مولانا باقر آگاہ ویلوری - اردو ادب کا اولین نقاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-04

مولانا باقر آگاہ ویلوری - اردو ادب کا اولین نقاد

جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے اٹھارہویں صدی کے جید علماء و فضلاء میں حضرت محمد باقر آگاہ قادری شافعی ویلوری کی شخصیت اس لئے منفرد سمجھی جاتی ہے کہ وہ بہ یک وقت نہ صرف عربی ، فارسی اور دکنی زبانوں کے قادر الکلام اور صاحب دیوان شاعر تھے ، بلکہ ایک مستند محقق ومورخ ، صوفی، کامل، معتبر سیرت نگار کے ماہر اسلامیات، مشہور زبان دان، محترم فقیہ، روشن خیال معلم ، نامور انشا پرداز ، معروف نعت نویس و منقبت نگار، بلند مرتبہ مبلغ قرآن و حدیث اور بے نظیر محرک تعلیم نسواں بھی تھے۔

حضرت آگاہ نے ساری زندگی تصنیف و تالیف کے ذریعہ ملک و ملت کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی اور زندگی کے آخری لمحہ تک وہ اس راہ سے سر موپیچھے نہیں ہٹے۔ چنانچہ اپنی علمی ، ادبی اور دینی خدمات کی وجہ سے حجاز و عرب کے علماء و صلحاء اوراہل کمال نے ان کوبڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر زور جیسے ماہر دکنیات بلند پایہ محقق اور ماہر علوم السنہ نے ان کو اپنے وقت کے اردو ادب کے بڑے محسنوں میں شمار کرتے ہوئے لکھا ہے:
"واقعہ یہ ہے کہ دکنی علم و فضل شعروسخن ان (آگاہ) پر ختم ہو گیا۔ ان کے بعد جنوبی ہند میں اتنا بڑا ادیب و شاعر پیدا نہیں ہوسکا، وہ میر اور سودا کے ہمعصر تھے ، لیکن زبان قدیم استمال کی ہے۔ اس لئے شمالی ہند میں شہرت حاصل نہیں ہوئی۔
(تذکرہ اردو مخطوطات جلد اول ایڈیشن۔ص134)

نواب صدیق حسن خاں "تذکرہ شمع انجمن" کے مولف نے آگاہ کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔"کرناٹک میں ان کے ایسا کوئی سربلند نہ ہوا اور مدراس میں ان کا کوئی عدیل نہیں صاحب۔ تصانیف کثیرہ تھے اور بہت کمالات کے حامل تھے۔
(ص۔15)

محمد غوث خاں اعظم نے اپنے تذکرہ "صبح وطن" میں لکھا ہے ، تمام فنون میں، عربی فارسی ہندی(اردو) کی پچاس ہزار چھ سو ابیات ان کے کثرت تصانیف کے گواہ ہیں۔ اس علاقہ(مدراس) کے بہت سے لوگ ان کے فیض سے فضل و کمال کو پہنچے۔
(ص۔9)

مولانا مہدی واصف نے "حدیقۃ المرام" میں لکھا ہے: " اللہ نے آپ کو شرح صدر سے مشرف فرمایا اور علوم کے دروازے آپ پر کھول دئیے۔ آپ بڑے ذہین تھے ، قاموس آپ کو حفظ تھی۔۔ حقیقت یہ ہے کہ علماء عصر کو آپ پر رشک و حسد ہوتا تھا۔آپ کی معلومات عربی اور فارسی فرز تحریر، آپ کے کمال پر دال ہیں۔
(ص۔26)

تذکرہ نتائج الافکار کے مولف مولوی قدرت اللہ رقم طراز ہیں کہ"گلشن کرناٹک میں ان جیسا سرو پیدا نہیں ہوا اور گلستان مدراس میں ان کے مقابلہ کا رنگ افروز گل نہیں کھلا۔
(ص:63)

مختلف تذکرہ نگاروں کے علاوہ مولانا آگاہ پر داد تحقیق دینے والوں میں سب سے پہلا نام مولوی محمد مرتضیٰ کا ہے۔
جنہوں نے1910ء میں حیدرآباد کے اخبار صحیفہ میں محمد باقر آگاہ کے عنوان سے ایک مضمون قسط وار شائع کروایا تھا اور پھر بعد کو انہوں نے اپنے موضوع کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مضمون کو ایک کتابچے کی صورت میں اس نام سے 1921ء میں منظر عام پر لایا۔
اس کے بعد مولوی نصیر الدین ہاشمی نے "دکن میں اردو" (1923ء) میں باقر آگاہ پر مختصراً خامہ فرسائی کی۔ پروفیسر عبدالقادر سروری نے جامعہ عثمانیہ کے مخطوطات کی توضیحی فہرست مرتب کرتے ہوئے دیوان آگاہ کے نسخہ جامعہ عثمانیہ اور ڈاکٹر محمدحمید اللہ کے ایک خاندانی نسخے کے تقابلی مطالعہ کے بعد ایک معرکۃ الآرا مضمون رسالہ اردو بابتہ اپریل 1929ء میں"باقر آگاہ" کے زیر عنوان شائع کیا تھا۔
حالیہ عرصے میں پروفیسر یوسف کوکن ( محمدباقر آگاہ1958ء) ڈاکٹر افضل اقبال (مدراس میں اردو 1977ء) ڈاکٹر جمیل جالبی (تاریخ ادب اردو جلد دوم 1989ء) جناب علیم صبا نویدی (باقر آگاہ کے ادبی نوادر 1994ء) ڈاکٹرمحمدعلی اثر (نوادرات تحقیق 1994ء) ڈاکٹر ذاکرہ غوث ( محمدباقر آگاہ 1995ء) ڈاکٹر راہی فدائی (دارالعلوم لطیفیہ 1997ء)نے آگاہ کی مختلف النوع اور مختلف الابعاد شخصیت پر مذکورہ تصانیف میں مضامین و مقالات لکھے۔

اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر اور گولکنڈہ کے پانچویں فرمان روا سلطان محمد قلی قطب شاہ کے بارے میں اس کے بھتیجے اور داماد بانی مکہ مسجد سلطان محمد قطب شاہ کا بیا ن ہے کہ اس(محمد قلی) کا دیوان پچاس ہزار اشعار پر محیط تھا۔ جو دستبرد زمانہ کی وجہ سے مکمل طور پر محفوظ نہیں رہ سکا۔ تاہم تاریخ ادب اردو میں ہنوز ایسے کسی شاعر کا پتہ نہیں چلا۔ جس نے محمد قلی کی طرح پچا س ہزار یااس کے نصف(پچیس ہزار) اشعار کے برابربھی کوئی کتاب نظم کی ہو۔ اردو کی سب ضخیم مثنوری خاور نامہ ( رستمی بیجا پوری) چوبیس ہزار اشعار پر پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن جب ہم تذکرہ صبح وطن کے مولف کے بیان پر غور کرتے ہیں کہ آگاہ نے پچاس ہزار چھ سو اشعار کہے ہیں تو ہمیں حضرت آگاہ کی پرگوئی اور قادر البیانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا کو شاعری کے مختلف اوزان و بحور میں ماہرانہ قدرت حاصل تھی اور جب ہم حضرت آگاہ کے مختلف شعری تصانیف پر تحریر کئے ہوئے نثری دیباچوں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ جتنے بڑے شاعر تھے اس سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل نثر نگار اورنقاد بھی تھے۔

جہاں تک آگاہ سے پہلے اردو میں نثر نگاری کے اولین نمونوں کا تعلق ہے ، پیرروشاں بایزید انصاری (م 980ھ) کے رسالہ"خیر البیان" اور حضرت برہان الدین جانم کے رسالہ"کلمۃ الحقائق" علی الترتیب قدیم اردو نثر اور دکنی نثر کے ابتدائی نمونے ہیں۔ اس کے بعد ملک الشعراء اسد اللہ وجہی( سب رس اور تاج الحقائق) حضرت امین الدین اعلی(کلمۃ الاسرار) حضرت محمود خوش دہاں(رسالہ خوش دہاں) میراں جی خدانما شرح تمہیدات عین القضات اور رسالہ وجودیہ ، میراں یعقوب (شمائل الاتقیاء) عابد شاہ مراۃ السالکین گلزار السالکین) مخدوم شاہ حسینی،تلاوت الوجود، وغیرہ نے قطب شاہی اورعادل شاہی ادوار میں نثرنگاری کی روایت کو پروان چڑھایا تھا۔

دبستان بیجا پوراور گولکنڈہ کی دکنی سلطنتوں کے زوال بعد عبدالولی عزلت نے اپنے دیوان کا دیباچہ اردو نثر میں لکھا۔ یہ دیوان بقول ڈاکٹر جمیل جالبی 1172ھ میں مرتب ہوا۔ محمد تقی انصاف نے اپنا دیباچہ 1175ء میں لھا۔ اسی دوران سودا نے مثنوی"سبیل ہدایت" کا دیباچہ سپرد قلم کیا تھا اور آگاہ نے اپنے دیوان اور دیگر سات تصانیف کے دیباچے 1158ھ اور 1210ھ کے درمیان لکھے۔

نثرنگاری کے ان قدیم نمونوں میں یہ بات قابل توجہ کہ دبستان دکن میں سادگی ، برجستگی ، روانی اور بول چال کی زبان کا استعمال نظر آتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دکن کے نثر نگاروں نے مقامی بولیوں کے بھی اثرات قبول کرکے اپنی نثر کو شستہ اوررواں بنایا ہے۔ مزید یہ کہ مقامی تہذیب و تمدن کے گہرے اثرات اور حقیقت پسندی کے عناصر نے اس پر ہندوسانیت کی مہر ثبت کردی ہے۔
آگاہ نے حضرت جانم ، وجہی، محمود خوش دہاں، امین الدین اعلی، خدا نمااور دوسرے دکن کے نثر نگاروں کی پیروی اور تقلید کرتے ہوئے اپنی نثر کو صحت مند ادبی رجحانات سے مالا مال کیا۔ اس کے بر عکس مذکورہ بالا دیگر نثر نگاروں کے یہاں فارسیت کے اثرات نمایاں ہیں۔ سادگی اور روانی کے بجائے ان کی نثر میں مشکل پسندی اور پرپیچ اسلوب بیان سے اثر پذیری ملتی ہے۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
"آگاہ نے اپنی نثر میں ایک طرف تنقیدی و تخلیقی نقطہ نظر سے اپنے ماخذ پر روشنی ڈالی ہے اور دوسری طرف عام و سادہ نثر میں اپنے نقطہ نظر کی اس طور پر وضاحت کی ہے کہ بات براہ راست پڑھنے والے تک پہنچ جاتی ہے۔ محمد باقر آگاہ کی نثر میں عبارت آرائی کے بجائے عام بات چیت کی سطح پر سلاست بیان قائم رہتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ نثر کا زور نقطہ نظر کی وضاحت پر ہے۔ اردو میں تنقیدی نثر کی روایت کے یہ والین نمونے ہیں، جن کا رشتہ سر سید احمد خان اور حالی کی نثر سے ہوتا اور ہمارے دور کی نثر سے آملتا ہے۔
(تاریخ ادب اردو جلد 2، حصہ دوم۔ص:1011)

یوں تو باقر آگاہ کے سبھی نثری دیباچے اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں تاہم تحقیقی ، تنقیدی، لسانی، اور علمی نقطہ نظر سے "مثنوی گلزار عشق" اور دیوان ہندی( اردو) کے دیباچے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
مثنوی گلزار عشق کی تاریخ تصنیف ڈاکٹر افضل اقبال ، ڈاکٹر جمیل جالبی ، علیم صبا نویدی، ڈاکٹر محمد علی اثر نے 1210ھ مطابق 1795ء لکھی ہے لیکن ڈاکٹر راہی فدائی نے اول الذکر محقق کے حوالے سے اسے غلط قرار دیا ہے۔ حالانکہ خود باقر آگاہ نے اس مثنوی کی تاریخ تصنیف درج ذیل شعر کے دوسرے مصرے کے اعداد سے نکالی ہے:
ہوا ہاتف دعا نے زمزمہ سنج
گلشن راز حسن و عشق آباد
1210ھ

اور یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اس مثنوی کا دیباچہ 1211ھ مطابق 1796ء میں لکھا گیا ہے گلزار عشق کے دیباچے کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آگاہ کے دور میں دکنی اردو کا ادبی سطح پر چلن ختم ہوگیا تھا اور اس کی جگہ شمالی ہند کی اردو یعنی ریختہ نے لے لی تھی۔ اسی لئے انہوں نے اس کتاب میں دکنی زبان کو چھوڑ کر محاورہ صاف اور شستہ کے قریب روز مرہ اردو اختیار کیا۔

آگاہ نے اپنے طویل نثری دیباچے میں ادبی سطح پر دکنی اردو کی خصوصیات کی وکالت کرتے ہوئے اس کی اہمیت اور افادیت کا ببانگ دہل دعوی کیا ہے کہ شمالی ہند کے اولین شعراء یہاں تک کہ سودا اور میر حسن کا کلام بھی دکنی شعراء کے مرتبے کو نہیں پہنچتا۔
گلزار عشق کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں کہ اکثر جاہلان بے معنی دہر زہ سرایان لایعنی، زبان دکنی پر اعتراض اور "گلشن عشق" و "علی نامہ" کے پڑھنے سے اعتراض کرتے ہیں۔ اور جہل مرکب سے نہیں جانتے کہ جب تک ریاست سلاطین دکن کی قائم تھی ، زبان اون کے درمیان اون کے خوب رائج اور طعن و شماتت سے سالم تھی۔ اکثر شعراء وہاں کے مثل نشاطی، و فراقی و شوقی و خوشنو اور غواصی و ذوقی و ہاشمی و نصرتی و مہتاب وغیرہم کہ بے حساب ہیں اپنی زبان میں قصائید وغزلیات و مثنویات و مقطعات نظم کئے اور داد سخنوری کا دے۔۔۔

باقر آگاہ دکنی منظومات کو اس لئے بلند پایہ اور ملک الشعرا نصرتی کو سب شاعروں کا سرخیل قرار دیتے ہیں اور شمالی ہند کے شاعروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ کسی نے معتبر اور مقبول مثنوی نہیں لکھی۔ صرف غزلیں ، قصیدے اور قطعات یا مرثیے لکھے ہیں۔ سحر البیان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس عصر میں حسن دہلوی ایک مثنوی مختصر لکھا۔ بر خلاف شعرا ئے دکن کے کہ اکثر مثنویات کہی ہیں۔ بالاتفاق غزل بولنا آسان اور مثنوی کا کہنا دشوار و گراں ہے۔"

مثنوی گلزار عشق کے دیباچے سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ آگاہ کے زمانے میں دکن کے شعراء شمالی ہند کے شاعروں سے اور شمالی ہند کے سخنور دکن کے معاصر شعراء سے بڑی حد تک واقف تھے۔ چنانچہ آگاہ کے اس دیباچے میں اپنے ہم عصر شعراء جیسے ، درد، مظہر، فغاں، یقیں، سوز، آبرو،آزردہ،سودا، تاباں، شاہ ندیم اللہ ندیم، شیخ محمود، بحری وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے کسی دیباچے میں یا دیوان میں کہیں بھی میر تقی میر کا ذکر نہیں ملتا۔

آگاہ کے اردو دیوان کا تعارف سب سے پہلے پروفیسر عبدالقادر سروری نے اپنے تحقیقی مضمون"محمد باقر آگاہ" مطبوعہ رسالہ اردو اپریل 1929ء میں کروایا تھا۔ جس کا نسخہ انہوں نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب سے مستعار لیا تھا۔ اس دیوان کی توضیح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
" یہ دیوان 179 اوراق پر ختم ہوتا ہے اور ہر صفحہ میں 14/سطور ہیں۔ خط نستعلیق شکستہ ہے عنوانات مقطع میں تخلص اورکہیں کہیں کچھ شعر سرخی سے لکھے ہوئے ہیں۔ کاتب کا نام اور سنہ کتاب کہیں درج نہیں۔"
(ص۔295)

پروفیسر سروری نے نسخہ کی اندرونی اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کی اہے کہ اس دیوان کی کتابت 1240ھ سے پہلے ہو چکی تھی۔
اس کے بعد پھر جب انہوں نے جامعہ عثمانیہ کے اردو مخطوطات کی توضیحی فہرست مرتب کی تو وہاں بھی سرسری طور پر دیوان آگاہ کی توضیح کی کرتے ہوئے لکھا ہے:
"یہ محمد باقر آگاہ شافعی قادری ویلوری کا ہندی(اردو) دیوان ہے تمام اصناف سخن پر مشتمل ہے۔ قصاید سے اس کا آغاز ہوتا ہے ، جن کی تعداد دس ہے ان کے بعد غزلیں اور غزلوں کے بعد قطعات ورباعیات مستزاد ، قطعات افراد کبت، دہرے اسی ترتیب سے درج ہیں ایک رباعی تلنگی زبان کی ایک فرداردوی(تمل) زبان میں بھی موجود ہے۔"
(ص 27)

راقم الحروف کا ایک مضمون "باقر آگاہ جدید تحقیق کی روشنی میں" مشمولہ "سب رس" حیدرآباد بابتہ اگست 1994ء میں شائع ہوا تھا۔ جس میں آگاہ کے اردو دیوان کے چار نسخوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ (دیوان آگاہ کے ان قلمی نسخوں کا عکس راقم کو جناب علیم صبا نویدی نے فراہم کیا تھا۔)
ڈاکٹر ذاکرہ غوث مرحومہ نے اپنا ایم۔ لٹ کا مقالہ 1995ء میں شائع کیا جس میں دیوان آگاہ کے قلمی نسخوں کا قدرے تفصیل سے تعارف کروایا گیا ہے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ:
"جہاں تک مجھے علم ہے کہ دیوان یا اس کا کوئی بھی حصہ اب تک طبع نہیں ہوا۔"
(ص 415)

حالانکہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے مثنوی گلزار عشق کا دیباچہ صحیفہ لاہور میں اور پروفیسر سروری نے"دیوان آگاہ" کا نثری دیباچہ تمام و کمال "رسالہ اردو" میں شائع کردیا ہے اور ڈاکٹر ذاکرہ غوث کی کتاب کی اشاعت (1995ء) سے ایک سال قبل 1994ء میں علیم صبا نویدی نے آگاہ کی غزلوں اور رباعیوں کا ایک بسیط انتخاب باقر آگاہ کی کتابوں کے تنقیدی دیباچوں کے ساتھ اپنی کتاب"باقر آگاہ کے ادبی نوادر" میں شائع کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کا تذکرہ خود ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب (ص10) میں موجود ہے۔

ڈاکٹر راہی فدائی نے اپنی کتاب "دارالعلوم لطیفیہ کا ادبی منظر نامہ" میں دیوان آگاہ کی تنقیدی اہمیت کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا ہے۔ تاہم موصوف کے پیش نظر "دیوان آگاہ" کا کون سا یا کتنے نسخے رہے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
(ص148)

دیوان آگاہ دو حصوں میں منقسم ہے۔
حصہ اول میں ابتداً ایک طویل اور معرکۃ الآراء نثری مقدمہ ہے جو تقریباً بیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں شعر و سخن اور شاعری کے مختلف اصناف کے بارے میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ آگاہ کا یہ مقدمہ بالکل اسی اہمیت کا حامل ہے جیسا کہ مولانا الطاف حسین حالی کا "مقدمہ شعر و شاعری" جسے انہوں نے اپنے دیوان کے مقدمے کے طور پر 1302ھ۔ 1894ء میں قلم بند کیا تھا۔ جو بعد کو مقدمہ شعر و شاعری کے عنوان دیوان حالی سے علاحدہ کر کے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب عہد حالی سے حالیہ عرصہ تک اردو تنقید کا نقش اول سمجھی جاتی رہی۔

آگاہ کے دیوان کی داخلی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ترتیب و تدوین 1210ھ سے 1212ھ کے درمیان عمل میں آئی۔ پروفیسر سید جعفر نے دیوان آگاہ کے زمانہ ترتیب کے بارے میں قیاس آرائی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آگاہ نے 35 سال کی عمر میں اپنادیوان مرتب کرلیا ہوگا کیونکہ شاعری خصوصاً غزل عہد شباب کی پیداوار ہوتی ہے(دکنی رباعیاں ص210) ڈاکٹر صاحبہ کا یہ بیان اس لئے محل نظر ہے کہ دیوان کے مقدمے میں آگاہ کی تمام اردو تصانیف کا تذکرہ موجود ہے جو اس سے قبل منظر عام پر آچکی تھیں اور خود مصنف نے اس بات کی اطلاع دی ہے کہ:
" یہ حقیر نارس آگے تیس بتیس برس کے کیا فارسی اور کیا ہندی(اردو) سب اقسام میں نظم کیا تھا اور ان سب کو بعد انتقال مرشد قد س سرہ دھو ڈالا۔"
(دیوان آگاہ قلمی)

دیوان آگاہ کے نثری دیباچے میں شعروشاعری سے بحث کرتے ہوئے مصنف نے اپنی مثنوی گلزار عشق کے نثری دیباچے کا حوالہ بھی دیا ہے۔ آگاہ نے صرف اس دیوان اور مثنوی گلزار عشق پر ہی دیباچے نہیں لکھے۔ بلکہ ان کی درج ذیل دیگر منظوم کتابوں میں بھی نثری دیباچے موجود ہیں۔
1۔ ہشت بہشت 2۔ریاض الجنان 3۔فرائد در فوائد 4۔محبوب القلوب 5۔تحفۃ الاحباب 6۔خمسہ متبحرہ اوج آگاہی

باقر آگاہ نے جس طرح اپنی سات مثنویوں اور اردو دیوان کے نثری دیباچے لکھے ہیں اس کے مقابلے میں شاعری کے میدان میں ان کا قلم اور زیادہ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔ محمد یوسف کوکن باقر آگاہ کے عربی، فارسی اور اردو تصانیف کی تعداد 303 اور ایک جگہ 555 بتاتے ہوئے اطلاع دیتے ہیں کہ:
"آگاہ نے عربی فارسی اور دکنی میں بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کل تعداد 303 ہے اور محبوب القلوب کے پہلے صفحے پر555 بتائی گئی ہے۔"
(باقر آگاہ ص59۔60)

اسی طرح تذکرہ گلزار اعظم کے مولف کا بیان ہے کہ:
"اوقات عزیزہ خررابتالیف و تصنیف کتب فنون جدا گانہ نظما و نثر اور زبان عربی و فارسی و ہندی معروف گردرئندہ جملہ تصانیف اودرالسنہ ثلاثہ ازروئے حساب ابیات زیادہ از پنجاہ ہزار راست ہر یکے از انہا مشتھر و برگزیدۂ روزگار"
(باقر آگاہ از یوسف کوکن ص60)

یوسف کوکن اور ڈاکٹر ذاکرہ غوث نے آگاہ کی آٹھ عربی 30 فارسی اور 12 ہندی (اردو) کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔
(مولانا باقر آگاہ ویلوری ، ذاکرہ غوث ص206)

ڈاکٹر ذاکرہ غوث نے ڈاکٹر زور، افسر صدیقی ، نصیر الدین ہاشمی اور ڈاکٹر محمد غوث کی تقلید میں آگاہ کی پہلی دکنی تصنیف کا نام"عقائد آگاہ" ہی لکھا ہے جب کہ خود آگاہ نے مثنوی ہشت بہشت کے دیباچے میں اس کا نام رسالہ عقائد بتایا ہے۔
( تذکرہ اردو مخطوطات جلد اول ترمیم و اضافہ محمد علی اثر،ص78)

آگاہ نے اپنے دیوان کے مقدمے کی ابتدا میں شاعری کے بارے میں اظہار خیال کیاہے۔ اس کے بعد انہوں نے فائدہ کے عنوان سے 6 فائدے لکھے ہیں اور ان فائدوں کے تحت الگ الگ موضوعات جیسے ریختہ کسے کہتے ہیں، قوانین عروض و قوافی ، صنائع بدائع ، فارسی اصناف سخن، قصیدہ ت، تشبیب،مسمط ترجیح یا ترکیب بند۔مثنوی، غزل اور قصیدے کا فرق اور مختلف اصطلاحات سخن کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ڈاکٹر ذاکرہ غوث لکھتی ہیں:
"آگاہ کے دیوان کا دیباچہ 20 صفحات پر مشتمل ہے اور یہ ارد و ادب میں ایک اہم اقدام کہاجاسکتا ہے۔ اس کو آگاہ کے اولیات میں شامل کیاجاسکتا ہے۔، یہ اردو ادب کی تاریخ و تنقید کا اولین قدم ہے"۔

نثری دیباچے کے بعد دیوان کے پہلے حصے کا آغاز ہوتا ہے جس میں ابتداً دس قصیدے ہیں، ان میں سے دو قصیدے آگاہ کی ایک اور مثنوی محبوب القلوب سے لئے گئے ہیں۔ قصاید آگاہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے سلاطین، امرا یا رؤسا کو خوش کرنے کے لئے کوئی قصیدہ نہیں لکھا۔ ان کے تمام قصائد حمد یہ، نعتیہ اور منقبتی ہیں۔یہاں تک کہ باوجود نواب محمد علی والا جاہ کی عنایتوں کے ان کی مدح میں آگاہ نے ایک بھی قصیدہ نہیں لکھا پہلا قصیدہ" طلم گنج توحید" دومطلوں اور 125/اشعار پر مشتمل ہے۔ آگاہ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "عربی فارسی اور ہندی میں ایسا قصیدہ نظر نہیں آیا۔"

دوسرے قصیدے کا عنوان " قصیدہ صبح بہار در بیان گلجوشی معجزات ولادت سید الابرار" ہے۔ جو 55/ابیات پر محیط ہے۔تیسرا قصیدہ22/اشعار کا احاطہ کرتا ہے جس کا نام قصیدہ مثبب ہے بوریہ در سفت حضرت سید الوریٰ ہے۔ چوتھا قصیدہ 105/ ابیات پر پھیلاہوا ہے جس کا عنوان"مرات تجلی احدی در بیان شمائل حسن مطلق حبیب محمدی ہے۔"پانچواں قصیدہ 3 مطالع اور 0 اشعار کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کا عنوان ہے"گل سر سید بات سید ازل و ادب" ،چھٹے قصیدہ کا عنوان فتح بین در نعت حضرت رحمت اللعالمین جو تین مطلعوں اور 25/اشعار پر مشتمل ہے۔ ساتواں قصیدہ 135/اشعار اور دو مطلعوں پر مشتمل ہے ، جس کانام آگاہ نے اشغاثہ فرین بہ جناب سید الشافعین" ہے۔ آٹھواں قصیدہ حضرت بی بی فاطمہ کی مدح میں کہا گیا ہے ،۔121 اشعار پر مشتمل اس قصیدے کو"جلاء الروح در حقیقت سیدہ اہل فتوح" ہے۔

دیوان آگاہ کے آخری دو قصیدے حضرت محبوب سبحانی کی منقبت میں ہیں اوریہ وہی ہیں جو آگاہ نے محبوب القلوب کے آخر میں شامل کئے تھے۔ نواں قصیدہ 55 شعر پر مشتمل ہے جس کا نام انہوں نے نیر اعظم رکھا ہے ، دسویں اور آخری قصیدہ کا نام"مفرح القلوب و مفرج الکروب بہ قول پروفیسر سروری قصاید آگاہ فارسی کے متبع ہیں اور اس خصوص میں سودا کا رنگ کچھ ان سے زیادہ جدا نہیں۔

قصاید کے بعد دیوان کے پہلے حصے سے آگاہ نے ایک مثنوی شامل کی ہے جس کا عنوان ترجمہ ابیات ستہ جناب مرتضوی حضرت بھی مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ "یہ مثنوی 109 /اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد دو سلام اور سات مرثیے ہیں۔پانچ مرثیے مسبط مربع ہیں ایک مسمط مسدس اورایک مسدس مثمن ہے۔ سلام اور مرثیہ کے اشعار کی تعداد درج ذیل ہیں:
سلام نمبر-1 (14 شعر) سلام نمبر-2 (14شعر) مرثیہ نمبر ایک( 4شعر) مرثیہ نمبر-2 (20شعر) مرثیہ نمبر-3 (28شعر) مرثیہ نمبر-4 (12شعر) ، مرثیہ نمبر-5 (10شعر) مرثیہ نمبر-6 ( 15شعر) مرثیہ نمبر-7 (28شعر)

مرثیوں کے اختتام پر دیوان کا پہلا حصہ مکمل ہوتا ہے۔ دیوان کا دوسر احصہ 383 غزلوں 180/رباعیوں ، آٹھ قطعات 76 متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ آخر میں تلگو زبان میں ایک رباعی ، اروی(ٹمل) زبان میں ایک فرد اور چند کبت اور دوہرے بھی مرقوم ہیں۔

دیوان آگاہ کے نثری دیباچے کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے بڑی نپی تلی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے۔
"اردو کے کسی شاعر نے اپنے ارد و دیوان پر اب تک اس قسم کا مقدمہ اردو زبان میں نہیں لکھا تھا جس سے اس کے تنقیدی شعور، اصول فن اور نقطہ نظر کی وضاحت ہوتی ہو۔ باقر آگاہ کے سارے دیباچے جدید اردو تنقید کی روایت کے اولین نقوش ہیں۔، جس میں تحقیق اور تنقید کے ساتھ نثر کا تنقیدی اسلوب بھی موجود ہے۔ گلزار عشق ، ریاض الجنان وغیرہ کے دیباچوں کے مقابلے میں دیوان اردو کے دیباچے میں فارسیت زیادہ ہے لیکن نثر کا اردو پن اس میں بھی اسی طرح موجود ہے۔ صرف فنی مباحث اور موضوع کی مناسبت سے طرز ادا میں تبدیلی آئی ہے۔ باقر آگاہ نثر اس طرح لکھتے ہیں جیسے ایک اچھا استاد اپنے طالب علموں کو سمجھانے کے لئے طرح طرح کے جتن کرتا ہے۔ باقر آگاہ کی نثر کو اس دور کی نثر میں رکھ کر دیکھے تو اس کی سادگی و سلاست اور قوت اظہار اسے اس دور میں منفرد بنادیتی ہے۔"
(ڈاکٹر جمیل جالبی تاریخ ادب اردو جلد دوم،حصہ دوم،ص1019)

اس دیوان کے متعلق ڈاکٹر مسیح الزماں نے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے :
"یہ دیباچہ اس وقت کی تمام نثری تحریروں میں ایک خاص امتیاز رکھتا ہے۔ جس اختصارو جامعیت کے ساتھ اصناف نظم پر اس میں بحث کی گئی ہے اس کی مثال اس وقت کی دکنی تحریروں میں نہیں ملتی۔
(اردو تنقید کی تاریخ ص73)

مولانا باقر آگاہ دارالعلوم لطیفیہ ویلور کے فارغ التحصیل تھے۔ ڈاکٹر راہی فدائی نے ویلورے کے مدارس کی علمی و ادبی خدمات کے موضوع پر تحقیقی کے مقالہ سپرد قلم کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اس مقالے کو انہوں نے دو حصوں میں مدرسہ باقیات الصالحات کے علمی اور ادبی کارنامے اور دارالعلوم لطیفیہ ویلورہ کا ادبی منظر نامہ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔آخر الذکر کتاب میں موصوف نے مولانا آگاہ کی علمی و ادبی اور تحقیقی و تنقیدی خدمات کا سیر حاصل جائزہ لیا ہے۔ آگاہ کے اردو دیوان کے نثری مقدمے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے:
"حضرت آگاہ نے اردو دیوان کے دیباچے میں مختلف علمی و تنقیدی بحثیں کی ہیں۔ اس طرح کے مباحث ان سے پہلے کسی شاعر نے نثر اردو میں نہیں کئے۔"
وہ آگے چل کر لکھتے ہین:
"آپ نے اشعار میں جدید خیالات پیش کرنے پر زور دیا اور خلاف شرع مضامین نہ باندھنے کی تلقین بھی کی۔ معائب سخن، عیوب قافیہ مثلاً ایطا، جلی اور قافیہ شایگاں وغیرہ کی بھی وضاحت کی۔ اہل زبان پر گرفت کرتے ہوئے الفاظ کے صحیح تلفظ کی تاکید فرمائی اور بعض شعری اصطلاحات مثلاً مصرح حروف ردی اور اریب وغیرہ الفاظ کی عمدہ تعریف کی۔ آپ نے شعراء کے لئے فنی طور پر ایک ضابطہ عمل مقرر کیا۔
( دارالعلوم لطیفیہ ویلور کا ادبی مناظر نامہ ص152)

جہاں تک کلام آگاہ کا تعلق ہے آگاہ نے اپنے دیوان میں تجرباتی طور پر دکنی زبان سے انحراف کرتے ہوئے اردو کے بھاکے میں صاف و شستہ انداز میں شعر کہنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے ان کی زبان و بیان میں وہ رنگینی، دلکشی اور کشش نظر نہیں آتی جو ان کی ابتدائی شاعری کی امتیازی خصوصیت ہے۔

دیوان آگاہ کا آغاز حمدیہ غزل سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد فخر موجودات سرور کائنات ﷺ کی نعت مبارک ہے۔ حمد و نعت کے چند منتخب اشعار ملاحظہ ہوں۔:

اے حسن و عشق کو ترے جلوے سیں ابتداء
ہر عین کو ہے تیری تجلی سے ابتداء

آگاہ کیا سب انفس و آفاق دم بدم
کرتے ہیں حمد تیرا بھی کچھ نہیں ادا

اس چہرۂ پرنور کے جلوے کا اجالا
اک پل میں اندھیرے کو عدم کے سب اجالا

ہمارا مقصد کونین آگاہ
محمد ہے محمد ہے محمد

آگاہ کے ایک شعرکا مفہوم میر تقی میر کے مضمون سے لڑ گیا ہے ، میر کامشہور شعر ہے:
سب پہ جس بارنے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لیا

آگاہ کہتے ہیں:
سر پر اٹھا لیا ہوں بس اپنے وہ بار کو
عالم تمام جس کو اٹھانے سے ہٹ گیا

ممکن ہے کہ میر اور آگاہ دونوں نے فارسی کے اس مشہور شعر سے استفادہ کیا ہو:
آسمان بار امانت نتو انست
قرعۂ فال بنام من دیوانہ روند

دکنی اردو اور بول چال کے انداز میں کہے گئے آگاہ کے کلام میں بعض اشعار سادگی اور برجستگی و اثر انگیزی کے حسن سے مالا مال نظر آتے ہیں۔ چند شعر دیکھئے:

لیا بولوں ترے کا کل کبری کے پیچ و تاب
ہے ہر شکن سے جس کے مری جان وتن میں دھوم

ایک پر تو تجلی خسار سے ترے
ہر ذرہ آفتاب ہوا کیامزہ ہوا

اماں چہتا ہے گردان فتن سے
شتابی سوں نکل چیناپٹن سے

زخم اس سوکے کی کاری ہے خدا خیر کرے
لو ہو سیلاب سا جاری ہے خدا خیر کرے

کسو سے آشنا خدا نہ کرے
گر کرے کوئی دم جدا نہ کرے

گیا اس دل کے لٹکے پر لٹک دل
پڑا کس دام آفت میں اٹک دل

نظر بند اس کے تئیں کرتا میں آگاہ
سمجھتا یوں گر ککہ جاتا یوں سنگ دل

دنیا سے حیا والوں کا دل کیوں لگے آگاہ
ہر لحظہ یہ قحبہ کو ہے اک نیا دھگڑا

اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے میں اردو دنیا کومولانا باقر آگاہ ویلوری کے مکمل دیباچوں سے متعارف کروانے والے اور مولانا آگاہ کی شاعری اور نثر نگاری کی خصوصیت کا بھرپور جائزہ لینے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق حضرت علیم صبا نویدی کی خدمت میں دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے نہ صرف محنت و لگن اور مسلسل انہماک سے مولاناباقر آگاہ ویلوری کے روشن علمی و ادبی جزیرے کو دریافت کیا ہے بلکہ ماہرین تاریخ اردو ادب کی جھولی میں ایک اور نایاب خزانے کااضافہ کیا ہے۔

***
ماخوذ از کتاب: اردو ادب کا اولین نقاد مولانا باقر آگاہ ویلوری
مصنف: علیم صبا نویدی (سن اشاعت:2009)

Moulana Baqar Agaah Vellori, the first critic of Urdu Literature.

2 تبصرے: