آ دیکھ
توحید کے خورشید کی یہ نورفشانی
خضرِ رہِ ظلمت ہے ترا قلبِ مصفّا
دل ظلمت و جاں نورِ بقا دم حیوانی
کر ترکِ مجاز اور حقیقت میں سما جا
دراصل دم و شوق کی لذّات ہیں فانی
نیرنگ تخیّل سے نظر اپنی ہٹا کر
ہو جلوۂ اشراق میں محوِ ہمہ دانی
اِس عالمِ ایجاد میں تیرا دلِ مضطر
ہو جائے جو ساکن تو ملے راحتِ جانی
یہ نغمۂ توحید ہے اِک راحتِ جاوید
بیواسطۂ ظرف مکانی و زمانی
اِس رنگ تغزْل میں عجب لطف ہے ساحر
الفاظ کی قلّت میں ہے توفیرِ معانی (13)


تعریف کےلیے الفاظ نہیں، بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ساحر کی غزل معجز کی میناے معرفت پر ختام المسک کا کام کر رہی ہے۔


پَیام سالک

معجزدہلوی نےمہامنی اشٹاوکر کی گیتا کا "پیامِ سالک" کے نام سے اردو نظم میں ترجمہ کیا ہےاور تشریح بھی درج کی ہے۔ اس کی اشاعت ستمبر 1932ء میں عمل میں آئی۔ معجز پیام سالک سے قبل "مخزنِ اسرار" کا ترجمہ کرچکے تھے، لکھتے ہیں:
"شریمد بھگوت گیتا کے منظوم اردو ترجمہ المعروف مخزنِ اسرار کی تکمیل اور اشاعت کے بعد مؤلف ہیچمداں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ سالک گرامی قدر، وحیدالعصر مہامنی اشٹاوکر کی تصنیف کردہ گیتا کو اردو نظم کا لباس پہنائے اور شائقینِ علم توحید کو اس بزرگ ہستی کی نادراور دلکش روحانی تعلیم سے حتی المقدور آگاہ کرے۔" (14)


"پیامِ سالک" اشٹاوکر گیتا کا اردو نظم میں ایک قابلِ قدر ترجمہ ہے۔ یہ متبرک صحیفہ 1298 اَشلوکوں پر مشتمل ہے۔ اس میں مہامنی اشٹاوکر جی نے راجہ جنک والئیِ متہلا دیش (موجودہ اضلاع بہار) کو حق و حقیقت کے اسرار و رموزتلقین کیے ہیں اور نجات کی راہ سجھائی ہے۔ یہ ترجمہ روحانی غرض و غایت کے ساتھ ساتھ ادبی اظہار و بیان کا بھی مظہر ہے۔ کسی مذہبی و روحانی تصنیف کے منظوم ترجمہ کے جو تقاضے ہیں، معجز ان سے نہ صرف واقف بلکہ عملی تجربہ بھی رکھتے تھے۔
"پیامِ سالک" کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
"شریمد بھگوت گیتا کے منظوم اردو ترجمہ مخزنِ اسرار کی تکمیل اور اشاعت کے بعد مؤلف ہیچمداں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ سالکِ گرامی قدر وحیدالعصر مہامنی اشٹاوکر کی تصنیف کردہ گیتا کو اردو نظم کا لباس پہنائے اور شائقینِ علم توحید کو اس بزرگ ہستی کی نادر اور دلکش روحانی تعلیم سے حتی المقدور آگاہ کرے۔" (15)


کتاب کی ابتدا میں یہ شعر درج ہے:
رنج و راحت کا تسلسل ہے بشر کی زندگی
بے تمنّائی و بیخوفی ہیں راہِ مخلصی
دیباچے میں مترجم نے راجہ جنک اور مہامنی اشٹاوکر کی قابلِ تعظیم ہستیوں کا تعارف کرایا ہے اور اِ ن دونوں بزرگوں کے واقعات کو تاریخی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اشٹاوکر گیتا کے اسرار و نکات سے واقفیت کے لیے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اِن بیانات کی حامل شخصیت کا درجہ اور علمی و دینی مرتبہ کیا ہے۔ معجز منی اشٹاوکر کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
"مہامنی اشٹاوکر کامل موحّد ہوے ہیں اس لئے کہ ان کی چشمِ بصیرت کے سامنے دوئی کا حجاب حائل نہ تھا۔ اور وہ حیاتِ ابدی کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔" (16)


معجز دہلوی کے ذریعے کیے گئے ترجموں؛ مخزنِ اسرار اور پیامِ سالک کے ترجمے کی لفظیات و اصطلاحات کے بارے میں ا ن کا یہ بیان نہایت اہم اور توجہ کے لائق ہے:
"موجودہ اردو زبان تصوف کے اصطلاحات کا سہارا لیے بغیر ایسے صحیفہ کے ترجمہ کا بار نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اس لئے ان کا استعمال میں لانا ضروری ہوا۔ ساتھ ہی یہ خیال رکھا گیا ہے کہ ان کی مقدار ضرورت سے زائد نہ ہو تاکہ عبارت فصیح رہے اور مطالعہ کرنے والے مفہوم کو آسانی سے سمجھ سکیں۔" (17)


معجز نےدیباچے میں اشٹاوکر گیتا کےگذشتہ ترجموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس ذکر سے پتا چلتا ہے کہ اشٹاوکر گیتا کا پہلا ترجمہ فارسی نثر میں غالباً رائے چندربھان نے کیا جو مغل شہزادہ دارا شکوہ کا میر منشی تھا۔ معجز کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشٹاوکر گیتا کا ایک ترجمہ رباعیات کی صورت بھی ہوا ہے جسے منشی بگّاسنگھ درویش جاٹ سِکھ متوطن سووے کلاں ضلع لدھیانہ 1896ء میں کیا تھا۔


معجز زمانۂ قدیم میں رائج چھ فلسفوں کا ذکر کرتے ہیں جو چھ الگ الگ شخصیات سے منسوب تھے۔ اِن میں چھٹا فلسفہ ویدانت شاستر وید ویاس مہارشی کا ہے۔ یہ فلسفہ علمِ عرفاں کی وسیع النظری پر اعتماد کرکے واجب الوجود کی وحدت ثابت کرتا ہے۔ معجز کے مطابق اشٹاوکر منی کی تلقین اسی فلسفے کی فہرست میں آتی ہے۔ "اِس میں جو روحانی ترقی کی منازل بیان کی گئی ہیں وہ معرفت کے اصول پر مبنی ہیں۔ حواس دل اور عقل ان کی صداقت کا معیار نہیں ہیں۔"


معجز دہلوی نے اشٹاوکر گیتا کے ترجمے کو بیس ابواب میں تقسیم کیا ہے، اِس ترتیب کے ساتھ کہ پہلے سنسکرت اشلوک پھر اردو ترجمہ اور پھر اس کی شرح۔ ترجمے کے اختتام پر اشٹاوکر گیتا کے اصول کا خلاصہ درج کیا ہے، جس میں لکھتے ہیں:
"مہامنی اشٹاوکر عالم اور عامل ہونے کی حیثیت سےیکتاے روزگار تھے اسلئے ان کا فلسفہ اور عملی طریقت مساوی درجہ رکھتے ہیں ایک جامع اور مدلّل ہے تو دوسرا واضح اور مکمّل۔ ساتھ ہی انکا جذبِ عشق ہردو جانب اپنا رنگ یکساں دکھاتا ہے۔ وہ اپنی تصنیف کردہ گیتا میں تصوف کے جملہ مسائل پر کامل ترتیب کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں اور ایک مسئلہ کی تشریح ایک شعر میں کرتے ہیں تاکہ کوئی طالبِ صادق روحانی ترقی کے تمام مدارج بآسانی طے کرکے منزلِ توحید پر پہنچ سکے۔" (18)


خلاصے کے ساتھ ہی معجز نے اشٹاوکر گیتا میں آمدہ مسائل و مباحث کی ایک فہرست بھی دی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ کسی اشلوک یا شعر میں تصوف کا کون سا مسئلہ یا نکتہ پوشیدہ ہے۔ اسی طرح سے بیسوں ابواب میں آنے والے نِکات درج کیے ہیں۔
کتاب کے آخر میں ایک "الوداعی غزل" لکھی ہے جو کتاب کا اختتام ہے۔ معجز کی یہ غزل بھی سابقہ روایات کے مطابق آداب طریقت و سلوک کے بمنزلہ ہے، غزل ہے:


نو رمیں واصل کسی مہجور کا دل ہوگیا
کوئی پروانہ نثارِ شمعِ محفل ہوگیا
اہلِ عرفاں کا جدھر آئینۂ دل ہوگیا
حسنِ عالمگیر کا جلوہ مقابل ہوگیا
حسنِ خودبیں عالمِ کثرت میں داخل ہوگیا
ذرّہ ذرّہ مہر کا مدِّ مقابل ہوگیا
التہابِ عشق سے جب پھٹ پڑا حسنِ ازل
پردۂ چشمِ حقیقت زعمِ باطل ہوگیا
امتیاز حق و باطل تک رہی واماندگی
منزلِ جاناں کا رہبر جذبِ کامل ہوگیا
اضطرابِ شوق سے ملتی رہی دلکی خبر
دیکھکر شکلِ سکوں میں دل سے غافل ہوگیا
قطرۂ خوں دوڑتا تھا جو رگِ جاں میں کبھی
منجمد ہوکر وہی عشّاق کا دل ہوگیا
انتظارِ عید میں جو حسن تھا شکلِ ہلال
عشق کی نظّارگی سے ماہِ کامل ہوگیا
قشقہ و زنّار تھے تعویذِ رازِ سرمدی
وہ خطِ تقدیر یہ بندِ سلاسل ہوگیا
دانۂ دکھا کر ہی رہا اپنا اثر
فطرتِ انساں میں داخل زعمِ باطل ہوگیا
صحبتِ عشق و فنا میں واقفِ سوزوگداز
یہ دلِ ساکت مثالِ شمعِ محفل ہوگیا
چشم سے خوننابہ ہوکر بہہ گیا آبِ سرشک
کاسۂ دریا گھٹا اِتنا کہ ساحل ہوگیا
قلّتِ تخئیل سے اشعار کی نبضیں چھٹیں
تشنہ کامی کا زباں کو لطف حاصل ہوگیا
دیدۂ معجز میں عرفانِ جنوں کے فیض سے
یہ جہاں لیلائے جاں پرور کا محمل ہوگیا (19)


حواشی و توضیحات

1۔ معجز دہلوی، دیباچہ "دیوانِ ساحر"، 1937ء، امپیریل پرنٹنگ پریس، دھلی
2۔ معجز،مخزنِ اسرار، صفحہ102، 1930ء
3۔ عنوان "تنقید و تبصرہ از اخبارات"، صفحہ 7، مخزنِ اسرار
4۔ عنوان "فلسفہ بھگوت گیتا پر ایک نظر" صفحہ6، مخزنِ اسرار
5۔ ایضاً، صفحہ11-12
6۔ عنوان "بھگوت گیتا کا دستورالعمل"، صفحہ 1، مخزنِ اسرار
7۔ دھیان رہے کہ "مخزنِ اسرار" کی تکمیل اور پہلی اشاعت تقریباً 1914ء میں عمل میں آئی۔ یہ زمانہ اس وقت کی مسلم دنیا کے لیےسیاسی آزمائش اور فکری پریشانی کا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ جس سے مسلمانوں کا جذباتی لگاؤ تھا، اس کے خلاف کاروائی اور دشمنی میں وہی انگریزی آگے تھے، جو ہندوستان میں ان کی حکومتوں کے حریف اور 1857ء کے پس منظر میں ان کےکٹّر دشمن تھے۔ مختصر یہ کہ انگریزی حکومت سے تعلقات بنانے اور ان کے ساتھ کسی بھی اسٹیج پر کھڑے ہونے میں دیگر قوموں کی بہ نسبت مسلمانوں کو زیادہ دقت تھی۔ ادھر سیاسی پیش رفت اور محکوموں سےاچھے رشتوں کے اظہار کی خاطرانگریز فوری طور پردیگر قوموں سے اتحاد و یگانگت اور موانست کے اظہار پر مجبور تھے۔
8۔ عنوان "بھگوت گیتا کی عظمت" صفحہ30، مخزنِ اسرار
9۔ پنڈت دینا ناتھ مدن معجزدہلوی، گلزارِ معانی، صفحہ2، جامع پریس دہلی، سنہ اشاعت 1934ء
10۔ گلزارِ معانی، صفحہ 3-4
11۔ گلزارِ معانی، صفحہ 29-30
12۔ گلزارِ معانی، صفحہ 26
13۔ گلزارِ معانی، صفحہ 47
14۔ معجز دہلوی، دیباچہ "پیام سالک"، صفحہ2، سنہ اشاعت 1932ء
15۔ معجز دہلوی، صفحہ 2، دیباچہ "پیام سالک"
16۔ دیباچہ "پیامِ سالک"، صفحہ 5
17۔ دیباچہ "پیامِ سالک"، صفحہ 5
18۔ پیامِ سالک، صفحہ142
19۔ پیامِ سالک، صفحہ 154

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
دکن کے نظمیہ ادب میں شعر کا تصور - آصف مبین (ریسرچ اسکالر جے۔این۔یو)
***
آصف مبین
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
موبائل: 09990289656

Pundit Deenanath Mojiz Dehlvi, the Urdu translator of Bhagavad Gita. Research Article: Dr. Asif Zahri & Asif Mubeen.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں