انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے اس دور میں جب کہ کتاب کا مفہوم بدل گیا ہے۔ اور لوگ آن لائن مطالعے کو ترجیح دے رہے ہیں کتاب کی روایتی طبع شدہ حالت اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ اردو کی درسی تصانیف اور حوالہ جاتی کتب کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ عصر حاضر کے اردو ادب کے طالب علموں اور اردو ادب کی شعری و نثری اصناف کا بھر پور تعارف حاصل کرنے والوں کے لئے’’اردو ادب کی شعری و نثری اصناف" کے موضوع پر پروفیسر مجید بیدار کی حوالہ جاتی تصنیف منسہ شہود پر آئی ہے۔زیر نظر تصنیف کی اشاعت سے قبل پروفیسر صاحب کی ایک درجن سے زائد تصانیف منظر عام پر آچکی ہے اور اہل علم و ادب سے داد تحسین وصول کرچکی ہے۔جن میں دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کی ادبی خدمات 1979ء،دکنی تذکرے 1985ء،ناول اور متعلقات ناول1990ء،خونی جادوگر(بچوں کا ادب)1965ء،صوتی درس1993ء،نثری بیانیہ2005ء،دکنی نثر پر ایک نظر2007ء،ڈوبتے ابھرتے جزیرے2011ء،اوردانشور ڈاکٹر زور شامل ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب’’اردو ادب کی شعری و نثری اصناف"پر وفیسر صاحب کی تحقیقی و تنقیدی تصنیف ہے جس میں اردو شاعری اور نثرکی اصناف کی ہیت اور اس کے اجزئے ترکیبی کے ساتھ ساتھ اس صنف کے تاریخی پس منظر اور آغاز و ارتقاء کو تحقیق و تنقید کی روشنی میں پیش کیاگیا ہے۔ اس کتاب کی نصابی اہمیت بہت ذیادہ ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کو اردو کی شعری و نثری اصناف اور فن کی باریکیوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اور اس طرح کی کتابوں سے طلباء میں ادب شناسی کی بنیاد تعمیر ہوتی ہے۔
پروفیسر مجید بیدار تحقیق و تنقید کے میدان میں بلند مرتبہ رکھتے ہیں ترجمہ نگاری میں انہیں کمال حاصل ہے اچھے معلم کے ساتھ ساتھ وہ ایک شاعر کا درجہ بھی رکھتے ہیں ان کا خصوصی میدان غیرافسانوی نثر ہے جس میں انہوں نے بہت ہی مبسوت کام انجام دیا ہے۔اردو ادب میں شعری و نثری اصناف پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں بالخصوص نثری ادب اور خاص کر غیر افسانوی ادب بہت کم ہی کوئی تصنیف اس موضوع پر نظر آئے گی۔ زیر نظر کتاب کو پیش کرنے کا متمہ نظر تخلیق کار کے سامنے یہی رہاہوگاکہ جو کمی اس میدان میں محسوس کی گئی ہے اس کو تکمیل پر پہنچایا جائے ساتھ ہی اصناف کی ہیت اور اجزاء کے ساتھ تاریخی پس منظر اور اس کے آغاز وارتقاء پر جائزہ لیا جائے۔
اس تصنیف کے دیباچہ میں اس تخلیق کے وجود میں آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے پروفیسرصاحب نے لکھا ہے۔
’’غرض اپنی چونتیس سالہ تدریسی خدمات کی انجام دہی کے دوران ادب کی تدریس کے موقع پر درپیش مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کتاب کی تحریر کا بیڑا اٹھایا جارہا ہے بلاشبہ یہ کتاب شعری اور نثری اصناف پر میرے تجربات اور احساسات کا قیمتی ذخیرہ ہے"۔(ص۱۲)
زیر نظر کتاب کو تین موضوعات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔پہلاعنوان ’’شاعری کے دو مختلف انداز" کے تحت شاہنامہ،مرثیہ،رزم نامہ،غزل،مثنوی،قصیدہ،نعتیہ قصیدہ،شخصی مرثیہ،قطعہ،رباعی،،موضوعاتی نظم،نیچرل نظم کے علاوہ دیگر نظمیں اور شاعری کی جدید اصناف شامل ہیں۔دوسرا عنوان’’افسانوی اصناف"کے تحت داستاں،ناول،افسانہ،ڈرامہ،ناولٹ کو پیش کیاگیا ہے۔اورتیسرا موضوع ’’اردو کی غیر افسانوی نثری اصناف"میں تذکرہ،سفرنامہ،مضمون،خطوط،سوانح،انشائیہ،خودنوشت،آپبیتی،خاکہ،دیباچہ،رپورتاژ،مراسلہ،روزنامچہ،تبصرہ،مقالہ،لغت نویس،طنزوظرافت کو شامل کیا گیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کے پہلے موضوع میں پروفیسر مجید بیدار نے جدید نظم کے تصورات کو پیش کیا ہے انہوں نے علم عروض کو شاعری کیلئے لازمی قرار دیا ہے اور شعر میں آمد اور آوارد کیا ہے اس کو واضح کرتے ہوئے رزمیہ شاعری اور بزمیہ شاعری کے فرق کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی شاعر اور ناظم کے فرق کو بھی سمجھایا ہے۔دوسرے موضوع میں "افسانوی نثر" کے تحت نثر کی قسمیں،افسانوی نثر کا وصف، نثر کے افسانوی انداز سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہے۔کتاب کا تیسرا اور آخری موضوع میں غیر افسانوی نثر کا احاطہ کیاگیا ہے۔جس میں اردو کی غیر افسانوی نثری اصناف، غیر افسانوی نثرکے ابتدائی نقوش،صحافتی اور ترسیلی اصناف،عدم فوقیت کا احساس،ہرصنف کا منفرد انداز،غیر افسانوی نثر کے حدود،نئی روایات، غیر افسانوی نثرکے امکانات سے متعلق بحث کی گئی ہے اور ان کی اہمیت کا اجاگر کیا گیا ہے۔
پروفیسر صاحب نے غیر افسانوی نثر کے امکانات سے متعلق اپنے تاثر میں لکھا ہے۔
’’عصرحاضر کے تمام مسائل کی نمائندگی غیرا فسانوی نثر کے ذریعہ ممکن ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض افسانوی نثرنگاروں نے تخلیقی حسیت کے ساتھ سماجی بے راہ روی پر اظہار خیال کیا ہے لیکن عام انسانوں کی معلومات میں اضافہ کے لیے غیر افسانوی نثر ہی اپنی کارکردگی کے جھنڈے لہراتی دکھائی دیتی ہے"(ص۱۶۱)
غرض یہ کہ پروفیسر صاحب نے اردو کی تمام اصناف کا مکمل اور سلیقے سے احاطہ کیا ہے اور کسی موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا،جدید اصناف کا بھی تذکرہ اس کتاب میں شامل ہے انہوں اختصار اور جامع انداز میں اصناف کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور سماجی تبدیلی میں ادب کسطرح اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے اس بات کو بیان کیاہے جو لائق تحسین ہے۔ میں پروفیسر صاحب کی اس تصنیف کی اشاعت پر صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کی یہ تصنیف اردو درس وتدریس میں معاون ثابت ہوگی ساتھ ہی تشنگان علم کی پیاس کو بجھائیگی ۔ضرورت ہے کہ اس سے خاطر خواہ استفادہ کیا جائے۔اسکولس،کالجس اور جامعات میں اسطر ح کی تصانیف کو کتب خانہ کی ضرورت بنایا جائے۔
280صفحا ت اور خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ اس کتاب کی قیمت نہایت واجبی 200روپئے رکھی گئی ہے جو ہدیٰ بک ڈپو پرانی حویلی ،انجمن ترقی اردوہال ،حمایت نگر حیدرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 09299655396
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 09299655396
![]() |
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل |
Urdi ki she'ri aur nasri asnaaf by Prof. Majeed Bedaar. Reviewer: Dr. M.A.A.Sohail
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں