گاندھی بابا کی کہانی - از قدسیہ بیگم زیدی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-02

گاندھی بابا کی کہانی - از قدسیہ بیگم زیدی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

Gandhi Baba Ki Kahani (kids Urdu Literature) by Qudsia Begum Zaidi
قدسیہ بیگم زیدی (اصل نام: امۃ القدوس عبداللہ) (پ: 23/دسمبر 1914 ، م: 27/دسمبر 1960)
جدوجہد آزادئ ہند کے ایک علمبردار خان بہادر عبداللہ کی چھوٹی صاحبزادی تھیں، جن کے اجداد کا تعلق کشمیری برہمنوں کی ایک ذات سے تھا۔ اردو کے نامور مزاح نگار پطرس بخاری، قدسیہ زیدی کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ شاہی ریاست رامپور کے وزیراعلیٰ بشیر حسین زیدی سے قدسیہ کی شادی 1937ء میں انجام پائی تھی۔ معروف اسکرین پلے رائٹر، کاسٹیوم ڈیزائنر اور تھیٹر کی شخصیت شمع زیدی، انہی دونوں کی دختر ہیں۔
بچوں سے اپنی فطری دلچسپی کے سبب قدسیہ زیدی، ادب اطفال کے ذریعے بچوں کے دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے کاز میں منہمک رہیں۔ ے اپنے قلم کو صرف بچوں کے لئے وقف رکھا اور بچوں کے ادب کو خوب سے خوب تر بنا کر پیش کرنے کی لائقِ تحسین کوشش کی۔ انہوں نے بچوں کے لئے کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے اور معلوماتی مضامین بھی، ساتھ ہی مغربی زبانوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا، لیکن ان کا سب سے اہم کام ان کی وہ باتصویر کہانیاں ہیں جن کا مقابلہ مغربی ادب سے بجا طور کیا جا سکتا ہے۔
ادبِ اطفال کے تحت ان کی ایک اہم اور دلچسپ کتاب "گاندھی بابا کی کہانی" ہے جو مہاتما گاندھی کی سوانح حیات کو ایک کہانی/ڈرامے کی شکل میں بچوں کے سامنے پیش کرتی ہے۔گاندھی جینتی کے موقع پر اردو داں قارئین کی نئی نسل کی خدمت میں یہی کتاب پیش ہے۔ تقریباً نوے صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 3.5 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس کتاب کا پیش لفظ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے تحریر کیا تھا، وہ لکھتے ہیں ۔۔۔

کوئی ایک سال ہوا قدسیہ زیدی نے مجھ سے اس کتاب کے لیے، جو بچوں کے واسطے لکھی گئی ہے، تمہید کے چند لفظ لکھنے کی فرمائش کی تھی۔ میں نے عذر کیا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے اور ایسی فرمائش پوری کرنے کو جی بھی نہیں چاہتا۔ مگر وہ اصرار کرتی رہیں کہ دیر سویر سے کچھ لکھ ضرور دیجیے۔ میرے لیے انکار کرنا مشکل ہوتا گیا۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے یہ چھوٹی سی کتاب سچے دل سے لکھی ہے، وہ اسے صرف ایک کتاب نہیں سمجھتی ہیں۔ یہ بھی ظاہر تھا کہ ان کے لیے گاندھی جی کی کہانی ایک بہت ہی اہم اور عزیز چیز ہے۔
میں بس اتنا جانتا ہوں کہ جب کبھی گاندھی جی کا خیال آتا ہے تو مجھے اپنی خامیاں اور کوتاہیاں بہت محسوس ہونے لگتی ہیں۔ گاندھی جی کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں تو رفتہ رفتہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس مضمون کا حق ادا نہ کر سکوں گا۔ ہم میں سے وہ لوگ جنہیں گاندھی جی کی شخصیت کے سائے میں رہنا اور پرورش پانا نصیب ہوا اور جنہوں نے ان کی عظمت اور ان کی اس قوت کے جلوے دیکھے ہیں جو طرح طرح سے ظاہر ہوئی تھی۔ وہ اپنی کیفیت دوسروں سے بیان نہیں کر سکتے۔ ہم میں سے ہر ایک کے دل میں الگ اور ایسا گہرا اثر ہے جسے اپنا ہی دل جانتا ہے، بیان کیسے کیا جائے؟ جو لفظ لکھیے، روز مرہ کا اور ادنی معلوم ہوتا ہے، جو بات کہیے بےحقیقت لگتی ہے اور طبیعت بےچین رہتی ہے کہ مطلب ادا نہیں ہو سکا۔
مگر پھر یہ بھی ہے کہ اس نسل کے لوگ جنہوں نے گاندھی جی کو دیکھا تھا اور ان کی شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو سے واقف ہو گئے تھے، گزر جائیں گے اور گاندھی جی کی یاد تازہ رکھنے کے لیے کچھ یادگاریں رہ جائیں گی، کچھ تحریریں اور کتابیں اور وہ روایتیں جو ہر قوم کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
گاندھی جی کو ہم سے جدا ہوئے ساڑھے چار سال ہو گئے ہیں۔ اب ان کا مقام ہندوستان کی تاریخ ہی میں نہیں، اس کی پُرانوں اور کتھاؤں میں ہے۔ وہ ان عظیم الشان شخصیتوں میں شامل ہو گئے ہیں جو انسانیت کے راستے کو روشن کرنے، دلوں میں شرافت کا نور اور انسانوں میں ایک نئی جان ڈالنے کے لیے نمودار ہوتی رہتی ہیں۔
یہ مناسب ہے کہ ہمارے لڑکے، پوتے اور پڑپوتے بچپن ہی میں ان کی کہانی سنیں۔ اس میں رزمیہ داستان کی سی کیفیت ہے۔ اور اگرچہ ہمارے بچوں کو اب گاندھی جی کو جیتے جاگتے دیکھنا نصیب نہیں ہو سکتا، مگر انہیں گاندھی جی کی زندگی کے حالات اور ان کی تعلیم کا کچھ گیان ہو جائے گا اور وہ اس قدیم ہندوستانیت کو بھی سمجھ سکیں گے جس کی ایک اعلیٰ مثال گاندھی جی کی شخصیت تھی اور ان پیام کو سن سکیں گے جو ہندوستان اپنے سنتوں اور صوفیوں کی زبانی پہنچاتا رہا ہے اور جو گاندھی جی کا پیام تھا۔
- جواہر لال نہرو
نئی دہلی، یکم ستمبر 1952ء
اس کتاب کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے جناب مالک رام اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

31/جنوری 1948ء کو رگھونندن سرن (پنجاب کے مجاہدِ آزادی اور اشوک موٹرز [اشوک لےلینڈ] کے بانی) کی ہمشیر کی شادی تھی۔ قدرتاً بشیر حسین زیدی صاحب اور قدسیہ بیگم زیدی نے بھی شرکت کی۔ شام کو یہ لوگ شادی کی رسوم ادا کرنے کے لیے زیدی کے گرد بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر چپکے سے رگھونندن سرن کے کان میں گاندھی جی کے قتل کی خبر کہی۔ اور لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوا، یہ غیر متعلق ہے۔ نواب صاحب رامپور اور بشیر حسین زیدی (شاہی ریاست رامپور کے اس وقت کے چیف منسٹر) پر گاندھی جی کی شہادت کا گہرا اثر ہوا۔ زیدی صاحب نے باپو کے چھوٹے بیٹے دیوداس سے گاندھی جی کی کچھ راکھ حاصل کی اور اسے ایک اسپیشل ٹرین میں رامپور لے گئے، جہاں یہ پوری عقیدت اور احترام کے ساتھ ایک نمایاں مقام پر دفن کی گئی۔
رامپور واپس پہنچنے پر قدسیہ نے کہا کہ بچوں کے لیے مہاتما گاندھی کی سوانح عمری میں لکھوں گی۔ یہ تھا ان کے مصنف، مولف اور مترجم بننے کا آغاز۔ بعض اوقات کیسے معمولی سی بات کتنے دور رس نتائج کا سبب بن جاتی ہے، جس طرح ایک چھوٹا سا بیج چھتناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
یوں "گاندھی بابا کی کہانی" وجود (اکتوبر 1952ء) میں آئی۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے اس کا پیش لفظ لکھا۔ اسے اردو اور انگریزی میں قدسیہ نے خود شائع کیا تھا۔ ہندی ایڈیشن پنڈت سندرلال نے الہ آباد سے شائع کیا۔ حکومتِ ہند نے اس پر قدسیہ کو ایک ہزار روپے کا انعام دیا تھا۔
***
نام کتاب: گاندھی بابا کی کہانی
از: قدسیہ بیگم زیدی
تعداد صفحات: 85
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 3.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Gandhi Baba Ki Kahani by Qudsia Begum Zaidi.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:


Gandhi Baba Ki Kahani (kids Urdu Literature) by Qudsia Begum Zaidi, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں