ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 01 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-11

ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 01

neeli-dunya-siraj-anwar-01

ناول کا خلاصہ :
فیروز اور اس کی مخصوص ٹیم کی یہ تیسری داستاں دراصل خلا کے سفر کی کہانی ہے۔
فیروز اور اس کے ساتھی جان، جیک، سوامی اور اختر زمین سے لاکھوں میل دور اوپر خلا میں جاتے ہیں اور وہاں خوفناک بلاؤں، عجیب قسم کے انسان نما جانداروں اور خونخوار درندوں سے مقابلہ کرنے کے بعد اچانک پلاسٹک کی بنی ہوئی ایک مربع سنٹی میٹر کی دنیا میں قید کر دئے جاتے ہیں۔ کیا وہ اس مختصر دنیا سے رہا ہو کر اپنی اصلی جسامت میں واپس لوٹ سکے؟ اور کیا وہ تمام لوگ بحفاظت خلا کی اس خوفناک مہم سے نبرد آزما ہونے کے بعد کامیابی کے ساتھ اپنی زمین پر لوٹ آئے؟

یہ سب جاننے کے لیے فیروز کے خوفناک، بھیانک اور مہماتی سفرناموں کے سلسلے کی تیسری طویل داستان کی پہلی قسط ذیل میں ملاحظہ کیجیے ۔۔۔
انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ ہم اپنے دل میں کچھ بھی طے کرلیں لیکن اگر خدا کو منظور نہیں ہے تو ہماری ہر بات الٹی ہو جاتی ہے۔ اسی لئے انسان بے بس ہے اور اس قادر مطلق کے آگے اپنا سر جھکانے کے لئے مجبور ہے ، میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تقریباً ایک سال پہلے میں نے بھی اپنے دل میں تہیہ کرلیا تھا کہ اب ہرگز کسی سفر پر نہ جاؤں گا۔ خواہ کتنا ہی اہم واقعہ کیوں پیش نہ آ جائے۔ مگر تقدیر کے آگے کس کی چلی ہے، خدا تعالیٰ کی مرضی یہی تھی کہ میں ایک بار پھر طویل اور خطرناک سفر کروں اور وہ ہزاروں آفتیں اور مصیبتیں جھیلوں جو حقیقت میں میری تقدیر بن کر رہ گئی ہیں۔

اپنے بارے میں میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ میں فیروز ہوں۔ میرے خیال میں میرا نام میرا سب سے بڑا تعارف ہے۔ جن لوگوں نے یہ نام سن رکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ میرے پیروں میں بلیاں بندھی ہوئی ہیں اور میں کسی بھی جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا۔ میری اس بات کا ثبوت میرے وہ پچھلے دو سفر نامے ہیں جنہیں میں کچھ سال پہلے لکھ چکا ہوں، اور جن کا نام "خوف ناک جزیرہ" اور "کالی دنیا" ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے ان سفر ناموں میں کیا لکھا تھا اور میں کن کن مشکلات اور تکلیفوں سے دوچار ہوا تھا؟ ان لوگوں کے لئے جو پہلی بار میرا یہ نیا سفر "نیلی دنیا" پڑھ رہے ہیں، مختصراً پہلے دو سفر ناموں کے بارے میں جاننا بے حد ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر نہ تو وہ میری اس ہیبت ناک اور بھیانک داستان کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور نہ ان کرداروں سے تعارف حاصل کر سکتے ہیں جن کو آگے چل کر میری اس پراسرار داستان میں بہت کچھ کرنا ہے۔

میں ایک معمولی سا لڑکا تھا، جب میں نے پہلی بار ایک پارٹی کے ساتھ سمندر کا سفر کیا۔ اس سفر میں ہمیں ایک ڈوبنے اور ابھرنے والے جزیرے کی تلاش تھی جہاں ایک قیمتی دھات سوبیا بڑی مقدار میں پائی جاتی تھی، ہماری پارٹی میں ایک امریکی شخص جان ولیم، ایک نیگرو جیک اور ایک ہندوستانی کبڑا چیتن شامل تھے، اس سفر میں مجھے جو مصیبتیں اور دل دہلا دینے والے واقعات پیش آئے۔۔۔ ان کی تفصیل تو آپ ناول "خوفناک جزیرہ" میں پڑھ سکتے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھئے کہ ہزاروں آفتیں جھیلنے کے بعد میں ایک معمولی سے لڑکے سے ایک جہاز راں کمپنی کا مالک بن گیا۔ جان کی میں اپنے باپ کی طرح عزت کرتا تھا۔ میری زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی ، کہ ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ جان کسی نامعلوم مقام پر موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ میرے دو مددگار سوامی اور بلونت تھے۔ مٰں انہیں ساتھ لے کر دوسری بار پھر ایک سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔ میرے دونوں بچے اختر اور نجمہ بھی میرے ساتھ تھے۔ اس سفر میں میری ملاقات تین خطرناک دشمنوں سے ہوئی۔ یہ دشمن جیگا، جکاری اور زوک تھے۔ جیگا سیارہ زہرہ کا ایک سائنس داں تھا جو اپنے غلاموں جکاری اور زوک کے ہمراہ ہماری اس حسین دنیا کو تباہ کرنے آیا تھا۔ مگر انجام کار میرے بچوں اختر اور نجمہ کے ہاتھوں ختم ہوا۔ اس سفر کی تفصیل آپ میرے دوسرے سفر نامے "کالی دنیا" میں پڑھ سکتے ہیں۔

یہ تھا میرا اور میرے پچھلے دو سفر ناموں کا ہلکا سا تعارف۔ جب ہی میں نے یہ عہد کیا تھا کہ ان دو سفروں میں مجھے جو پریشانیاں اور آفتیں اٹھانی پڑیں تھیں انہیں دیکھتے ہوئے اب میں سفر نہیں کروں گا۔ مگر جیساکہ میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ تقدیر میرے حال پر کھڑی ہنس رہی تھی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ نجمہ کی شادی کے پورے ایک سال بعد میرا یہ عہد وقت کے دھارے میں اس طرح بہہ جائے گا جیسے ایک معمولی سا تنکا ندی کے پرشور پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔

میں شاید دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان ہوں، ایسا شخص جسے کوئی غم نہیں، کوئی فکر نہیں، جو ہر وقت خوش و خرم رہتا ہے، یقین جانئے مجھے اپنی زندگی پر رشک ہے۔ میری زندگی اس سے پہلے بھی دوسروں کے کام آئی ہے اور اب بھی آتی ہے۔ میرے ہلکے سے اشارے پر ملازموں کی پوری فوج سر خم کر کے میرے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ مجھے سمندر کا بادشاہ کہا جاتا ہے، مشہور یہ ہے کہ ہوا میرے تابع ہے ، میں جس طرف ہوا کو حکم دوں گا، ادھر ہی چلے گی ، اور میرے جہاز سمندر کا وسیع سینہ چیرتے ہوئے قطب شمالی سے قطب جنوبی تک جا سکیں گے۔ کوئی شخص میری بات نہیں ٹال سکتا ، غرض میرے بارے میں اتنی غلط فہمی لوگوں کو ہے کہ مجھے خود حیرت ہوتی ہے۔

لیکن کیا درحقیقت میں ایسا ہی ہوں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ دنیا جہان کے خزانے میرے قدموں تلے بکھرے رہتے ہیں مگر جسے دل کا سکون کہتے ہیں وہ مجھے بالکل میسر نہیں ہے؟ یقین مانئے یہ بالکل سچ ہے۔ اتنا دولت مند ہوتے ہوئے بھی مجھے اب ہر لمحہ ایک فکر دامن گیر رہتی ہے، یہی کہ کیا میں ہمیشہ اسی قسم کے بھیانک اور پرخطر سفر کرتا رہوں گا ؟ کیا میری زندگی ان ہی آفتوں میں بسر ہوگی؟ کیا مجھے اپنی لڑکی نجمہ، اپنے داماد امجد اور اپنے ہونہار اور لائق فرزند اختر کا سکھ دیکھنا نصیب نہ ہوگا۔۔۔!

آپ نے یہ اندازہ لگایا ہوگا کہ جب سے میں نے اپنی یہ لرزہ خیز، بھیانک اور ہیبت ناک داستان لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہے، اس وقت سے لے کر اس سطر تک جو آپ کی نظروں کے سامنے ہے، میں کوئی کام کی بات نہیں کہہ سکا۔ آپ حضرات داستان پڑھنے کے اشتیاق میں صفحے پلٹ رہے ہیں اور میں غیر ضروری باتوں سے یہ اوراق سیاہ کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ یہ جان کر مجھے ضرور معاف کر دیں گے کہ دراصل میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا ہوں کہ کس طرح وہ باتیں بیان کروں جنہیں یاد کر کے میرا کلیجہ مونہہ کو آتا ہے، جن کا خیال کرتے ہی میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دہشت کے باعث میرے جسم میں کپکپی پیدا ہو جاتی ہے۔ خوف کی وجہ سے میرا چہرہ سفید ہو جاتا ہے اور ہاتھ پاؤں سن ہو جاتے ہیں، یقین جانئے میں خود میں وہ حوصلہ اور ہمت ہی نہیں پاتا کہ قلم اٹھاؤں۔

لیکن قلم تو مجھے اٹھانا ہے ، میری عادت ہے کہ میں اپنی ڈائری لکھتا ہوں، اور اسی ڈائری سے مدد لے کر میں اپنے اس سفر نامے کی ابتدا کر رہا ہوں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میری زندگی کی یہ داستانیں ادھوری رہ جائیں۔ جو کچھ بھی مجھ پر بیتی ہے وہ سب کی سب بیان کر دینا چاہ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگ مجھے کم زور دل کا سمجھیں اور سوچیں کہ شاید اسی ڈر کی وجہ سے میں کچھ لکھنا نہیں چاہتا۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر میری جگہ آپ ہوتے اور ان واقعات سے دوچار ہوئے ہوتے جن سے میں ہوا ہوں تو معاف کیجئے گا، آپ یہ سطریں لکھنے کے لئے خود کو زندہ ہی نہ پاتے۔

اب میں دل کو تھام کر اس بھیانک کہانی کا آغاز کرتا ہوں، جسے ختم کرنے سے پہلے نہ جانے میں کتنی بار کانپوں گا، کتنی مرتبہ دہشت کی تھرتھری میرے جسم میں پیدا ہوگی اور کتنی ہی بار میں گھبرا کر قلم رکھ دوں گا اور کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھوں گا کہ کہیں کوئی بھیانک خطرہ، کوئی ہیبت ناک چیز آہستہ آہستہ میری طرف رینگ تو نہیں رہی ہے؟ ایسی حالت میں اگر میرے قلم سے کوئی لغزش ہوجائے یا عبارت میں بے ربطی پیدا ہوجائے تو آپ مجھے فراخ دلی سے معاف کر دیجئے گا۔

گلابی جاڑوں کا موسم تھا ، ہلکی ہلکی سی ٹھنڈک بڑی بھلی معلوم ہوتی تھی۔ بارشیں ختم ہو چکی تھیں، اس لئے سبزے پر نکھار آ گیا تھا۔ خوبصورت اور دلکش پھول پودوں میں کھلتے ہوئے بڑے پیارے لگتے تھے۔ میں اپنے عالی شان محل کے باغ میں بیٹھا ہوا رنگ برنگی تتلیوں کو پھولوں پر منڈلاتے دیکھ رہا تھا۔ میرے باوردی ملازم مجھ سے کافی دور ہاتھ باندھے ہوئے ادب کے ساتھ کھڑے تھے اور میرے کسی بھی حکم کو بجالانے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ ایک تتلی کا تعاقب کرتے ہوئی میری نظر جیسے ہی اوپر اٹھی، اچانک پیچھے سے دو ہاتھ میری آنکھوں پر آ کر جم گئے اور پھر آواز آئی: "بتائیے تو میں کون ہوں۔"
میں نے مسکراکر وہ ہاتھ ہٹائے اور کہا: "تم میرے بہت ہی پیارے پیارے اورنالائق بیٹے اختر ہو۔"
اختر کھلکھلاکر ہنس پڑا اور پھر میرے سامنے آکر بولا: "ابا جی۔۔ آپ تتلیوں کو دیکھ رہے ہیں؟"
"ہاں بیٹے۔۔ مجھے یہ رنگ برنگے اڑتے ہوئے پھول بڑے پیارے لگتے ہیں۔"
اختر میرے قریب آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور اپنے ننھے سے کیمرے سے منظر کی تصویر اتارنے لگا ، لیکن اب وہ بات یاد آتی ہے تو دل لرز جاتا ہے۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ اسی منظر کی ایک تصویر کچھ عرصہ بعد اور لی جائے گی مگر اس کی نوعیت دوسری ہوگی۔

میں کرسی سے اٹھ کر اختر کے ساتھ باغ میں ٹہلتا ہوا محل کی طرف بڑھنے لگا۔ اختر مجھے بتا رہا تھا کہ آج نجمہ اور امجد بھی محل میں آئے ہوئے ہیں۔ اور زرینہ کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ میں نجمہ کو بہت چاہتا تھا اس لئے اس سے ملاقات کرنے کی خاطر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ڈرائنگ روم میں پہنچا۔ امجد مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا۔ مجھے اپنا یہ داماد بڑا ہی پیارا تھا۔ کچھ تو اس لئے کہ وہ تھا ہی اچھا اور کچھ یوں بھی کہ اس نے میرے پچھلے سفر میں میرا بڑا ساتھ دیا تھا۔ گھریلو باتوں کا تذکرہ کرکے میں خواہ مخواہ اپنی کہانی کو لمبا نہیں کرنا چاہتا۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ بڑی دیر تک آپس میں بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے ، گفتگو کے دوران ہی میں مجھے یہ علم ہوا کہ امجد چند ضروری کاموں کے باعث آسٹریلیا جا رہا ہے اور نجمہ بھی اس کے ساتھ ہی جائے گی۔ ایک طرح سے امجد مجھ سے اجازت لینے آیا تھا، مگر جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں نجمہ اب امجد کی بیوی تھی اس لئے مجھ سے اجازت لینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ لیکن اسی ایک بات سے امجد کی شرافت اور فرماںبرداری کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

باتوں باتوں میں جان اور جیک کا تذکرہ بھی آ گیا۔ امجد نے کہا کہ راستہ بالکل الگ ہے، ورنہ وہ لازمی طور پر ان دونوں سے مل کر واپس آتا۔ جان اور جیک کا ذکر آتے ہی پچھلے واقعات میری نظروں کے سامنے فلم کی طرح گھوم گئے۔ مجھے وہ وقت یاد آگیا جب سیارہ زہرہ کے قد آور سائنس داں شاگو نے ہمیں زہرہ کی طرف آنے کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ ہم سب زہرہ میں اس کے مہمان ہوں گے اور اس کے خاص راکٹ ہمیں لینے آئیں گے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اب ہم لوگوں کو فرصت ہی کہاں تھی؟ ہم بہت سے خطرناک سفر کر چکے تھے، پھر اس کے علاوہ ایک دوسرے سے کافی دور بھی تھے۔ جان اور جیک امریکہ میں تھے، میں اور سوامی بمبئی میں اور اب امجد اور نجمہ آسٹریلیا جا رہے تھے اس صورت میں کوئی کس طرح سیارہ زہرہ کا سفر کر سکتا تھا؟

ان ہونی سی بات تھی۔ بھلا کسی انسان نے اتنی آسانی سے اب تک خلاء کا سفر کیا ہے؟ غرض اسی موضوع پر باتیں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ صبح سے شام ہو گئی، ہم لوگ شام کی چائے اپنے محل کے اوپر ایک خوبصورت سے برج میں بیٹھے ہوئے پی رہے تھے۔ دور بہت دور سمندر میں سورج آہستہ آہستہ ڈوب رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی نہ جانے کیا بات تھی کہ میرا دل بھی اندر ہی اندر ڈوبتا جا رہا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اندھیرا ہوتے ہی کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ جیسے ایک ان دیکھا خطرہ دھیرے دھیرے میری طرف بڑھنے میں مصروف ہے۔ میں بڑی بے تابی کے ساتھ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ، میرے ہاتھوں کی مٹھیاں بار بار کھل اور بند ہو رہی تھی میری اس بے چینی کو میری بیوی زرینہ نے نوٹ کرلیا، اور وہ کہنے لگی:
"آپ کی طبیعت کچھ خراب ہے، کیا بات ہے؟"
"نہ جانے کیا بات ہے۔ دل پر ایک عجیب سا بوجھ حاوی ہوتا جا رہا ہے۔"
"آئیے پھر نیچے چلیں۔" امجد اتنا کہہ کر کھڑا ہو گیا۔

اور پھر ہم سب نیچے ہال میں آکر بیٹھ گئے، مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ میں ابھی تک فکر مند تھا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ نجمہ مجھ سے کافی دور جا رہی ہے۔ شاید اسی لئے میں اداس اور پریشان ہوں، مگر اس میں پریشانی کی کیا بات ؟ نجمہ تو اپنے شوہر امجد کے ساتھ جا رہی ہے ، پھر یہ کیا ہے؟ میرا دل۔۔ یہ دل اس قدر گھبرایا ہوا کیوں ہے؟ اور میرے اس سوال کاجواب مجھے جلد ہی ملنے والا تھا، نہایت ہی خوفناک اور بھیانک طریقے سے ملنے والا تھا۔

امجد کا جہاز رات کے آٹھ بجے پرواز کرنے والا تھا، اس لئے شام کے چھ بجے وہ نجمہ کو اپنے ساتھ لے کر میرے محل سے چلا گیا۔ اسے سفر کی تیاری بھی کرنی تھی۔ اس کے منع کرنے کے باوجود میں نے اس سے کہا کہ میں زرینہ کے ساتھ پونے آٹھ بجے ہوائی اڈے پر ان دونوں کو الوداع کہنے آ جاؤں گا۔ ان کے جانے کے بعد میں مضمحل انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ زرینہ اور اختر نے مجھے دلاسے دینے کی کوشش کی، وہ دونوں یہی سمجھ رہے تھے کہ مجھے اپنی بیٹی سے بچھڑنے کا غم ہے ، اسی لئے وہ برابر میری دل جوئی کئے جا رہے تھے ، مگر میری حالت وہی تھی ایسا لگتا تھاجیسے کوئی طوفان آنے والا ہے اور اس کی سرسراہٹ مجھے ابھی سے سنائی دے رہی ہے۔

میں پریشانی کے عالم میں ہال سے نکل کر اپنے کمرے میں آگیا۔ گلابی جاڑوں کے موسم میں بھی مجھے پسینہ آ رہا تھا، میں آرام کرسی پر نیم دراز ہو گیا اور خواہ مخواہ عجیب عجیب باتیں سوچنے لگا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کیاکرنا چاہئے ، میرے دل میں ہول اٹھ رہا تھا۔ میں دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے بیٹھا تھا کہ اچانک مجھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی، میں نے گردن موڑ کر دیکھا۔
وہ سوامی تھا۔

سوامی وہ شخص تھا جس پر میں جان کے بعد سب سے زیادہ بھروسہ کرتا تھا۔ میرے دونوں بچے اسی کی گود میں چھوٹے سے بڑے ہوئے تھے۔ سوامی کا اپنا کوئی بھی رشتہ دار نہیں تھا، اس لئے ایک طرح سے وہ ہمارے گھر کا ایک فرد بن کر رہ گیا تھا۔ میں نے بھی کبھی اسے ملازم نہیں سمجھا۔ بہت سی باتوں میں وہ مجھے بہت سی عمدہ اور درست مشورہ دیاکرتا تھا۔ میرے پاس آنے کے لئے اسے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ میرے پچھلے سفر میں بھی وہ میرا سب سے بڑا مددگار اور معاون تھا۔ وہ مجھ سے ایسی ہی محبت کرتا تھا جیسے کوئی شفیق باپ اپنے بچے سے کرتا ہے ، اور خود میری بھی یہی حالت تھی، میں نے بھی بارہا آزمایا تھا کہ جب کبھی میں پریشان ہوتا یا مجھ پر کوئی آفت آنے والی ہوتی، سوامی کو کسی نہ کسی طرح اس کی خبر ہو جاتی تھی اور وہ فوراً میرے پاس میری دل جوئی کے لئے پہنچ جاتا تھا۔
"میں ہال میں سے آ رہا ہوں مالک۔ بابا نے بتایا تھا کہ آپ بہت پریشان ہیں۔" اس نے دریافت کیا۔
"ہاں سوامی۔۔ نہ جانے کیا بات ہے، میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔"
"آپ کو تو پریشان رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔" سوامی نے آہستہ سے کہا۔
"بابا نے یہ بھی بتایا ہے کہ آپ بے بی کے جانے سے پریشان ہیں۔"
"ہو سکتا ہے کہ یہی بات ہو، مگر میں کہہ نہیں سکتا۔"
"ارے سات بج رہے ہیں ، آپ کی پسند کا پروگرام ہو رہا ہوگا۔" سوامی نے اتنا کہہ کر ریڈیو کا سوئچ آن کر دیا۔
میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اس طرح وہ میرے دل پر چھائی ہوئی اداسی کو دور کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ مجھے ریڈیو کا بجنا اچھا نہیں لگ رہا تھا، مگر سوامی کی خاطر میں چپ رہا۔
"بے بی کا جہاز آٹھ بجے اڑے گا مالک۔"
سوامی نے کہا: "کیا آپ ہوائی اڈے نہیں چلیں گے؟"

سوامی میرا خیال بٹا رہا تھا، واقعی یہ تو میں بھول ہی گیا تھا کہ مجھے نجمہ اور امجد کو خدا حافظ کہنے کے لئے ہوائی اڈے پر جانا ہے۔ میں نے فوراً اندرونی فون کے ذریعے زرینہ کو ہدایت کی کہ وہ جلدی سے تیار ہو کر محل کے دروازے پر پہنچ جائے اور پھر سوامی سے کہا کہ وہ ڈرائیور سے کار نکالنے کے لئے کہے، سوامی کے چلے جانے کے بعد میں جلدی جلدی تیار ہو کر باہر آ گیا۔ زرینہ، اختر اور سوامی میرے انتظار میں باہر کھڑے ہوئے تھے۔

میری پریشانی کا اندازہ لگانے کے بعد زرینہ کا مونہہ بھی اترا ہوا تھا۔ میں نے اب یہی مناسب سمجھا کہ زبردستی خوش رہنے کی کوشش کروں، ورنہ یہ اداسی کی بیماری چھوت کی طرح سب کو لگ جائے گی۔ آٹھ بجنے میں پندرہ منٹ تھے جب ہم لوگ ہوائی اڈے پہنچے۔ میں چونکہ اب معمولی آدمی نہیں تھا اس لئے وہاں میری بڑی آؤ بھگت ہوئی، پورا ہوائی عملہ میرے آگے پیچھے پھرنے لگا۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے پوچھتا ، ان کے ایک افسر نے نہایت ادب کے ساتھ مجھ سے دریافت کیا: "کیا بات ہے سر۔۔ آپ کے ساتھ آپ کی صاحبزادی اور مسٹر امجد تشریف نہیں لائے۔"
"کیا کہتے ہیں آپ؟" مجھے اچانک یہ سن کر بڑا تعجب ہوا۔ "وہ دونوں تو میرے محل سے شام کے چھ بجے ہی روانہ ہو گئے تھے۔"
"ہو سکتا ہے کہ راستے میں کہیں رک گئے ہوں۔" افسر نے خندہ پیشانی سے کہا۔
"ممکن ہے ، ایسا ہی ہو۔ مگر اب تک انہیں آ جانا چاہئے تھا۔" سوامی نے کہا۔

ہم سب کی نظریں صدردروازے کی طرف لگی ہوئی تھیں، مگر امجد اور نجمہ کا کوئی پتہ نہ تھا۔ آٹھ بجنے میں اب صرف پانچ منٹ تھے ، لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مسافروں کو جہاز میں سوار ہونے کے لئے کہا جا رہا تھا ، رن وے پر جہاز پرواز کے لئے بالکل تیار کھڑا تھا۔ اس کے انجن زبردست شور پیدا کر رہے تھے۔ وقت گزرتا جا رہا تھا، مگر نجمہ اور امجد کا سایہ بھی نظر نہ آتا تھا۔ ہم سب کی پریشانی بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی، جہاز کی پرواز صرف ہماری خاطر دس منٹ کے لئے روک دی گئی ، مگر ان دونوں کو نہ آنا تھا نہ آئے۔ مجبوراً جہاز ان کے بغیر ہی پرواز کر گیا۔

میری اور زرینہ کی بے تابی اور پریشانی اس وقت کوئی دیکھتا۔ مجھے رہ رہ کر نجمہ پر غصہ بھی آ رہا تھا ، مگر یہ غصہ بہت جلد حیرت اور خوف میں تبدیل ہو گیا۔ نجمہ وقت کی بے حد پابند تھی، پھر آخر وہ کہاں رہ گئی؟ ہوائی اڈے کا عملہ ہم لوگوں کے چاروں طرف کھڑا چہ میگوئیاں کر رہا تھا۔ میںنے ان لوگوں کو یہ موقع نہ دیتے ہوئے کہ وہ ہمارے بارے میں مزید کچھ سوچیں، ڈرائیور سے واپس چلنے کو کہا، خیال یہ تھا کہ امجد کی کوٹھی پر دریافت کروں گا، لیکن جب وہاں سے پتہ کیا تو بڑا اچنبھا ہوا۔
معلوم ہوا کہ وہ دونوں تو وہاں سے شام کے چار بجے کے چلے ہوئے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ وہ میرے محل سے سیدھے ایئر پورٹ چلے جائیں گے۔

یہ سنتے ہی میری تشویش بڑھ گئی ، میں نے اپنے محل پہنچنے کے بعد جگہ جگہ آدمی دوڑائے۔ ٹیلی فون کئے، تار دئے ، مگر نہ جانے ان دونوں کو زمین کھا گئی یا آسمان۔ ان کا ذرا سا بھی سراغ نہ مل سکا۔ زرینہ تو اپنے کمرے میں بند ہونے کے بعد دھاڑیں مارمار کررونے لگی۔ سوامی بھی پریشان تھا، وہ بھی ہمارے ساتھ رات بھر جاگتا رہا، اختر محل میں آتے ہی سو گیا تھا، اس لئے ہم نے اسے حقیقت کی ذرا بھی ہوا نہ لگنے دی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو وہ بھی روتے روتے پورا گھر سر پر اٹھا لیتا۔

جب پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی اور نجمہ اور امجد کا ذرا سا بھی پتہ نہ چلا، تو میں نے بھی ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دئے۔ سوامی کا خیال تھا کہ پولیس کو خبر کر دی جائے تاکہ وہ لوگ کچھ اتہ پتہ نکالیں۔ لیکن میں اس کے خلاف تھا، مجھے امید تھی کہ صبح ہو ہی چکی ہے اس لئے نجمہ اور امجد خود ہی واپس آ جائیں گے۔ اچانک سوامی کو ایک بات سوجھی، اس نے مجھ سے کہا کہ چونکہ نجمہ اور امجد اپنی کار میں محل کے دوسرے دروازے سے گئے تھے، اس لئے ان کی کار کے نشان سڑک پر ضرور ہوں گے، ان نشانوں کی مدد سے سراغ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرف اور کہاں گئے ہیں۔۔۔؟

بات چوں کہ معقول تھی اس لئے ایسا ہی کیا گیا، ہم دونوں ٹائروں کے نشان دیکھتے ہوئے سڑک پر آ گئے، نشان صاف اور واضح تھے، مگر اچانک یہ دیکھ کر میرے ہوش گم ہوگئے کہ ایک مقام پر آکر وہ نشان بالکل غائب ہو گئے تھے جہاں وہ نشان غائب ہوئے تھے اس مقام پر ہلکے سبز رنگ کا پاؤڈر سا چھڑکا ہوا تھا، یوں لگتا تھا جیسے کسی نے چلتی ہوئی کار کو اچانک روک دیا ہو اور پھر کسی طاقت ور مشین یا کرین کی مدد سے ہوا میں اٹھا لیا ہو۔

بڑی حیرت انگیز بات تھی ، نشانات سڑک کے بالکل بیچوں بیچ تھے۔ اگر نجمہ کی کار سڑک کے برابر والے میدان میں گئی ہوتی تو اس میدان میں ٹائروں کے نشانات نظر آتے، لیکن ایسا بالکل نہیں تھا، نشان تو دائیں طرف گئے تھے اور نہ بائیں طرف، بس وہ تو اس طرح ختم ہو گئے تھے جیسے کاغذ پر کوئی پنسل سے لکیر کھینچتے کھینچے ایک دم رک جائے اور پھر پنسل کو کاغذ سے اوپر اٹھا لے۔ اگر پنسل کو ہم نجمہ کی کار سمجھ لیں تو یہ مثال آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔

پھر وہ سبز رنگ کا پاؤڈر کیساتھا؟ میں نے وہ پاؤڈر ہاتھ میں لے کر انگلیوں سے مسل کر دیکھا تو برق کی طرح وہ میری انگلیوں پر چمکنے لگا۔ آخر یہ کیا چیز تھی؟ پریشانی، حیرت اور خوف کے باعث میں دیوانہ سا ہو گیا، اور بدحواسی میں ادھر ادھر بھاگنے لگا کہ شاید کہیں کار نظر آ جائے۔ سوامی نے میری حالت دیکھی تو اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا:
"مالک، اس طرح کچھ نہ ہوگا، ہمیں ہمت اور عقل سے کام لینا چاہئے۔"
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ چکر کیا ہے؟" میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔
"ایک ہلکا سا اندازہ لگا سکا ہوں، مگر بھگوان کرے وہ غلط ہو۔" سوامی نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیسا اندازہ۔۔ بتاؤ، مجھے جلدی بتاؤ۔"
"مالک جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، بے بی اور امجد صاحب کا اغوا ہوگیا ہے۔"

اغوا کیا گیا ہے؟ ہاں سوامی ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے ، اتنی دیر سے یہ بات میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی؟ مگر، مگر کن لوگوں نے اسے اغوا کیا ہے، کون لوگ ہیں وہ؟ میرا تو یہاں کوئی دشمن نہیں! جو سوالات میرے دل میں پیدا ہوئے تھے ، وہی میں نے سوامی سے پوچھ لئے، وہ کچھ دیر تک خاموش رہا، اور پھر بولا:
"مالک میں ابھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کیا بات ہے۔ ہاں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آپ گھبرائیے نہیں، اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز باتیں مجھے اور آپ کو اپنے پچھلے سفر میں پیش آ چکی ہیں۔ ہم لوگ اس وقت نہیں گھبرائے تو اب بھی ہمیں باہمت بننا پڑے گا۔ میرا دل کہتا ہے کہ بے بی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ، اور وہ جلدی واپس آ جائے گی۔"

اس میں کوئی شک نہیں کہ سوامی کی یہ بات معقول تھی ، اس کے ڈھارس بندھانے سے کم از کم اتنا تو ہوا کہ میری پریشانی کسی حد تک کم ہو گئی۔ میں واپس محل میں آ گیا اور پھر میں نے سب سے پہلے پولیس کو فون کر دیا، اتنی دیر میں کہ پولیس آتی، میں سوامی کو فون پر چھوڑ کر زرینہ کے کمرے پہنچا۔ وہ رات بھر نہیں سو سکی تھی، اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ اختر بھی وہیں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا، میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر اس وقت میں نے بزدلی دکھائی اور خود بھی اپنی بے قراری اور پریشانی ظاہر کر دی تو پھر وہ دونوں اور رونے لگیں گے۔ اس لئے میں نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ نجمہ اب بچی تو ہے نہیں جو کہیں کھوجائے گی۔ وہ امجد کے ساتھ گئی ہے۔ ہو سکتا ہے عین وقت پر ان کا ارادہ بدل گیا ہو ، اور وہ آسٹریلیا جانے کی بجائے کسی اور جہاز سے کہیں اور چلے گئے ہوں۔
میری ان باتوں کا خاطر خواہ اثر ہوا ، زرینہ اور اختر اپنا رونا بھول گئے ، اور میں نے اندازہ لگایا کہ میری باتیں سن کر انہیں کچھ اطمینان ضرور ہوا ہے عقلمندی میں نے یہ کی کہ انہیں یہ نہیں بتایا کہ نجمہ کو اغوا کر لیا گیا ہے اور اس کی کار کے ٹائروں کے نشان اچانک بیچ سڑک میں سے غائب ہو گئے ہیں۔

زرینہ اور اختر کو ساتھ لے کر دوبارہ میں ہال آ گیا۔ پولیس انسپکٹر رانا وہاں کھڑا سوامی سے باتیں کر رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ ادب سے جھک گیا اور پھر پوچھنے لگا کہ اسے کس لئے طلب کیا گیا ہے؟ مصیبت یہ تھی کہ میں زرینہ کی موجودگی میں اسے کچھ نہیں بتا سکتا تھا، مگر بتانا بھی ضروری تھا۔ اس لئے میں نے ایک ذاتی کام کا بہانہ کیا اور انسپکٹر رانا کو لے کر باہر آ گیا۔ سوامی بھی میرے پیچھے پیچھے آیا، زرینہ سے میں نے کہہ دیا کہ نجمہ کے بارے میں معلومات کرنے کے لئے میں انسپکٹر کے ساتھ ہوائی اڈے جا رہا ہوں، اس لئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، زرینہ بے چاری مطمئن ہو گئی اور ہم تینوں کو خاموشی سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔

ہم اس مقام پر پہنچے جہاں ٹائروں کے نشان تھے، یہ نشان انسپکٹر کو دکھانے کے بعد ہم نے اسے پوری کہانی سنائی، نشانات دیکھ کر اس جیسا تجربہ کار آدمی بھی ایک لمحہ کے لئے چکرا گیا۔ بڑی دیر تک وہ وہاں کھڑا ہوا غور کرتا رہا، اور پھر جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے یہی مناسب سمجھا کہ ہیڈ آفس فون کرکے کسی سراغ رساں کو بلائے۔ لمبے لمبے قدم رکھتے ہوئے ہم لوگ پھر وہاں سے واپس آ گئے ، فون کرنے کے لئے اس نے نمبر گھمائے ، وہ بات کر ہی رہا تھا کہ یکایک سلسلہ منقطع ہو گیا۔
"کیا بات ہے ؟ شاید کرنٹ نہیں ہے؟" اس نے کریڈل کو بار بار دباتے ہوئے پوچھا۔
"جی ہاں بجلی فیل ہو گئی ہے شاید۔ کمرے کی لائٹ بھی چلی گئی ہے۔"سوامی نے جواب دیا۔
"مگر ایسا کس طرح ہو سکتا ہے؟ ٹیلی فون تو بجلی سے نہیں بلکہ بیٹری سے چلتا ہے۔" انسپکٹر نے کہا: "اگر بجلی فیل ہو بھی گئی ہے تو کم از کم فون کو تو کام کرنا چاہیے۔"
میں خود بھی یہی سوچ رہا تھا۔ اچانک اختر بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا۔۔۔


Novel "Neeli Dunya" by: Siraj Anwar - episode:1

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں