خواجہ احمد عباس کا سوانحی خاکہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-01

خواجہ احمد عباس کا سوانحی خاکہ

khaja-ahmad-abbas-biographical-sketch

خواجہ احمد عباس کے خاندان کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے، جب ان کے آبا و اجداد نے مدینے سے ہجرت کی ۔ ان بزرگوں کی اولادیں مختلف مقامات پر مقیم ہوتی ہوئی ترکمانستان کے قریب شمالی افغانستان میں ہرات میں پہنچیں ۔ اور طویل عرصے کے لئے یہاں سکونت اختیار کرلی ۔ انہی لوگوں میں ایک بزرگ خواجہ ملک علی تھے۔ خواجہ ان بزرگ کے نام کا حصہ نہیں تھا۔ بلکہ خاندانی خطاب تھا، جو افغانستان میں قیام کے دوران اس خاندان کے کسی اہم فرد کو ملا تھا۔
یہی خواجہ ملک علی تھے، جو سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے ۔ خواجہ صاحب عربی اور فارسی کے عالم تھے ۔ سلطان بلبن نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا ۔ پانی پت میں خاصی بڑی جاگیر دے کر انہیں اس شہر کا قاضی مقرر کردیا۔ طویل عرصے تک یہ جاگیر اس خاندان کے قبضے میں رہی، لیکن بعد کے زمانے میں مغلوں ، مرہٹوں اور انگریزوں کی لڑائیوں کی وجہ سے جاگیر اس خاندان کے قبضے سے نکل گئی ۔ ا پنے خاندان کے یہ تمام حالات خواجہ احمد عباس نے انگریزی میں لکھی گئی اپنی خود نوشت سوانح عمری I am not an islandمیں بیان کئے ہیں۔ انہوں نے اپنے آبا و اجداد میں ایک بزرگ خواجہ اکبر علی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ابھی سولہ سال کے تھے کہ کسی نے ان کے والد اور چچاؤں کا قتل کردیا۔ خواجہ اکبر علی نے بدلہ چکانے کے لئے قاتل کو جان سے مار دیا۔ انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔ لیکن کسی طرح وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ 19 سال لکھنو میں گزارنے کے بعد جب وہ پانی پت واپس آئے تو معلوم ہوا کہ برطانوی حکومت نے ان کی تمام زمین ضبط کر کے الیگزینڈر سکنر کے ہاتھ فروخت کردی ہے ۔ خواجہ اکبر علی نے اپنی زمین حاصل کرنے کی کوشش کی اور بہ مشکل تمام شہر کے پاس کچھ زمین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ خواجہ اکبر علی کو غیر معمولی جسمانی طاقت اور بہادری کی وجہ سے بہت شہرت حاصل تھی۔ خواجہ اکبر علی کے ایک صاحبزادے تھے۔ خواجہ اظہر علی ۔ یہ خواجہ احمد عباس کے پردادا تھے ۔ خواجہ احمد عباس کے پر نانا میر اشرف حسین لڑکپن میں سپہ گری کی ملازمت کی تلاش میں گھر سے نکل گئے ۔ ادھر اُدھر کی ملازمتوں کے بعد وہ ہولکر کی فوج میں ملازم ہوگئے۔ چونکہ وہ بہت بہادر تھے اور لڑائی کے فن پر انہیں قدرت حاصل تھی ۔ چنانچہ ترقی کرتے ہوئے سپہ سالار کے عہدے پر فائز ہوگئے ۔ جب ہولکر کو شکست ہوگئی اور وہ برطانوی فوج سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگیا تو ہولکر کی فوج سے اعلیٰ عہدے داروں کو بڑی بڑی جاگیریں دے کر ریٹائر کردیا گیا۔ صرف میر اشرف حسین ایسے عہدے دار تھے جنہوں نے جاگیر لینے سے انکار کردیا۔
خواجہ احمد عباس کے دادا خواجہ غلام عباس نے بلند شہر میں تعلیم حاصل کی اور اوور سیر کا پیشہ اختیار کر کے ایک ٹھیکیدار کے ملازم ہوگئے ۔ چونکہ ہندوستانی ٹھیکیدار اور انگریز انجینئر گاؤں کے سیدھے سادھے لوگوں کا استحصال کرتے تھے ۔ اس لئے وہ ملازمت ترک کرے پانی پت واپس آگئے ۔ یہاں خواجہ غلام عباس کی شادی میر اشرف حسین کے صاحبزادے میر محمد حسین کی لڑکی سے کردی گئی۔ 1857ء کے ناکام انقلاب کے بعد بہت سے انقلابی دلی سے فرار ہوکر پانی پت پہنچے ۔ یہاں خواجہ غلام عباس نے انہیں پناہ دی۔ جب برطانوی جاسوس اور سپاہی انہیں گرفتار کرنے آئے تو خواجہ غلام عباس نے مزاحمت کی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں گرفتار کر کے ایک انگریز جنرل کے سامنے پیش کیا گیا۔ پانی پت کے ہندو مسلم شہریوں نے جب یہ خبر سنی تو اکٹھا ہوکر جنرل کے پاس آئے اور خواجہ صاحب کو رہا کرنے کی درخواست کی ۔ جنرل اس وقت نہیں چاہتا تھا کہ شہر کے لوگوں کو ناراض کرے ۔ چنانچہ سخت تنبیہ کرکے انہیں رہا کردیا۔ اس رات خواجہ اونٹ گاڑی میں بیٹھ کر لاہور کے لئے روانہ ہوگئے ۔ وہاں ان کے ماموں رہتے تھے ۔ جو پنجاب کے لیفٹننٹ کے دفتر میں ملازم تھے ۔

اردو کے سب سے پہلے نقاد اور صف اول کے شاعر خواجہ الطاف حسین حالی بھی اسی خاندان سے تھے۔ وہ خواجہ احمد عباس کی دادی کے ماموں تھے ۔
خواجہ احمد عباس کے دادا کے تین لڑکے تھے۔ خواجہ غلام الحسنین، خواجہ غلام الثقلین، اور خواجہ غلام السبطین ۔ خواجہ غلام السبطین ہی خواجہ احمد عباس کے والد تھے ۔
خواجہ غلام الحسنین نے عربی اور دینیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے تھوڑی بہت انگریزی بھی پڑھی تھی ۔ خواجہ غلام الثقلین نے ایم۔ اے اور علی گڑھ سے بی، اے کیا۔ ہمارے زمانے کے مشہور ادیب، نقاد، دانشور ، مفکر اور ماہر تعلیم خواجہ غلام السیدین انہی کے صاحبزادے تھے ۔ خواجہ غلام السبطین نے بھی علی گڑھ سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ سبطین ایک اسکول میں استاد رہے۔ کچھ عرصہ ایک شہزادے کے اتالیق رہے ۔ اور آخر میں یونانی ادویہ کا بیوپار کیا۔
خواجہ غلام السبطین مصلح بھی تھے ۔ انہوں نے کوشش کی کہ مسلمان اس ظاہری نمود و نمائش کو ترک کردیں جو عام تقریبات کے موقع پر وہ کرتے ہیں اور جن ر قرض لے کر یا زیورات و جائداد کو گروی رکھ کر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔
سبطین صاحب کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ بہت ایماند ار، روشن خیال عالم تھے ۔ انہیں اپنے وطن سے جتنی محبت تھی اتنی کم لوگوں کو ہوگی۔
خواجہ احمد عباس کی والدہ کا نام مسرور خاتون تھا۔ 7؍جون 1914ء کو خواجہ احمد عباس پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ ان کی تین بہنیں تھیں۔ بھائی کوئی نہ تھا۔ خواجہ عباس کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی۔ جب کچھ ہوش سنبھالا تو پانی پت کے حالی مسلم اسکول میں داخل کردئے گئے ۔ خواجہ احمد عباس نے جب حالی مسلم اسکول سے اعلیٰ نمبروں میں مڈل اسکول کا امتحان پاس کرلیا تو انہیں علی گڑھ یونیورسٹی کے ہائی اسکول کی نویں جماعت میں داخل کردیا گیا جہاں انہوں نے امتیاز کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ اس کے بعد علی گڑھ انٹر کالج میں داخلہ ہوا ۔ اور وہاں انہیں اپنی اعلی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا ۔ وہ بہت جلد ایک ماہر مقرربن گئے ۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانو ں پر انہیں قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے 1933ء میں بی اے اور 1935ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا ۔ جب خواجہ احمد عباس نے وکالت کا امتحان پاس کیا تو ان کے والد نے چاہا کہ وہ وکالت کا پیشہ اختیار کرلیں ، لیکن خواجہ صاحب کو صحافت میں اتنی دلچسپی تھی کہ وہ اپنے والد کی خواہش پوری نہ کرسکے ۔ 1933ء میں ان کی شادی اپنے خاندان کی ایک لڑکی مجتبائی خاتون سے ہوئی ۔ مجتبائی خاتون کا گھریلو نام مجی تھا۔ یہ مولانا حالی کی بڑے صاحبزادے خواجہ احمد حسین کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ 1959ء میں دل کا دورہ پڑنے سے مجتبائی صاحبہ کا انتقال ہوگیا۔

خواجہ احمد عباس کو طالب علمی کے زمانے ہی سے اخبار نویسی کا بہت شوق تھا ۔ انہوں نے علی گڑھ میں علی گڑھ میل Aligarh mailکے نام سے انگریزی میں ایک قلمی اخبار جاری کیا جو کچھ عرصہ جاری رہا۔
1933ء میں خواجہ صاحب بی اے کا امتحان دے چکے تھے اور دہلی میں بیٹھے اپنے رزلٹ کا انتظار کررہے تھے ۔ ان دنوں دلی سے ایک قوم پرست روزنامہThe Aligarh Opinionشائع ہوتا تھا ۔ جس کے ایڈیٹر جے۔ این سہانی تھے ۔ خواجہ صاحب نے اس اخبار میں تقریباً تین مہینے بغیر معاوضے کے کام کیا۔ یہ گویا ان کی صحافتی تربیت کا زمانہ تھا۔
بی ۔ اے کا رزلٹ نکلا، خواجہ صاحب نے فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس کیا۔ انہوں نے علی گڑھ جاکر کالج میں داخلہ لے لیا ۔ خواجہ صاحب کو صحافت کے شوق نے اتنا مجبور کیا کہ انہوں نے National callکے نام سے انگریزی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔
تعلیم ختم کرکے خواجہ صاحب بمبئی چلے گئے اور وہاں انگریزی میں شائع ہونے والے اخبار"بمبئی کرانیکل" میں ملازم ہوگئے ۔ اس میں انہوں نے 1947ء تک رپورٹر، سب ایڈیٹر، کالم نگار، اور فلمی نقاد کی حیثیت سے کام کیا۔ 1947ء میں وہ بلٹر، (ہفت روزہ) سے وابستہ ہوگئے ۔اور زندگی کے آخری دن تک اس ہفت روزہ کا آخری صفحہ لکھتے رہے ۔ اس صفحے پر خواجہ صاحب قومی اور بین الاقوامی سیاسی اور ہندوستان کی سماجی ، ادبی، اور فلمی زندگی پر اظہار خیال کرتے تھے۔خواجہ صاحب نے ہندی میں ایک رسالہ جاری کیا تھا، لیکن انہیں اشتہارات توقع سے بہت کم ملے اور پھر ایجنٹوں نے ان کی رقم دبالی۔ خواجہ صاحب کو مجبوراً رسالہ بند کرنا پڑا۔
پروفیسر محمود الٰہی نے فروری 1983ء میں خواجہ صاحب سے ان کی ادبی زندگی کے بارے میں ایک انٹر ویو لیا تھا۔ جو ہماری زبان نئی دہلی کے 22؍اکتوبر 1987ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس انٹر ویو میں محمود الٰہی صاحب کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ صاحب نے کہا تھا:
"ہمارے گھر کا ماحول ایسا تھا ، جس میں کتابیں تھیں ،رسالے تھے، ہمارے گھر کی عورتیں اکثر ایسے ناول منگاتی تھیں جو عورتوں کے لئے لکھے جاتے تھے ۔ وہ عورتیں یہ ناول زور زور سے پڑھتی تھیں۔ جب میں چھوٹا تھا تو میں ان عورتوں کی زبانی ناول سنا کرتا تھا۔ جب میں آٹھ سال کا ہوا تو میں نے پہلی دفعہ خود ناول پڑھا، جس کا نام تھا گردڑ کا لعل ، اس کے بعد فسانہ آزاد پڑھا، یعنی سات آٹھ برس کا تھا میں کہ جب رضائی اوڑھ کر فسانہ آزاد پڑھا کرتا تھا۔ کیونکہ ابا ہمارے اجازت نہیں دیتے تھے زیادہ رات تک پڑھنے کی اور ایک رات رضائی کے اندر آگ لگ گئی ۔ تب مجھے معلوم ہوا فسانہ آزاد اتنا دلچسپ ناول تھا کہ میں اس میں کھویا رہا اور اتنے میں رضائی میں آگ لگ گئی لالٹین سے۔

خواجہ صاحب بڑی پابندی اور شوق کے ساتھ لاہور سے شائع ہونے والا بچوں کا رسالہ پھول پڑھتے تھے ۔ ایک دن ان کے والد نے کہا کہ رسالہ پڑھنا کافی نہیں، اس کے لئے کچھ لکھو بھی تو۔ خواجہ صاحب نے ایک مضمون لکھ کر رسالے کو بھیجا۔ مضمون اس معیار کا تھا کہ فوراً چھپ گیا۔ یہ مضمون خواجہ صاحب کی پہلی مطبوعہ تحریر تھی۔
1937ء یا 1938ء میں خواجہ صاحب نے اپنی پہلی کہانی "ابابیل" کے نام سے لکھی ۔ جو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شائع ہونے والے ماہ نامہ"جامعہ" میں شائع ہوئی۔ اس کہ انی کو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ جرمنی میں دنیا کی بہترین کہانیوں کا ایک انتخاب شائع کیا گیا جس میں ہندوستان سے تین کہانیاں لی گئیں۔ ایک کہانی رابندر ناتھ ٹیگور کی، دوسری ملک راج آنند کی اور تیسری خواجہ احمد عباس کی یہی کہانی۔"ابابیل"
خواجہ احمد عباس صف اول کے ناول نگار، افسانہ نگار، دانشور، مفکر ، انگریزی اور اردو کے صحافی اور اعلی درجے کے فلم ساز تھے ۔ وہ اردو، ہندی، اور انگریزی تینوں زبانوں پر پوری قدرت رکھتے تھے۔
ان کی چھوٹی بڑی ستّر سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔

خواجہ صاحب نے 1975ء میں انگریزی میں "انقلاب" نام سے ایک ناول لکھا۔ خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہک انہوں نے 1942ء میں یہ ناول لکھنا شروع کیا تھا اور 1949ء تک صرف 13 باب لکھ پائے تھے۔ اس ناول کی طباعت کا معاملہ بہت دلچسپ ہے ناول بہت ضخیم تھا، اس لئے کوئی ہندوستانی پبلشر اسے چھاپنے پر تیار نہیں تھا۔ 1954ء میں خواجہ صاحب روس گئے تو ناول کا مسودہ اپنے ساتھ لیتے گئے ۔ وہاں ناول بہت پسند کی اگیا ۔ اور "سین اندی" یعنی ہندوستان کا بیٹا کے نام سے روسی زبان میں شائع ہوا۔ اس کا پہلا ایڈیشن 90 ہزار کی تعداد میں چھاپا گیا۔ 1955ء میں جرمنی میں یہ ناول شائع ہوا ۔ اب کچھ ہندوستان کے پبلشروں کو خیال آیا۔ بمبئی کا ایک پبلشر انگریزی ایڈیشن شائع کرنے پر تیار ہوگیا۔ مگر اس نے ڈیڑھ سو صفحے کم کرکے چھاپا، پھراس کے ہندی اور اردو ایڈیشن شائع ہوئے ۔
خواجہ احمد عباس زندگی کے آخری دنوں تک فلمی دنیا سے متعلق رہے۔ان کی فلمی زندگی کا آغاز بہت دلچسپ انداز میں ہوا ۔ انہوںنے پہلی بار شانتا رام کی فلم"دنیا نہ مانے" پر غالباً 1937ء میں ریویو لکھا، جسے اتنا پسند کیا گیا کہ بمبئی کرانیکل (جس کے ادارہ تحریر میں خواجہ صاحب شامل تھے) کے ذمہ داروں نے انہیں باقاعد فلمی نقاد بنادیا اور اس کے بعد فلموں پر خواجہ صاحب کے تبصرے برابر چھپتے رہے ۔
خاصے طویل عرصے بعد خواجہ صاحب خود فلموں کی کہانیاں لکھنے لگے۔ ان کی فلمی کہانیوں میں:آوارہ، انہونی، ڈاکٹر کوٹینس کی امر کہ انی ، میرا نام جوکر اور بوبی کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ انہوں نے بمبئی ٹاکیز کے لئے کہانیاں لکھیں اور جب بمبئی ٹاکیز بند ہوگئی تو راج کپور نے ان کی کہانیوں کو فلمایا۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ خواجہ صاحب جب کسی دوسرے پروڈیوسر کے لئے کہانی لکھتے تو فلم غیر معمولی کامیاب ہوتی، لیکن جب وہ خود اپنی کہانی فلماتے تو فلم ناکام ہوجاتی ۔ خواجہ صاحب نے تقریباً ایک درجن فلمیں بنائیں جن میں: دھرتی کا لال، ہمارا گھر، نکسلائٹ، سات ہندوستانی۔ شہر اور سپنا ، دو بوند پانی اور فاصلے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان فلموں کی ناکامی کی غالباً وجہ یہ تھی کہ یہ سنجیدہ موضوع پر تھیں۔ خواجہ صاحب پورے موضوع کو بڑی سنجیدگی سے ٹریٹ کرتے تھے ۔ ان میں وہ چیزیں نہ ہوتیں جنہیں فلم کی زبان میں مسالہ کہاجاتا ہے ۔ خواجہ صاحب کی فلمیں آج کل تجرباتی فلموں کی پیش رو تھیں۔
خواجہ صاحب چونکہ غیر معمولی پڑھے لکھے آدمی تھے، اس لئے فلمی دنیا کے اہم ادارون سے وابستہ رہے ۔ وہ انڈین موشن پکچرز ، پروڈیوسر ایسوسی ایشن ، فلم رائٹر ایسو ایشین، ڈاکو مینٹری پروڈیوسر ایسوسی ایشن اور فلم ڈائرکٹر اسوسی ایشن کے مستقل ممبر تھے ۔ وہ فلم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا پونا میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے خواجہ صاحب کی فلمیں عوام میں تو بہت مقبول نہیں ہوئیں، لیکن چونکہ اعلی درجے کی تھیں اس لئے انہیں شہر اور س پنا پر پریذیڈنٹ گولڈ میڈل ملا۔ ہمارا گھر کو اسپین، چیکو سلواکیہ اور امریکہ نے انعام دئیے ۔ نکسلاہٹ پر اٹلی سے انعام ملا۔ سات ہندوستانی کو بھی انعام سے نوازا گیا۔
خواجہ احمد عباس ایک بڑے فن کار اور ایک عظیم انسان تھے ۔ وہ بے خوف اور نڈر انسان تھے ، اپنے ملک کے ذرے ذرے سے انہیں پیار تھا، انسانیت پر انہیں پورا بھروسہ تھا۔
خواجہ صاحب وطن دوست تھے ، ان کی ساری زندگی فرقہ پرستی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے گزری۔ وہ انسان کی کمزوریوں سے واقف تھے ، اس لئے اگر کوئی ان کے ساتھ نازیبا سلوک کرتا توہ ناراض نہ ہوتے۔ بلکہ اس سے پیشتر کو متعلقہ آدمی معافی مانگے وہ اسے معاف کردیتے ۔ ایک ایسا ہی واقعہ سید شہاب الدین دسنوی کی زبانی سنئیے۔
"خواجہ احمد عباس کی وطن دوستی اور انقلابی سر گرمیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھاجائے گا ۔ اس سلسلے میں اس دھان پان شخص پر کیا کیا گزری ، اس کا علم ان کے ساتھیوں کو ہے۔ ایک واقعہ میری نظر کے سامنے کا ہے ، جنگ کا زمانہ تھا۔ پوری بندر کے علاقے میں ہم ایکسلئیر سنیما میں کوئی انگریزی فلم دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ فلم ختم ہونے پر جب لوگ باہر نکلے تو پانچ چھ انگریز فوجیوں نے عباس کو گھیر لیا اور ان سے شناختی کارڈ طلب کرنے لگے۔ لیکن شناختی کارڈ رکھنے کا کوئی قانون نہ تھا۔ عباس حیران تھے اس بے تکے مطالبے کا مقصد کیا ہے ۔ لیکن فوجیوں کو تو چھیڑخانی سے غرض تھی ۔ انہوں نے عباس پر گھونسوں کی بارش شروع کردی ۔ میرے ساتھ کچھ اور لوگ جو سنیما سے باہر نکلے تھے اور دور سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے ۔ ہم عباس کی مدد کے لئے ان کی طرف دوڑے ۔ ایک شور برپا ہوا اور فوجیون نے لوگوں کا رنگ دیکھ کر وہاں سے فرار ہونے ہی میں عافیت سمجھی۔ جب ہم لوگ عباس کے پاس پہنچے تو وہ نہایت اطمینا ن سے اپنے کوٹ کی شکن درست کرکے کچھ کہے سنے بغیر وہاں سے چلے گئے ۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے عدم تشدد کے ستیہ گرہی کی طرح وہ گاندھی جی کے آدرش پر عمل پیرا تھے ۔
خواجہ احمد عباس کی شخصیت اور ان کے فن پر بہت کچھ لکھا جائے گا ۔ ان سب تحریروں میں عباس کا سب سے مضبوط پہلوان کا کردار دکھائی دیگا ۔

زندگی کے آخری دس بارہ سال وہ مختلف بیماریوں کے شکار رہے، فالج کی وجہ سے انہیں چلنے میں بہت تکلیف ہوتی تھی۔ دو آدمیوں کا سہارا لے کر چلتے تھے ۔ موتیا بند کی وجہ سے کم دکھائی دینے لگا تھا ۔ لیکن بیماری کے زمانے میں بھی اپنے کام کو نہیں بھولے ۔ جب بھی ذرا صحت ٹھیک ہوتی، کام میں مصروف ہوجاتے ۔ اسی کشمکش میں وہ یکم جون 1987ء کو خدا کو پیارے ہوگئے۔

***
ماخوذ از رسالہ:
آجکل، نئی دہلی۔ دسمبر 1988

A biographical sketch of Khaja Ahmad Abbas. Article: Khalique Anjum.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں