مینا کو موت مبارک ہو - نرگس دت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-15

مینا کو موت مبارک ہو - نرگس دت

nargis-dutt-meena-kumari
جنم دن مبارک ہو!
شادی مبارک ہو!
دیوالی مبارک ہو!
عید مبارک ہو!
یہ تمام تو کئی بار ، کئی موقعوں اور محفلوں میں کہا بھی اور سنا بھی۔
مگر یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔
"موت مبارک ہو!"
نہ کبھی سنا نہ کبھی بولا۔
مینا، تجھے آج تیری باجی "موت مبارک ہو" کہتی ہے اور یہ بھی کہ پھر کبھی بھولے سے بھی نہ آنا اس دنیا۔ یہ زمین تیرے جیسوں کے لئے نہیں ہے ۔
مدھو بالا کو میں نے اپنے ہاتھوں سے نہلایا، اپنے ہاتھوں سے اسے کفن پہنایا۔
ہدایت کار یو، ایس ، سنی تو میرا ہاتھ پکڑے پکڑے اللہ کو پیارے ہو گئے۔
میری آنکھوں نے فلمی اور غیر فلمی دنیا کے بہت سے لوگوں کو اس دنیا سے جاتے دیکھا، مگر کسی کی موت کا مجھ پر اتنا اثر نہیں ہوا جتنا اثر مینا کماری کی موت کا ہوا ہے ، حالانکہ نہ میں آخری وقت میں اس کے پاس تھی، نہ میں نے اسے آخری غسل دیا، نہ کفن پہنایا، نہ قبرمیں لیٹتے دیکھا۔

جس روز مینا کماری کا انتقال ہوا، اس دن میں جموں میں تھی۔
اس روز صبح ہی سے میرا دل دھڑک رہا تھا ، رہ رہ کر برے برے خیالات مجھے ڈس رہے تھے ۔ لگتا تھا آج کچھ ہو کر ہی رہے گا۔
اور آخر ہو کر ہی رہا۔
اتنا بڑا حادثہ ، اتنی بڑی ٹریجڈی، جسے میں ساری عمر فراموش نہ کر پاؤں گی۔
جموں سے بمبئی آئی ، مینا کماری کی قبر پر گئی۔ میں اپنی ماں کی موت پر بھی اتنا نہیں روئی تھی جتنا مینا کماری کی قبر کے سرہانے روئی ۔ میرے آنسو تب ہی تھمے جب میرے کانوں نے سنا جیسے مینا کماری کہہ رہی ہو۔
"بس کرو باجی! بس کرو۔"
مینا مجھے ہمیشہ باجی ہی کہا کرتی تھی۔

کتنی عجیب بات ہے ، ہم دونوں ایک ہی فلمی دنیا میں کام کرتے تھے ، ایک ہی شہر میں تھوڑے فاصلے پر رہتے تھے، مگر برسوں ملاقات نہ ہوتی۔
ہم دونوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ "مدر انڈیا" کے لئے میری اور "شاردا" کے لیے مینا کی اداکاری کے خوب چرچے تھے۔
فلم فیئر کی طرف سے "مدر انڈیا" کے لئے مجھے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا، مینا کو بمبئی کے فلم جرنلسٹوں نے سال کی بہترین اداکارہ کا اعزاز دیا۔
اس وقت تک ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔
بمبئی کے کرشنا سنیما میں کسی فلم کا پریمئر تھا، میں وہاں سے آ رہی تھی ۔ راستے میں کمال صاحب اور مینا کھڑے تھے۔ کمال صاحب کو میں بچپن سے جانتی ہوں۔ جب وہ میری والدہ سے ملنے گھر آیا کرتے تھے ۔
میں نے آداب کیا۔ کمال صاحب نے جواب دیا۔
"جیتی رہو بے بی۔"
مینا نے کچھ نہ کہا۔
وہ پھٹی پھٹی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی ۔
اگلے روز میں نے اپنے بھائی انور حسین سے اس بات کا ذکر کیا کہ مینا نے میرے آداب کا جواب دیا نہ مجھ سے بات ہی کی۔ اس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی ۔
انور بھائی نے کہا۔ " ممکن ہے انہیں کسی سے ملنے کی اجازت ہی نہ ہو۔"

دت صاحب مدراس گئے ۔ "میں چپ رہوں گی" کی شوٹنگ تھی ، سنیل صاحب نے مجھے فون کیا۔ "شوٹنگ کافی عرصہ چلے گی ، بچوں کو لے کر یہیں آ جاؤ۔"
میں سنجے اور نمرتا کو لے کر مدراس چلی گئی۔
ان دنوں سنجے کی عمر ڈھائی سال کی تھی اور نمرتا ڈیڑھ دو ماہ کی بچی تھی۔
مدراس میں ہم اوشیانک ہوٹل میں ٹھہرے ۔ ہمارے کمرے کے پاس ہی مینا کا کمرہ تھا ۔ مینا کے ساتھ اس کی بہن مدھو اور باقر علی بھی تھے۔
یہاں دوسری بار مینا سے ملاقات ہوئی ۔
مینا نے مجھے دیکھتے ہی آداب کیا اور کہا۔
"میں آپ کا بے حد احترام کرتی ہوں ، اگر باجی کہوں تو برا نہ مانئے گا۔"
ہم بہت جلد دوست بن گئے ۔
رات کو دت صاحب نے ہوٹل سے باہر چینی کھانے کا پروگرام بنایا ۔ مینا کو بھی دعوت دی گئی ۔ تو اس نے کہا وہ بہت تھکی ہوئی ہے ۔ اس لئے ہوٹل میں کھانا کھا لیا ۔
ہمارے سامنے بچوں کا مسئلہ تھا، انہیں اپنے ساتھ لے جائیں یا ہوٹل میں آیا کے پاس چھوڑ دیں؟
مینا نے کہا۔ " آپ بے فکر ہو کر جائیے، بچوں کو میں اپنے پاس رکھ لوں گی۔"
ہم رات گیارہ بجے آئے، آیا نے بتایا کہ بچے مینا کے کمرے میں ہیں ۔
میں دبے پاؤں وہاں گئی تو دیکھا بچے مینا کے ساتھ ہی سو رہے ہیں۔ ایک طرف سنجے تھا اور دوسری طرف نمرتا۔ مینا کا ایک ہاتھ سنجے کے اوپر تھا اور دوسرا نمرتا پر۔
آیا نے بتایا۔ "مینا جی نے بچوں کو کئی بار خود پیشاب کرایا، ان کے پوتڑے بدلے، خود دودھ بنا کر شیشی سے پلایا۔ کندھے سے لگا کر لوری گا گا کر سلایا۔ ہمیں تو میم صاحب نے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا۔"
میں نے دیکھا۔ مینا کے چہرے پر کس قدر چمک تھی ، کتنا اطمینان اور خوشی تھی۔ میں نے سوچا۔
"مینا کس قدر بد نصیب ہے، عورت ہے، بیوی ہے، مگر ماں نہیں ہے ۔ جب ماں بنے گی تو کس قدر نہال ہوگی۔"

اگلے روز مینا سے ملاقات نہ ہوئی۔ شوٹنگ کے بعد وہ کمرے میں گئی تو ہمارے ساتھ چائے پینے کے لئے باہر نہ آئی ۔ پھر کئی روز ہماری ملاقات نہ ہو سکی ۔
ایک رات ہوٹل کے باغ میں مینا ٹہلتی ہوئی مل گئی ۔ سانس بری طرح پھول رہا تھا۔
میں نے وجہ پوچھی تو مینا نے کہا۔
"باجی تمباکو کھاتی ہوں نا، اس لئے کبھی کبھی اختلاج ہونے لگتا ہے ۔"
میں نے کہا۔ " مینا یہ تمباکو نہیں ہے ، تم بہت تھکی ہوئی نظر آتی ہو، آرام کیوں نہیں کرتیں۔"
"باجی۔ آرام میرے لئے کہاں۔ بس ایک ہی بار آرام کروں گی!" مینا نے زمین پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔
میں نے پوچھا۔"مینا تمہاری دل نہیں چاہتا ماں بننے کے لئے؟ تم نہیں چاہتیں کہ تمہارے بھی بچے ہوں؟"
مینانے جواب میں کہا۔ " کون سی ایسی عورت ہے جو ماں بننا نہیں چاہتی۔۔۔؟"
اور پھر اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے ۔ ان آنسوؤں نے شاید اس کی ساری کہانی کہہ دی ۔ساری مجبوری بتا دی ۔
اس رات مینا کے کمرے میں کچھ شور سا ہوا، جیسے کچھ مارا پیٹی ہو رہی ہو۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ مینا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، وہ شوٹنگ پر نہیں گئی۔
سنیل جب شوٹنگ پر چلے گئے تو میں مینا کے کمرے میں گئی۔ مینا کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں میں نے محسوس کیا جیسے وہ بہت روئی ہے ۔ میری نئی نئی ملاقات تھی زیادہ پوچھ نہ سکی۔
میں نے کمال صاحب کے سکریٹری باقر صاحب کو پکڑا اور صاف صاف کہا۔
"آپ لوگ مینا کو کیوں مار ڈالنا چاہتے ہو، بہت کام ہو چکا ہے۔ میں بھی کبھی ایکٹریس تھی۔ جانتی ہوں کہ دماغ تھک جاتا ہے ۔۔۔ جسم تھک جاتا ہے، کب تک اس کا دیا کھائیں گے؟"
باقر صاحب نے کہا۔ " بے بی تم سمجھتی کیوں نہیں، جب وقت آئے گا تو انہیں آرام بھی دیں گے ۔"

اس کے بعد میں دیکھتی کہ مینا چھپ چھپ کر روتی تھی۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر پتہ چلتا کہ آنسوؤں کا طوفان اب آیا کہ جب آیا۔ مگر وہ انہیں پی جاتی۔
میں نے کہا: "میں تمہارا درد سمجھتی ہوں، ہمت کرو۔ اس طرح رونے پیٹنے سے کیا حاصل۔ تم میری چھوٹی بہن کی طرح ہو، آج سے میں تمہیں مینا نہیں منجو کہا کروں گی۔"
منجو اور ہم سب بمبئی آ گئے۔
عرصہ تک ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔
بس اس کے بارے میں اِدھر اُدھر کی ہی باتیں سنتے رہتے تھے۔
ایک روز سنا کہ وہ کمال صاحب کا گھر چھوڑ کر محمود کے ہاں چلی گئی ہے ۔
"پنجرے کا پنچھی" کے سیٹ پر باقر سے مینا کا جھگڑا ہو گیا تھا، یہ اتنا بڑھا کہ مینا نے کمال صاحب کے گھر میں دوبارہ قدم نہیں رکھا۔
میں نے بھی کبھی اس سلسلے میں بات نہ کی۔

ہماری اچھی دوستی اس وقت ہوئی جب وہ محمود کے ہاں سے "جانگی کٹیر" میں آ گئی۔
پھر مینا کی شراب نوشی کے واقعات کانوں میں آنے لگے، میں نے سوچا کہ منع کر دوں مگر ہمت نہ پڑتی تھی۔
کچھ ہی دنوں کے بعد کثرتِ مے نوشی کی وجہ سے مینا کا جگر خراب ہوا۔ اور اسے یرقان (Jaundice) ہو گیا۔
میں سینٹ الزبتھ نرسنگ ہوم میں مینا سے ملنے گئی ، میں نے کوئی ایسی بات نہیں چھیڑی ، جس سے اسے شرمندگی ہو۔
میں نے اس کے پیلے رنگ کو دیکھ کر کہا۔
"ہائے یہ پیلا رنگ کس قدر خوبصورت لگ رہا ہے ۔ منجو تم بالکل بسنتی ہو گئی ہو۔"
پھر کچھ ہمت کے بعد میں نے یہ بھی کہا۔ "منجو تم آزاد ہو۔ مگر ایسی بھی آزادی کس کام کی کہ خود کو مار ہی ڈالو۔"
مینا نے کہا۔ " باجی! برداشت کی بھی حد ہوتی ہے ۔ اب کمال صاحب کے سکریٹری کی یہ مجال کہ مجھ پر ہاتھ اٹھائے؟ میں نے کمال صاحب کو فون کر دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ دوڑے دوڑے آ جائیں گے اور باقر صاحب کو نکال دیں گے ۔ مگر انہوں نے کہا۔
'تم گھر آ جاؤ، میں یہاں فیصلہ کروں گا۔'
"وہ کیا فیصلہ کرتے، میں نے ہی فیصلہ کر لیا کہ اب واپس نہیں جاؤں گی۔"
"مگر اب خود کو کیوں مارے ڈال رہی ہو؟ زندگی کو خوبصورت بناؤ۔"
میں نے اسے مشورہ دیا۔

اس کے بعد مینا کی زندگی میں ایک نئی شخصیت آئی۔۔۔ اس کا نام دھرمیندر تھا ۔ وہ بہت خوش تھی۔ گویا ساری دنیا کی دولت اسے مل گئی ہو۔ مینا کی خوشی ہی میں میری خوشی تھی ۔ میں مینا کے پاس تب ہی جاتی جب اسے خوشی کی ضرورت ہوتی۔ ہنسنے کی ضرورت ہوتی۔
مینا نے زندگی میں اگر کسی کو بھرپور چاہا ہے تو وہ دھرمیندر ہے۔ یہ دور اس کا سب سے حسین دور تھا ، وہ خود کو بہت خوش نصیب تصور کرتی تھی۔
مگر یہ دور بھی ختم ہو گیا۔
ایک غلط فہمی نے انہیں جدا کر دیا۔
دھرمیندر اس کی زندگی سے چلا گیا۔

اس کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ غم برداشت نہ کر سکی اور اس غم کو بھلانے کے لئے یا خود کو گھلانے کے لئے اس نے بوتل منھ سے لگایا۔ خود کو رات اور دن شراب میں غرق کر لیا۔ خود کو فنا کرنا شروع کر دیا۔ وہ اپنی زندگی سے بیزار ہو گئی ۔ اپنے وجود سے بیزار ہو گئی۔ اپنے وجود سے بے نیاز ہو گئی۔
مینا اکثر کہا کرتی۔
"باجی! اب یہ تنہائی ہی میرا مقدر ہے ۔ یہ تنہائی ہی میری تقدیر ہے ۔ مجھے خود پر ترس نہیں آتا ۔ آپ بھی مجھ پر ترس نہ کھائیے۔"

اب مینا موت سے قریب ہونے لگی۔ اس نے کسی کی بات نہیں سنی۔ میری بھی کوئی بات نہیں مانی۔ وہ کچھ کیا جو اس کا دل کہتا تھا۔
میں یہ سب برداشت نہ کر سکی۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ نئی زندگی کا جامہ پہنے، پرانی زندگی کو بھول جائے۔ میرے اور شمی کے ساتھ اپنا وقت گزارے، ہم روز پکچر چلیں، گھر میں پھریں، اودھم مچائیں، زندگی کا ہر لمحہ خوشی اور مسرت میں کاٹیں۔ مگر اس نے اپنی ہٹ نہ چھوڑ ی۔
میں نے کہا۔ " تم من کی شانتی کے لئے قرآن شریف پڑھو، درگاہوں پر جاؤ ، بزرگانِ دین سے ملو، نئے نئے دوست بناؤ، اپنے گرد پڑے سب پردے پھاڑ ڈالو ، ناامیدی اور یاس کی چادر تا ر تار کر دو۔"
مگر و ہ انہیں پردوں میں رہی۔ اسی چادر کو اوڑھے رہی۔

دھرمیندرکے بعد اور بھی کئی لوگ اس کی زندگی میں آئے، لیکن وہ سب مطلب پرست ثابت ہوئے ۔ ہر واقعے نے نیا زخم لگایا۔ ایک زخم ابھی بھرتا نہیں تھا کہ دوسرا لگ جاتا تھا۔
ہم لوگ ماسکو فلم فیسٹیول میں گئے ۔ آج وہ زندہ ہوتی اگر وہ ماسکو میں اپنا علاج کرا لیتی ۔ ہم نے زبردستی ڈاکٹروں کو دکھایا۔
ہندوستان کے سفیر کیول سنگھ نے کہا کہ وہ ان کے گھر آ کر رہے ۔ ان کی بیوی اور لڑکی ہر طرح کی خدمت کریں گی ، روسی ڈاکٹروں نے خوشامد کی مگر وہ ہندوستان جانے کے لئے بے چین تھی ۔
وہ کہتی تھی۔" پھر کبھی یہاں آؤں گی باجی۔۔۔ اب تو ہندوستان لے چلئے۔"

ماسکو سے مینا کو ہم لندن لے گئے، وہاں بھی وہ زیادہ تر ہوٹل کے کمرے ہی میں رہی۔
پھر مینا بمبئی آ گئی، اور یہاں آکر کچھ ہی دن بعد بیمار ہوگئی ، اور بیماری کا یہ سلسلہ طویل ہوتا گیا۔
ایک روز کسی نے فون کر کے بتایا کہ مینا کی طبیعت بہت خراب ہے ، میں تین ڈاکٹروں کو لے کران کے گھر پہنچ رہا ہوں، آپ بھی آ جائیے، وہ آپ کی بات مانتی ہے ۔"
ڈاکٹروں نے دیکھا اور صاف کہہ دیا کہ وہ علاج کے لئے اس شرط پر تیار ہیں کہ آج سے شراب کا ایک قطرہ نہ پئیں، اور جو دوائیاں دیں ان کو لیں۔ ڈاکٹروں کا تجویز کردہ کھانا کھائیں۔
مینا نے وعدہ کیا مگر کبھی پورا نہیں کیا۔
پھر بیماری اور ہسپتال کا تانتا بندھ گیا ۔ دو روز طبیعت ٹھیک رہتی وہ پھر شوٹنگ شروع کر دیتی۔
فلم "دشمن" کی ڈبنگ ہمارے ہی گھر میں بنے ہوئے منی تھیٹر میں تھی۔ مجھے بلوایا۔
میں گئی، تو سب کو باہر بھیج دیا۔ میرے کاندھے پر سر رکھ کر روتی رہی، روتی رہی اور روتی رہی ۔ پھر روتے ہی روتے کہا۔
"باجی! میں کتنی بد نصیب ہوں ، کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا ۔آپ بھی نہیں کرتیں۔ مہینوں نہیں ملتیں"۔
میں نے اسے تسلی دی ، دلاسا دیا، بچے کی طرح پیار کیا، گلے لگایا۔
ویسے جب بھی میں نے مینا کو گلے لگایا، میں نے اپنا کندھا اس کے آنسوؤں سے ہمیشہ گیلا پایا۔
3/فروری/1972 کو 'پاکیزہ' کے پریمئر پر مینا کا فون آیا۔
"باجی! آپ کی شروع کرائی ہوئی پکچر کا آج پریمئر ہے، ضرور آئیے گا۔"
میں گئی تو کھڑے ہو کر مجھے لگے لگا لیا۔
میں انٹرویل کے بعد ہی واپس چلی گئی، کیونکہ اس روز دت صاحب کو بخار تھا، میں نے مینا سے وعدہ کیا تھا کہ پوری فلم دیکھ کر ہی اپنی رائے بتاؤں گی۔ مگر اب پوری فلم کب دیکھ سکوں گی ، کہہ نہیں سکتی ۔ مجھ میں ابھی تک پاکیزہ دیکھنے کی ہمت نہیں۔
ریڈیو سے پاکیزہ کے گانے سن کر ہی میرا برا حال ہو جاتا ہے ۔ فلم دیکھ کر نہ جانے کیا ہو۔

پاکیزہ میں مینا کے دوبارہ کام کرنے کی بھی کہانی ہے ، کمال صاحب دت صاحب کو لینا چاہتے تھے، اور مینا کا رول کسی دوسری اداکارہ کو دینا چاہتے تھے ۔
دت صاحب نے گھر آ کر یہ بات مجھے بتائی کہ پاکیزہ میں مینا کو الگ کر دیا گیا تو پاکیزہ کا حسن ختم ہو جائے گا۔ میں مینا سے ملی اور کہا۔
" منجو! اگر یہ فلم مکمل نہ ہوئی تو بہت ظلم ہوگا ۔ کمال صاحب تمہاری جگہ کسی اور لڑکی کو لے رہے ہیں۔ آخر وہ کب تک انتظار کر سکتے ہیں ، تم کام کرو تو میں کمال صاحب سے بات کروں۔"
مینا نے صرف اتنا کہا۔ "آپ کہیں گی تو کروں گی۔"
میں نے کمال صاحب سے بات کی ۔ انہوں نے کہا۔ "مینا مل جائیں تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے ۔ مگر اس بات کی گارنٹی دینی ہوگی کہ وہ خود کو دبلا کریں گی ، وقت پر سوئیں گی ، وقت پر اٹھیں گی، شراب نہ پئیں گی۔"
میں نے مینا کی طرف سے انہیں اس بات کی گارنٹی دے دی۔

میں نے مینا کو مشورہ دیا کہ جب تک پاکیزہ مکمل نہ ہو وہ کسی نرسنگ ہوم میں جا کر رہے ، جہاں ڈاکٹروں کی نگرانی میں اپنا وزن کم کرے اور کھانے اور سونے کے اوقات کی پابندی کرے ۔
ابھی یہ باتیںہوہی رہی تیھں کہ مینا پھر بیمار ہوگئی اور علاج کے لئے لندن چلی گئی۔
وہاں سے آنے کے بعد وہ بہت دبلی ہو گئی تھی ، اور پہلے کی طرح پرکشش نظر آ رہی تھی۔
پاکیز ہ پھر شروع ہو گئی اور آخر مینا نے میری لاج رکھی اور اسے مکمل کر دیا۔
میں اس درمیان مغربی سرحد اور بنگلہ دیش کے سفر پر رہی، واپسی پر معلوم ہوا کہ مینا کے بہت فون آئے تھے۔
11/مارچ کو میں مینا کے ہاں گئی ۔ میرے ساتھ جمیلہ بانو بھی تھیں، جو دہلی میں خواتین کا ایک مشاعرہ کر رہی تھیں ۔ صدارت کے لئے وہ مینا کماری کو مدعو کرنا چاہتی تھیں۔
اس روز ہم نے دیکھا مینا بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ بال بہت ہی پیارے انداز میں بنائے ہوئے تھے ۔ ہونٹوں پر ہلکی لپ اسٹک بھی تھی۔
مینا نے خوود بھی پان کھایا اور ہم سب کو بھی پیش کئے، اس کا پاندان ساتھ تھا ۔ دت صاحب نے جب وہ پاندان دیکھا تو بہت غصہ آیا اور بولے۔
"ہم اپنی بیوی کے پان سے ہی پریشان تھے اور آپ بھی پاندان لے کر آ گئی ہیں۔"
ہم دت صاحب کی نظر سے بچ بچ کر چپکے چپکے پان کھاتے رہے۔
ایک دن مینا نے کہا۔ "باجی! آپ کا دت صاحب سے ڈرنا ٹھیک ، یہ میں کیوں ان سے ڈرتی ہوں؟"
مینا نے اس روز مجھ سے بنگلہ دیش اور مغربی سرحد کی بہت سی باتیں سنیں۔ میں نے صرف اچھی ہی اچھی باتیں سنائیں۔ وہ اتنا ہنسی کہ اس کے پیٹ میں ہنستے ہنستے بل پڑ گئے ۔
اس نے کہا۔ "خدا کے لئے باجی بس کرو، ہنستے ہنستے میرے پیٹ میں درد ہونے لگا ہے ۔"

مینا نے مشاعرہ کی صدارت کے لئے معذوری پیش کی اور وعدہ کیا کہ اگلے سال ضرور صدارت کروں گی۔
چلتے وقت مینا نے کہا۔ "باجی! آپ کا ایک پاؤں بمبئی میں ہے اور دوسرا بمبئی سے باہر، ایسا نہ ہو کہ آپ کہیں چلی جائیں اور واپس آ کر پتہ چلے کہ مینا نہیں رہی۔"
میں نے پیار سے اس کے سر پر چپت ماری اور کہا۔ "یاد ہے منجو، تم نے میری بیٹی نمرتا کے پوتڑے بدلے تھے، اس کی شادی سے پہلے ہم تمہیں جانے نہیں دیں گے ۔"
مینا نے کہا۔ "باجی! آپ سے کچھ بہت ضروری باتیں کرنی ہیں کسی روز آ جائیے۔"
اور میں کئی روز تک نہ جا سکی ۔
پھر دہلی چلی گئی اور وہاں سے پٹھان کوٹ اور جموں۔
روانگی سے قبل میں نے مینا کو فون کیا تھاکہ میں جا رہی ہوں ، پہلی اپریل کو آ کر ملوں گی۔
مینا نے جواب میں اپنی مدھو سے کہا: "باجی سے کہنا پہلی اپریل کو جب وہ آئیں گی، میں نہیں رہوں گی۔"
مدھو نے یہ پیغام مجھے نہیں دیا ورنہ میں اسے چھوڑ کر نہیں جاتی۔

مینا کے انتقال کی خبر مجھے جموں میں ملی۔ دل تھام کر رہ گئی اور اس آخری ملاقات کی یاد آتی رہی ، نہ جانے وہ کیا کہنا چاہتی تھی جو اس کے دل ہی میں رہ گیا۔
شاید وہ اپنی وصیت کے بارے میں بتانا چاہتی ہو ، جو اس ملاقات سے چند روز قبل 6/مارچ کولکھی گئی تھی۔ یا کچھ اور کہنا چاہتی ہو اور اس روز مہمانوں کی موجودگی میں کہہ نہ سکی ہو۔ مجھے ساری زندگی اس بات کا افسوس رہے گا کہ میں مینا سے پھر کیوں نہ مل سکی۔ اس کے آخری دنوں میں بمبئی میں کیوں نہ تھی؟

اس واقعہ کے چند روز قبل ہمارے گھر کے منی تھیٹر میں مینا کی فلم " گومتی کے کنارے" کا شو تھا۔ مینا نے فون کیا کہ کیا میں بھی آ جاؤں؟
میں نے منع کیا اور کہا۔ "ڈاکٹروں نے تمہیں آرام کرنے کے لئے کہا ہے ، گھر سے قدم مت نکالو، فلم دیکھ کر تمہیں اپنی رائے ضرور بتا دوں گی۔"
میں نے فلم دیکھی اور بتایا کہ "تم بہت حسین لگتی ہو، مگر کہانی کے اخیر میں تمہیں مار ڈالا ہے، اس کے بجائے تمہیں زندہ رہنا چاہئے۔"
پھر میں نے فلم کے ڈائریکٹر ساون کمار کٹک سے کہا کہ وہ اس کا اینڈ بدلیں ۔ ساون کمار کٹک نے میرا مشورہ مان لیا۔
کہانی یہ ہے کہ ایک لڑکے کو ایک طوائف پالتی ہے ۔ جب لڑکا بڑا ہو جاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ جس ماں کی وہ پوجا کرتا ہے وہ طوائف ہے ، کچھ دیر کے لیے وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ اور ماں سے نفرت کرنے لگتا ہے ۔۔۔ مگر اخیر میں دنیا کے سامنے اسے ماں کا رتبہ دے دیتا ہے مگر ماں اس کی زندگی سے ہٹ جانے کے لئے زہر کھا کر مر جاتی ہے ۔

مینا کی کہانی بھی اس عورت کی طرح ہی ہے ۔ اس نے دوسروں کے لئے دکھ اٹھائے ، غم برداشت کئے، مگر کبھی کسی نے اس کی قدر نہ کی ، زندگی میں کبھی کسی نے اسے قبول نہیں کیا ۔ کسی کو وہ اپنا نہ کہہ سکی ۔ پھر وہ کس کے لئے جیتی ، کس کے لئے خود کو زندہ رکھتی ۔ عورت کو دوست نہیں شوہر چاہئے ، بچے چاہئیں، اس کی زندگی میں خلا تھا جو کبھی پورا نہ ہوا۔
اس کا اپنا کوئی نہ تھا۔
سب بے گانے تھے۔
غیر تھے۔
وہ محبت کی تلاش میں ایک پیاسے کی طرح ماری ماری پھرتی کہ ہمیں کہیں سے ایک بوند پیار مل جائے ۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔
پیار کی یہ بوند اسے کہیں نہ ملی۔
وہ تڑپتی رہی۔
وہ ترستی رہی۔
وہ اکیلی رہی اور اکیلی ہی گئی۔
اس کے اس اکیلے پن سے۔۔۔۔
اس کے دکھ سے۔۔۔۔۔۔ خدا بھی تڑپ گیا ہوگا۔
مگر۔۔۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔ ظالم انسان۔۔۔ بے حس انسان اچھے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ ایسا ہی کرتے رہیں گے۔

نوٹ:
ماخوذ از کتاب: ملکۂ غم مینا کماری

On the sad demise of Meena Kumari. Article: Nargis Dutt.

2 تبصرے:

  1. مینا کماری میری پسندیدہ ایکٹریس رہی ہیں. میں نے ان کی بیشتر فلمیں دیکھیں ہیں اور ان سے متعلق بہت سی معلومات رکھتا ہوں.نرگس دت کی یہ نظم یا مضمون کہیں بہت پسند آیا... پھر بھی مینا کماری کے میرے دل ہمدردی ہے ایک خلش بھی...

    جواب دیںحذف کریں
  2. آہ مینا کماری۔
    اشک بار ہوگیا۔
    مینا کی زندگی پر ایک فلم بننی چاہیے۔

    جواب دیںحذف کریں