ڈاکٹر بیدل کا دل - مزاحیہ ڈرامہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-02-11

ڈاکٹر بیدل کا دل - مزاحیہ ڈرامہ

dr-bedil-dil

کردار:
سکریٹری، مس روزی ہارڈاسٹون، شریمتی تارامتی
شری نورنگی لال، مس نازک لوکھنڈ والا، بے خبر
چپراسی، ہپی اور دیگر آوازیں
مقام: شہر کی کوئی بھی مصروف ترین فٹ پاتھ
وقت: بھیڑ بھاڑ والی شام

مجمع باز: دل بدلوالو، پرانے کی جگہ نیا لگوالو۔ شہر کے ہر خاص و عام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ دیش کے مانے ہوئے ہارٹ اسپشلسٹ Heart Specalist یعنی ماہر امراض قلب ڈاکٹر بے دل، دل سکھ نگری جو دس سال تک امریکہ کے سب سے بڑے دل ادلابدلی دواخانے یعنی Heart Trans Plantation Hospital میں دل بدلتے رہے ہیں اور ابھی پچھلے ہی دنوں اہل دلی کے دلوں میں ردّوبدل کرکے دلوں کی دنیا میں ایک تہلکہ مچاچکے ہیں۔ خوش قسمتی سے آپ کے شہر میں آئے ہوئے ہیں۔ صاحبان! اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھایئے۔ ڈاکٹر موصوف مناسب اجرت پرنہایت چابک دستی سے آپ کی پسند کے مطابق دل بدلتے ہیں۔ یاد رکھیئے ڈاکٹر صاحب کا قیام آپ کے شہر میں صرف چند دنوں کے لیے ہے اس لیے مایوسی سے بچئے اور جلد از جلد ڈاکٹر بے دل کے دل ادلابدلی کلینک واقع دل رُبا مینشن، دل دار گلی، دل سکھ نگر تشریف لایئے اور اپنے اپنے دلوں کے جھگڑے مٹایئے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔۔

ایک آواز: اماں! ستّا تویہ ڈاکٹر بے دل صاحب وہی تو نہیں جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک انسان کے ناکارہ دل کی جگہ کسی بندر کا دل ڈال دیا تھا اور پھر دل بدلتے ہی وہ آدمی خد خد کرتا ہوا اس درخت سے اس درخت اور اِس ڈال سے اُس ڈال چھلانگیں مارتا ہوا کسی بندر ہی کی طرح جنگلوں کی طرف نگل گیا تھا

پہلی آواز: جی ہاں! قبلہ ان ہی ڈاکٹر بے دل صاحب کی مہربانی سے وہ شحص آج ٹارزن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ایک آواز: تو پھر ہمیں نہیں بدلوانا ہے میاں دِل وِل۔ اگر کہیں ہمارے دل کی جگہ ڈاکٹر صاحب نے کسی کتے یا بلی کا دل ڈال دیا تو پھر ساری زندگی میاؤں میاؤں کرتے یا بھونکتے ہی گذر جائے گی۔

پہلی آواز: (ہنستے ہوئے) معاف کیجئے گا حضرت قبلہ! آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ یہ نہ بھولیے کہ یہ اکیسویں صدی ہے اکیسویں۔ کل تک ایک انسان کے لیے کسی انسان کا دل ملنا مشکل تھا مگر اب زمانہ ترقی کرچکا ہے بھلے ہی جیتے جی کسی کا دل کسی سے نہ ملتا ہو مگر مرنے کے بعد آپ چاہیں تو کسی دشمن کا دل کسی اور دشمن کے سینے میں ڈال سکتے ہیں۔

ایک آواز: اچھا!!! ۔۔۔۔۔۔
پہلی آواز: جی ہاں، اسی لیے تو کہتا ہوں کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھایئے۔ اگر آپ اپنے دل کے ہاتھوں پریشان ہیں تو فوراً اسے پیشتر اور پیشتر سے فوراً ڈاکٹر موصوف سے ملیے۔ اگر دل مردہ ہوچکا ہے، توانائی کھوچکا ہے یا بوڑھا ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔۔ تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے اس مردہ و ناتوان دل کی جگہ ڈاکٹر موصوف نہایت چابک دستی سے ایک چاق و چوبند یعنی 'Active' دل ڈال دیں گے۔ دیر نہ کیجئے فوراً ڈاکٹر بے دل سے ملیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقام:
ڈاکٹر بے دل کی دِل ادلا بدلی ڈسپنسری

(کچھ لوگ ڈاکٹر بے دل کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں کہ ان کا سکریٹری داخل ہوتا ہے۔)

کچھ آوازیں: ڈاکٹر صاحب آگئے، ڈاکٹر صاحب آگئے۔

سکریٹری: خواتین و حضرات، پلیز پلیز دھیرج رکھئے پہلے میری بات سنئے۔ میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ بلکہ ڈاکٹر بے دل کا سکریٹری ہوں۔ آپ لوگ اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھئے۔ ڈاکٹر صاحب اب آتے ہی ہوں گے تب تک آپ یہ فارم فِل اپ کیجئے۔ چپراسی یہ فارمس لو اور ان سب میں تقسیم کردو اور دیکھو! فارم بھر بھر کر ایک ایک مریض کو نمبر وار چھوڑنا۔ میں اپنے کمرے میں چلتا ہوں۔

چپراسی: جو حکم صاحب جی۔
(سکریٹری کمرے میں داخل ہوتا ہے جو ملاقاتی والے کمرے سے کافی چھوٹا ہے مگر خاص فرنیچر وغیرہ سے سجا ہوا ہے)

[کچھ لمحوں بعد مسکراتی ہوئی مس روزی ہارڈاسٹون داخل ہوتی ہے ]

مس روزی: کیا ہم اندر آنے کو سکتا ہے؟

سکریٹری: ایک دم آنے کو سکتا، ہم کبھی سے تمہاری راہ تکتا۔

مس روزی oh you naughty یہ لو ہمارا فارم۔ ہم نے ذرا Hurry میں Fill up کیا ہے۔ Please check بروبر ہے کہ نئیں۔

سکریٹری: لایئے ادھر لایئے اور آپ اس صوفے پر تشریف رکھئے Mother

مس روزی: (جِھلاّکر) 'what'

سکریٹری: (گھبرا کر) کیوں، کیا کچھ غلطی ہوگیا Mother

مس روزی: پھر Mother بولا کیا ہم اتنا old ہے کہ تم کو مدر لگتا

سکریٹری: oh I am sorry mother ۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں مدر نہیں بلکہ میڈم I am very sorry Madam ہمارا زبان ذرا پھسل گیا۔ چمڑے کا ہے نا مدر ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے میڈم ہم یہ بھول گیا تھا کہ یہ "21st Century" ہے اس زمانے میں سگا ماں بھی اپنے بیٹے کو اپنا چھوٹا بھائی بول کر introduce کراتا۔ خیر! میڈم آپ کا نام

مس روزی: مس روزی ہارڈ اسٹون "Miss Rosy Hardstone"

سکریٹری: (گڑبڑا کر) مس!! یعنی کہ آپ ابھی تک مس ہی ہیں مدرمیرا مطلب ہے میڈم۔

مس روزی: yes young man یہی تو serious problem ہے جس کا واسطے ہم تمہارے ڈاکٹر بیدل کا پاس آیا۔

سکریٹری: بہت اچھا کیا میڈم آپ نے اب آپ کا Serious Problem ڈاکٹر چٹکی بجاتے حل کردیں گے (فارم دیکھتے ہوئے)

میڈم آپ نے اس کالم میں اپنی age نہیں لکھی؟

مس روزی: بات یہ ہے young man کہ ہم اپنا age کے بارے میں ذرا Doubful ہے۔ ادھر ہم تم سے Confidential بات کرسکتا؟

سکریٹری: offcourse بڑے شوق سے میڈم۔ آپ کا راز راز رہے گا۔

مس روزی: بات یہ ہے youngmanکہ ہمارا دو دو age ہے۔

سکریٹری: دو دو age

مس روز: yes ایک تو ہمارا real age ہے اور دوسرا official age۔

سکریٹری: بہت خوب! مگر میڈم ادھر آپ کو اصلage لکھنا پڑے گا Because afterall it is matter of heart دل کا معاملہ ہے۔

مس روزی: (مری ہوئی آواز میں) اچھا تو لکھو 60 years

سکریٹری: (لکھتا ہے) اب یہ بتایئے کہ آپ کا Real trouble کیا ہے؟

مس روزی: trouble یہ ہے young manکہ ہم دو روزرات کو dream میں پھولوں کا سیج دیکھتا۔

سکریٹری: (حیرت سے) پھولوں کا سیج wounderful Madam یہ ایج اور پھولوں کا سیج۔

مس روزی: (خفا ہوکر) ہم جانتا تھاتم ایسے ہی ہمارا مذاق مارے گا۔

سکریٹری: نہیں میڈم بالکل نہیں۔ آپ سے مذاق نہیں کررہا ہوں بلکہ سچ کہہ رہا ہوں۔ اب آپ کے دن پھر گئے ہیں۔ مس روزی، آپ نے اب تک بہت کچھ "مس" کیا ہے، لیکن اب نہیں کریں گی۔ میں آپ کا پرابلم اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔ عمربیت چلی ہے لیکن احساس ابھی تک جوان ہے۔ کمبخت دل جو بوڑھا ہوگیا ہے، اصل فساد کی جڑ ہے لیکن آپ گھبرائیں نہیں میڈم بس یوں سمجھئے کہ آپ کا یہ Problem solve ہوگیا۔ یہ چارٹ دیکھئے اس میں ایک C grade دل کے بارے میں details درج ہیں۔ یہ ایک تیس سالہ Married عورت کا دل ہے جس کے تین بچے تھے۔ اس کا husband ہر روز رات کو داروپی کر آتا تھا، اسی لیے اس بے چاری نے تنگ آکر خودکشی یعنی suicide کرلیا۔ اس دل پر کل خرچ آئے گا دو ہزار روپے۔

مس روزی: (گھبرا کر) مگر young man نے تو 'suicide' کیا ہے۔

سکریٹری: ہاں میڈم اسی لیے اس دل کا بھاؤ ہے صرف دوہزار روپے۔ خیر اگر یہ دل آپ کو پسند نہیں تو جانے دیجئے۔ یہ دیکھئے دوسرا ہارٹ۔ یہ ایک grade 'B' دل ہے پچیس سالہ Divorced عورت کا دل۔ اس پر کل خرچہ آئے گا چار ہزار روپے۔

مس روزی: young man کیا تمہارے پاس کوئی un married دل نہیں ہے۔

سکریٹری: Why not Madam ہمارے پاس ہرٹائپ کے دل ہیں۔ Married, unmarried, loving, un-loving دیکھئے یہ چارٹ۔ یہ ایک 'A' grade دل ہے ایک سترہ سال کی یعنی Sweet Seventeen کنواری لڑکی کا دل، کنوارے خوابوں
میں ڈوبا ہوا دل۔ اس پر کل خرچ آئے گا دس ہزار روپے
مس روزی: تم خرچہ کا پروا مت کرو man ہم کو تو یہ Sweet Seventeen والا دل منگتا۔

سکریٹری: Then you are very lucky میڈم ساٹھ برس کی عمر میں سترہ برس کا دل What a surprise بس دل بدلنے کی دیر ہے آپ کی دنیا بھی بدل جائے گی۔ " I mean whole world " پھر آپ یہ گاتی ہوئی کلینک سے باہر نکلیں گی "ابھی تو میں جوان ہوں، ابھی تو میں جوان ہوں۔

مس روزی: Oh you naughty boyاوہ! ہاں ایک بات پوچھنے کو سکتا۔

سکریٹری': شوق سے پوچھئے میڈم

مس روزی: What do you mean by Bedil

سکریٹری: بے دل کا مطلب ہے میڈم without heart

مس روزی: without heart اور Heart specialist - What a suprise

سکریٹری: Yes Madam یہی تو کمال ہے۔ آپ ایسا کیجئے یہ فارم لیجئے اور بغل والے کمرے میں تشریف رکھئے، ڈاکٹر صاحب کے آتے ہی آپ کو بلوالیا جائے گا۔

مس روزی: بائی۔ بائی۔

(میڈم کے جاتے ہی ادھر کا دروازہ کھلتا ہے اور ایک ساتھ ایک عورت اور ایک مرد داخل ہوتے ہیں۔)
سکریٹری: (گڑبڑا کر) ارے ارے! آپ دونوں ایک ساتھ۔ سب سے پہلے تو کماری جی آپ۔

عورت: (مسکراکر) وہ دن ہوا ہوئے جناب جب میں کماری کہلاتی تھی۔ اب تو میں شریمتی ہوں، شریمتی۔ کماری کہلانے کا حق تو کنواری لڑکی کو ہوتا ہے۔ کماری اور کنواری!

سکریٹری: خیرکنواری نہ سہی بیاہتا سہی، میرا مطلب ہے کماری نہ سہی شریمتی سہی۔ آپ ادھر تشریف رکھئے اور مسٹر آپ جاکر ویٹ کیجئے۔ at a time میں صرف ایک ہی مریض سے نپٹ سکتا ہوں۔

عورت: شریمان ایک ہی مریض سے نپٹئے۔ یہ ہیں میرے پتی دیو مسٹر نورنگی لال اور میں ہوں ان کی ادھانگنی تارامتی۔

سکریٹری: تشریف رکھئے۔ مسٹر نارنگی لال جی۔

تارامتی: نارنگی نہیں مسٹر نورنگی، نورنگی لال۔

سکریٹری: اوہ I am sorry ہاں تو شریمتی تارامتی جی شکایت کسے ہے۔

تارامتی: میرے پتی کو ہے اور صرف شکایت نہیں بلکہ شکایتیں ہیں، ویسے اصل مریض تو یہ ہیں مگر سزا میں بھگت رہی ہوں۔

سکریٹری: میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا مدھومتی جی۔

تارامتی: مدھومتی نہیں مسٹر، تارامتی۔

سکریٹری: سوری تارامتی جی۔ آپ اپنی پریشانی بتایئے۔

تارامتی: میرے پتی دیو کچھ زیادہ ہی دل پھینک واقع ہوئے ہیں ہماری شادی کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں مگر ان کی دل پھینک طبیعت کا یہ عالم ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی لڑکی کو چھیڑ آتے ہیں اور پھر ۔۔۔۔۔۔

سکریٹری: کیوں مسٹر چورنگی لال؟

نورنگی لال: (غصہ سے) چورنگی نہیں نورنگی۔۔۔۔۔۔ نورنگی لال

سکریٹری: معافی چاہتا ہوں۔ ہاں تو مسٹر نورنگی لال جی یہ کیا نازیبا حرکات ہیں۔ اتنی اچھی سندر سوشیل active بلکہ attractive پتنی کے ہوتے ہوئے آپ اپنا دل کسی ربڑ کے گیند کی طرح گلیوں، کوچوں میں اچھالتے پھرتے ہیں۔

نورنگی لال: (جِھلاّ کر) کیا میں پوچھ سکتا ہوں جناب کہ آپ میری پتنی کی سندرتا کا اتنا گن گان کیوں کررہے ہیں؟

سکریٹری: اس لیے کہ جناب ۔۔۔۔۔۔ کی عقل پر پڑا ہوا پردہ ہٹے اور آپ گھر کا بھجن چھوڑ کر پرائی لڑکیوں کے پیچھے رمّبا سمبھا کرنا چھوڑ دیں۔

نورنگی لال: آپ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے، کیا آپ شہر بھر کی لڑکیوں کے ٹھیکیدار ہیں آخر آپ ۔۔۔۔۔۔

سکریٹری: زیادہ گڑبڑ نہیں مسٹر Technicolourred

نورنگی لال: Technicolourred
سکریٹری: جی ہاں آپ کے نام کا انگریزی ترجمہ ہے۔ بہرحال میڈم آپ آگے کہئے۔

تارامتی: کہنا یہ ہے کہ مسٹر میرے پتی دیو ویسے تو فطرتاً بھولے بھالے اور ذمہ دار شہری ہیں مگر ان کے سینے میں جو دل ہے وہی کمبخت سارے فساد کی جڑ ہے جو انہیں ایسی اوچھی حرکات پر اکساتا ہے۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

سکریٹری: بہت خوب بھانا متی جی ۔۔۔۔۔۔

تارامتی: (حیرت سے) جی!۔۔۔۔۔۔

سکریٹری: میرا مطلب ہے تارامتی جی میں آپ کے پتی دیو مسٹر سارنگی لال میرا مطلب ہے نورنگی لال کا کیس سمجھ گیا ہوں۔ آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے پتی دیو کے سینے میں یہ دل پھینک دل نکال کر ایسا دل ڈال دیا جائے جو کسی فولادی کھمبے کی طرح اپنی جگہ کھڑا رہے، کیوں؟

تارامتی: بالکل! اگر ایسا ہوا تو میں آپ کو منہ مانگی دولت دوں گی

سکریٹری: شکریہ میڈم اس سلسلے میں فی الوقت ہمارے پاس کئی دل ہیں مگر ایک دل ایسا ہے جو آپ کی خواہش کے عین مطابق ہے۔ یہ دیکھئے چارٹ، اس پر اس دل کی ساری تفصیلات درج ہیں۔ یہ ایک ایسے پروفیسر کا دل ہے جو گرلز کالج میں دس سال تک لکچر جھاڑتا رہا مگر کیا مجال ہے جو اس کا دل کبھی کسی لڑکی پر پھسلا ہو۔

تارامتی: Thank you very much مسٹر میرے خیال میں اس سے بہتر دل ان کے لیے کوئی نہیں۔

سکریٹری: تو میڈم یہ چارٹ لیجئے اور آپ دونوں وہاں اس کمرے میں تشریف لے جایئے۔ ڈاکٹر صاحب کے آتے ہی آپ کو بلوالیا جائے گا۔ (دونوں دوسرے کمرے کی طرف جاتے ہیں)

سکریٹری: چپراسی اگلے مریض کو بھیجو۔

(دروازہ کھلتا ہے اور ایک نوجوان مگر کچھ گمبھیر سی لڑکی جھجکتی ہوئی داخل ہوتی ہے۔)
سکریٹری: آیئے تشریف لایئے دیوی جی۔ اِدھر براجئے اور اپنا فارم مجھے دیجئے۔ (فارم دیکھتے ہوئے) ہوں، تو آپ مس نازک لوکھنڈ والا ہیں۔ بی اے فائینل کی اسٹوڈنٹ ہیں۔ عمر اکیس سال۔ مس نازک یہ آپ کی اصلی عمر ہے نا!۔ (جواب میں نازک گمبھیر خاموشی) میں پوچھتا ہوں یہ آپ کی اصلی عمر ہے نا، مس نازک (پھر جھلاّ کر) مس لوکھنڈ والا کیا آپ گونگی ہیں، بہری ہیں، آخر آپ کچھ کہتی کیوں نہیں۔

مس نازک: (دھیمی آواز میں) جی بات یہ ہے کہ مجھے کسی سے بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔

سکریٹری: یہ تو بہت اچھی بات ہے اس بے شرمی کے دور میں جبکہ شرم ہر آشرم کو چھوڑکر رفو چکر ہوگئی ہے۔ آپ کا شرمانا بہت اچھی بات ہے۔ دراصل شرم ہی تو ناری کا اصلی زیور ہے۔ لیکن محترمہ آپ اگر مجھ سے بھی یونہی شرماتی رہیں گی تو آپ کا problem کیسے سلجھے گا۔

مس نازک: آپ ٹھیک کہتے ہیں اس زمانے میں جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم۔ اپنے اسی شرمیلے پن کی وجہ سے میں آج تک کسی سے گھل مل نہیں سکی۔ جب بھی میں کسی سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی ہوں میرا دل بری طرح دھڑکنے لگتا ہے اور میں نروس ہوجاتی ہوں۔

سکریٹری: مس نازک آپ کا کیس میری سمجھ میں آچکا ہے۔ آپ اپنے اس دل کے ہاتھوں پریشان ہیں اور اس شرمیلے دل کی جگہ کوئی نہایت ہی شوخ و شریر دل چاہتی ہیں۔ چُلبلا اور چنچل دل۔

مس نازک: جی ۔۔۔۔۔۔

سکریٹری: بس تو پھر آپ کا کام بن گیا سمجھئے۔ ہمارے ہاں ایسے دلوں کی کمی نہیں۔ چلبلے دل، چھبیلے دل، رنگیلے دل، کٹیلے دل، ہٹیلے دل، بھڑکیلے دل، سجیلے دل۔ غرض کہ ہر قسم کے دلوں کا وافر اسٹاک موجود ہے۔ یہ چارٹ لیجئے۔ اس میں ایسے ہی دلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں سے کوئی ایک دل Choice کرلیجئے اور آپ جاکر اس بغل والے کمرے میں تشریف رکھئے۔ ڈاکٹر صاحب کے آتے ہی آپ کو بلوالیا جائے گا۔

(مس نازک لوکھنڈ والا کے جاتے ہی ایک دبلا پتلا نوجوان داخل ہوتا ہے۔ وضع قطع سے ہپیّ اور چال ڈھال سے ماڈرن "رومیو" نظر آتا ہے سر اور چہرہ بالوں کے جنگل میں بری طرح ڈھکا ہوا۔ البتہ آنکھیں الو کی طرح چمکتی ہوئیں)
سکریٹری: (نوجوان کو دیکھتے ہی بے ساختہ کرسی سے اُٹھ کر پیچھے چھپ جاتا ہے) چپراسی۔ چپ۔ چپ چپراسی۔

چپراسی: (اندر داخل ہوتے ہوئے) حکم صاحب جی ۔۔۔۔۔۔! ارے آپ وہاں کرسی کے پیچھے ۔۔۔۔۔۔!!! (دوڑ کر نزدیک پہنچتا ہے) کیا ہوا صاحب جی ۔۔۔۔۔۔؟

سکریٹری: (بال بردار نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشیانہ انداز میں) ابے یہ بن مانس کہاں سے اندر آگیا۔ نکال باہر۔

چپراسی: ہی ہی ہی (ہنستے ہوئے) یہ بن مانس نہیں صاحب جی، "مانس" ہے یعنی کہ آدمی آپ کی طرح ۔۔۔۔۔۔!
سکریٹری: (دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر بڑبڑاتے ہوئے) آدمی ہے، میری طرح۔ ابے یہ تو ڈارون کا جدامجد معلوم ہوتا ہے
نوجوان: آپ نے مجھ سے کچھ کہا۔!
سکریٹری: جی ہاں ۔۔۔۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے تشریفیئے۔
نوجوان: (بیٹھتے ہوئے) آپ غالباً میرے حلیئے سے ڈر گئے
سکریٹری: (گڑبڑا کر) جی ہاں ۔۔۔۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے۔
نوجوان: (پردرد لہجے میں) میرے حلیے پر مت جایئے جناب میں بہت ستایا ہوا ہوں۔
سکریٹری: آپ کے اس حلیئے کے باوجود بھی، لوگ آپ کو ستاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
نوجوان: لوگ نہیں جناب: "لگائیاں"۔
سکریٹری: (حیرت سے) لگائیاں ۔۔۔۔۔۔
نوجوان: جی ہاں لگائیاں ۔۔۔۔۔۔ نہیں سمجھے، یہ میری اپنی اختراع ہے جناب لوگ کی تانیث لگائیاں۔
سکریٹری: بہت خوب ۔۔۔۔۔۔ لگائیوں کے ستائے، جھٹ پٹ اپنا پرابلم بتا!
نوجوان: پرابلم ۔۔۔۔۔۔ وہی لگائیاں ۔۔۔۔۔۔!
سکریٹری: یعنی۔۔۔۔۔۔۔ ی ۔۔۔۔۔۔ ی ۔۔۔۔۔۔!!!
نوجوان: یعنی کے معنی، سینے میں صرف ایک اکلوتا دل اور لگائیاں اتنی ڈھیر ساری پیاری پیاری، کُرمُری کراری ۔۔۔۔۔۔
سکریٹری: (حیرت سے) کرمری کراری ۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بسکٹ بہت مرغوب ہیں، رانگ نمبر پلیز۔ غلط جگہ آگئے ہیں، آپ کسی بسکٹ کمپنی کا دروازہ کھٹکھٹایئے
نوجوان: (حیرت سے) کمپنی ۔۔۔۔۔۔؟ لاحول ولا قوۃ، آپ بھی عجیب کُوڑ آدمی ہیں، میری مراد بسکٹ نہیں بلکہ بسکٹ کی طرح نمکین کراری کُرمری لگائیاں یعنی لڑکیاں ہیں
سکریٹری: اوہ! یہ بات ہے ۔۔۔۔۔۔!
نوجوان: جی ہاں، ایک دل اور حسن والے ہزار کس پہ اس واحد کو واروں، کس پہ کروں نثار۔ بڑی امیدیں لے کر آپ کے پاس آیا ہوں (سینہ ٹھوک کر) اس سینہئ ناہنجار میں ایک ساتھ کئی دل فٹ کردیجئے تاکہ جھگڑا ہی مٹ جائے کہ دل کس کو دُوں، اس کو دوں کہ اُس کو دوں۔
سکریٹری: میں سمجھ گیا ۔۔۔۔۔۔ بالکل سمجھ گیا۔ گھبرایئے مت، تھوڑی دیر بعد آپ یہاں سے بامُراد و شادماں باہر نکلیں گے تو ربر کے گیندوں کی طرح دلوں کو اُچھالتے ہوئے نکلیں گے۔
نوجوان: (حیرت سے) ایک ساتھ کئی دل اچھالتے ہوئے مگر ۔۔۔۔۔۔ مگر کیسے ۔۔۔۔۔۔! سکریٹری: (چارٹ بڑھاتے ہوئے) مگر کو چھوڑیئے پانی میں، آپ یہ چارٹ ملاحظہ فرمایئے جوانی میں غور سے دیکھئے اس چارٹ میں "دل پھینک" دلوں کا مفصل حال درج ہے، ٹھوک کے بھاؤ خریدیئے بلکہ ایک ساتھ کئی دلوں کا سودا کرنے پر ایک آدھ دل مفت یعنی فری لیتے جایئے۔
نوجوان: یہ بات ہے تو پھر دیر مت کیجئے فوراً "دل ادلا بدلی" آپریشن شروع کردیجئے۔ (نوجوان ٹیبل پر لیٹنے کی کوشش کرتا ہے)
سکریٹری: (اسے روکتے ہوئے) یہاں نہیں بندہ پرور، آپریشن تو آپریشن تھیٹر میں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کے آنے کے بعد ہوگا آپ وہاں اس کمرے میں جاکر اپنی باری کا انتظار فرمایئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوجوان: شکریہ نوازش، کرم مہربانی (پھر گانے لگتا ہے)
دل دے کے دیکھو، دل دے کے دیکھو، دل دے کے دیکھو جی۔

(نوجوان کے بغل والے کمرے میں پہنچتے ہی کمرے میں سے دوچار بے چین آوازیں ابھرتی ہیں)
کچھ آوازیں: کیا ڈاکٹر صاحب نہیں آئے ابھی تک ۔۔۔۔۔۔
سکریٹری: بس ابھی آتے ہی ہوں گے۔ چپراسی! تم ذرا دوڑ کر دیکھو تو ڈاکٹر صاحب ابھی تک کیوں نہیں آئے؟
(اُدھر چپراسی دوڑتا ہے ادھر ایک شاعر نما دوڑتے ہوئے بے دھڑک داخل ہوتے ہیں۔)
شاعر نما: دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
بے دل صاحب، بے دل صاحب مجھے بچا لیجئے، میرا دل، میرا دل، میرا دل۔
سکریٹری: ہوش میں آیئے جناب ہوش میں آیئے، آخر کیا ہوا، آپ کے دل کو۔
شاعر نما: میرا دل درد سے خالی ہے مجھے درد چاہیے۔ مجھے درد بھرا حساّس دل چاہیے۔ ایسا دل جو میرے شعروں میں درد ہی درد بھردے۔
سکریٹری: سب سے پہلے تو آپ تشریف رکھئیے اور اپنا نام بتایئے
شاعرنما: بے خبرؔ، بیدل صاحب بے خبر بندے کو بے خبرؔ کہتے ہیں
سکریٹری: بہت خوب! اب یہ بتایئے، بے خبرؔ صاحب کہ آپ کو یہ بھی خبر ہے کہ آپ کو شکایت کیا ہے۔؟
بے خبرؔ: شکایت! ہائے نہ پوچھیئے۔ ہر آن ایک تازہ شکایت ہے جناب۔ دس سال سے شاعری کررہا ہوں "وائے ری بدنصیبی برسوں کی مغزپچی کے باوجود آج تک ایک شعر بھی ایسا نہیں کہہ سکا جو لوگوں کے دلوں کو چھولے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں وہی شعر لوگوں کے دلوں کو چھولیتے ہیں جو دل سے نکلے ہوں۔ اور اپنا دل افسوس، اس سلسلے میں بالکل ہی کندہئ ناتراش ہے اسی لیے تو لوگ کہتے ہیں کہ میں دس سال سے شاعری نہیں کررہا ہوں جھک مار رہا ہوں۔
سکریٹری: بے شک، بے شک ۔۔۔۔۔۔
بے خبرؔ: کیا فرمایا بے دل صاحب؟
سکریٹری: جی کچھ نہیں ویسے بندہ ڈاکٹر بے دل نہیں بلکہ ان کا سکریٹری ہے۔
خاکسار کو بے جگر کہتے ہیں۔ بے خبر صاحب۔ ویسے میں نے آپ کا کیس سمجھ لیاہے۔ ذرا آپ اپنی شاعری کا ایک آدھ نمونہ تو سنایئے۔
بے خبرؔ: سنئے، عرض کیا ہے۔ ع
جب وہ آتے ہیں میرادل زور سے کرتا ہے دھک
اور جب نہیں آتے ہیں بیٹھا مارتا رہتا ہوں جھک
سکریٹری: واقعی آپ اچھی جھک مارتے ہیں۔
بے خبر: آداب عرض! آداب عرض! جھک نوازی ہے آپ کی بندہ پرور، ویسے ڈاکٹر بیدل صاحب اور ان کے کارناموں کا شہرہئ سن کر چچا غالب کی دوربین نگاہوں کا قائل ہوجانا پڑا۔
سکریٹری: (حیرت سے) چچا غالب کی دوربینی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کچھ سمجھا نہیں، ڈاکٹر صاحب سے چچا غالب کا کیا تعلق۔
بے خبر: یہ پوچھیئے کہ چچا غالب کا تعلق کس سے نہیں، برسوں پہلے دل ادلا بدلی کے موضوع پر مستند انداز میں فرماگئے ہیں کہ ؎
تم شہر میں ہوتو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جاکر دل و جاں اور
سکریٹری: بہت خوب ۔۔۔۔۔۔ شعر اچھا فِٹ کیا ہے۔ آپ نے، ویسے خوش نصیبی کے سلسلے میں آپ خود کو کم تر مت سمجھئے۔ میرے حساب سے تو آپ چچا غالب سے بھی دو چار جوتے آگے ہی ہیں۔
بے خبر: (سرتسلیم خم کرتے ہوئے) شکریہ، ذرہ نوازی، ابھی تو آپ نے صرف نمونے کا شعر سُنا ہے۔ ذرا دیوان چھپ جانے دیجئے پھر دیکھئے کیسے کیسے استادوں کی چھٹی کرتا ہوں۔
سکریٹری: میرے خیال سے بے خبر صاحب ذرا سی غلط فہمی ہوگئی میرا اشارہ آپ کی شاعری کی طرف نہیں بلکہ خوش نصیبی کی طرف تھا۔ شاعری کے بارے میں فیصلہ تو خیر آنے والا وقت کرے گا البتہ خوش نصیبی کے معاملے میں اگلے وقتوں کے تمام استاد مل کر بھی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر چچا غالبؔ آج کے دور میں پیدا ہوتے تو پھر ڈاکٹر بیدل کی بدولت وہ بھی آپ کی طرح خوش نصیبوں میں شمار کیے جاتے اور انہیں ایسے شعر کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ؎
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دئیے ہوتے
(اسی لمحہ دوسرے کمرے سے ڈاکٹر صاحب کے منتظر لوگ نکل آتے ہیں)
تارامتی: ڈاکٹر صاحب کا کچھ اتاپتا بھی ہے کہ نہیں، آج وہ آئیں گے یا نہیں، آخر ماجرا کیا ہے۔؟

چپراسی: (اسی لمحہ ہانپتا کانپتا داخل ہوتا ہے) صاحب جی، صاحب جی۔ غضب ہوگیا۔!
سکریٹری: (گھبرا کر) کیا ہوا چپراسی۔
چپراسی: صاحب جی اپنے بے دل صاحب کا ہارٹ فیل ہوگیا۔
سکریٹری: کیا کہا ۔۔۔۔۔۔ بے دل صاحب کا ۔۔۔۔۔۔ ہارٹ ۔۔۔۔۔۔ فیل
چپراسی: ہاں جی ۔۔۔۔۔۔
سکریٹری: مگر ۔۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔مگر
چپراسی: وہ ہوا یہ جی کہ آج بیگم صاحبہ نے بکرے کا دل منگوایا تھا جسے جمنّ طشت میں رکھ کر دھونے کی غرض سے لے جارہا تھا۔ اور ڈاکٹر صاحب یہاں آنے کے لیے نکل رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کی نظر اس پر پڑی۔ بس جی نظر پڑنے کی دیر تھی۔ نظر پڑتے ہی ڈاکٹر صاحب چکرا کر گرے اور گرتے ہی ختم۔
مس روزی: (غصہ سے) مسٹر تم تو بولا تھا کہ ڈاکٹر بے دل کے سینے میں ہارٹ نہیں ہے پھر اس کا ہارٹ فیل کیسے ہوا
سکریٹری: میڈم ہم ٹھیک بولا تھا۔ مسٹر بیدل کے سینے میں ان کا اپنا ہارٹ نہیں تھا بلکہ بکرے کا دل تھا۔
سب ایک ساتھ: (اچنبھے سے) بکرے کا دل!!!
سکریٹری: جی ہاں بکرے کا دل، اسی لیے تو ایک بکرے کا دل دیکھ کر دوسرے بکرے کا ہارٹ فیل ہوگیا۔
ہائے بے دل صاحب، اب میرا کیا ہوگا۔
تارامتی: (چلا کر) اب میرے پتی دیو کے دل پھینک دل کا کیا ہوگا۔۔
مس روزی: اور ہمارا Sweet Seventeen والا دل
مس نازک: اور میرا چلبلادل
بے خبر: ہائے میرا درد بھرا دل، حساس دل، دل دار دل۔
سکریٹری: ہائے میرا دل، ہائے میرا دل۔۔

ماخوذ:
تو تو میں میں (طنزیہ و مزاحیہ ڈرامے) از: پرویز ید اللہ مہدی

Dr. Bedil ka dil. Humorous Drama by: Pervez Yadullah Mehdi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں