کیا سیاحوں کیلئے عبادت ممنوع ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-31

کیا سیاحوں کیلئے عبادت ممنوع ہے؟

worship-forbidden-for-tourists

دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے ان 910 غیرملکی تبلیغیوں کے خلاف فردجرم داخل کردی ہے، جنھیں گذشتہ مارچ کے اواخر میں نظام الدین مرکز سے برآمدکیا گیا تھا۔ ان غیر ملکی باشندوں کے خلاف 47 فردجرم داخل کی گئی ہیں اور ان پر وبا پھیلانے سمیت کئی سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ان ملزمان میں ملیشیا، تھائی لینڈ،بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا سمیت 14ملکوں کے شہری شامل ہیں۔ ان غیر ملکیوں کے آئندہ ہندوستان میں داخلے پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ سیاحتی ویزا پر ہندوستان میں داخل ہونے والے ان غیر ملکیوں پر ویزا ضابطوں کی خلاف ورزی کا معاملہ بھی درج کیا گیا ہے، کیونکہ انھوں نے ٹورسٹ ویزا حاصل کرکے تبلیغ میں حصہ لیا۔

اس کارروائی کے بعد سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ٹورسٹ ویزا لے کر ہندوستان میں داخل ہونے والے سیاحوں کو یہاں عبادت کرنے کے لئے علیحدہ سے اجازت لینی پڑے گی۔ ظاہر ہے اب تک یہاں آنے والے سیاحوں پر اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ سینکڑوں سیاح آ پ کو مندروں کے درشن کرتے ، بنارس کے گھاٹوں پر ہندو مذہبی رسومات کے ساتھ اشنان کرتے نظر آ جائیں گے اور ان سے آ ج تک کسی نے دریافت نہیں کیا کہ انھوں نے ایسا کرنے کے لئے حکومت سے اجازت لی ہے یا نہیں۔ اسی طرح غیر ممالک سے ہندوستان آ نے والے تبلیغی جماعت کے لوگ بھی دہلی کے مرکز میں آ کر ٹھہر تے رہے ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ اگر یہ قانونی طور پر جرم تھا تو اب تک ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اچانک کورونا کا معاملہ منظر عام پر آ نے کے بعد تبلیغی جماعت کی ہر سرگرمی غیر قانونی کیسے ہوگئی اور تبلیغی جماعت کا ہرفرد دھرتی پر بوجھ کیوں نظر آ نے لگا ؟

واضح رہے کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد نظام الدین مرکز کے اجتماع میں شامل ہونے والے غیر ملکی باشندوں کے خلاف ہی قانونی کارروائی نہیں کی گئی ہے بلکہ ایسا ملک گیر پیمانے پرتبلیغی جماعت کے ان کارکنوں کے خلاف بھی کیا جارہا ہے، جنھیں حفظ ماتقدم کے طور پر کورنٹائن کے نام پر نظر بند کیا گیاتھا۔ اس قسم کی کارروائیاں اترپردیش، مدھیہ پردیش، تمل ناڈو اور کیرل میں انجام دی گئی ہیں اور تبلیغی جماعت کے لوگوں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ ضمانت پر بھی رہا ہوئے ہیں۔ ہم نے اس سے پہلے بھی ان سطروں میں یہ لکھا تھاکہ کورونا وائرس کی وبا عالمی پیمانے پر پھیل جانے کے بعد تبلیغی جماعت کے لوگوں کو جس احتیاط اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرناچاہئے تھا، اس میں ان سے زبردست چوک ہوئی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف تبلیغی مرکز کو بند کیا گیا بلکہ ملک گیر سطح پر تبلیغی سرگرمیوں میں شامل لوگوں کو مشکلات سے بھی گذرنا پڑرہا ہے۔ جماعت کے امیراور ان کے ساتھیوں کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج ہوئے اور انھیں گرفتار کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ ان کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بھی معاملہ درج کیا ہے اور ان کے بینک اکاؤنٹ بھی کھنگالے گئے ہیں۔

اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس واقعہ کی آڑمیں تبلیغ کے کام پر ہی پابندی لگانے کے لئے پرتول رہی ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے، لیکن موجودہ حکومت کے طرزعمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قانون اور دستور سے زیادہ اپنے سیاسی ایجنڈے پر کاربندہے اور ملک میں قانون یک طرفہ طور پر کا م کرتا ہوا محسوس ہورہا ہے، جس کا برملا اظہار حال ہی میں دہلی کی ایک ذیلی عدالت نے شمال مشرقی دہلی کے فساد کے سلسلہ میں گرفتار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک طالب علم کی گرفتاری کے سلسلہ میں کیا ہے۔
آصف اقبال نامی طالب علم کو پولیس کی حراست میں دینے سے انکار کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے کہا کہ ”کیس ڈائری کے مطالعہ سے حقائق کی گڑبڑی کا پتہ چلتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جانچ صرف یک طرفہ طور پر کی گئی ہے۔ “پولیس انسپکٹر لوکیش اور انل سے جب اس معاملے میں پوچھ تاچھ کی گئی تووہ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ ان کی طرف سے فریق مخالف کے کردار کے بارے میں اب تک کیا جانچ کی ۔ یہی سب کچھ کورونا کے معاملہ میں بھی ہورہا ہے۔ تبلیغی مرکز کا معاملہ آشکارا ہونے کے بعد کورونا کے خلاف جنگ کارخ مسلمانوں کی طرف موڑنے کی جوسازش رچی گئی تھی، وہ گودی میڈیا کے اشتراک سے کامیاب رہی۔
اس وقت دہلی اور اترپردیش جیسے صوبوں میں ریڈ زون صرف مسلم علاقے ہیں، کیونکہ گودی میڈی کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں مسلمانوں کو ہی کورونا پھیلانے کا کلیدی مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ کورونا سے لڑنے کے لئے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے اس کا نفاذ مسلم اورغیرمسلم علاقوں میں بالکل اسی طرح ہورہا ہے جس طرح فرقہ وارانہ فساد کے بعد کرفیو کا ہوتا ہے۔ یعنی مسلم علاقوں میں مارشل لاء کی پوزیشن ہے اور غیر مسلم علاقوں میں پکنک کے مناظردیکھے جاسکتے ہیں۔

کورونا پھیلانے کے لئے میڈیا میں جس بڑے پیمانے پر تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا اور ملکی وغیر ملکی باشندوں کو جس انداز میں کورنٹائن کے نام پر مسلسل حراست میں رکھا جارہا تھا، اس کے پیش نظر ہم نے پہلے ہی اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ ان لوگوں کے خلاف مقدمات قایم کرنے کی تیاری ہورہی ہے اور انھیں جان بوجھ کر کورونا پھیلانے کا مجرم گردانا جائے گا۔ یہ اندیشہ درست ثابت ہوا۔ نہ صرف یہ کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہندوستانی شہریوں کے خلاف وبا پھیلانے کے مقدمات قایم کئے گئے ہیں بلکہ اس میں ان لوگوں کو بھی ماخوذ کرلیا گیا ہے جو غیر ممالک سے تبلیغی مرکز آئے تھے۔ ان غیر ملکی باشندوں کے پاسپورٹ تو پہلے ہی ضبط کرلئے گئے تھے اور اب ان کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات قایم کرکے فردجرم بھی داخل کردی گئی ہے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس گودی میڈیا کا کیا ہوگا جس نے تبلیغی جماعت کے واقعہ کی آڑ میں تمام مسلمانوں کا میڈیا ٹرائل کیااور اپنی پوری توانائی انھیں بدی کا محور قرار دینے میں صرف کردی۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ گودی میڈیا نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہو اور ان کے خلاف نفرت اور تعصب پھیلایا ہو۔ میڈیا دراصل ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے جب وہ مسلمانوں کو ملک دشمن اور انسانیت دشمن قرار دے سکے۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ جیسے ہی تبلیغی مرکز کا معاملہ سامنے آیا توگودی میڈیا ہاتھ دھوکر مسلمانوں کے پیچھے پڑگیا۔ نتیجے کے طور پرمسلمانوں کو ہی کورونا سمجھا جانے لگا۔

میڈیا اپنی اس بے ہودگی اور مسلم دشمنی سے اب تک اس لئے بچتا رہا ہے کہ کبھی اسے سبق سکھانے کی کوشش نہیں کی گئی، لیکن اس بار سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک عرضی کے نتیجے میں عدالت نے متعصب ٹی وی چینلوں سے جواب طلب کرلیا ہے۔ جمعیۃ العلمائے ہند اور تین دیگر تنظیموں کی طرف سے دائر کی گئی عرضی پرسپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور پریس کونسل آف انڈیا کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کی قیادت والی بینچ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ لوگوں کو نظم ونسق کے موضوعات بھڑکانے کا موقع نہ دیں، کیونکہ ایسی چیزیں بعد میں بڑا مسئلہ بن جاتی ہیں۔ جمعیۃ العلماء ہند نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ مرکز اور تبلیغی جماعت کے خلاف خبریں دکھاکر نیوزچینل فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔ ان سے لوگوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولا جارہا ہے۔ ایسے چینلوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سبھی معاملوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ گودی میڈیا کی مسلم دشمنی اور شرپسندی کا معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت تک پہنچا ہے اور اس پر لگام کسنے کی تیاری ہورہی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ ملک میں لگاتار نفرت پھیلانے والے ان انتہائی زہریلے نیوز چینلوں کے خلاف کارروائی کرے گاجنھوں نے ملک کے اتحاد اور یک جہتی کو داؤ پر لگارکھا ہے۔

***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Is worship forbidden for tourists? - Column: Masoom moradabadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں