ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 08 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-08

ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 08


ram-mohammad-desouza-qist08

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
جب رحیم تالاب سے نکل کر جیا کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ جیا نے بچے کو دودھ پلا کر سلا دیا ہے۔ رحیم جیا کو مسلمان ہو جانے کا مشورہ دینے لگا۔ دوسری طرف نندن نے رات کے اندھیرے میں ایک لڑکی گلابو کو غنڈوں کی دست درازی سے بچایا۔ پھر گلابو اس کی پناہ میں آ گئی اور نندن نے گلابو کو ایک کہانی سکھا کر جولی اور رابرٹ کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں بتائے کہ بچہ گلابو ہی کا ہے ۔۔۔۔ اب آگے پڑھیے ۔۔۔

قسط : 01 --- قسط : 07

اس نے بتایا کہ ٹھاکر کے یہاں سات اولادیں ہوئی تھیں لیکن ان کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا۔ اس بچہ کے پیدا ہونے پر ٹھکرائین بھی مر گئی تھی۔۔ اس وجہ سے ٹھاکر نے یہ بچہ گلابو کو دے دیا تھا کہ اس کے نام کا ہو کر شاید بچہ جی جائے۔ اس نے بڑی تفصیل سے رابرٹ کو اس گھر کا نقشہ بتایا جہاں سے ان لوگوں نے بچہ کو بچا لیا تھا۔۔ ان کپڑوں کی تفصیل بھی بتائی جو بچہ پہنے ہوئے تھا۔ گلابو نے کہا کہ اس کو گھسیٹا گوجر سے پتہ لگا تھا کہ اس کے بچہ کو اس گاؤں کے آدمی اس کی بکری موہنی کا دودھ پلا کر اپنے گاؤں لے گئے ہیں اور جب وہ اس قصبہ میں آئی تو یہاں کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ رابرٹ اور جولی نے اس کو عیسائی بنا لیا ہے۔ اس قدر تفصیل سننے کے بعد رابرٹ کو یقین ہو گیا کہ بچہ گلابو کا ہے۔ گلابو نے دیکھا کہ اس کا تیر نشانے پر بیٹھا ہے اور رابرٹ شرمندہ ہے تو اس نے ترپ چال چلی اور دھمکی دی کہ اگر رابرٹ نے بچہ اس کے حوالے نہ کیا تو وہ سیدھی پولیس چوکی جاکر رپٹ لکھائے گی کہ کرسٹانون نے اس کے ہندو بچے کو زبردستی کرسٹان بنا کر اس پر قبضہ کر لیا ہے۔
رابرٹ ڈر گیا کہ کہیں گاؤں میں فساد کھڑا نہ ہو جائے اور کرسچنیوں کی مصیبت ہو جائے۔ وہ گلابو کی خوشامد کرنے لگا کہ وہ پولیس میں نہ جائے۔ اور وعدہ کیا کہ وہ بچہ کو لاکر اس کے حوالے کر دے گا۔ اس نے گلابو کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بچہ اس کے پاس نہیں ہے۔۔ اس کو رحیم چرا کر لے گیا ہے۔۔ لیکن گلابو نے اس بات کے ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ رابرٹ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ بچہ کو چھپا رہا ہے۔ گلابو اپنا سر پیٹ کر اور بال نوچ کر اس طرح چلانے لگی کہ جولی اور رابرٹ دونوں اس کے پیروں میں گر گئے۔

رابرٹ سیدھا نندن کی مدد لینے اس کے پاس پہنچا ، لیکن نندن سے ملاقات نہ ہو سکی۔ شنکرا پہلوان نے اس کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔
اتنے میں اس کا مریل کتا جارج چیختا ہوا آیا اور اس کا پتلون پکڑ کر کھینچنے لگا۔ رابرٹ سمجھ گیا کہ اس نے رحیم اور بچہ کا پتہ لگا لیا ہے۔ وہ تیزی سے کتے کے پیچھے بھاگا۔ کتا خلیفہ عبدالرحمن حجام کے مکان کے پاس آ کر بھونکنے لگا۔ مکان کا دروازہ کھلا تھا اور وہاں کچھ مسلمان لونڈے جمع تھے ، رابرٹ نے اندر جانا مناسب نہیں سمجھا۔ ایک لونڈے سے رحیم کو باہر بلوایا، رحیم باہر نہیں آیا۔ رابرٹ انتظار کرتا رہا ، کہ اس کو اچانک بچہ کی چیخ سنائی دی، رابرٹ تڑپ کر اندر گھس گیا۔

مسلمانوں کی کوئی پیدائشی امتیازی نشانی نہیں ہوتی، لیکن ایک نشانی ایسی بنا لی جاتی ہے جو ہمیشہ کے لئے ایک اسلامی نشانی بن جاتی ہے۔ یہ رسم اسلام کے پہلے سے موجود ہے ، اور ہندوستان کے کچھ صوبوں کے ہندوؤں میں بھی ادا کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کے عوام اس کو خالص اسلامی ٹھپہ سمجھتے ہیں۔ رحیم بھی یہی سمجھتا تھا۔
رابرٹ اندر گھسا تو اس نے دیکھا کہ رحیم کے سر پر ٹوپی ہے اور وہ اپنی دونوں بانہوں میں بچے کو اس طرح لئے ہوئے ہے جس طرح بچہ کو چھپا کرواتے ہیں۔ لیکن بچہ کی پیشاب کی جگہ سے خون کے قطرے بہہ رہے تھے۔
خلیفہ عبدالرحمن جس کا استرا وغیرہ اس کے پاس رکھا تھا بچہ کے مرہم پٹی کر رہا تھا۔ مسلمان لونڈے چیخ رہے تھے۔
"وہ سونے کی چڑیا اڑ گئی۔"
ایک بوڑھا سب کو لڈو بانٹ رہا تھا۔
رابرٹ نے اپنا سر پیٹ لیا۔

رابرٹ نے رحیم کو اونچ نیچ سمجھائی۔
" یہ بڑی اچھی بات ہے کہ نندن کو شنکرا پہلوان نے گھیر رکھا ہے اور گلابو اس تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ سمجھداری کی بات یہ ہے کہ بچہ کو گلابو کے حوالے کر کے رخصت کر دیا جائے ورنہ سارے گاؤں میں ہندو مسلم خون کی ہولی ہو جائے گی۔"
رحیم کا دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہٰں ہوتا تھا کہ بچہ ہندو ہو سکتا ہے اور گلابو اس کی انّا ہے۔ لیکن جب گلابو نے بتایاکہ بچہ کے بائیں چوتڑ پر ایک ننھا سا کالا تل ہے اور وہ تل رحیم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو کوئی چارہ نہ رہا۔
پھر بھی بچہ کا پیار اس کو جدا نہ کرنے کے راستے ڈھونڈنے لگا۔

نندن نے خود موقع واردات سے غائب رہ کر جو ترپ کے اکے کی چال چلی تھی، وہ بازی جیت لی۔ مگر اب رحیم اور رابرٹ نے یہ طے کیا کہ نندن کو بلایا جائے کیوں کہ گلابو کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ہندو ہونے کی وجہ سے وہ رابرٹ یا رحیم کا سہارا لینے پر تیار نہ ہوگی اس لئے نندن کو تیار کیا جائے کہ وہ گلابو کو سہارا دے اور گلابو بچہ پالے!

نندن کو سین میں داخل ہوتے وقت بپھرے ہوئے شیر کی ایکٹنگ کرنی تھی۔ بپھرے ہوئے شیر تو وہ تینوں رہتے ہی تھے۔ لیکن ایک خاص موقع پر ایک خاص مقصد کے لئے بپھرے ہوئے شیر کی ایکٹنگ کرنا نندن کے بس کا کام نہیں تھا۔ وہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن دو باتوں نے اس کی مدد کی۔ ایک تو گلابو کے ذریعے ہتیا کر بچہ پالنے کا جو نندن کا ماسٹر پلان تھا وہ پلان اب رحیم اور رابرٹ کا ہو کر اس کو خیرات میں مل رہا تھا ، دوسرے بچہ کے گلے میں جو عیسائیت لپٹی تھی اس کو تو وہ اتار کر پھینک سکتا تھا، مگر اس اسلامی ٹھپ کو کس طرح مٹائے ؟ اس انمٹ کوفت کی شدت پوری طرح ان گھونسوں میں نکلی جو اس نے رحیم کو لگانا شروع کئے۔ رحیم آرام سے اس کے گھونسے اور خود قلا بازیاں کھاتا رہا۔ اگر وہ ایک وار بھی نندن پر کرتا تو بچہ سے اس کا تعلق ٹوٹ جانا۔۔۔۔ ہر گھونسے پر وہ ایسا محسوس کرتا تھا جیسے بچہ سے اس کا تعلق مضبوط تر ہورہا ہے، لیکن نندن ان دونوں سے بات کئے بغیر گلابو اور بچہ کولے کر چلا گیا۔
گاؤں کی پچھمی حد پر نندن کی اک دور کی موسی درگا کا جھونپڑا تھا۔ وہ تقریباً اندھی تھی۔۔ وہ اپنی جوانی میں ایک مسلمان گھوسی لونڈے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔۔۔ گاؤں کے بااثر مسلمانوں نے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لئے اس مسلمان چھوکرے کو بھی گاؤں سے بھگا دیا، وہ درگا کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ لیکن برادری والوں نے درگا کو واپس قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد سے درگا کو اپنی والہانہ محبت کا حقیقی جذبہ پاپ لگنے لگا اور وہ اس کا پرائشچت کرنے کے لئے سخت مذہبی ہو گئی، پھر بھی گاؤں والے اس سے کچھ لینا دینا نہیں رکھتے تھے۔ درگا اب بڑھیا ہو گئی تھی لیکن برادری والوں کا جذبۂ نفرت اسی طرح جوان تھا۔ درگا کی کھیتی تھی لیکن آنکھوں کی مجبوری کی وجہ سے سب کام اس کو دوسروں کی خوشامد کر کے کروانا پڑتا تھا۔ کھیتی کافی تھی لیکن پیداوار اس کو آخر میں اتنی ملتی تھی کہ بس اس کو بھیک مانگنا نہیں پڑتی۔ زمین پر بنئے کا بیاج بڑھتا جاتا تھا۔
نندو درگا کی کھیتی سنبھالے۔۔۔ اس شرط پر درگا۔۔ گلابو اور اس کے بچہ کو پناہ دینے پر راضی ہو گئی اور گلابو کو ٹھکانہ مل گیا۔

بچہ بھوک سے بلک رہا تھا اور گلابو حیران تھی کہ نندن کو کس طرح سمجھائے کہ وہ بچہ کو دودھ پلائے تو کس طرح؟
نندو سمجھتا تھا کہ عورت عورت ہوتی ہے اور عورت کے دودھ ہوتا ہے۔ اس کو گلابو پر سخت غصہ آیا کہ یہ ایسی کیسی عورت ہے جو بچہ کو دودھ نہیں پلا سکتی ، اس نے گلابو کو غور سے دیکھا۔ اس کے سینے کے ابھار سے معلوم ہوتا تھا کہ گلابو ایک وقت میں سیر بھر دودھ آرام سے دے سکتی ہے۔
آخر بےشرم ہو کر گلابو نے نندن کو سمجھایا کہ دودھ بچہ ہونے کے بعد عورت کی چھاتیوں میں خود بخود اترتا ہے، اور اس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔

گلابو کو نندن کی اس سادہ لوحی پر بے پناہ پیار آیا۔ لیکن نندن ایک بھنور میں پھنس گیا تھا۔ رحیم اور رابرٹ کے لئے اس کے ناٹک میں گلابو بچہ کی انّا تھی۔ اگر یہ چوری پکڑی گئی تو کیا ہوگا؟ اس مسئلہ کا حل درگا نے دے دیا۔ درگا نے سمجھایا کہ جن دہشت زدہ مصیبتوں سے گلابو گزری ہے، اس کی وجہ سے اس کا دودھ خشک ہو گیا ہے، اس نے نندن سے کہا کہ وہ کسی دودھ پلانے والی کا بندوبست کرے۔ نندن کو یہ نکتہ رحیم اور رابرٹ سے بچاؤ کے لئے کافی لگا۔ لیکن دوسری مصیبت یہ تھی کہ بھوک سے تڑپ کر بچہ نے جو ہاتھ پاؤں مارے تو اس کے زخم سے خون رسنے لگا، نندن کو ایک بار پھر رحیم پر سخت غصہ آگیا اور جی چاہا کہ رحیم کا قتل کر دے اس کے غصے کے ساتھ ہی رحیم بھی آ گیا۔

"رحیم تو چلا جا میرے سامنے سے نہیں تو میں تیرا خون کر دوں گا۔"
"بچہ کا پھایا بدلنا ہے۔"
رحیم نے بڑی معصومیت اور بھولےپن سے جواب دیا۔
"کیسا پھایا سالے؟" نندن آگ بگولہ ہو کر بولا۔
"یہ پھایا۔ دوا بھی لگانی ہے ورنہ زہر باد ہو جائے گا۔"
نندو تڑپ کر رہ گیا اور بغیر ایک لفظ کہے اندر سے بچہ کو دونوں ہاتھوں میں اٹھاکر لے آیا۔ رحیم ایک بہت بڑے مشاق جراح کی طرح بچہ کے زخم کو پونچھ کر نیا مرہم لگا کر دسری پٹی باندھنے لگا، اس عمل میں جس قدر وقت وہ لگا سکتا تھا اس نے لگایا، بیچ بیچ میں وہ بچہ سے کھیلتا بھی جاتا تھا، اور پیار بھی کرتا جاتا تھا ، نندن کو معلوم تھا کہ رحیم حرمزدگی کر رہا ہے لیکن وہ بے بس تھا، جب رحیم کا کام ختم ہو گیا اور وہ بچہ کو اندر لے جانے لگا تو اس نے تحکمانہ لہجہ میں رحیم سے کہا۔
"اب اس طرف کا رخ کبھی نہ کرنا۔"
"پانچ دن اور پھائے بدلنے پڑیں گے اور سالے تو بہت احتیاط کرنا، ذرا بھی گڑ بڑ ہوگئی تو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی تیرا جیسا ہو جائےگا۔"
نندن رحیم کو ماں کی گالی دے کر اندر جانے لگا تو درگا باہر نکل آئی اور رحیم سے مدد لینے کے لئے اس نے رحیم کو بتا دیا کہ گلابو کا دودھ خشک ہو گیا ہے، بچہ کے لئے جلد سے جلد کوئی انتظام ہو سکے تو کر دے۔
نندن کا سارا غصہ درگا پر پھٹ پڑا لیکن رحیم وعدہ کر کے بھاگ گیا۔
یا تو جو بکری نندن لایا تھا اس کے دودھ میں کچھ خرابی تھی یا بچہ کو جیا کے دودھ کا مزہ لگا تھا۔ پتہ نہیں کیا بات تھی ، لیکن ساری کوششوں اور ترکیبوں کے باوجود اس نے بکری کے دودھ کا ایک قطرہ بھی حلق کے نیچے نہیں اتارا تھا۔ منہ میں جاتے ہی باہر تھوک دیتا تھا۔ سب پریشان تھے کہ اتنے میں رحیم جیا کو لے کر پہنچ گیا۔

رحیم ہندوؤں کو ہندو ہی سمجھتا تھا، اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ہندوؤں میں ایک طبقہ ایسے ہندوؤں کا بھی ہے جو ہندو نہیں ہوتا۔ جیا اچھوت تھی، نندن اور درگا دونوں نے اس کا دودھ بچہ کو پلوانے سے انکار کر دیا تھا۔
بچہ جئے یا مرے اس سے رحیم کو کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ لوگ جو مناسب سمجھیں گے بندوبست کریں گے۔ رحیم کے دل میں آیا کہ وہ صاف صاف کہہ دے کہ بچہ نے جیا کا دودھ کئی بار پیا ہے۔ مگر اسلام کی ہتک کے خیال سے وہ چپ رہ گیا۔ لیکن جیا ان کو گالیاں دیتی ہوئی واپس آ گئی۔

نندن کو پتہ تھا کہ امریکن کرسچین مشن سے گاؤں کے پادری کے پاس دودھ کا پاؤڈر آتا ہے جو پانی میں گھول دینے سے بالکل عورت کے دودھ کا مزہ دیتا ہے۔ لیکن اپنی صفات میں عورت کے دودھ سے زیادہ مقوی ہوتا ہے۔۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جولی اور رابرٹ بچہ کو یہی دودھ پلاتے تھے ، لیکن اس کی ہندو آن بان نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے دھرم کے بچے کو پالنے کے لئے رابرٹ اور جولی کے آگے ہاتھ پھیلائے، اس کی ضرورت بھی کیا تھی؟ گاؤں کے پادری کا گھر گرجے کے ہی ایک حصہ میں تھا، جہاں دودھ کے ڈبے تھے۔۔ ان کا مار لینا کام ہی کون سا مشکل تھا۔
رات کے ساڑھے گیارہ بجے وہ گرجے کی طرف چل کھڑا ہوا ، رستہ میں اس کو ایک چھوٹی بطخ کا بچہ ملا جو پھٹ ہو کر کھو گیا تھا۔ اس سے نندن کا کام اور بھی آسان ہو گیا۔ اس نے بچہ کو دبوچ لیا اور گرجے کے پاس پہنچ کر پہلے بچے کو دیوار پر سے نیچے گرجے کے اندر پھینک دیا۔ بچہ نے زور زور سے "قیں قیں" کی اور نندو ذرا دبک گیا کہ اگر بوڑھا پادری اٹھ گیا تو کہہ دےگا کہ وہ اپنا بطخ کا بچہ لینے آیا ہے۔ لیکن پادری یا تو تھا ہی نہیں یا اس کی آنکھ نہ کھلی۔ نندن گرجے کا دروازہ کھول کر اندر پہنچ گیا۔ یہ ایک ٹیلا تھا، جس کو ایک نیچی سی کچی پکی دیوار سے گھیر کر گرجا بنا لیا تھا۔ میدان کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا سجا ہوا ٹیلا اور تھا جس پر پھول لگے تھے۔ اور اس کے ایک طاق میں اوپر کی طرف مریم ماں اپنے بچہ کو پیار سے دیکھ رہی تھی۔ چاند کی روشنی میں وہ مجسمہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا نظر پڑتے ہی نندن نے ادب سے اس کو پرنام کر لیا۔ جیسے وہ کوئی اس کی اپنی دیوی ہو اور پھر خود اپنے عمل پر شرمندہ بھی ہوا۔ کیوں کہ اسے یاد آگیا کہ یہ اس کی دیوی نہیں رابرٹ کی کوئی ہوتی ہے!
چاروں طرف نظر دوڑا کر وہ گرجے سے ملے ہوئے پادری کے گھر کے دروازے کی طرف چلا کہ اچانک اس کو مریم کی آواز آئی:
"بچہ، تجھ کو کیا چاہئے؟"
نندن کے پاؤں جیسے پتھر کے ہوگئے۔ دل دھڑکنے لگا اور چہرہ سے پسینہ پھوٹ نکلا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر مریم کے مجسمہ کے علاوہ اس کو کچھ نظر نہ آیا۔ نندن سمجھا کہ اس کو دھوکا ہوا ہے۔ یہ آواز اس کا وہم ہے۔ وہ پھر سے مڑا ہی تھا کہ مریم کی دوسری آواز آئی:

(باقی اگلی قسط میں ۔۔۔)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:08

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں