گوپی چند نارنگ کی اسلوبیاتی تنقید - از مغنی تبسم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-12

گوپی چند نارنگ کی اسلوبیاتی تنقید - از مغنی تبسم

gopichand-narang-usloobiati-tanqeed
گذشتہ بیس بائیس برسوں میں ادیبوں، شاعروں کے تخلیقی رویے میں تبدیلی کے ساتھ ادب کی تحسین و تنقید کے زاویے بھی بدلے ہیں۔ بیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے دہوں میں تنقیدپر نیم سیاسی اور نیم سماجیاتی رجحانات غالب رہے۔ اس تنقید نے ادبی تحسین سے بہت کم سروکار رکھا۔ اس کے مقابلے میں تحلیل نفسی کا دبستانِ تنقید تھا۔ جس نے کم از کم فن میں جذبے اور تخیل کی اہمیت کا احساس دلایا۔ اس دبستان سے تعلق رکھنے والے بعض خوش ذوق نقادوں نے زبان کے تخلیقی استعمال پر بھی نظر رکھی اور تجزیہ نفس سے آگے بڑھ کر جمالیاتی قدروں پر توجہ کی لیکن اس قدر شناسی کا اظہار بیشتر تاثراتی پیرایے میں ہوتا رہا۔ بعض نقاد ادبی تخلیق کے تجزیے سے دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ ادبی قدروں کا صحیح احساس جگانے میں اس لئے ناکام رہے کہ ان کے اوزار کند ہوگئے تھے۔ عروض و بلاغت کے اصول غیر معمولی مفروضات پر مبنی تھے۔ یہ نقاد لفظ و معنی کے داخلی رشتے سے ناآشنا اور تخلیقی عمل کے ماہیت سے بے بہرہ تھے۔

ادھر چند برسوں میں تنقید کی مجموعی صورت حال بدلی ہے۔ آر کی ٹائیپی تنقید نے ہمارے کلچر اور ادب کے گہرے رشتوں کا سراغ لگایا اور اساطیر کی باز تخلیق کے عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے ادبی تحسین کے نئے افق کھولے۔ جدیدیت کی تحریک سے وابستہ سماجیاتی تنقید نے عصری حسیت کاشناخت نامہ مرتب کیا لیکن یہ تنقید چند بندھے ٹکے فارمولوں میں اسیر ہوکر رہ گئی۔ تاثراتی تنقید کا بھی بول بالا ہوا جسے بعض نقادوں نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے اورفقرہ بازی کی مشق کا وسیلہ بنا لیا۔

جدید دور میں تنقید کا ایک نیا دبستان وجود میں آیا جس نے فن پارے کی تحسین کے لئے ہیئتی تجزیے کو اصل اصول بنایا۔ اس طریق کار کو پروفیسر مسعود حسین خان نے پہلے پہل اردو میں روشناس کروایا اور عملی تنقید کے چند عمدہ نمونے پیش کئے۔

اسلوبیاتی اطلاقی لسانیات کی ایک جدید شاخ ہے جو لسانیاتی تجزیے کے ذریعے کسی تحریر کے صوتیاتی، صرفی اور معنیاتی سطحوں کا جائزہ لیتی ہے۔ اسلوبیات کو ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ تنقید کا نعم البدل ہے۔ وہ دراصل تحسین اور محاکمے کے کام میں نقاد کی معاون ہوتی ہے۔ ماہر اسلوبیات کا نقاد ہونا ضروری نہیں لیکن ایک نقاد ماہر اسلوبیات ہوسکتا ہے۔ ماہر اسلوبیات کسی متن کامطالعہ کرتے ہوئے لسانیاتی نقطہ نظر سے کسی ایک یا زیادہ سطحوں کا تجزیہ کرتا ہے۔ ہر سطح کا تجزیہ اپنی جگہ مکتفی ہوتا ہے۔ تجزیے کا یہی عمل پیتھالوجسٹ کے کام سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلوبیاتی نقاد کسی فن پارے کی صوتی، صرفی اور معنیاتی سطحوں سے گزر کر مابعد الطبیعاتی سطح تک رسائی حاصل کرتا ہے اور ماورائے سخن کو اپنی گرفت میں لے آتا ہے۔ ایک اچھا اسلوبیاتی نقاد لسانیات کے تمام شعبوں سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔ زبان کی ماہیت اور اس کے آغاز و ارتقا کے تمام مدارج سے باخبر ہوتا ہے۔ سماجی ترسیل سے لے کر تخلیفی استعمال کی سطح تک اظہار کے مختلف پیرائے اس کی نگاہ میں ہوتے ہیں۔ ایسا نقاد ہی ادبی تحسین اور محاکمے کے منصب سے پوری طرح عہدہ برآہوسکتا ہے۔

اردو میں گوپی چند نارنگ نے اپنی نگارشات کے ذریعے اسلوبیاتی تنقید کو خاص وقار و اعتبار بخشا ہے۔ وہ ماہر لسانیات ہونے کے علاوہ ایک صاحب ذوق نقاد بھی ہیں۔ قدیم و جدید ادب کے سہارے معنوی پہلو اور اسلوبیاتی تیور ان کی نگاہ میں ہیں۔ انہوں نے عالمی ادب کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔ عصری علوم سے کما حقہ واقف ہیں۔ انسانی ارتقا کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عصر حاضر میں انسانی صورتحال کا گہرا شعور بھی رکھتے ہیں۔

گوپی چند نارنگ کے تنقیدی مضامین بر صغیر کے معروف و موقر رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں سے چند ایک خالص لسانیاتی تجزیوں پر مشتمل ہیں، مثلاً ذاکر صاحب کی نثر۔ اردو کے بنیادی اسلوب کی ایک مثال "یا" خواجہ حسن نظامی کی نثری ارضیت دیگر مضامین۔ میں انہوں نے اسلوبیاتی طریق کو کام میں لاکر مختلف قدیم و جدید شعراء کے فکرو احساس کی نوعیت اور اسالیب اور اظہار کی انفرادی خصوصیات کا جائزہ لیا ہے۔ "اسلوبیات میر"، "اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام" ، "اسلوبیات اقبال" ، "نئی غزل کی معتبر آواز ۔ ہانی" ، "ساقی فاروقی ۔ زمیں تیری مٹی کا جادو جہاں ہے"، "شہر مثال کا درد مند شاعر ۔ افتخار عارف" ، "نئی شاعری اور اسم اعظم" گوپی چند نارنگ کی اسلوبیاتی تنقید کے چند نمائندہ اور کامیاب نمونے ہیں۔

"اسلوبیات میر" ایک معرکۃ الآراء مضمون ہے جس میں ہیئتی تجزیے کے ذریعے "انداز میر" کے بعض ایسے گوشوں کو بے نقاب کیاگیا ہے جن کی طرف کسی کی نظر نہیں پہنچتی تھی۔ گوپی چند نارنگ کے خیال میں میر پوری اردو کے پورے شاعر ہیں۔ میر کی زبان کی توانائی اور زندگی کا راز یہ ہے کہ "وہ اپنی دھرتی کی گہرائیوں میں پیوست پراکرت کی جڑوں سے حاصل کرتی ہے ، اس ضمن میں انہوں نے قدیم کھڑی بولی، برج بھاشا اور اودھی کے ان اثرات کی نشاندہی کی ہے جن سے میر کی زبان کا اردو پن تشکیل پایا ہے۔ میرنے فارسی کے عناصر کو بھی اس خوش اسلوبی کے ساتھ سمویا ہے کہ وہ اردو کے وجود کا حصہ بن گئے ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے اس تنقیدی کلیے سے اختلاف کیا ہے کہ میری شاعری کی زبان عام بول چال کی زبان ہے۔"بول چال کی زبان" اور شاعری کی زبان کے فرق کو واضح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں"بول چال کی زبان شاعری کی زبان نہیں ہوتی لیکن شاعری کی زبان میں بول چال ہوسکتی ہے۔" قدیم شعریات پر مبنی تنقیدکے بعض اور اقتباسات بھی اس مضمون میں زیر بحث آئے ہیں جو زبان میر کی داخلی ساختوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس مضمون میں پروفیسر نارنگ نے میر کے آہنگ شعر کے مختلف پہلوؤں کا مفصل جائزہ لیا ہے۔
میر کے اشعار کی نغمگی اور روانی کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے اس وصف کی نشاندہی کی ہے کہ میر کی زبان میں اسماء اور اسماء صفات کا تناسب کم ہے۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے چھوٹے چھوٹے نحوی واحدوں کو بکثرت استعمال کیا ہے جو معنیاتی گرہوں کا کام کرتے ہیں۔ میر کے کلام میں بالعموم ان واحدوں کی فطری ساخت برقرار رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سہل ممتنع بن جاتا ہے میر کی شاعری کی نغمگی میں طویل مصوتوں کی کثرت اور اصوات کی انفیت کا بڑا حصہ ہے۔ ردیفوں، قافیوں اور بحروں کا انتخاب بھی اس کی موسیقیت کا ذمہ دار ہے۔ اسی سلسلے میں زبانِ میرکے بعض صوتیاتی امتیازات کی جانب اشارے کئے ہیں مثلاً یہ کہ فارسی عربی کی صفیری آوازوں کے ساتھ میر نے دیسی اور معکوسی آوازوں کو گھلاملادیا ہے۔ میر کے اسلوب پر اردو تنقید نے بہت کچھ خامہ فرسائی کی ہے۔ لیکن پروفیسر نارنگ نے جس طرح اپنی شعری بصیرت کو کام میں لاکر لسانیاتی تجزیوں اور دلائل سے اس کی بنیادی خصوصیات کو اجاگر کیا ہے، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔

گوپی چند نارنگ کی تنقید نگاری کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جزو میں کل کا تماشا دکھادیتی ہے۔"اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام" ایک مختصر مضمون ہے جس میں انہوں نے اقبال کی چند منتخب شاہکار نظموں کے تجزیے سے ان کی شاعری کی صوتیاری روح کو عریاں کردیا ہے۔ شماریاتی طریقے کو برت کر انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اقبال کے اسلوب کا غالب صوتیاتی میلان صفیری اور مسلسل اصوات کی کثرت اور ہکار اور معکوسی آوازوں سے گریز ہے۔ میر کی صوتیاری ترجیحات اس کے برعکس ہیں۔ لیکن میر اور اقبال کے کلام میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ غالب کے مقابلے میں دونوں نے طویل اور غنائی مصوتوں کا زیادہ استعمال کیا ہے جس سے ان کے کلام میں خاص نغمگی اور دلآویزی پیدا ہوگئی ہے۔ صفیری اور مسلسل آوازوں کا استعمال غالب نے بھی کیا ہے لیکن اقبال کے بر خلاف غالب کا تفکر حزنیہ ہے اور اس میں الم ناکی کی کیفیت غالب ہے۔ اس کی توجیہہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ:
"غالب نے اس کیفیت کے اظہار میں منہ کے پچھلے حصوں سے ادا ہونے والی آوازوں یا مسموع آوازوں سے مدد لی ہے۔"
اپنے اس مضمون میں پروفیسر نارنگ نے نہایت اجمال کے ساتھ اقبال کے صوتی آہنگ کے تمام اہم اور بنیادی اوصاف کی جھلک دکھادی ہے۔ ایک اور دوسرے مضمون "اسلوبیات اقبال" میں انہوں نے نظریہ اسمیت اور فعلیت کی روشنی میں اقبال کے اسلوب کی چند اہم خصوصیات کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اقبال کی شاعری کے مطالعے میں اسلوب شناسی کے اس طریقے کو برتا ہے۔ اسمیت اور فعلیت کے نقطہ نظر سے مختلف زبانوں کے لسانی مزاج اور رجحانات کا جائزہ لے کر انہوں نے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ نہایت دلچسپ اور معنی خیز ہیں مثلاً یہ کہ انگریزی کے بر خلاف سنسکرت، فارسی اردو اورہندی میں اسمیت سے اختصار اور فعلیت سے جملے میں پھیلاؤ آتا ہے۔ اسما بذاتہ جامد اور کم جاندار ہوتے ہیں، جب کہ افعال میں تازہ کاری کے عناصر کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ فعلیت سے ترسیل معنی میں زیادہ مدد ملتی ہے۔ اسمیت کے مقابلے میں فعلیت میں اسلوبیاتی تنوع کے لا محدود امکانات پائے جاتے ہیں۔ وغیرہ۔ مضمون کے آغاز میں پروفیسر نارنگ نے کلام اقبال سے چند ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن کو دیکھ کر یہ مغالطہ پید اہوتا ہے کہ اقبال کے اسلوب میں اسمیت حاوی ہے جیسے:
سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات

آگے چل کر وہ اس مغالطے کو دور کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ"اقبال جب مجرد تصورات کے بارے میں فکر کرتے ہیں یعنی زمان و مکان یا عقل و عشق یا خودی و سرمستی یا فرقہ و قلندری تو ان کا لہجہ خاصا غیر شخصی ہوتا ہے اور اسمیت کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔۔" لیکن آگے چل کر نارنگ نے خود ہی وضاحت کی ہے کہ اقبال جہاں خطاب سے کام لیتے ہیں اور ترغیب عمل کا درس دیتے ہیں تو افعال کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ مجموعی طور پر اقبال کا سلوب اسمیت کے مقابلے میں فعلیت کی طرف زیادہ مائل ہے۔"ترغیب عمل" کی شاعری ہونے کی وجہ سے یہ گمان گزرتا ہے کہ اقبال نے صیغہ امر کا یادہ استعمال کیاہوگا لیکن پروفیسر نارنگ کے تجزیے کے مطابق صیغہ امر کا استعمال اقبال نے بہت کم کیا ہے۔ ان کے اسلوب کی فعلیت زیادہ تر مخاطب اور مکالموں سے مربوط ہے۔ اس طرح:
"اقبال نے معنیاتی وسعتوں کی پیمائش میں فعلیت کے گوناں گوں امکانات سے کام لیا ہے اور لہجے کی حجازیت اور عجمیت کے باوصف اسی فعلیت نے اردو سے ان کے تہ در تہ تخلیقی رشتے کو استوار رکھنے میں مدد دی ہے۔"

گوپی چند نارنگ نے جہاں اردو شاعری کے کلاسیکی سرمایے کی نئے انداز سے تحسین کرتے ہوئے ہمارے تنقیدی ادب کو ایک نیا ذائقہ بخشا ہے وہیں جدید اور ہم عصر ادب کی تفہیم اور قدر شناسی کے سلسلے میں ان کی تقریروںنے رہنمایانہ رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے جدید فکشن اور شاعری پر جو مضامین قلمبند کئے ہیں ان میں فنکاروں کے فکر و احساس کے مطالعے کے ساتھ زبان کے تخلیقی استعمال کے سلسلے میں بھی ان کے مخصوص رویوں کا جائزہ لے کر ان کے اسالیب کی منفرد خصوصیات کی چھان بین بھی کی ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال ان کا مضمون "نئی غزل کی معتبر آواز - بانی" ہے۔ جس میں انہوں نے بانی کی پیکر تراشی، اس سے وابستہ لفظیات اور اس کے تلازمات کا منظر نامہ کھول کر اس کے زمینی اور آسمانی رشتوں کی تصویر دکھائی ہے۔ اس کے بعد مثالوں اور دلیلوں سے واضح کیا ہے کہ بانی کی شاعری میں"نفی کی کیفیت" لا سمتیت کا نظارہ پیش نہیں کرتی بلکہ اس کی تہ میں سمت پسندی کا جذبہ کارفرما ہے۔"پرواز" اور "سفر" کے پیکر اس جذبے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ بانی کی شاعری کے بعض منفرد پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بانی کے فن اور اسلوب کی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔ تراکیب تراشی اور تکرا ر الفاظ سے معنی آفرینی کے وصف کا جائزہ لیا ہے۔ بانی کی شاعری کی منفرد شناخت جس طرح اس مضمون میں پیش کی گئی ہے اسلوبیاتی تجزیے کے بغیر ممکن نہ تھی۔

بعض تنقیدی مضامین اسلوب کے تعین و تشخص کے لئے نہیں بلکہ شاعری کے موضوعات اور شاعری کی حسیت کے مطالعے کی غرض سے تحریر کئے گئے ہیں۔ ان میں بھی لسانیاتی تجزیوں سے حسب ضرورت کام لیا گیا ہے۔۔ "زمیں تیری مٹی کا جادو کہاں ہے" ساقی فاروقی کی شاعری کا ایک بھرپور اور خوبصورت جائزہ ہے۔ ساقی فاروقی کے شعری مزاج اور لہجے کی شناخت اس طرح کی گئی ہے کہ"وہ کم کلامی یا خود کلامی کے شاعر نہیں۔ وہ ہم کلامی کے شاعر ہیں"ابتدائی دور کی نظموں اور غزلوں میں دشت صحرا، ریت، پیاس، کالی گھٹا اور بعد کے دور کی شاعری میں پانی کا بلاوا، کنول اور دھنک جیسے پیکروں کی جنسی تلازمیت کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ ساقی کے اسلوب کا تجزیہ کرتے ہوئے لفظوں کے تخلیقی استعمال، پیکریت اور استعارہ سازی کے منفرد انداز کی توضیح اور توجیہ بھی کی گئی ہے۔ اس تجزیے کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

"ساقی کے یہاں رنگوں کو چھو کر محسوس کیا جا سکتا ہے، ان کی اپنی جسمانیت اور شخصیت ہے۔ اپنی زبان اور اپنا روز مرہ ہے۔ نیز دکھ درد، رنج و الم، خوشی و مسرت، استعجاب و تحیر، بے بسی و پژمردگی اور کئی دوسری جانی و انجانی کیفیات کے کئی پہلو ایسے ہیں جنہیں ساقی صرف رنگوں کی زبان میں بیان کرتے ہیں اور کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان میں ایک مکانی بعد پیدا ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً یہ رنگ فضا میں گھل مل کر جھلملاتے رہتے ہیں اور احساس کے خلیوں کی گہرائیوں میں جذب ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر ان اظہاریوں پر نظر ڈالئیے، مٹیالے خون کا دھبہ۔۔ کاسنی روشنی۔۔۔ درد کی تاریک فصیل۔۔۔ پیلے پیلے مینڈک۔۔ بھوری جھاڑیاں۔۔ پیلی گھاس۔۔۔ گلابی کونپلیں۔۔ سبز پتیاں۔۔۔ سرخ آبدوزیں۔۔ تباہی کا کالا سمندر۔۔۔ پلکوں کے چمپئی پردے۔۔۔رات کی نیلم پری کا سونے کے گنگھروباندھ کر ناچنا۔۔ پت جھڑ کی آگ کا بجھ جانا۔۔۔ آواز کا اوس کی صورت پتی پتی نیند کے پھول پر گرنا۔۔۔ کیا یہ ایسے اظہارئیے نہیں ہیں جن کی رنگ آشنائی ذہن پر ایک خاص اثر چھوڑ جاتی ہے۔ یہ صرف باصرہ کی بیداری کا عمل نہیں بلکہ پورے باصرہ وجود کا احساس میں کھنچ آتا ہے۔"

ایک مضمون میں افتخار عارف کی شاعری کے اساسی محرکات و تجزبات کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی مخصوص فرہنگ شعر اور موزوعلائم کا جائزہ لیا گیا ہے ، جو بیشتر مذہبی روایات بالخصوص واقعہ کربلا سے ماخوذ ہیں اور جن کا معنیاتی پھیلاؤ موجودہ عہد کی سفاکی اور سیاسی جبریت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔

گوپی چند نارنگ نے اپنے تنقیدی تبصروں میں بھی اسلوبیاتی تجزیوں سے کام لیا ہے۔ اس کی مثال شہر یار کے مجموعہ کلام پر ان کا مضمون نما تبصرہ ہے جو "نئی شاعری اور اسم اعظم" کے عنوان سے نقوش میں شائع ہوا تھا۔ تمہید میں انہوں نے جدید عہد کی اس مخصوص صورتحال کا جائزہ لیا ہے جس کے اثرات نئی شاعری میں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے چار بنیادی علامتوں، خواب، آگہی، وقت اور موت کے حوالے سے شہر یار کی شاعری کے علامتی نظام اور پیکری سلسلوں کی گروہ بندی کی ہے اور مختلف نظموں کا تجزیہ کر کے ان علامتوں اور پیکروں کی معنویت سے روشناس کرایا ہے۔ اس تجزیے کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ نئی شاعری اور اسم عظم کی شاعری نہ قنوطی ہے نہ رجائی" یہ بنیادی طور پر اس دور کے زخم خوردہ انسان کی اندرونی پیاس، روحانی کرب اور شعوری الجھنوں کی شاعری ہے۔ یہ ایک طرف خواب و آگہی اور دوسری طرف وقت و موت کی قوتوں کے درمیان معلق ہے اور زندگی کی معنویت کی تلاش میں سرگرم عمل ہے۔ یہ زندگی کے اصلی چیرے کو جیسا کہ وہ غم ومسرت کے لمحوں میں نظر آتا ہے پہچاننے کی کوشش کرتی ہے اور حال کے لمحہ حالیہ میں جینا چاہتی ہے۔"

پروفیسر گوپی چند نارنگ کے یہ سارے مضامین اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ شعرو ادب کی سچی تحسین شناسی اسلوبیاتی تجزیے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پروفیسر نارنگ بنیادی طور پر ادبی نقاد ہیں ، ان کے تجزیے مکتفی بالذات نہیں ہوتے کہ جن سے کسی لسانیاتی مسئلے کی جانچ یا تفتیش مقصود ہو بلکہ ان تجزیوں سے وہ اسلوبیاتی گرہوں کو کھولنے کا کام لیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ متن کی تمام لسانی پرتوں کو نہیں کھولتے صرف اس سطح کو چھوتے ہیں جو مسئلہ زیر بحث کو سلجھانے میں معاون ہوسکتی ہے۔
اس نوع کی تنقید نگاری میں علم لسانیات اور اسلوبیات کی اصطلاحوں کا استعمال ناگزیر ہے۔ عام قاری ان اصطلاحوں سے کم ہی آشنا ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نقاد کو اپنے خیالات کی ترسیل و تفہیم میں دشواری پیش آتی ہے۔ پروفیسر نارنگ کا کمال یہ ہے کہ وہ نہایت شگفتہ پیراے میں ادق سے ادق بات کو بھی سہل بناکر پیش کردیتے ہیں۔ خشک علمی تصریحات سے ممکنہ حد تک گریز کرتے ہوئے برجستہ مثالوں سے تفہیم کا کام لیتے ہیں۔ یہ مثالیں بجائے خود محکم دلیلیں بن کر ذہن نشین ہی نہیں بلکہ دلوں میں جاگزیں ہوجاتی ہیں۔
نارنگ صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کو لسانیات کے عالموں اور طالب علموں کے محدود حلقے سے باہر نکال کر ادب کے عام قارئین تک پہنچادیا۔ انہوں نے اس طرز تنقید کو وہ اعتبار وقار بخشا کہ آج سماجیاتی، تاثرات اور نفسیاتی تنقید کے وابستگان بھی اس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں او رموقع بن کر آئے تو شرما جھیپنی کے ساتھ اپنی تحریروں میں ادھر ادھر کوئی اسلوبیاتی چٹخارہ ضرور شامل کردیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ماخوذ از رسالہ:
چہارسو (راولپنڈی)، گوپی چند نارنگ نمبر (نثر)، جنوری/فروری-2004

Gopichand Narang and his Usloobiati Tanqeed, Essay by: Mughni Tabassum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں