مینا کماری - بالی ووڈ فلمی صنعت کی ہیروئین نمبر ون - خواجہ احمد عباس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-31

مینا کماری - بالی ووڈ فلمی صنعت کی ہیروئین نمبر ون - خواجہ احمد عباس

meena-kumari

خواجہ احمد عباس، ہندوستان کے مشہور ادیب، فلم ہدایتکار اور صحافی نے فلم، فلمی صنعت اور فلم کے فنکاروں پر ایک دلچسپ کتاب "سونے چاندی کے بت" لکھی ہے جس میں کچھ مضامین، کہانیاں اور مشہور فلمی ہستیوں پر کچھ خاکے شامل ہیں۔ اسی کتاب کا ایک مضمون "مینا کماری" پیش خدمت ہے جو بالی ووڈ کی اس ٹریجیڈی کوئن کی زندگی کے کچھ گوشوں کو بےنقاب کرتا ہے۔

آج سے بارہ برس پہلے کی بات ہے۔
میری فلم "چار دل چار راہیں" (ریلیز کا سال: 1959) کی شوٹنگ کا پہلا دن تھا۔
بارش موسلا دھار ہو رہی تھی۔ پچھلے بارہ گھنٹے سے لگاتار بارش ہو رہی تھی۔ رات بھر میں ایک پل کے لئے بھی جھڑی بند نہیں ہوئی تھی۔
میرا اصول ہے کہ جس دن شوٹنگ ہو، صبح سویرے ہی اسٹوڈیو پہنچ جاتا ہوں۔ اس دن بھی میں کسی نہ کسی طرح ماڈرن اسٹوڈیو تک پہنچ گیا۔ سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ٹیکسی سڑک پر ایسے چل رہی تھی جیسے ندی میں ناؤ چلتی ہے۔ ایک بار انجن میں پانی چلا گیا اور ٹیکسی رک گئی۔ کسی نہ کسی طرح ڈرائیور نے انجن کو پھر چالو کیا اور اسٹوڈیو کے دروازے تک پہونچا دیا۔ مگر اندر جانے سے اس نے صاف انکار کر دیا۔ اسٹوڈیو کے اندر تو سڑک کا نام و نشان ہی نہیں تھا۔ سارا کمپاؤنڈ ایک تالاب بنا ہوا تھا۔ میں نے پتلون کے پائینچے گھٹنوں تک چڑھا لیئے جوتے اتار کر ہاتھ میں لئے اور پانی میں اتر پڑا۔
پانی میں شرابور اسٹوڈیو کے اندر گیا تو دیکھا کہ آگ جلا کر گیلے سیٹ کو سکھایا جا رہا ہے۔ اس وقت تک میرا کوئی اسسٹنٹ بھی نہیں آیا تھا۔ صرف میک اپ روم میں پنڈری جوکر اپنی دکان لگائے بیٹھا تھا۔
پنڈوری نے کہا:
"عباس صاحب۔ آج تو آپ کو شوٹنگ کینسل CANCEL کرنی پڑے گی۔ ایسی برسات میں کون ہیروئن اپنے گھر سے باہر نکلے گی؟"
میں نے کہا: "شوٹنگ کا پہلا دن ہے۔ ہیروئن کی پریکشا بھی ہو جائے گی۔"
پنڈری نے پوچھا: "ہیروئن نے کتنے بجے آنے کو کہا تھا؟"
میں نے جواب دیا: "ساڑھے سات بجے، کیونکہ مین نے اسے بتا دیا ہے کہ شوٹنگ کا وقت ساڑھے نو بجے سے ہے مگر کالا میک اپ کرنے میں دو گھنٹے لگیں گے۔"
پنڈری نے اپنی کلائی پر لگی ہوئی گھڑی دیکھ کر کہا۔ "ساڑھے سات تو بج گئے۔"

ٹھیک اس وقت موسلا دھار پانی گرنے کی آواز کو چیرتا ہوا ایک موٹر کار ہارن سنائی دیا اور ایک موٹر پانی میں تیرتی ہوئی میک اپ روم کی سیڑھیوں کے پاس آکر رک گئی۔ مگر یہ سیڑھیاں خود پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
اور اب موٹر میں سے پہلے ہیروئن کے دو ننگے، گورے گورے نازک سے پاؤں باہر نکلے۔ پھر دو ہاتھ نکلے جن میں وہ اپنے چپل سنبھالے ہوئے تھی پھر سفید ساڑھی پہنے سر پر ایک بڑا سا تولیہ اوڑھے ہوئے ہیروئن باہر آئی اور بے تکلف پانی میں سے ہوتی ہوئی اپنے میک اپ روم تک پہنچ گئی۔
"آداب عرض، مجھے دیر تو نہیں ہوئی؟" اس نے کہا اور آئینے کے سامنے میک اپ کرنے بیٹھ گئی۔
"ڈائلاگ میں نے یاد کر لئے ہیں۔ اتنے اچھے لکھے ہیں آپ نے کہ یاد کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی مگر ہریانے کی دیہاتی چمارن کیسے بولتی ہے وہ انداز اور وہ لب و لہجہ آپ کو سکھانا ہوگا۔"
وہ ہیروئن تھی مینا کماری۔

لوگ کہتے ہیں کہ وہ آج اس دنیا میں نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہ مر گئی ہے۔ شاید تب ہی اس کی یاد اس شدت کے ساتھ زندہ ہو گئی ہے۔
اسی دن سے ہماری "نیا سنسار" یونٹ میں وہ آج تک "ہیروئن نمبر ون" HEROINE NUMBER ONE کہلاتی تھی اور کہلاتی رہے گی۔

"چار دل چار راہیں" میں تین ہروئینیں تھیں۔ مینا کماری، نمی، کم کم، ہر ایک نے اپنی اپنی کہانی میں لاجواب کام کیا تھا۔ لیکن ہمارے اسٹاف کے سب لوگ "ہیروئن نمبر ون" مینا کماری کو کہتے تھے۔
کیوں؟ یہ کسی کو نہیں معلوم تھا۔
بس کہنے لگے تھے۔ شاید اس لئے کہ وہ کسی طرح سے بھی ہیروئن نہیں لگتی تھی۔ فلم سٹاروں جیسے بھڑک دار کپڑے نہیں پہنتی تھی۔ سفید کلپ لگی وائل کی ساڑھی اس کا پسندیدہ لباس تھا۔ فلم سٹاروں کی طرح اٹھلا کر بات نہیں کرتی تھی۔ فلم سٹاروں کی طرح نخرے نہیں کرتی تھی ڈائلاگ گھر سے یاد کر کے آتی تھی۔ آتے ہی نہیں پوچھتی تھی کہ آج کون سا سین کرنا ہے؟ آپ نے جو ڈائلاگ کے کاغذ بھجوائے تھے وہ تو میں گھر بھول آئی ہوں۔
اس ہیروئن سے سب لوگ بہت خوش رہتے تھے۔ پروڈیوسر سے لے کر اسسٹنٹ میک اپ مین اور کیمرہ قلی تک۔ کیوںکہ وہ ہر ایک سے انسانوں کی طرح ہمدردی سے بات کرتی تھی۔ نہ ڈائرکٹر کو ڈائرکشن سکھاتی تھی، نہ کیمرہ مین کو فوٹو گرافی کی شکشا دیتی تھی۔ لیکن جب شاٹ شروع ہوتا تو وہ اپنے کیرکٹر میں کھو جاتی۔ پھر وہ مینا کماری نہیں رہتی تھی۔ وہ "وہ" ہو جاتی تھی جو کیرکٹر اس فلم میں وہ کر رہی ہوتی تھی۔

"چار دل، چار راہیں" کی کہانی جب میں نے اسے اور اس کے شوہر اور ا پنے پرانے دوست کمال امروہی کو سنائی تو میری دلی خواہش تھی کہ وہ چاؤلی چمارن کا کیرکٹر کرے۔ مگر میں نے کہا:
"آپ تینوں لڑکیوں میں سے کسی ایک کیرکٹر کو پسند کر لیجئے۔ دوسری ہیروئنوں کا انتخاب بعد میں ہوگا۔"
مگر کہانی سننے کے بعد ہی اس نے فوراً کہا:
"میں چاؤلی چمارن کا کیرکٹر کروں گی"۔
کمال امروہی نے مسکرا کر کہا: "کیرکٹر تو سچ مچ وہی تمہارے قابل ہے مگر شرط یہ ہے کہ جیسے عباس صاحب نے اپنی کہانی میں لکھا ہے، 'کالی کلوٹی' کا میک اپ کرنا ہوگا۔"
مینا کماری نے کہا: "وہ تو کرنا ہی ہوگا۔ اسی لئے تو میں نے یہ کیرکٹر اپنے لئے چنا ہے"۔

سو ایک دن ایسا آیا کہ شوٹنگ ہو رہی تھی کہ سیٹ پر کوئی صاحب تشریف لائے۔ کہنے لگے۔" سنا ہے مینا کماری اس فلم کی ہیروئن ہے۔"
میں نے کہا: "جی ہاں، آپ نے ٹھیک سنا ہے۔"
گھڑی دیکھ کر وہ بولے۔ "گیارہ بج گئے مگر ہیروئن صاحبہ ابھی تک تشریف نہیں لائیں؟ کیا مینا کماری بھی وسرے سٹاروں کی طرح دیر کر کے آتی ہے؟"
میں نے کسی قدر اچنبھے سے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا۔
"آپ مینا کماری کو پہچانتے ہیں؟"
"کیوں نہیں؟ درجنوں فلموں میں دیکھا ہے۔ پھر زندگی میں بھی دو چار بار فلموں کے سیٹ پر دیکھ چکا ہوں۔"
میں مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ پھر وہ بولے۔" وہ کونے میں کالی کلوٹی سی کون بیٹھی ہے؟"
تب میں نے جواب دیا:
"جی وہ کالی کلوٹی چاؤلی چمارن ہے، جو اس فلم کی کہانی کا مرکزی کردار ہے، اور جسے دنیا میناکماری کے نام سے جانتی ہے۔"

مینا کماری اور چاؤلی چمارن۔
ایکٹرس اور اس کا کردار۔ ان دونوں میں آسمان اور زمین ، دن اور رات کا فرق تھا۔
ایک گوری دوسری کالی۔
ایک لاکھوں کمانے والی عوام کی ہر دلعزیز فلم سٹار۔ دوسری اپلے ڈھونے والی اچھوت چمارن۔
ایک جو اپنی گوری پیشانی کی وجہ سے "مہ جبیں" کہلاتی تھی۔ دوسری جو اپنی رنگت کے کارن، 'کالی کلوٹی بینگن لوٹی' کہلاتی تھی۔
ایک پڑھی لکھی، کتابیں پڑھنے والی، شعر گنگنانے والی جو خود غزل کہتی تھی اور خود ہی ترنم کے انداز میں گاتی تھی۔ جو شعر کہتی تھی اور بذاتِ خود شعر تھی۔ دوسری ان پڑھ گنوار، اچھوت کنیا۔
کیا مینا کماری اس انوکھے اور مشکل کردار کے ساتھ نباہ کرسکے گی؟ مجھے تو کوئی شبہ نہیں تھا مگرمیرے ساتھیوں میں کئی ایسے تھے جو ڈرتے تھے کہ مینا کماری مینا کماری رہے گی، چاؤلی نہ بن سکے گی۔

مگر پہلے دن ہی جب وہ اپنا کالا میک اپ کر کے پھٹے پرانے کپڑے اور دیہاتی گہنے پہن کر ، ننگے پاؤں، جھانجن بجاتی سیٹ پر پہنچی تو وہ چاؤلی چمارن میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس دن سے اس نے سیٹ پر ہیروئن والی کرسی پربیٹھنا چھوڑ دیا۔ اب وہ کسی ٹوٹی ہوئی کھاٹ یا پھٹی ہوئی چٹائی پر پھسکڑا مار کر ٹھیٹھ دیہاتی اندازمیں بیٹھتی۔ پہلے دن اس سے ملنے کوئی صاحب ہمارے سیٹ پر آئے اور ادھر اُدھر دیکھ کر بالکل اس کے سامنے کھڑے ہو کر پوچھا:
" کیوں مینا جی اب تک نہیں آئیں؟"
میں نے کہا۔" آپ تو جانتے ہی ہیں کوئی ہیروئن وقت پر نہیں آتی۔ چاؤلی چمارن سے بات کرنا چاہیں تو وہ حاضر ہے۔"
اور یہ سن کر کالی کلوٹی چاؤلی ہنس پڑی اور بھانڈا پھوٹ گیا اور اس قسم کی غلط فہمیاں ہمارے سیٹ پر بار بار ہوئیں۔

یہ تو ہر فلم سٹار کے لئے کہا جاتا ہے کہ "وہ اپنے کام میں بالکل کھو جاتا ہے" یا "کھو جاتی ہے"۔ لیکن مینا کماری کس حد تک اپنے کردار میں کھو جاتی تھی۔ اس کی گواہی میں دے سکتا ہوں۔ میری یونٹ کے سب ساتھی دے سکتے ہیں۔

مئی کا مہینہ تھا۔ دوپہر کی جلتی ہوئی دھوپ۔ اندھیری کے پاس ایک پتھر کی کان ہے ، اس کے جلتے ہوئے پتھر تھے۔
سینکڑوں مزدور پتھر توڑنے میں لگے ہوئے تھے۔ ان میں ہمارے فلم آرٹسٹ بھی تھے۔ ان میں ایکسٹرا لڑکیاں بھی تھیں جو گرمی کی شکایت کر رہی تھیں، بار بار پینے کے لئے برف کا پانی مانگ رہی تھیں اور ان میں مینا کماری بھی تھی جو موٹر سے ہی ننگے پاؤں اتری تھی۔
میں نے کہا: "ابھی تو صرف کلوز اپ لینا ہے۔ آپ سینڈل پہن لیجئے۔"
مینا کماری نے کہا: "چاؤلی بے چاری کے پاس سینڈل ہوتے تو پتھرتوڑنے کیوں آتی؟"
میں لاجواب ہو گیا۔
پھر میں نے پتھر کو ہاتھ لگا کر دیکھا۔ جل رہا تھا۔ میں نے اپنے جوتے اور موزے اتار دئیے۔ کیمرہ مین نے اپنے چپل پھینک دئیے۔ سب اسسٹنٹ ڈائرکٹر اور دوسرے کام کرنے والے ننگے پاؤں ہو گئے۔
سارے دن اس جلتی ہوئی دھوپ میں، ان جلتے ہوئے پتھروں پر "چاؤلی چمارن" ننگے پاؤں چلتی رہی۔ دوڑتی رہی، بھاری کدال سے پتھر توڑتی رہی۔ مگر جب لنچ کی چھٹی ہوئی تب بھی مینا کماری نے سینڈل نہیں پہنے۔
شام ہوتے ہوتے ان نازک ننگے پیروں کا کیا حال ہوا وہ مینا کماری نے کسی کو نہیں بتایا۔ مگر ہمارے پیروں پر کتنے چھالے پڑ گئے، کتنے پیر پتھروں سے رگڑ کھا کر چھل گئے، لہو لہان ہو گئے وہ ہم میں سے سب کو آج بھی یاد ہے۔

سو یہ تھی فلم سٹار مینا کماری جس کی موت پر ساری فلمی دنیا اور لاکھوں فلم دیکھنے والے، آج آنسو بہا رہے ہیں۔
اسے اپنے آرٹ سے محبت ہی نہیں عشق تھا۔ ایسا عشق جو پاگل پن کی حد تک بڑھا ہوا تھا۔ یہی اس کا فرض تھا اور یہی اس کی دوا تھی۔ سات برس ہوئے لندن کے بہت بڑے ڈاکٹروں نے اس کے جگر کا معائنہ کرکے اس کے دوستوں، رشتے داروں سے کہہ دیا تھا کہ وہ سال بھر سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ لیکن وہ پانچ چھ برس تک اور زندہ رہی۔ مرض سے لڑتی رہی۔ اور جب نہ صرف "پاکیزہ" مکمل ہو گئی بلکہ کتنی ہی دوسری تصویریں سب مکمل ہو گئیں تو اس نے ملک الموت کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور صرف چالیس برس کی عمر میں اللہ کو پیاری ہو گئی۔

کام کرنے میں وہ انتھک تھی۔ فلم اچھا ہو یا برا، ڈائرکٹر بڑا ہو یا چھوٹا وہ اپنا کام محنت و محبت سے کرتی تھی۔ کمزور فلموں میں اپنی با کمال اداکاری سے جان ڈال دیتی تھی۔ صبح سے رات تک ، رات سے صبح سویرے تک لگاتار شوٹنگ کر سکتی تھی۔ زکام ہو، کھانسی ہو، بخار ہو، وہ انکار نہیں کرتی تھی۔
یہ سب کرنے پر بھی اس کی اچھی اور یاد گار فلمیں گنی چنی ہی ہیں۔ بات یہ ہے کہ فلم ایک ایسا آرٹ ہے جسے بہت سے کلا کار مل کر جنم دیتے ہیں صرف ایک آرٹسٹ فلم کے فنی معیار کو بلند نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں سو میں سے نوے کس قسم کے ہوتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے۔ اور مینا کماری کو بھی اس کا احساس تھا لیکن کسی فلم میں اسے تھوڑا سا بھی موقع مل جاتا تھا تو وہ اسی میں جان لگا دیتی تھی۔ پھر بھی مینا کماری کی ستّر فلموں میں سے دس بارہ فلمیں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ جن میں اس کی آخری تصویر "پاکیزہ" خاص طور سے یاد گار رہے گی۔

یہ تو ہوئی مینا کماری، مشہور فلم اسٹار مینا کماری، جس کے نا م سے فلمیں بکتی اور سنیما کے ٹکٹ گھروں پر بھیڑ لگتی تھی۔ اور آج بھی لگتی ہے۔
مگر اس مینا کماری کے اندر کئی اور مینا کماریاں چھپی ہوئی تھیں۔
ایک روسی گڑیا ہوتی ہے جس کے اندر کئی اور گڑیاں چھپی ہوتی ہیں۔ ایک گڑیا کے اندر دوسری گڑیا۔ دوسری گڑیا کے اندر تیسری گڑیا۔ تیسری کے اندر چوتھی۔ جیسے پیاز کے چھلکے کے نیچے سے ایک اور چھلکا نکلتا رہتا ہے۔ اسی طرح ایک گڑیا میں سے دوسری گڑیا نکلتی رہتی ہے۔
ایک ادکارہ تو مینا کماری تھی جو فلم کی جھوٹی اوپری دنیا میں بھی اپنے رول میں اتنی کھو جاتی تھی کہ پھر سے دنیا کی کسی بات کی سدھ بدھ نہیں رہتی جو اچھی ایکٹنگ اس لئے نہیں کرتی تھی کہ اسے لاکھوں روپے ملیں گے، نہ اس لئے کہ اس کے فن کی تعریف ہوگی بلکہ اس لئے کہ اس کی اداکاری سے اس کی روح کو خوشی ہوگی، من کو شانتی ملے گی۔
اور اس ادکارہ مینا کماری میں ایک حساس، نازک مزاج شاعرہ موجود تھی جو چھپ کر اپنی تسکین قلب و روح کے لئے شعر کہتی تھی اور جس نے زندگی کے آخری سال میں اپنی غزلوں کو خود گا کر ریکارڈ کرایا۔

اور اس رومانی مزاج کی شاعرہ کے اندر وہ بچی چھپی ہوئی تھی جسے ماں باپ نے 'مہ جبیں' کا نام دیا تھا اور جس نے کبھی بڑی غریبی کا بچپن بتایا تھا اور جو گڑیا کھلینا چاہتی تھی۔ اور ہنڈولے میں بیٹھنا چاہتی تھی اور ہنڈکلیا پکانا چاہتی تھی، شادی کر کے گود میں بچوں کو کھلانا چاہتی تھی۔ لیکن جسے گھر کی اقتصادی مشکلات نے بچپن کی خواہشوں ، امنگوں اور آرزوؤں کو خیرباد کہہ کر سات برس کی عمر میں فلم ایکٹنگ کو اپنا ذریعہ معاش بنانے پر مجبور کر دیا تھا۔

اور آج کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری عمر مینا کماری اسی 'مہہ جبیں' کو تلاش کرتی رہی۔ وہ معصوم بچی جو اس کے من کے اندھیرے میں چھپی بیٹھی رہی اور جس بچی کے من میں نہ جانے کتنے سپنے ،کتنی آرزوئیں، کتنی امنگیں چھپی تھیں۔ اور شاید مینا کماری کی روح کی بے چینی ، اس کی شاعرانہ بادہ خواری، اس کی غم انگیز تلخ مسکراہٹ، اس کی اداکاری میں جو گہرائی، سنجیدگی اور ٹھہراؤ تھا وہ سب اسی تلاش کی دین تھی۔
مگر آج وہ تلاش ختم ہو گئی ہے۔
مینا کماری اور مہ جبیں مر کر ایک ہو گئی ہیں۔
صرف ایک افسانہ باقی رہ گیا ہے اور چند دلکش افسردہ یادیں۔

یہ بھی پڑھیے:
مینا کو موت مبارک ہو - نرگس دت
کمال امروہی - بالی ووڈ کا باکمال مکالمہ نویس اور ہدایت کار

***
ماخوذ از کتاب: سونے چاندی کے بت (سن اشاعت: اپریل-1986)
تصنیف: خواجہ احمد عباس

Meena Kumari, Heroine number one of Bollywood. Article: Khwaja Ahmad Abbas

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں