کاتب صاحب - افسانہ از شبیب احمد کاف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-13

کاتب صاحب - افسانہ از شبیب احمد کاف

katib-sahib-shabib-ahmed-kaaf
رسالہ "انشاء" (کولکاتا) کے 1992ء کے خاص نمبر (عالمی اردو افسانے نمبر) سے ماخوذ، حیدرآباد کے جواں سال افسانہ نگار شبیب احمد کاف کی یہ کہانی ہے۔ اتفاق سے یہ کہانی رسالے کو ارسال کرنے کے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ اسی کہانی کے ذیل میں، اس خاص نمبر کے دیباچے کے تحت مدیر رسالہ ف۔س۔اعجاز نے جو لکھا تھا، وہ کہانی کے اختتام پر ملاحظہ فرمائیں۔
آج کاتب غوث صاحب کی پہلی برسی تھی۔ اردو کے شائقین، اردو پریس والے اور غوث صاحب کے دیگر ہمدردان و رفقاء جمع تھے۔ انور صاحب مالک خورشید پریس تقریر جھاڑ رہے تھے:
"کاتب غوث صاحب ایک ضرر انسان تو تھے ہی لیکن جو چیز ان کو زندہ جاوید کر گئی وہ ان کی خطاطی تھی۔ ایک سال گزر گیا، ہم نے ان کے انتقال پر سوچا تھا کہ جس طرح بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کے صدور مملکت کے انتقال کے بعد مساند پر ہو جاتے ہیں اسی طور کاتب غوث صاحب کی مسند پر بھی کوئی براجمان ہو جائے گا۔ لیکن افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان جیسا خوشنویس ابھی تک نظر نہیں آ سکا ہے۔ اردو، عربی، اور فارسی کی خطاطی میں انہیں ملکہ تو حاصل تھا ہی لیکن پورے تامل ناڈو میں اکیلے وہ تھے جو 'عرب تامل' کی کتابت پرعبور رکھتے تھے۔۔۔"

انور صاحب کی تقریر جاری تھی اور مجھے غوث صاحب کے ساتھ گزاری چند گھڑیاں یاد آتی گئیں۔

ہاں! ان کا فن کچھ ایسا تھا کہ بے اختیار ان کے ہاتھ چومنے کو دل چاہتا۔ ایسے لگے جیسے سفید کاغذ پر کسی نے کالے موتی بکھیر دئے ہوں۔ یا سنگ مرمر پر سنگ موسی سے پچی کاری کی گئی ہے۔ یوں بھی محسوس ہوکہ ہاتھوں میں تاج محل کی دیوار کا ایک حصہ آ گیا ہے جس پر آیتیں کندہ ہوں، خط کوفی، رقاء، ثلث، نستعلیق سب پر پوری قدرت۔۔۔ ایک بار قلم اٹھا تو دیکھنے والوں کو یوں معلوم ہوتا کہ جھرنا بہہ رہا ہے یا کمپیوٹر کے پردے پر حروف ابھر آئے ہیں۔

کاتب غوث صاحب! میری سمجھ میں کبھی نہ آیا کہ زمانہ ایک قابل انسان کی ستائش اس کی ومت کے بعد کیوں کرتا ہے؟ تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کئے جاتے ہیں، جب تک کیچڑ میں کنول مسکراتا رہتا ہے کسی کو خیال تک نہیں ہوتا کہ اس کنول کو محراب کی زینت بنائے۔ کوئی پوچھنا اور جاننا نہیں چاہتا کہ سوا لاکھ کی بند مٹھی کے اندر دراصل کیا ہے؟ واقعی سوا لاکھ ہیں یا دو چار چاول کے دانے بھی نہیں ہیں؟

انور صاحب، مالک خورشید پریس بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ، ہاتھ ہلا ہلاکر اور لہک لہک کر غوث صاحب کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ لیکن حاضرین میں شاید سبھی اس امر سے واقف تھے کہ یہی انور صاحب خورشید پریس کی اٹھارہ سالہ خدمت کرنے کے بعد غوث صاحب کی پریس سے علیحدگی کا سبب اور ذمے دار تھے۔ معمولی سی بات تھی، ہر سال کی طرح اس رمضان میں بھی غوث صاحب کو ایک ماہ کی تنخواہ بطور بونس ملنا تھی۔ لیکن انور صاحب نے عید سے صرف دو دن قبل کھرے الفاظ میں کہا کہ سال بھر میں غوث صاحب نے تھوڑا تھوڑا قرض جو لیا تھا وہ برابر ہو گیا۔

کاتب غوث صاحب کی خودداری کافی مشہور رہی ہے۔ انہوں نے نہ چوں کیا نہ چرا کہا۔ پریس کے باہر آ گئے ، اپنے سارے قلم سنبھالے، پھر اپنی آخری سانس تک وہاں نہیں گئے۔
لوگوں کو بعد میں پتہ چلا کہ پورا رمضان ان کی بیوی اور بچہ سخت علیل رہے تھے ۔ دونوں کے علاج پر کافی رقم خرچ ہوئی، چونکہ غوث صاحب روزے ناغہ نہیں کرتے تھے چاہے کچھ بھی ہو جائے ، اس لئے عام دنوں میں پریس سے گھر لوٹنے کے بعد جو "کتابت" کرتے تھے وہ کر نہیں پائے۔ دواخانوں کے چکر اور روزوں کی حلاوتی۔ وہ جیوں تیوں عید کے روز بیوی اور بچے کو گھر تو لے آئے مگر عید کے دن نہ کپڑے سلے نہ گھر میں کچھ بن سکا۔

انور صاحب نے آدمی دوڑائے ، لاکھ بلایا پر وہ غوث صاحب تھے۔ روز اول سے جنہوں نے اپنا سینہ تانے رکھا تھا، سینہ تنا رہا۔
اس وقت انور صاحب کہہ رہے تھے:
"غوث صاحب کی خودداری ایک مثال ہے ، جہاں کہیں جب کبھی ان کی انا اور غیرت کو ٹھیس پہونچی وہ حالات کے آگے سینہ سپر ہو گئے اور اپنے وقار کو بحال رکھنے کے لئے۔۔"

میں نے سوچا۔۔۔ کیسی شخصیت ہے یہ انور صاحب کی۔ یہ ببانگ دہل اعلان تو کر رہے ہیں غوث صاحب کی بےمثال غیرت کی۔ لیکن خود اپنی غیرت کو جھنجوڑ کر پورے سال میں انہوں نے کوشش بھی نہ کی کہ اس غیور انسان کے بوسیدہ سے گھر میں جھانکیں اور غوث صاحب کی آخری بیٹی کے نکاح کا کچھ انتظام کریں۔

مجھے کاتب غوث صاحب کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے کیونکہ میری ان سے ملاقات صرف اس وقت ہوئی تھی جب گھر میں شادی کا موقع آیا تھا۔ رقعہ لکھوانے پہونچا تھا ان کے پاس۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک وہ خورشید پریس میں رہے ان کی مالی حیثیت قابل رشک رہی۔ تنخواہ کے علاوہ گھر میں رات کے بارہ ایک بجے تک کتابت کرتے رہتے تھے۔ یوں انہوں نے ایک مکان خریدا۔ دو بیٹیوں کی شادیاں کیں، بیٹے کو گریجویٹ بنایا۔ لیکن پریس کی ملازمت گئی تو ان کا گزارا صرف گھر پر آنے والے کاموں کی اجرت پر منحصر ہوا۔ پھر آسمان بھی تو رنگ بدلتا ہے، غیر محسوس طریقے سے اردو کا چلن کم ہوا۔ انگریزی رقعوں پر اکتفا ہونے لگا، اردو رقعوں میں خرچ بھی زیادہ آتا ہے ، خطاطی اور بلاک پر سوا ڈیڑھ سو روپے اٹھ جاتے۔ ویسے آج کی نسل اردو رقعوں کو دیکھ کر ناک کان بھوں مونچھیں سب چڑھاتی ہے۔ کہتی ہے:
WHAT DADDY? WHY MUMMY? WHO KNOWS THIS LANGUAGE NOWADAYS... SILLY URDU.

آسمان کے اس نئے رنگ نے کاتب غوث صاحب پر بھی اپنا اثر چھوڑا۔ کہاں وہ دن نکاح کا رقعہ الگ، ولیمے کا الگ سے۔ چھوہاروں مصریوں کی تھیلی کے لئے الگ چھپائی۔ پھر تہنیتیں، بہن کی جانب سے چھوٹے بھائی کی طرف سے۔ ایک شادی ہوتی کاتب صاحب کو ڈھائی تین سو روپے مل جاتے۔ اب تو کوئی Silly سا شخص اردو رقعہ چھپواتا ہے ، صرف نکاح کا، دلوں میں خلوص ہی باقی نہ رہا تو تہنیتیں کس جگر سے چھاپے کوئی۔

کاتب صاحب کو ایک ہی گھن کھائے جاتا تھا۔ آخری بیٹی کا نکاح۔ جس کے لئے وہ اب تک کچھ نہ کرسکے تھے۔ بیٹا کے گریجویٹ بنے پانچ سال ہو گئے ، مگر سڑکوں کے پتھروں نے اس کا سواگت کیا۔ غوث صاحب بچپن ہی سے اسے کتابت سیکھنے کی ترغیب دیتے رہے تھے۔ لیکن وہ شروع سے کہتا رہا: ابا۔۔ یہ فن اب آثار قدیمہ میں شمار ہونے والا ہے۔ اردو کمپیوٹر آنے والے ہیں، کاتب صاحبان بھوکوں مریں گے۔"
اس دور اندیش بیٹے کی بات سن کر کاتب صاحب تھوڑا سا کانپے۔ انہیں بھی کمپیوٹر کی سن گن مل چکی تھی۔

ایک دن شہر میں فساد ہو گیا۔ ہم ہندوستانیوں کو آج کل فساد کئے بنا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ حالیہ گڑبڑوں میں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو ختم کرنے کی ایک عجیب سی روایت چل پڑی ہے۔
مسلمان کٹتے ہیں، حکومت یا کسی جماعت کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد سے ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کی کمریں توڑی جا رہی ہیں۔ یہ بات تو اب عیاں ہو چکی ہے کہ فساد اس جگہ نہیں ہوتا جہاں یہ تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ گڑبڑ وہاں ہوتی ہے جہاں ان کی اقتصادی حالت اچھی اور بہت اچھی ہے یہ تھوڑا تھوڑا سنبھلتے لیکن انہیں پھر پیس کر رکھ دیا جاتا۔ اب تک دو نسلیں تباہ ہو چکی ہیں اور کسی کو اندازہ نہیں کہ یہ کب تک چلے گا۔

لیکن ایک بات مسلمان نہیں سوچتے کہ دنیا کے سب سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ملک امریکہ میں صرف تین ملین یہودی پورے ملک کے نظام میں اثر انداز کیوں کر ہو پا رہے ہیں؟ ہر میدان میں چھائے ہوئے کیوں ہیں؟ ایک نمایاں وجہ ان کی کامیابی کی یہ ہے کہ یہودی محنت، سخت محنت کرتے ہیں، اور دوسری اہم وجہ کہ انتخابات میں ان کے ووٹ تقسیم نہیں ہوتے۔ ایک اور وجہ کہ صرف ایک پارٹی کے نمائندوں کو ان کے ووٹ جاتے ہیں۔

ایک۔ تین، پانچ، روز۔۔ فساد اپنے شباب پر پہونچ چکا تھا۔ مسلمانوں نے جاہلوں کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے معصوم لوگوں کو ختم کرنا شروع کر دیا۔ عورتوں کو گھروں سے اٹھا لینا عام سی بات ہو گئی۔ حالانکہ انہیں بدلہ لینا ہی تھا تو ان لوگوں کو تلاش کرکر کے ختم کرنا تھا جو ان کریہہ اور ہوش ربا واقعات کے اصل ذمہ دار تھے۔ مسلمان یہ بھی بھول گئے کہ معصوم کو ختم کرنا قتل کرنے کے برابر ہے۔ روز محشر ان سے باز پرس کی جائے گی۔ جواب دہ ہونا پڑے گا۔ پڑوسی عورتوں کی حفاظت ان کا بھی ذمہ ہے۔ ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں جب مثالیں دنیا کے روبرو رکھی جا سکتی ہیں ، اپنے آفاقی نظام کی۔ دلوں کو مسخر کرنے کا اس سے بہتر وقت نہیں ہوتا۔ لیکن بدکرداروں کا وہی رد عمل اختیار کر کے خود اپنے چہرے مسخ کر لینا، صورتوں پر کالک پوت لینا ان کا شعار بن گیا ہے۔ پس یوں بدگمانیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔

ان خونریز واقعات کے درمیان امن کمیٹی والے کاتب غوث صاحب کے پاس آئے، کہنے لگے:
"چھ چھ میٹر کے کپڑوں پر جلی حرفوں میں چند باتیں لکھنی ہیں، اجرت آپ کو دگنی ملے گی کیونکہ رات بھر کام ہونا ہے۔"
غوث صاحب فوراً تیار ہو گئے کیونکہ پورا ہفتہ کچھ آمدنی نہیں ہوئی تھی۔ وہ جماعت کے دفتر چلے گئے اور رات بھر لکھتے رہے۔۔۔

"ہندوستان ایک دلہن ہے ، ہندو اور مسلمان اس کی دو آنکھیں ہیں۔"

"مسلمانو۔۔۔ معصوم کا قتل مت کرو۔"

"ہندو عورتوں کی حفاظت کی جائے۔"

"ان اللہ مع الصابرین۔"

اس نوع کے پندرہ نعرے غوث صاحب رات بھر لکھتے رہے۔ اور صبح کی اذان کے وقت گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا ان کی بیوی اور دوسری شادی شدہ بیٹی جو سسرال سے آئی ہوئی تھی اور اس کا ایک سالہ بچہ خون میں نہائے پڑے ہیں۔ فسادیوں نے ان کے نرخرے کاٹ دئے تھے۔

غوث صاحب دہاڑیں مار مار کر روئے، جی جان سے۔ ان کی کنواری بیٹی خالہ کے پاس تھی اس لئے بچ گئی۔ بیٹا ایک انٹرویو کے لئے دوسرے شہر گیا تھا اس لئے زندہ رہا۔ لیکن غوث صاحب زندہ لاش بن گئے۔ وہ دن رات صبح اور شام آنکھوں کی راہ سے خون بہاتے رہے۔ مجھے اطلاع ملی ، میں ان کے پاس گیا، انہوں نے مجھے بھینچ لیا۔ پوری طاقت سے جکڑ لیا۔ ایک پینسٹھ سالہ شخص سینے سے لگ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر روئے تو جی چاہتا ہے کہ سارے سمندر ابل جائیں اور زمین کو اپناحصہ بنا لیں۔

"میں نے کون سا گناہ کیاتھا، جس کی سزا مجھے یوں ملی ہے؟"
غوث صاحب نے کہا تھا: "میں نے تو کسی کے حق میں بددعا بھی نہیں کی، کبھی نہیں۔۔"

"اللہ کی مصلحتیں وہ خود بہترجانتا ہے کاتب صاحب۔" میں بولا تھا۔

"کیا مصلحتیں؟ کیسی آزمائشیں؟ ایسے لمحے کیوں آتے ہیں جو گزر نہیں پاتے۔"

"نہیں کاتب صاحب۔۔وحدہ لاشریک اپنے بندے پر اتنا بوجھ ہرگز نہیں ڈالتا ہے جسے وہ اٹھا نہ سکے۔"

گو میں انہیں تسلی دے رہا تھا لیکن خواہش تو میری بھی یہی ہو رہی تھی کہ چیخوں، کپڑے پھاڑ کر گلی میں نکل جاؤں اور خود کو ختم کرلوں۔

غوث صاحب سنبھلتے نہ تھے۔ روتے اور روئے جارہے تھے۔ ان کا دکھ دیکھ کر میرے دل کے مقدس ترین مقام سے ایک خواہش اور دعا نے سر ابھارا کہ کاش کاتب صاحب بھی انتقال کر جائیں۔ کیا فائدہ ذہن دل اور روح پھپھولا آبلہ بن جائے۔ اس میں سے تعفن اٹھے ، ایسی بدبو کے اطراف کیونکر جیا جائے۔ مر جانا بہتر ہے، میں پکار اٹھا تھا:
"میرے مولی، ان کو بھی اپنے پاس بلا لینا۔"

سچے دل سے کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ یا پھر اللہ میاں نے کاتب صاحب پر کچھ زیادہ ہی بوجھ ڈال دیا تھا، اس کا مقصود بھی یہی تھا کہ وہ اٹھا نہ سکیں اسے۔۔ کہ کاتب صاحب چلے گئے۔ میری ان سے آخری ملاقات کے آٹھ دنوں بعد۔

وقت پر مجھے اطلاع بھی نہ ملی۔ دو ہفتے بعد ان کی قبر پر گیا۔ دعائے مغفرت کی۔ چلا آیا۔ کاتب صاحب کا بیٹا مزمل یاد آتا رہا۔ اس سے ملنے کی بسیار کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
میں نے اس سے ایک بار پوچھا تھا:
"تم نے یہ فن کیوں نہیں سیکھامزمل؟"
وہ ہنسا، بولا:
"ابا جان کی حالت دیکھ رہے ہیں نا آپ؟ عرصہ سے ان کے گھٹنوں میں تکلیف ہے ، وہ زیادہ دیر تک نہ بیٹھ سکتے ہیں، نہ زیادہ چل سکتے ہیں۔ کمر کا درد تو ساتھ ہی جائے گا ان کے۔ اور اب آنکھیں دھدلائی جاتی ہیں، مجھے نہیں سیکھنا ہے خطاطی۔ کیا فائدہ۔ اس فن سے جو کمر اور گھٹنوں کو ایک مستقل عذاب میں مبتلا کردے۔ آنکھوں کی بینائی چھین لے اور بڑھاپے میں روٹی کے لالے پڑیں۔۔۔"

"پر مزمل۔۔ یہ بھی تو سوچو کہ اسی فن کی بدولت غوث صاحب نے ایک مکان خریدا، دو لڑکیوں کی شادیاں کیں انہوں نے۔ تمہیں پڑھایا۔۔۔"

میری بات اس نے اچک لی، بولا:
"شادیاں کون نہیں کرتا اپنے جگر کی ٹکڑوں کی، کون بیٹھی رہتی ہے گھر میں۔ دیر یا سویر سب رخصت ہوجاتی ہیں، اب رہی مکان کی بات۔۔ تو میں نہیں سمجھتا کہ فنا ہونے والی اس دنیا میں ایک گھر کی ضرورت ہے، اگر آپ ضروری سمجھتے ہیں تو سخت خسارے میں ہیں۔۔۔"
میں اسے بس دیکھتا رہ گیا۔ اور پھر سوچا۔ ہاں کیا فائدہ اس فن سے، جو آنکھیں چھین لے، چلنا پھرنا بیٹھنا اٹھنا دوبھر کردے۔ اور پھر اور پھر۔۔ پورے خاندان کا نرخرہ کاٹ لے۔

انور صاحب تقریر کرکے بیٹھ چکے تھے۔ اب کسی دوسرے صاحب کو بلایا جا رہا تھا کہ وہ منہ سے لفظوں کے پھول برسائیں۔ تبھی اچانک میں اٹھا، اسٹیج پر پہنچا، مائک ان صاحب سے تقریباً چھین لیا اور بولنے لگا:

"جناب منتظم جلسہ اور دیگر حاضرین۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ اس نازیبا حرکت کا مرتکب ہوا۔ لیکن یہ ضروری تھا کیونکہ آپ سبھوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرانا میرا مقصد تھا۔ یہ صاحب تقریر کرتے جلسہ ختم ہو جاتا۔ کسی کو مجھ جیسے ناہنجار نابکار کی بات سننے کی فرصت نہ ہوتی۔
خیر۔ مجھے کہنا یہ ہے کہ ابھی ابھی میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ اس جلسے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ غوث صاحب کے پس ماندگان کے لئے کچھ رقم اکٹھا کی جائے جو ان کی آخری بیٹی کے نکاح میں کام آئے۔ بلکہ یہ بات اور خوشی دے گی ، مجھے اگر کوئی جلد سے جلد ایک دولہا کا انتخاب بھی کر دیں۔ میں کل آپ سب لوگوں کے پاس آؤں گا۔ دل کھول کر دیں۔ اپنی بساط سے بھی بڑھ کر۔ کاتب صاحب کو خراج عقیدت کے بطور۔ یا کوئی صاحب خود میرے پاس آنا چاہیں اس ضمن میں تو میرا پتہ حاضر ہے۔"

میں نے اپنا مطلب واضح کر دیا تھا۔ چند تالیوں نے میری تائید کی۔۔ لیکن اس دن سے آج تک سات مہینے ہو رہے ہیں، میرے پاس "کاتب صاحب ریلیف فنڈ" میں ایک سو چھبیس روپے جمع ہوئے ہیں۔
اب آپ میں سے کوئی بتائے میں ان روپیوں کا کیا کروں؟
کوئی ضرور بتائے۔

ہمارے ایک جواں سال افسانہ نگار 'شبیب احمد کاف' نے نمبر کے لیے اپنی کہانی "کاتب صاحب" ہمیں روانہ کی تھی جسے ہم نے عام شمارے کے لیے منتخب کیا اور انہیں اس کی اطلاع دی۔ انہوں نے سخت احتجاج کیا۔ ہم نے کہا کہانی تھوڑی ترمیم چاہتی ہے۔ ایک دن ان کے بھائی کا خط آیا کہ میرے بھائی شبیب احمد کاف کا کل انتقال ہو گیا۔ پرسوں رات انہوں نے ایک خط لکھ کر میز پر رکھ چھوڑا تھا جو ان کی آخری تحریر ہے۔ وہ اس خط کے ساتھ منسلک ہے۔ مرحوم کے اس خط کو پڑھ کر ہمارا دل کانپ اٹھا۔ خط میں تحریر تھا:
مکرمی اعجاز صاحب!
ایک بار پھر ٹھنڈے ٹھنڈے اس کہانی کا مطالعہ کر لیجیے اور کہئے کہ کیا کبھی اس موضوع پر کوئی کہانی لکھی گئی؟ وہ جن کے خون سے اردو رسائل زندہ رہتے آئے ہیں اور ہیں، کسی نے ان کے کرب کو محسوس کیا؟ بڑے بڑے صف اول کے رسائل ہزاروں کی اشاعت سے خود کو مضبوط کرتے آئے ہیں اور کاتبان کو بھیک کے سکے دے کر اپنا نام اونچا کرتے رہے ہیں۔ یہ کیسا استحصال ہے؟ کوئی کچھ کہتا کیوں نہیں۔ اور اب میں نے کچھ جسارت کی ہے تو آپ اسے عام شمارے میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
کیا آپ عالمی نمبر میں اسے شامل کر کے 'کاتبوں' کی گھٹی ہوئی چیخوں کو ساری دنیا میں بازگشت بننے کا موقع نہیں دیں گے؟ پھر اس کے علاوہ کتنی اہم ذیلی باتیں اس تخلیق میں موجود ہیں۔
ضخیم نمبروں، سالناموں، خاص نمبروں میں آدھی سے زیادہ بکواس، لغو اور نچلے درجے کی کہانیاں چھاپی جاتی رہی ہیں اور آئیندہ بھی چھپتی رہیں گی۔ صرف اس لیے کہ ان کے خالق بڑے ناموں والے ہیں لیکن آپ سے تو لوگ انوکھی امیدیں رکھتے ہیں۔ عالمی نمبر میں میری یہ کہانی (ایک تھرڈ کلاس ہی سہی) بالکل آخر میں چھاپیے، یہی سمجھ کر کہ ۔۔۔'بڑے لوگوں' کی ضیافت میں دو ایک غریب لوگ بھی اس میں شریک ہو جاتے ہیں، ایک ناکردہ گناہ کی طرح ۔۔۔
براہ کرم میری کہانی ایک بار پھر پڑھیں۔ اس کے بعد میرا یہ خط بھی دوبارہ پڑھیں۔ پھر بھی آپ عام شمارے کی زینت بنانا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ ترمیم پر بھی مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ آپ اس کے اہل بھی ہیں اور حقدار بھی۔ ویسے میں دوسری کہانی بھی عالمی نمبر کے لیے روانہ کروں گا۔
شبیب احمد کاف کی دوسری کہانی تو پھر نہیں آئی۔ لیکن ان کے انتقال سے ہمیں اندرونی چوٹ لگی۔ کئی ماہ بعد مرحوم کی اہلیہ کے پےدرپے دو خطوط آئے کہ شبیب احمد 'انشاء' کو یہ کہانی بھیج کر مطمئن تھے، آپ کا جواب کافی عرصہ بعد آیا تھا اور اس عرصہ میں انہیں ہمیشہ یقین رہا کہ یہ کہانی آپ 'عالمی اردو افسانے' میں چھاپیں گے۔
ہم محترمہ تحسین کاف کے دکھ میں شریک ہیں۔ ایک افسانہ نگار کی انسانی مسائل سے اس حد تک وابستگی اور صحیح قارئین کی تلاش و جستجو نے ہمیں کافی متاثر کیا۔ ان کی وہ کہانی کاتبوں کے ہاتھوں دکھ اٹھانے کے باوجود ہم شائع کر رہے ہیں۔
ماخوذ:
ماہنامہ "انشاء" - جلد:7 ، شمارہ:10 (1992) (عالمی اردو افسانے نمبر)۔

Kaatib sahib. Short Story by: Shabib Ahmed Kaaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں