مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری پر حسن مثنی کی کتاب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-10

مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری پر حسن مثنی کی کتاب

hassan-masna-book-on-mujtaba-hussain
کتاب : مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری
مصنف : حسن مثنیٰ
مبصر : تحسین منور

بہت دنوں سے یہ کتاب ہمارے قبضے میں تھی اور ہم اس پر لکھنے کا دل بناتے تھے مگر اس کا سر ورق دیکھ کر اس کو کنارے رکھ دیتے تھے۔ اس کی وجہ صرف اتنی سی تھی کہ سرورق پر جو مجتبیٰ صاحب کی تصویر ہے اس میں سائڈ پروفائل ہے اور بایاں ہاتھ اس طرح چہرے کے سامنے آ رہا ہے کہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ کان میں تیلی کر رہے ہیں۔اب تو ایر بڈ کا زمانہ ہے اس لئے کان میں تیلی کرنا شائد کچھ ایک کی سمجھ میں نہ آئے مگر ہم یہ سوچ کر اس کتاب کو الگ رکھ دیتے تھے کہ وہ ڈھنگ سے کان صاف کر لیں گے تب ہی ان کو تکلیف دیں گے۔تصویر بھی زیادہ بڑی کرنے کے چکر میں کمزور سی کردی گئی ہے۔ ہم نے کتاب کو جب جھاڑ پونچھ کر نکالا تب ہمیں اس میں حسن مثنّیٰ صاحب کے دستخط سمیت ان کی تحریر ملی جس میں انھوں نے ہماری خدمتِ اقدس میں خلوص و احترام کے ساتھ یہ کتاب پیش کرتے ہوئے یہ امید بھی ظاہر کی تھی کہ صرف شیلف کی زینت نہیں بنائیں گے۔ ان کے دستخط میں جتنے تخلیقی عناصر ہم نے دیکھے ہیں وہ آپ تک پہنچانے کے لئے آج ہم سوچ رہے ہیں کہ کتاب کا سر ورق نہیں بلکہ یہ دستخط ہی اسکین کرکے آپ تک پہنچا دیں۔مگر مجبوری یہ ہے کہ کتاب عرض میں یہ سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ اس دستخط کے نیچے اکیس جنوری 2004 ء کی تاریخ ہے۔کتاب 2003 ء میں شائع ہوئی تھی۔ انتساب میں ایک نئی بات یہ ہوئی ہے کہ کتاب کا انتساب امی،ڈیڈی اور ان کے والدین کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے ۔اس سے ایک فائدہ ہوگیا ہے کہ نانا نانی اور دادا دادی ایک ہی بار میں نمٹ گئے ہیں۔ورنہ خوامخواہ میں اتنے بڑے صفحے کی ایک سطر اور کالی کرنی پرتی۔
فہرست والے صفحے کے صفحے پر اپنی ہستی کو مرتبے کی چاہ میں مٹانے والا اقبال کا شعر درج کردیا گیا ہے۔ یہ وہی شعرہے میں جس میں دانے کو خاک میں مل کر گل ہونے اور گلزار ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ کتاب کو آٹھ باب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں حسن مثنّیٰ اعتراف میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور شعر والا صفحہ آتا ہے جس میں قطرے کے گوہر ہونے تک اس کا تماشہ دیکھنے کے لئے کوئی بات کہی گئی ہے۔ ہم ان دونوں اشعار کا سلسلہ مجتبیٰ انکل سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کر تے رہے۔ ہم انھیں انکل کیوں کہہ رہے ہیں اس لئے کہ جب وہ مالویہ نگر میں رہتے تھے تب ہم ان کے آگے پیچھے دوڑا کرتے تھے۔ ہمارے والد پروانہؔ رُدولوی صاحب سے ان کے پیارے سے تعلقات تھے اور اکثر جب وہ دونوں پنجابی میں کچھ کہہ کر ہنستے تھے تو بڑا لطف آتا تھا۔ ان کی ایک کتاب جاپان چلو جاپان چلو جو نہایت مشہور ہوئی اس کی تیاری کے دوران ہم ان کے پاس ہی بیٹھے ہوتے تھے ۔ہمیں لگتا ہے اس کتاب کے لکھنے کے دوران ہم سے انھوں نے کچھ چھوٹا موٹا دوڑ بھاگ کا کام ضرور کروایا ہوگا۔ کیونکہ وہ ہم سے بہت شفقت تب بھی کرتے تھے اور اب بھی کچھ ماہ پہلے جب پریس کلب میں ان سے ملاقات ہوئی تو اسی شفقت کے ساتھ ملے۔ہمارے کہیں داخلے کے سلسلے میں بھی انھوں نے ایک بار ایک خط ہمیں لکھ کر دیا تھا جو ہم نے تبرک کے طور پر اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا ۔جو آج بھی کہیں نہ کہیں محفوظ ہونا چاہئے۔ اس لئے ہم رہ رہ کر جو دو اشعار کتاب میں موجود ہیں ان سے مجتبیٰ انکل کا سلسلہ جوڑنے کی کوشش کرتے رہے مگر ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ پھر ہمارے کمزور سے ذہن میں یہ بات آئی کہ ممکن ہے کہ حسن مثنّیٰ نے یہ دونوں شعر قاری کے لئے لکھے ہوں یا ہماری ناقص رائے میں وہ خود کلامی کر رہے ہوں گے۔اصل میں جب انسان کوئی خواب کی تعبیر ہوتی دیکھتا ہے تو یقینی طور پر جذباتی ہوجاتا ہے ۔فرطِ جذبات میں وہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی جیسی حالت میں آکرایک نئی تخلیقی دنیا سی آباد کرنے لگتا ہے۔ اسی دوران یہ اشعار یہاں آئے ہوں گے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ دو صفحات بھرنا مقصود رہا ہو۔ خیر ہم بھی کن بن بات کی باتوں میں ہر بات سے باہر نکل رہے ہیں۔
پیش لفظ شارب رُدولوی صاحب نے تحریر کیا ہے ۔ہم آج تک پیش لفظ کتنا بڑا یا چھوٹا ہونا چاہئے نہیں سمجھ پائے ہیں۔یہ بہت مختصر سا دو صفحے کا پیش لفظ ہے۔جس میں وہ مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری اور عام مزاح نگاری کا فرق سمجھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ مزاح کا استعمال اس طرح کرتے ہیں کہ سن کر ہنسی آجائے۔ یہ ان کے اسلوب کی خوبی ہے۔ ان کے جملے بہت سادہ اور شگفتہ ہوتے ہیں۔دوسرے وہ کسی بات کے لئے ایسی اور اتنی بے ساختہ مثال دیتے ہیں کہ سننے والا اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ پاتا۔آخری پیراگراف میں وہ حسن مثنّیٰ کی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں اور اس کتاب کے ادبی حلقوں میں مقبول ہونے کی امید ظاہر کرتے ہیں۔
حسن مثنّیٰ اعتراف کے عنوان سے شروع میں کافی تفصیل سے عالمی ادب میں طنز و مزاح پر بحث شروع کرتے ہیں۔کافی دیر کے بعد کتاب پر آتے ہیں ۔بتاتے ہیں کہ کتاب کو آٹھ ابواب میں منقسم کیا ہے۔پہلا باب مجتبیٰ حسین : سوانح اور مزاح نگاری ہے۔ دوسرا باب مجتبیٰ حسین بہ حیثیت کالم نگار ہے۔ تیسرا باب مجتبیٰ حسین کے مزاحیہ مضامین : تنقیدی جائزہ اور چوتھا باب مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری ایک تجزیہ ہے۔ پانچواں باب مجتبیٰ حسین کے سفر نامے ایک مطالعہ کا عنوان لئے ہے۔ چھٹے باب میں مجتبیٰ حسین کی فنی و فکری انفرادیت پر بات ہوئی ہے ۔اس کے بعد ساتواں باب مجتبیٰ حسین مشاہیر اور احباب کی نظر میں ہے۔ آٹھویں باب میں عکس و آئینہ کے عنوان سے تصویریں ہیں۔ اس اعتراف میں حسن مثنّیٰ نے تقریباً باون لوگوں کا نام لیا ہے۔جس میں سے کچھ ایک نہ ہوتے تو یہ کتاب پایہء تکمیل کو نہ پہنچتی،کچھ نے قدم قدم پر رہنمائی فرمائی ان کا شکریہ کیسے ادا کریں وہ اسی الجھن میں رہے،کسی کے خلوص و محبت پر انھیں بہت ناز ہے،کچھ نے ان کی تعمیر و ترقی میں ہر ممکن اعانت کی ہے،کچھ کے بغیر یہ کتاب منصۂ شہود پر نہیں آسکتی تھی۔اس میں والدین،برادران اور خواہر کا بھی انھوں نے حق ادا کیا ہے۔ ویسے جہاں تک ہماری معلومات زور دے رہی ہے اس کے مطابق یہ کتاب واقعی کسی طور پر نہیں چھپ سکتی تھی اگر مجتبیٰ حسین صاحب موجود نہ ہوتے اور اپنا تخلیقی سفر اس قدر جانفشانی سے ادا نہیں کرتے ۔باقی جہاں تک کتاب کی بات ہے اس کو پڑھنا اس لئے اچھا لگتا ہے کہ اس میں دکن سے دلی تک کا معاملہ مل جاتا ہے۔ اس میں بین القوامی مناظر بھی ہیں کیونکہ جاپان اور دیگر سفر ناموں میں سے کچھ نہ کچھ اقتباس دیکھنے کو مل ہی جاتا ہے۔
جس طرح ہم شاعری کا کوئی کارنامہ یعنی مجموعہ یا دیوان پڑھتے ہیں اسی طرح ہم کو یہ کتاب پڑھنے میں اس لئے مزا آتا ہے کہ اس میں جگہ جگہ مختلف اقتباسات کی صورت میں مجتبیٰ حسین مل جاتے ہیں۔
" میرے والد کہا کرتے تھے کہ ہمارے آباؤ اجداد کا تعلق سپہ گری سے تھا۔کس لئے لڑتے تھے مجھے بھی معلوم نہیں۔" جیسے جملے پڑھ کر مجتبیٰ حسین کے فن کو سمجھنے میں سہولت ہوجاتی ہے کہ جو شخص خود پر ہنس سکتا ہے ہو دوسروں کو کس طرح نشانے پر لے لیتا ہوگا۔کتاب میں مجتبیٰ حسین کی زندگی کو بھی احاطہ کیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ ان کا شجرہ تک پیش کردیا گیا ہے۔
" میں 15/جولائی 1936 ء کو پہلی بار پیدا ہوا۔اس کے بعد سے اب تک مسلسل زندہ ہوں اور اندیشہ ہے کہ آگے بھی زندہ رہوں گا"۔
مجتبیٰ حسین کے بھائیوں محبوب حسن جگرؔ اور ابراہیم جلیس صاحب کا بار بار تذکرہ ہے۔ کئی بار ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کچھ باتیں مسلسل دہرائی جارہی ہیں۔ کہیں کہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے لکھنے والا کسی امتحان گاہ میں بیٹھ کر کوئی پرچہ حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ وہ پرچے کو پوری طرح پڑھ کر ہی حل کر رہا ہے اور مجتبیٰ حسین کی زندگی اور فن پر پوچھے گئے ہر سوال کا جواب اس کے پاس موجود ہے۔حسن مثنّیٰ نے تحقیق کے معاملے میں کافی محنت کی ہوگی کیونکہ وہ یہ تک کھوج لائے ہیں کہ مجتبیٰ حسین نے خواجہ احمد عباس کے ڈرامہ یہ امرت ہے میں مزدور کا کردار ادا کیا تھا اور اول انعام کے مستحق قرار پائے گئے تھے۔وہ پورے کالج میں گلوکار اداکار کے روپ میں مشہور تھے۔ہمیں مجتبیٰ حسین کے کالم نگار بننے کی تفصیل بھی ملتی ہے اور ان کے پہلے کالم کی تاریخ بھی صاف صاف طور پر سامنے آجاتی ہے۔ جب ان کے بڑے بھائی نے روزنامہ سیاست کے مشہور کالم نگار کے انتقال کے بعد ان سے مزاحیہ کالم شیشہ و تیشہ لکھنے کے لئے کہا۔ان کا یہ پہلا کالم 15 /اگست 1962 ء کو شائع ہوا تھاجسے انھوں نے 12 / اگست 1962 ء کو تحریر کیا تھا۔
" لوگ پیٹ کے لئے روتے ہیں اور میں پیٹ کے لئے ہنسنے لگا اور اب تک ہنستا چلا جارہا ہوں "۔
ان کا پہلا مضمون غالبؔ کی طرفداری میں ماہنامہ صبا میں چھپا تھاجو 1964 ء میں لکھا گیا تھا۔ یہ بھی اس کتاب سے پتہ چلتا ہے۔اس مضمون کی ادبی حلقوں میں بہت پزیرائی ہوئی تھی۔
" ۔۔۔۔ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ جناب والا ! اردو کے تین بڑے شعرا کے نام تو بتائیے۔موصوف نے کہا تھا : "غالبؔ مرزا غالب ؔ اور مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ۔ اس پر ہم نے یہ فرض کرتے ہوئے کہ آگے ان کی دال نہ گلے گی پوچھا کہ اب لگے ہاتھوں چوتھے بڑے شاعر کا نام بھی بتا ئیے تو کہنے لگے "نجم الدولہ'دبیر الملک'مرزا اسداللہ خاں بہادر نظام جنگ غالبؔ "۔
اس کتاب میں مجتبیٰ حسین صاحب کی تمام تصنیفات کے بارے میں معلومات موجود ہے۔ یہی فائدہ ہوتا ہے اگر آپ زندہ ادیب پر تحقیق کرتے ہیں تو ادیب اگر چلنے پھرنے لائق ہے تو دوڑ بھاگ میں آپ کا ساتھ بھی دے سکتا ہے اور اس بات کا پورا خیال بھی رکھتا ہے کہ کہیں کوئی چیز گُم نہ ہوجائے۔ ایسے میں آپ کے گائیڈ کے علاوہ بھی وہ آپ کا ایک رہنما ہوہی جاتا ہے۔ ہم تو کہیں گے کہ اردو والوں کو ایک خاص محکمہ یا اکیڈمی زندہ ادیبوں اور شاعروں پر تحقیق کے لئے تشکیل دینی چاہئے تاکہ نہ تو بعد میں کچھ رہ پائے اور اس سے ان پر تحقیق کرنے والے کو بھی سہولت ہوجائے۔ ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس طرح کی تحقیق کرنے والوں کو کافی سرکاری مراعات بھی ملنی چاہئیں کہ وہ ایک زندہ ادیب اور شاعر کو برداشت کرنے کا مادہ رکھتا ہے۔ مصنف نے اگر دیکھا جائے تو کافی عرق ریزی کے بعد یہ کام کیا ہے اور اس کتاب میں مجتبیٰ حسین کی نہ صرف شخصیت کو احاطہ کیا ہے بلکہ ان کے فن کو بھی سامنے لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ہم تو اکثر بوجھل لمحات میں یہ کتاب اٹھا لیتے ہیں اور اس میں موجود اقتباسات کے حوالے سے مجتبیٰ انکل سے بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ 244 صفحات کی یہ کتاب ہر حال میں مزاح کے طالب علموں کی رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔
اس میں ان کے سفر نامہ جاپان پر جو مضمون ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ صرف جاپان ہی نہیں گھماتے بلکہ اپنے ملک کی کمزوریوں کو بھی ہمارے سامنے لے کر آتے ہیں کیونکہ جاپان کا موازنہ تو اپنے ہی ملک سے کرتے ہیں۔
"جاپان وہ واحد ملک ہے جہاں جرائم کی تعدادسب سے کم ہے۔اگر چہ ہمیں پولس نظر نہیں آتی تھی مگر پھر بھی ہر طرف امن ہی امن نظر آتا تھا'ہماری طرح نہیں کہ پولیس تو جگہ جگہ نظر آتی ہے لیکن امن و امان کہیں نظر نہیں آتا"۔
سفر نامہ پر بات کرتے ہوئے حسن مثنّیٰ سفرناموں پر بھی کافی مواد دے جاتے ہیں جو یقینی طور پر آپ کا علم بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ چاہے وہ کالم نگاری ہو یا پھر خاکہ نگاری یا پھر سفر نامہ یا پھر ان کی فنی انفرادیت کی بات ہو حسن مثنّیٰ تفصیل کے ساتھ اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کی تحریر میں ان کا عقیدہ بھی جھانکنے لگتا ہے ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ حسن مثنّیٰ کی یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے صرف شیلف کی زینت بنانے کے لئے نہیں جس کا خدشہ انھوں نے یہ کتاب ہمیں سونپتے ہوئے ظاہر کیا تھا۔امید ہے انھیں اب تو یقین آگیا ہوگا کہ ہم کتاب کو شیلف کی زینت نہیں بناتے بلکہ اپنی زینت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

***
Tehseen Munawer
122-First Floor, Hauz Rani, Malviya Nagar, New Delhi- 110017
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book "Mujtaba Hussain aur Fan e Mizah nigari" by Hassan Musanna. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں