قاری ، افسانہ نگار اور تنقیدی کشمکش - از علی امام نقوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-12

قاری ، افسانہ نگار اور تنقیدی کشمکش - از علی امام نقوی

reader-writer-critical-conflict
کسی سڑک پر ایک صاحب لنگڑاتے ہوئے گزر رہے تھے، اور اسی شاہراہ پر واقع ڈسپنسری میں دو ڈاکٹر صاحبان بیٹھے ان صاحب کی لنگڑاہٹ پر تبادلہ خیال فرما رہے تھے۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:
"دیکھ رہے ہیں آپ، ان صاحب کی لنگڑاہٹ میں جو ہلکا سا جھٹکہ ہے نا، اس کے بارے میں سوزن رابن سلیمان کا کہنا ہے کہ گھٹنے کی ہڈی توٹنے اور پھر صحیح طرح سے نہ جڑنے کے باعث ہی آدمی کی لنگڑاہٹ میں یہ جھٹکہ آیا کرتا ہے، اور میرا تجربہ بھی یہی کہتا ہے"۔
دوسرے ڈاکٹر صاحب نے پہلو بدلتے ہوئے کہا؛
"جناب والا، میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ان صاحب کے پنجے کی کوئی ایک ہڈی قدرے چھوٹی ہے۔"
لنگڑاتے ہوئے راستہ طے کرنے والے صاحب، جب شفاخانے کے قریب پہنچے تب دونوں ڈاکٹر صاحبان نے انہیں روک کر اپنے اپنے تجربے کے حوالے سے اپنی تشخیص کی تصدیق کرنی چاہی۔ لنگڑے صاحب نے پہلے تو دونوں ڈاکٹروں کو غور سے دیکھا، پھر مسکراتے ہوئے کہا:
"دوستو! اپنے تجربے کو تو رکھئے ایک طرف اور ملاحظہ فرمائیے۔ حقیر کی چپل ٹوٹ گئی ہے اور بندے کو موچی کی جستجو ہے۔"

نئے اردو افسانے کے مسئلے پر اردو تنقید بھی اسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ہمارے نقاد، تاحال یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ اس پر کس زاویئے سے گفتگو ہو؟ اولاً تو وارث علوی، باقر مہدی، گوپی چند نارنگ، فضیل جعفری، محمود ہاشمی اور شمس الرحمن فارقی نے نئے لکھنے والوں کو قابل مطالعہ ہی نہیں سمجھا اور اگر بے دلی سے ان میں سے کسی نے انہیں پڑھنے کی زحمت کر ہی ڈالی تو اس نے نئے اردو افسانے کے تدریجی دور کو عالمی افسانے یا پھر ترقی پسند افسانے کے سیاق و سباق میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔

وارث علوی اور گوپی چند نارنگ نے البتہ نئے افسانوں پر بات کی ہے ، لیکن ان صاحبان کی گفتگو میں نئے اردو افسانے پر وہی افتاد آن پڑی ہے جو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا مقدر ہوا کرتی ہے۔
وارث علوی نے "جواز" میں سلام بن رزاق پر مضمون لکھتے ہوئے ان کے افسانے "انجام کار" کو ایک معمولی افسانہ قرار دیا تھا، لہٰذا گوپی چند نارنگ نے سات آٹھ برسوں بعد اسی افسانے کو ایک شاہ کار قرار دینے کی خاطر اس کا مفصل تجزیہ کر دیا۔
(ملاحظہ فرمائیے: "نیا افسانہ، مسائل اور تجزئیے"۔ مرتبہ گوپی چند نارنگ)
سلام بن رزاق، اور ان کے ہم عصر افسانہ نگار اس وقت بھی مسکرائے تھے جب وارث علوی نے تین افسانہ نگاروں پر مضمون لکھتے ہوئے انہیں ایک افسانے کا افسانہ نگار قرار دیا تھا۔ اور یہ سب تب بھی بے ساختہ ہنسے تھے جب گوپی چند نارنگ نے ایک معمولی افسانے کو فن پارہ قرا ر دیا تھا۔
یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آٹھویں دہائی کے لکھنے والوں کی ہنسی کا سبب کیا ہے؟
تو صاحب! لنگڑاہٹ کا سبب تو صرف چپل کا ٹوٹ جانا ہے۔ رہ گئے فضیل جعفری ، باقر مہدی ، محمود ہاشمی اور شمس الرحمن فاروقی ، تو حضرات: جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ، بات صرف اتنی ہے کہ یہ حضرات غور و فکر کی منزل میں ہیں۔ شاید انہیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ اگر ہم نے آٹھویں دہائی کے لکھنے والوں کے فن پر گفتگو کی تو دوسرا ناقد ہمارے فرمودات کی کھلی نہ اڑانے لگے۔ یعنی فکشن کے حوالے سے ہندوستان کی موجودہ تنقید ی کشمکش محفوظ کھیل کی پالیسی کے باعث ہے۔ اُدھر، اردو افسانے کا قاری الگ بوکھلایا ہوا نظر آتا ہے۔ ہم جب اس سے اس بوکھلاہٹ کا سبب معلوم کرتے ہیں تو وہ ہم سے سوال کرتا ہے:

"صاحبو! نیا افسانہ کیا ہے؟ ہم نے جو افسانے پڑھے تھے، ان میں کہانی نام کی ایک بے حد اہم چیز ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب جو افسانے چھپ رہے ہیں ان میں اصل جوہر (کہانی) کے علاوہ سب کچھ ہے۔"

اس غریب نے اپنا مدعا تجزیہ نگار قسم کے ناقدین سے بیان کیا تو وہ فرمانے لگے:
"نیا افسانہ ، آزاد تلازمہ خیال، شعور کی رو، اور خیال کی اکائی سے عبارت ہے۔"
بے چارہ قاری افسانے چھوڑ، خیال کی اکائی، شعور کی رو ، اور آزاد تلازمۂ خیال کی تفہیم میں الجھ کر رہ گیا۔ اور جب اس کے پلے کچھ نہ پڑا تو اس نے دو ٹوک انداز میں اپنا فیصلہ سنا دیا:
"ہمیں تو افسانے میں وہ چیز چاہیے جو ہمارے اندر کہیں، اپنائیت کا احساس جگائے۔"

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو افسانے سے اپنائیت کا احساس ختم کرنے کا باعث کون افسانہ نگار تھے ؟ اس سوال کا جواب پاکستان کے زاہد نوید یوں دیتے ہیں:
"بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں کہانی لکھنے والا، انگریزی ذہن سے کہانی نہ لکھتا، افسانہ لکھ کر، کہانی کے روایتی اسلوب سے کنارہ کش نہ ہوتا تو ایک تہذیبی تسلسل باقی رہتا۔ قاری اور لکھاری ایک دوسرے کی طرف پشت کر کے نہ کھڑے ہوتے۔ کہانی میں علامت بھی ہوتی اور استعارہ بھی۔ سماجی معنویت بھی ہوتی اور روح عصر بھی۔ لیکن ایک چیز ہرگز نہ ہوتی:
ALIENATION
افسانے پر یہ افتاد انور سجاد کے مجموعہ "استعارے" کی اشاعت کے بعد پڑی۔ اور یہ وار اتنا کاری تھا کہ قاری اس کی تاب نہ لا سکا۔ منٹو تک افسانہ عام آدمی کی حد تک پڑھا جاتا رہا ہے ، لیکن بعد کی صورت حال نے صرف ایک ہی کام کیا۔ یعنی قاری اور لکھاری کی خلیج کو گہرا کرتا رہا۔"
(کتاب نما، دہلی)

زاہد نوید اپنے تجزیے میں چوک گئے ،اپنی بات کا آغاز انہوں نے تیسری اور چوتھی دہائی سے کیا اور اختتام انور سجاد پر، ابتدا میں افسانہ نگار اور قاری کے درمیان خلیج کا باعث وہ 1935ء کی دھماکہ خیز تحریر کو بتا رہے ہیں۔ اپنے اسی مضمون "کہانی، افسانہ، خیال کی اکائی" میں موصوف لکھتے ہیں:
"1935ء کے یہ باغی ذہن ایک تحریک چلاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کہانی پس منظر میں چلی جاتی ہے ، اور اس کی جگہ وہ افسانہ لیتا ہے۔ جو اجنبی زمینوں کا پودا تھا۔"

اگر موصوف کے بیان کی صداقت تسلیم کر لی جائے تو انور سجاد پر ان کی طرف سے عاید فرد جرم غلط ثابت ہوتی ہے۔ میرے خیال سے تو اس مسئلہ پر زاہد نوید کا ذہن قدرے کنفیوژڈ ہے۔ کیونکہ افسانے سے کہانی غائب ہونے یا کرنے کا جرم ترقی پسندوں پر کوئی بھی پڑھا لکھا شخص ثابت نہیں کر سکتا۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افسانے کی پوری روایت سے بغاوت کن لکھنے والوں نے کی؟ پاکستان میں انور سجاد، رشید امجد، احمد داؤد، منشایاد، مسعود اشعر، انور زاہدی، وغیرہ اگر تجریدی، علامتی اور استعاراتی افسانے نہ لکھتے تو ، یقیناً کوئی اور لکھتا کیونکہ جبر کے ماحول میں اپنی بات کہنے کے لئے پاکستانی افسانہ نگاروں کو علامت، استعارے اور تجرید کا سہارا لینا ہی پڑتا، لیکن ہندوستان میں بلراج مین را، سریندر پرکاش، اور نوّے فیصد شب خونی افسانوں کی اشاعت کا کیا جواز ہے؟

باقر مہدی اپنے مضمون "جدید اردو افسانے کا ڈائیلیما" میں لکھتے ہیں:
"بیدی اور منٹو کے بعد کی نسل نے بھی مغربی افسانے سے اپنے رشتے استوار کرنے کی کوشش کی۔"
(آخر۔۔ اس نسل کو نئی رشتہ داریوں کی استواری کی خاطر مغرب کی طرف کیوں متوجہ ہونا پڑا؟)

"ان میں سے بعض 'غصہ ور نوجوان' کی ذیل میں آتے تھے اور بعض کی ذہنی ساخت ایسی تھی کہ وہ کہانی کے روایتی ڈھانچے سے شدید طور پر ناآسودہ تھے اور اس کی ہیئت کو یکسر بدل دینا چاہتے تھے ، ان کا شعور و احساس اس نوعیت کا تھا کہ انہوں نے کہانی کے روایتی ڈھانچے کو از کار رفتہ اور فرسودہ پایا، چنانچہ انہوں نے اپنی داخلی آگ اور باغیانہ رویوں کا ساتھ دینے کے لئے سانچوں کے تجربے کئے۔ اور اظہار و اسالیب کے نئے نئے وسیلوں کو اپنایا، ان میں انور سجاد ، بلراج مین را، احمد ہمیش ، دیوندراسر، خالدہ اصغر، کمار پاشی ، انور عظیم اور بلراج کومل کے نام خصوصیت سے نمایاں تھے۔"
(گوپی چند نارنگ، "اردو افسانہ روایت اور مسائل")

زاہد نوید کے الزام کو گوپی چند نارنگ نے ثابت کر دیا۔ یعنی انور سجاد اور ان کے ہم عصر ، وہ لکھنے والے ہیں جنہوں نے افسانے سے کہانی کو غائب کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ لیکن صاحب، آپ گوپی چند نارنگ سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ کیا واقعتاً کہانی کا روایتی ڈھانچہ از کار رفتہ اور فرسودہ ہو چکا تھا؟ اور کیا سچ مچ انور سجاد، مین را، خالدہ اصغر حسین کے افسانوں میں کہانی نہیں ہے؟ اور۔ ان ساعتوں کا آخری سوال:
ان غصہ ور نوجوانوں کو کہانی کی ہیئت بدلنے کا اختیار کس نے دیا؟
اور اب گوپی چند نارنگ کے پیش کردہ جواز پر باقر مہدی کا تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیے تاکہ آپ کو یہ سمجھنے میں سہولت ہو جائے کہ خود تراشیدہ جواز کے بعد ان فنکاروں نے جو حیثیت آج اختیار کر رکھی ہے اس کی ادبی اہمیت کیا ہے؟

"ادیبوں کی وہ نسل جس نے ترقی پسندوں سے ٹکر لی تھی، پل کے دوسری طرف جا چکی ہے اور "بالغ نظری" کا شکار ہو چکی ہے۔ اس میں وہ دم خم، پیچ و تاپ ، نالہ شبانہ اور آہ سحر گاہی نہیں رہی۔ جس کے سہارے اس نے جست کی تھی۔۔ ہندوستان کے اہم جدید افسانہ نگاروں کی کہانیاں پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ جلد اپنے آپ کو دہرانے لگے ہیں۔ یا خاموشی اختیار کر لی ہے۔ بلراج مینرا خاموش ہیں۔ سریندر پرکاش کی مشہور کہانی "بجوکا" کے بارے میں، میری رائے یہ ہے کہ اس میں علامت کا صحیح استعمال نہیں ہوا ہے۔ اور غیر ضروری اجزا جیسے پریم چند کے ہوری کا حوالہ، غیر ضروری انقلابی خطابت وغیرہ نے اس کہانی میں گہری معنویت کی جڑیں دور تک نہیں پھیلنے دیں۔ 'ساحل پر لیٹی ہوئی عورت' بھی خاصی گنجلک علامتوں میں گھر گئی ہے۔"
(جدید اردو افسانے کا ڈائیلیما)

اردو کے دو اہم نقادوں کے درج بالا اقتباسات کی روشنی میں خود گوپی چند نارنگ کی ایک اہم بات یاد آ گئی۔ موصوف نے انتظار حسین کے فن کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کیا ہے:
"تنقید کی نظر بھی کیسے کیسے تعصبات کو راہ دیتی ہے۔ ایک بار، جب ہم کوئی مفروضہ گھڑ لیتے ہیں تو پھر اس کے حصار میں خود ہی قید ہوجاتے ہیں"
(انتظار حسین کا فن)

گوپی چند نارنگ نے غیر ارادی طور پر ہی سہی، بہرحال اعتراف کر لیا ہے کہ اردو کے نقاد تعصبات کے شکار ہیں۔ اور غالباً اسی وجہ سے انہوں نے نئے اردو افسانے کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ لیکن۔۔۔
"نئے لکھنے والوں نے خود پر کوئی دروازہ بند نہیں رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے زمانے کے کھوکھلے ہوتے ہوئے باطن اور اطراف و جوانب میں چشم بصیرت کو محسوس ہونے والی تاریکی کے باوجود شعلۂ تخلیق کو روشن کئے ہوئے ہے۔"
(نیا افسانہ از شمس الحق عثمانی)

مسئلہ صرف اس قدر ہے کہ اردو کے نقاد تعصبات کی عینکیں اتار کر، ایمانداری سے اپنا فرض ادا کریں، لکشمن ریکھا کے حصار سے نکلیں تاکہ انہیں بھائی ، بھتیجوں کے مستقبل کی خاطر خس و خاشاک کی مفسری نہ کرنی پڑے۔ اور کف افسوس ملتے ہوئے نہ کہنا پڑے کہ:
"آہ، ہمارے درمیان سے کس قدر زبردست افسانہ نگار اٹھ گیا۔"

***
ماخوذ از رسالہ: (تحریر: علی امام نقوی)
سہ ماہی "سوغات" شمارہ: ستمبر 1992

Reader, Writer and critical conflict.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں