کمال امروہی - بالی ووڈ کا باکمال مکالمہ نویس اور ہدایت کار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-14

کمال امروہی - بالی ووڈ کا باکمال مکالمہ نویس اور ہدایت کار

kamaal-amrohi

کمال امروہی (پ: 17/جنوری 1918 ، م: 11/فروری 1993)
ایک ایسے لازوال مکالمہ نویس اور ہدایتکار رہے ہیں جن کی فلمیں محل، پاکیزہ اور رضیہ سلطان کے علاوہ مغل اعظم کے مکالموں کے ذکر کے بغیر بالی ووڈ فلمی صنعت کی تاریخ ادھوری مانی جائے گی۔ ملکۂ جذبات میناکماری کے شوہر اور معروف شعرا رئیس امروہوی و جون ایلیا کے رشتے کے بھائی کمال امروہی پر درج ذیل مختصر مگر اہم مضمون ان کے فرزند تاجدار امروہی نے تحریر کیا ہے۔

جس زمانے میں امتیاز علی تاج کے شاہکار ڈرامے "انارکلی" نے ملک بھر کے ادبی حلقوں میں دھوم مچا رکھی تھی، امروہہ کا ایک نوعمر ادیب سید امیر حیدر کمال نقوی، لاہور کی ادبی دنیا میں وارد ہوا۔ لیکن کچھ مدت بعد ہی وہ اردو ادب کو خیرباد کہہ کر فلمی کہانیاں لکھنے کے لئے بمبئی چلا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ادبی محاذ چھوڑ کر نہ جاتا تو اپنی ذہانت و فراست کی بدولت اردو ادب میں ایک منفرد اور امتیازی مقام حاصل کر لیتا۔ تاہم وہ فلمی دنیا کی چکاچوند میں ایسا کھویا کہ اسے ادب کی جانب سے توجہ دینے کی فرصت ہی نہ ملی اور اس طرح اردو ادب ایک ذہین و زیرک ادیب سے محروم ہو گیا۔ مگر اس نے اپنی پہلی کہانی ہی لکھ کر فلمی دنیا میں ایسا کمال کر دکھایا کہ لوگ اس کا اصلی نام بھول گئے اور انہیں صرف "کمال امروہی" ہی یاد رہ گیا۔

کمال امروہی کی ولادت سترہ جنوری انیس سو اٹھارہ (1918) کو امروہہ کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی۔ ابتداء میں انہوں نے اپنے چچازاد بھائی رئیس امروہی کے ساتھ گھر پر ہی مختلف اساتذہ سے اردو فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ لیکن بعد ازاں انہیں تعلیم کے لئے دہرہ دون بھیج دیا گیا کیونکہ گھر والوں کے زیادہ لاڈ پیار سے وہ کچھ حد تک بگڑ گئے تھے اور ہر وقت کوئی نہ کوئی شرارت کرتے ہی رہتے تھے۔ دہرہ دون سے ہی انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا، پھر واپس امروہہ آ گئے لیکن وہ وہاں زیادہ دن نہ رہ سکے۔ ان کی کسی بات پر خفا ہو کر ان کے بڑے بھائی نے انہیں تھپڑ مار دیا۔ اس پر عالم طیش میں انہوں نے گھر سے بھاگ کر لاہور جانے کے لئے اپنی بہن کا کنگن چرا لیا اور سو روپے میں بیچ کر لاہورکا ٹکٹ کٹا لیا۔

لاہور میں قیام کے دوران انہوں نے ایم۔او۔ایل کی سند حاصل کی اور کہانیاں اور مضامین لکھ کر اپنی گزر بسر کرتے رہے۔ پھر فلموں میں قسمت آزمانے کے لئے بمبئی چلے گئے جہاں ان کی تخلیقی صلاحیت سے متاثر خواجہ احمد عباس نے ان کا تعارف بمبئی ٹاکیز کے مالک ہمانشورائے سے کرایا جنہوں نے ان کی کہانی "آہوں کا منار" پر فلم بنانے کا پروگرام بنایا مگر اس سے پیشتر کہ فلم کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہمانشورائے کی وفات ہو گئی۔ اسی دوران انہوں نے اپنی ایک فلم کہانی "جیلر" بیچنے کے لئے منروا مووی ٹون کے مالک سہراب مودی سے بات چیت کی۔ کہتے ہیں کہ مودی صاحب پہلی نظر میں ان سے ذرا متاثر نہ ہوئے لیکن کمال صاحب نے ان سے اپنی تحریر کردہ کہانی کو ایک بار سننے کی استدعا کی، جسے ان چاہے من سے انہوں نے قبول کر لیا مگر کہانی سننے کے بعد وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسے تین سو روپے معاوضے کے عوض خرید لیا۔
اب رہ گئی فلم کے مکالمے لکھنے کی بات، تو مودی صاحب نے انہیں بتایا کہ فلم کے مکالمے وہ اپنی فلم کمپنی کے ملازم لالہ منشی سے لکھوائیں گے کیوں کہ مکالمے لکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں۔ اس پرکمال صاحب نے انہیں کہا کہ وہ بغیر معاوضہ کے ڈائیلاگ لکھ کر دیں گے جنہیں وہ پسند آنے کی صورت میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اور جب وہ ڈائیلاگ لکھ کر لائے تو سہراب مودی کو اتنے پسند آئے کہ انہوں نے اسے فلم میں استعمال کرنے کے لئے قبول کرلیا۔

اس کے بعد کمال امروہی منروا سے وابستہ ہو گئے اور اس طرح انیس سو اڑتیس (1938) میں ان کی اچھوتی کہانی پر بنی فلم "جیلر" نمائش کے لئے پیش کی گئی جس میں اہم اداکار تھے: سہراب مودی، شیلا، صادق علی اور لیلا چٹنیس۔ یہ فلم صرف کمال امروہی کے لئے نہیں بلکہ سہراب مودی اور ان کی فلم کمپنی کی شہرت و مقبولیت کا باعث بنی۔ چونکہ اس سے پیشتر ایسے انوکھے موضوع پر کہ، ایک حسین عورت اپنے بدصورت شوہر کو چھوڑ کر اپنے خوبصورت عاشق کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور پھر اپنی ننھی پچی کی فرقت میں تڑپتی، زار و قطار روتی اور اپنے کئے پر پچھتاتی ہے۔۔۔ اب تک کوئی فلم نہیں بنی اس لئے اس فلم "جیلر" کو بے حد پسند کیا گیا اور ہر ایک کی زبان پر اس فلم کی کہانی اور مکالمے تھے۔

جیلر کی کامیابی کے بعد انہوں نے عدل جہانگیر کو بنیاد بنا کر قلم "پکار" کی کہانی لکھی جس میں دو راجپوتوں رانا سنگرام سنگھ اور اودے سنگھ کی دشمنی، اول الذکر کے بیٹے منگل سنگھ اور اور آخر الذکر کی بیٹی کنور کے عشق کی داستان اور عدل جہانگیر کو دکھایا گیا تھا۔ انیس سو انتالیس (1939) میں پیش کی گئی اس فلم میں جہانگیر کے رول میں چندر موہن اور رانا سنگرام کے کردار میں سہراب مودی کے مکالموں نے ملک بھر میں دھوم مچا دی۔ غالباً یہ ملک کی پہلی فلم تھی جس کے ڈائیلاگ فلم بینوں کو زبانی یاد ہو گئے تھے اور جنہیں لوگ کبھی فراموش نہیں کر پائے خصوصاً مغلیہ دربار میں جہانگیر اور رانا سنگرام سنگھ کے مکالمے۔

آئندہ برس ان کی دو فلمیں "بھروسہ" اور "میں ہاری" منظر عام پر آئیں۔ پہلی قلم سہراب مودی کی ہدایت میں تیار ہوئی تھی اور اس کے اہم اداکار چندر موہن، مظہر خان، سردار اختر، شیلا اور مایا دیوی تھے۔ جبکہ دوسری فلم "میں ہاری"، گجانن جاگیردار کی زیر ہدایت بنی تھی اور اس میں نسیم بانو، نوین یاگنک، مایا دیوی وغیرہ نے اہم کردار نبھائے۔ انیس سو تینتالیس (1943) میں ڈائریکٹر ظہور راجہ نے مادھوری، پہاڑی سانیال، رادھارانی جیسے مقبول اداکاروں کو لے کر ان کی کہانی پر فلم "مذاق" بنائی لیکن وہ ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد انیس سو پینتالیس (1945) میں کے۔ آصف نے ان کی تحریر کردہ کہانی پر فلم "پھول" پیش کی جس میں اس دور کے بڑے بڑے اداکاروں (وینا، ستارا، ثریا، پرتھوی راجکپور، مظہر خان، درگا کھوٹے، یعقوب واسطی، دیپک اسمعیل، اشرف خان، آغا اور جلوبائی) نے کام کیا تھا اور اتنی بڑی کاسٹ کی وجہ سے غیر معمولی اور ملک گیر پبلیسٹی ملی تھی۔
آئندہ برس ان کی کہانی پر دو فلمیں منظرعام پر آئیں۔ ایک تھی اے۔ آر۔ کاردار کی "شاہجہاں" اور دوسری ڈائرکٹر گجانن جاگیردار کی ہدایت میں بننے والی فلم "بہرام خان"۔ اس کے علاوہ انیس سو سینتالیس میں انہوں نے اختر حسین کے ادارے نرگس آرٹ کنسرن کے لئے فلم "رومیو جولیٹ" تحریر کی جس میں رومیو کا رول سپرو نے اور جولیٹ کارول نرگس نے ادا کیا تھا۔

تقسیم ملک کے بعد کچھ عرصہ افراتفری میں گزرا، پھر انہوں نے اپنی کہانی "محل" پر پہلی بار اپنی ڈائرکشن میں فلم بنانے کا پروگرام بنایا۔ انیس سو انچاس (1949) میں نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ اس فلم کے موسیقار آنجہانی کھیم چندر پرکاش تھے۔ فلم کئی لحاظ سے منفرد اور یادگار فلم تھی اور اسے سنگ میل کی حیثیت حاصل ہوئی۔ اس فلم میں مدھو بالا کی سحرانگیز خوبصورتی اور سنجیدہ اداکاری نے اسے صف اول کی ہیروئین بنا دیا تھا اور لتا منگیشکر کے مسحور کن گانوں "آئے گا آنے والا"، "مشکل ہے بہت مشکل" اور "دل نے پھر یاد کیا۔۔۔" نے انہیں پلے بیک سنگر کی حیثیت سے صحیح معنوں میں ایک الگ پہچان عطا کی۔

"محل" کی بےحد شاندار کامیابی سے متاثر ہو کر انہوں نے انیس سو پچاس میں اسی نام سے اپنا نجی ادارہ "محل پکچرز" قائم کیا اور فلمسٹار مینا کماری کو ہیروئین لے کر فلم "دائرہ" کی تخلیق کی جسے انیس سو ترپین میں نمائش کے لئے پیش کیا گیا۔ عوام نے اسے بالکل پسند نہ کیا اور عام معنوں میں فلم فلاپ ہو گئی۔ حالانکہ کہانی اور ڈائریکشن کے نقطہ نظر سے یہ ایک اعلی پائے کی ایسی سنجیدہ فلم تھی جس کے بغیر فلموں کی تاریخ ادھوری معلوم ہوتی
ہے۔ دراصل اس کی ناکامی کی وجہ تھی کہ اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن آپس میں بات تک نہیں کرتے۔ بھلا عام فلم بین اسے کیسے پسند کرتا، وہ تو ہیروئین کی اچھل کود اور گانے بجانے کے مناظر کا عادی ہو چکا تھا۔ لہذا عام ڈگر سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے باکس آفس پر یہ فلم بری طرح پٹ گئی۔

اس فلم کے علاوہ مینا کماری کو لے کر فلم "انارکلی" (بینا رائے، پردیپ کمار) اور کے۔ آصف کی "مغل اعظم" بن رہی تھیں۔ آخر الذکر فلم کی کہانی اور مکالمے، کمال امروہی ہی کے تحریر کردہ تھے حالانکہ بطور کہانی نویس ان کا نام نہیں دیا گیا تھا۔
انیس سو بہتر (1972) میں ان کی معرکتہ آلارا قلم "پاکیزه" منظر عام پر آئی جس میں مینا کماری، راجکمار، وینا اور اشوک کمار نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے اور اس کے پرزور اور دل پذیر مکالموں، مسحورکن موسیقی اور دل کش گانوں نے عوام کا دل جیت لیا تھا۔ اس فلم کی مقبولیت کا یہ عالم تھابکہ شملہ سمجھوتے کے دوران جب پاکستانی مہمانوں کو فلم دکھائی گئی تو اس فلم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ایک صحافی نے پاکستان جا کر اخبارات میں لکھا تھا کہ:
"عموماً مقبول فلم کو کھڑکی توڑ کہا جاتا ہے لیکن اگر یہ فلم پاکستان میں دکھائی جائے تو فلم بینوں کا بے پناہ رش کھڑکیاں ہی نہیں سینما دیواریں تک توڑ دے"۔

انیس سو تراسی (1983) میں کمال امروہی نے اپنی آخری فلم "رضیہ سلطان" پیش کی جو ان کی عمدہ ہدایت کاری اور مکالموں،خیام کی اعلی موسیقی، بڑے بڑے بیش بہا سیٹوں اور ہیمامالنی، دھرمندر اور سہراب مودی جیسے بڑے بڑے اسٹار کے باوجود کامیاب نہ ہو پائی اور معاشی طور پر ان کی کمر ٹوٹ گئی۔
کمال امروہی نے مجنوں، ساتواں آسمان اور آخری مغل وغیرہ کئی فلموں کی تیاری کا وقتاً فوقتاً اعلان کیا لیکن یہ فلمیں نہیں بن سکیں اور ان کی زیر ہدایت صرف چار فلمیں محل، دائره، پاکیزہ اور رضیہ سلطان ہی بن پائیں۔ پھر بھی یہ شرف صرف انہیں ہی حاصل ہے کہ ان کی چاروں فلمیں کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
ہندوستانی فلمی صنعت میں، جہاں سیکڑوں فلموں کو ہدایت دینے والے ڈائریکٹروں کا آج کوئی نام لیوا نہیں، کمال امروہی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کیونکہ ان کی ہر فلم میں کوئی نہ کوئی انفرادیت ضرور تھی۔
محل صرف پہلی سسپنس فلم ہی نہیں تھی بلکہ وہ سسپنس فلموں میں سرفہرست بھی ہے۔ اسی طرح "دائرہ" واحد سنجیدہ فلم تھی جس میں ہیرو ہیروئین آپس میں کوئی بات چیت نہیں کرتے۔ "پاکیزہ" کو ہندوستانی سینما کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ اور ان کی "رضیہ سلطان" بھی کہانی ، مکالموں، گیتوں اور بڑے بڑے سیٹوں کی وجہ سے تاریخی فلموں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔

کمال امروہی نے مجنوں، ساتواں آسمان وغیرہ کئی فلمیں بنانے کا وقتاً فوقتاً اعلان کیا تھا جو کسی سبب نہ بن پائیں۔ اسی طرح اپنی وفات سے کچھ عرصہ پیشتر انہوں نے "آخری مغل" بنانے کا اعلان کیا تھا، حالانکہ رضیہ سلطان کی ناکامی سے وہ دل برداشتہ ہو چکے تھے اور اس پر آئی غیر معمولی لاگت نے انہیں مالی طور پر توڑ دیا تھا۔ مگر عمر رسیدگی، بیماری اور بعض دیگر وجوہ سے وہ اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور گیارہ فروری انیس سو تیرانوے (1993) کو ان کی وفات کے ساتھ ہی ان کے "آخری مغل" کے خواب نے بھی دم توڑ دیا۔

***
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا
مولف: ڈاکٹر الف انصاری

Kamaal Amrohi, an eminent legendary Director of Bollywood film industry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں