مضمون لکھنے کے طریقے - از علامہ اخلاق دہلوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-01

مضمون لکھنے کے طریقے - از علامہ اخلاق دہلوی

ways of writing an urdu essay


پہلا قاعدہ
سوالات سے مضمون کی تیاری
کم سن نو آموز یا وہ مبتدی جنہیں ابھی تک مضمون نگاری سے سابقہ نہیں پڑا۔ اور ان کے دماغ میں معلومات کا ذخیرہ فراہم نہیں اور وہ کسی عنوان پر غوروخوض کے عادی نہیں۔ ان کے لئے سہل تدبیر یہ ہے کہ ابتداً ان سے موضوع سے متعلق سوالات کئے جائیں اور جو جواب وہ دیں ان ہی سے ان کو ترتیب وار لکھوایاجائے۔ ان کے لئے وہی ایک مختصر مضمون ہوجائے گا اور چوں کہ اس تدبیر سے مبتدی پر زیادہ بار نہیں پڑے گا۔ بلکہ وہ اس کامیابی سے فرحت محسوس کرے گا۔ اس لئے مضمون نگاری سے اس کی طبیعت ابانہ کرے گی۔ بلکہ شوق بڑھے گا اور ترقی کرنے کے جذبات برانگیختہ ہوں گے جو کامیابی کا پیش خیمہ ہے۔

تمثیلی مضمون
گائے
(سوالات)
(1) گائے کسے کہتے ہیں؟(2) گائے پالتو جانور ہے یا جنگلی؟ وہ پرند ہے یا چوپایہ(3) گائے نر ہے یا مادہ؟اور کس کی مادہ ہے؟(4) اس کا رنگ کیسا ہوتا ہے؟(5) وہ کیا دیتی ہے؟(6) دودھ کس کام آتا ہے؟(7) اس کا دودھ فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟(8) وہ کیا کھاتی ہے؟(9) اسے اور بھی کچھ کھلایاجاتا ہے یا نہیں؟(10) دانہ اور کھل کھلانے سے کیا فائدہ؟(11) گائے مرکھنی ہوتی ہے یا نہیں؟

جوابات
گائے
گائے ایک قسم کا جانور ہے۔ وہ پالتور جانور ہے اور چوپایہ ہے۔ وہ نر نہیں مادہ ہے اور وہ بیل کی مادہ ہے۔ اس کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ وہ دودھ دیتی ہے۔ اور اس کا دودھ پینے کے کام آتا ہے اور وہ بہت مفید ہوتا ہے۔ وہ گھاس پھونس کھاتی ہے۔ اسے دانہ اور کھل بھی کھلاتے ہیں۔ دانہ کھلانے سے دودھ بڑھتا ہے۔ اور کھل کھلانے سے دودھ گاڑھا ہوتا ہے۔ عموماً گائے مرکھنی نہیں ہوتی۔ وہ بہت غریب جانور ہے۔

اسی طرح بہت سے سوالات کئے جاسکتے ہیں۔ اور ان کے جوابات سے مضمون کو بڑھایاجاسکتا ہے۔ البتہ ترتیب میں حروف عطف کا اضافہ کرنا پڑتا ہے۔
الغرض رفتہ رفتہ استعداد کو ترقی دیتے رہنے اور غوروفکر کی مشق کراتے رہنے سے قلیل مدت میں خود مضمون لکھنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے۔

دوسرا قاعدہ
جب کسی مبتدی میں اتنی استعداد ہو کہ وہ خود سوالات کرسکے تو اسے موقع دینا چاہئے اور اسی سے سوالات کرانے چاہئیں۔ اور سوالات کو لکھوادیا جائے بعد ازاں جو ابات دریافت کئے جائیں۔ اور حاصل کردہ جوابات کو ترتیب سے لکھوادیا جائے۔ یہی اس کے لئے ایک مختصر مضمون بن جائے گا۔
البتہ بتدریج اس کو بھی غوروفکر کا عادی بنایاجائے اور اس کی استعداد کو ترقی کرنے کے مواقع دئے جائیں۔ اس طرح بہت جلد اس میں خود مضمون لکھنے کی جرات پیدا ہوجائے گی اور کامیابی حاصل ہوگی۔

تیسرا قاعدہ
پہلے سوچو پھر لکھو!
متوسط درجے کے مضمون نگار جن کے دماغ کسی قدر تربیت یافتہ ہوں اور معلومات کا ذخیرہ بھی رکھتے ہوں ان کے لئے یہ تدبیر کارآمد ہے کہ جس عنوان پر انہیں لکھنا ہے۔ پہلے وہ کچھ دیر اس کے متعلق غوروخوض کریں۔ اور اس کے ہر پہلو پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ اس عنوان کے تحت کیا کیالکھا جاسکتا ہے۔
بلا شبہ غوروفکر کے دوران میں خیالات کا ہجوم بڑھ جائے گا۔ جن میں سے کچھ موضوع سے متعلق ہوں گے اور کچھ نہیں۔ جو متعلق نہیں انہیں بیک نظر قلم زد کردینا چاہئے۔ اور جو متعلق اور کارآمد ہوں انہیں منتخب کرلینا چاہئے اور چوں کہ فی الوقت تمام و کمال خیالات کو قلم بند نہیں کیاجاسکتا۔ لہٰذا یادداشت کے طور پر کچھ اشارات لکھ لینا چاہئیں۔
اس تدبیر سے دماغ کا بار ہلکا ہوجاتا ہے اور اسے مزید غوروفکر کا موقع مل جاتا ہے۔ اور وہ کچھ اور معلومات فراہم کردیتا ہے۔ اور اس طرح موضوع کے تمام پہلو پیش نظر آجاتے ہیں۔ حتی کہ وہ چیزیں بھی سامنے آجاتی ہیں جو دماغ کے پردوں میں پنہاں اور قلب کی پنہائیوں میں روپوش ہوتی ہیں۔ اور جو مضمون کی جان سمجھی جاتی ہے۔
بہر حال جب اس طرح اشارات جمع ہوجائیں تو سلیقے سے مضمون مرتب کرلینا چاہئے۔ یہ صورت مفید بھی ہے اور بہ کار آمد بھی اور عموماً عمل درآمد بھی اسی پر ہے۔

مضمون کی تدوین
(تفصیلی طریقہ کار)
موضوع پر غوروفکر اور اشارات کو قلم بند کرنے کے بعد۔ ان میں سے پہلے ذیلی عنوانات الگ کرکے انہیں ترتیب دے لینا چاہئے۔ بعد ازاں ان میں سے ہر ایک کے تحت ان سے متعلق اشارات لکھے جائیں اور انہیں بھی مناسب طریق پر ترتیب دے لیاجائے۔
جب اس طرح خاکہ تیار ہوجائے تو اس کی مدد سے خیالات کو خوب سلجھا کر اور نہایت احتیاط سے الفاظ میں اد ا کردیاجائے۔ خیالات کو الفاظ کا لباس پہنانا اور ان کے لئے مناسب جملوں کا تلاش کرلینا بڑے صبر وتحمل کا کام ہے اور اگرچہ اس میں وقت لگتا ہے ، لیکن کوئی مضائقہ نہیں۔
غرض کہ اشارات کی مدد سے ہر ذیلی عنوان کے تحت نہایت سلیقہ مندی سے ضروری معلومات فراہم کردینی چاہئے۔ اور یہ کام جتنی احتیاط سے انجام دیاجائے گا ، مضمون اتنا ہی زیادہ قبولیت حاصل کرے گا۔ خواجہ حالی فرماتے ہیں:
"ہمیشہ وہی۔۔۔ زیادہ مقبول اور زیادہ لطیف زیادہ بامزہ زیادہ سنجیدہ اور زیادہ موثر ہوتا ہے جو کمال غوروفکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔"
(بحوالہ: مقدمہ شعر و شاعری، ص:48)

مضمون کی تدوین میں جلد بازی بہت مضر ہوتی ہے۔ کیوں کہ دیکھنے والے اس سے غرض نہیں رکھتے کہ وقت کتنا صرف ہوا ہے اور کتنا نہیں بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ مضمون کیسا ہے اور کیسا نہیں۔ اگر مضمون محنت سے مرتب کیا گیا ہے تو منکر سے منکر کو بھی ایمان لانا اور تسلیم کرنا پڑتا ہے اور اس کے برعکس ہے تو دوست بھی داد نہیں دیتے۔
مضمون کی تدوین کا کام بہت اہم ہے اور بہت کٹھن ہے ایک ایک لفظ کے لئے جان کھپانی پڑتی ہے۔ اور اسے خون جگر سے سینچنا پڑتا ہے۔ بہر حال اس مرحلے کو نہایت احتیاط سے اور کامل پرداخت سے سر انجام کرنا چاہئے۔

چوتھا قاعدہ
مضمون نگاری کا چوتھا قاعدہ یہ ہے کہ عنوان پر کچھ دیر غوروخوض کرلیاجائے اور دل ہی دل میں خیالات کو ترتیب دے لیاجائے ، بعد ازاں قلم بند کیاجائے۔توچوں کہ معلومات بالترتیب دماغ میں موجود ہوگی اس لئے وہ بہ سہولت مرتب ہوجائے گی۔ لیکن یہ بہت مشاقی اور مہارت کاکام ہے۔ اس لئے اس پر عمل بہت کم کیاجاتا ہے۔
البتہ قلت وقت یا چند سطری معلومات قلم بند کرنے کی صورت میں یہ قاعدہ مستعمل ہے۔ مگر ایسی تحریریں حیات جاوید اور قبول خاطر کی نعمت سے محروم رہتی ہیں۔

تہذیب و تنقیح
یا نظر ثانی
مضمون خواہ کتنی ہے کاوش و کوشش سے مرتب کیاجائے لیکن خیالات پر قابو پانا اور خوش اسلوبی سے جملوں میں ادا کرنا چوں کہ بہت کٹھن ہے اس لئے کسی نہ کسی سقم کا رہ جانا کوئی تعجب خیز امر نہیں۔
لہذا اس قسم کی فروگزاشت کو رفع کرنے کے لئے تہذیب و تنقیح، نقد و نظر اور باربار نظر ڈالنے کی سخت ضرورت ہے۔ علامہ ابن رشیق کتاب العمدہ میں رقم طراز ہیں:
جب۔۔۔ سر انجام ہوجائے تو اس پر بار بار نظر ڈالنی چاہئے اور جہاں تک ہوسکے اس میں خوب تنقیح و تہذیب کرنی چاہئے۔ پھر بھی اگر۔۔ جو دت اور خوبی پیدا نہ ہو تو اس کے دور کرنے میں پس و پیش نہ کرنا چاہئے۔۔۔ اگر اس کے دور کرنے میں مضائقہ کیاجائے گا تو ایک (فقرے) کے سبب سارا کلام درجہ بلاغت سے گرجائے گا۔"
(بحوالہ: مقدمہ شعر و شاعری، ص:48)

خواجہ حالی فرماتے ہیں:
جس قدر۔۔۔ زیادہ بیساختگی اور آمد معلوم ہو ، اسی قدر جاننا چاہئے کہ اس پر زیادہ محنت اور غوراور زیادہ حک و اصلاح کی گئی ہوگی۔" (حوالہ: ایضاً)

گویا کہ مضمون کے تیار ہوجانے کے بعد بھی اس کو اس نظر سے بار بار پڑھنا کہ جو نقائص رہ گئے ہیں ان کو رفع کردیاجائے، بے حد ضروری ہے اور جہاں تک ممکن ہو یہ عمل پیہم اور متواتر جاری رکھنا چاہئے۔
اگر دماغ کو آرام دینے کے لئے بار بار کی نقد و نظر کے درمیان کچھ وقفہ بھی ہوتو بہترہے۔ کیوں کہ بعض مطالب ذہن سے ایسے راسخ ہوجاتے ہیں کہ ان کے نقائص و معائب فی الوقت محسوس نہیں ہوتے اور جو ہوتے بھی ہیں ذہن ان کا بدل پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ البتہ جب دماغ آرام پالیتا ہے تو محسوس ہونے والے نقائص کا بدل پیش کردیتا ہے۔ اور نظر ان غلطیوں کو پکڑ لیتی ہے جو پہلی خواندگی میں نظر انداز ہوگئی تھیں۔
بہر حال ایک ایک لفظ کو جانچنا، ایک ایک جملے کو پرکھنا اور ایک ایک خیال کو ٹٹولنا اور ان کے باہمی ربط اور گردوپیش کے اثرات کا جائزہ لینا، حشوزوائد، اعتدالِ مبالغہ، روز مرہ ومحاورہ غرض کہ جملہ محاسن و معائب کلام کو سامنے رکھتے ہوئے حک و اصلاح اور تہذیب و تنقیح کا عمل جاری رکھنا ہوتا ہے۔ اور ایک ایک لفظ میں روح حیات پھوکنا۔ ایک ایک جملے میں جان ڈالنا اور ایک ایک خیال کو پیکر زندگی بنانا پڑتا ہے۔ اور خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ جب جاکر کہیں مضمون نگاری کا حق ادا ہوتا ہے اور مضمون معراج قبول حاصل کرتا ہے۔
خواجہ حالی فرماتے ہیں:
"جو لوگ تصنیف کے درد سے آگاہیں وہ جانتے ہیں کہ کلام میں ندرت اور قبولیت پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے ایک ایک لفظ میں مصنف کے خونِ جگر کی چاشنی نہ ہو اور جس قدر اس میں صفائی اور گھلاوٹ پائی جائے اسی قدر سمجھنا چاہئے کہ اس کی صفائی اور کاٹ چھاٹ میں دیر لگی ہے۔"
(حوالہ: حیات سعدی، ص:81 ، اشاعت:1896ء)

الغرض مضمون کی صفائی اور درستی میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑ اجائے اور پوری عرق ریزی اور تن دہی سے اس مرحلے کو طے کیاجائے کیوں کہ جس قدر اس میں جان کھپائی جائے گی مضمون میں اسی قدر دل آویزی پیدا ہوگی۔ چناں چہ اب تک جتنے نام اور ادیب اور اہل قلم گزرے ہیں اور ان کے جو مسودات دستیاب ہوئے ہیں ان کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا وہ کلام جو نہایت شستہ اور بے ساختہ ہے وہ انتہائی کاٹ چھانٹ اور حک و اصلاح کا نتیجہ ہے۔ ان میں تامل روارکھنا اور پس و پیش کرنا اپنی کوشش کو ضائع کرنا ہے۔

تنقیح طلب نقائص
نظر ثانی میں جن امور کو پیش نظر رکھاجاتا ہے۔ انہیں یہاں تفصیل سے درج کرنا۔۔ بے محل نہ ہوگا وہ ایک مستقل موضوع ہے اور اس پر متعدد کتابیں دستیاب ہوتی ہیں۔ البتہ بہ قدرضرورت چند اہم امور درج ذیل ہیں۔ جن کا نظر ثانی میں لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
(1) مطالعہ اور معلومات کی کمی۔
(2) الفاظ کے انتخاب اور ترتیب کی کوتاہی۔
(3) جملوں کے انتخاب اور ترتیب میں نقص۔
(4) خیالات کے انتخاب اور ترتیب و تسلسل میں قصور۔
(5) الفاظ اور جملوں کا صرفی اور نحوی پایہ اعتبار
(6) اجزائے جملہ کی ترتیب اور تقدیم و تاخیر
(7) خیالات کی ناہمواری ، کہیں سنجیدہ اور کہیں فرسودہ اور ازکار رفتہ۔
(8) عبارت کی ناہمواری۔ کہیں اختصار اور کہیں طوالت، کہیں سادہ۔ اور کہیں ادق۔ اور کہیں رنگین۔
(9) علاقۂ طوالی ، خیالات کے سلسلے میں سے کسی کڑی کا کم ہونا، جس سے مفہوم کے سمجھنے میں دشواری ہو۔
(10) تعقید۔ عبارت کے ردوبدل سے مفہوم کا کچھ سے کچھ سمجھاجانا۔
(11) حشووزوائد۔ زائد از ضرورت لفظوں یا جملوں کا ہونا۔ جن کی کمی سے اظہار مدعا میں کوئی نقص واقع نہ ہو۔
(12)مترادف الفاظ کی کثرت اور بھرمار۔
(13) توالی اضافات۔ اضافتوں کی کثرت اور زیادتی۔
(14) مبالغہ۔ جو اعتدال سے متجاوز ہو اور قرین قیاس نہ ہو۔
(15) خلاف محاورہ۔ بعض ان الفاظ کا استعمال جو صحیح تو ہوں لیکن محاورے اور روز مرہ کی بول چال کے خلاف ہوں۔ ادق ثقیل اور متروک الفاظ اسی مد میں آتے ہیں۔
(16) موثر عبارت کی کمی۔
(17) متضاد خیالات کا اجتماع
(18) ناظرین کے رجحان اور مذاق کی رعایت نہ ہونا۔
(19) تجربے یا مشاہدے کے خلاف کسی خیال کا ہونا۔
(20) حک و اصلاح اور نظر ثانی میں غفلت برتنا یا جلد بازی کرنا۔
(21) تدوین میں کوتاہی یا سہل انگاری۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے مضامین و مقالات شاذونادر ہی ہونگے جو خطاؤسہو سے بری ہوں۔ اسی لئے یہ زیادہ اہم ہے کہ تنقیح و تہذیب اور حک و اصلاح میں زیادہ جان کھپائی جائے اور توجہ مرکوز کی جائے اور کوتاہیوں کو رفع کیاجائے خواہ اس میں کتنا ہی وقت صرف ہو اور کتنی ہی کھکیڑ اٹھانی پڑے۔
بعض نازک طبع مضمون نگار ردوبدل اور ترمیم و تنقیح کے عمل پیہم سے جان چراتے اور گھبراتے ہیں۔ اور بعض اوقات مصنف اور مضمون نگار بننے کی خواہش انہیں عجلت اور جلد بازی پر آمادہ کرتی اور اکساتی ہے۔ اور یہ بڑے عیب کی بات ہے ، جلد بازی سے ساری محنت خاک میں مل جاتی ہے۔ اور بسا اوقات ایسی لغزشیں رہ جاتی ہیں جو قابل ندامت ہوتی ہیں۔ اور جو صرف محنت اور غوروفکر ہی سے رفع ہوسکتی ہیں۔
لہذا ہر مضمون نگار کا یہ اہم فرض ہے کہ وہ کامل توجہ اور انہماک سے اس مرحلے کو انجام دے اور مضمون کے نقائص رفع کر کے اس کو جاذبیت کی جلوہ گاہ بنادے اور اسی میں قبولیت کا راز ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

***
ماخوذ از کتاب:
مضمون نگاری (اشاعت: 1968ء)۔

The ways of writing urdu essays. Article by: Allama Akhlaq Dehlvi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں