عاتق شاہ کی گفتگو - اپنی کتاب دو منٹ کی خاموشی کے حوالے سے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-19

عاتق شاہ کی گفتگو - اپنی کتاب دو منٹ کی خاموشی کے حوالے سے

do-minute-ki-khamoshi

عاتق شاہ، حیدرآباد (دکن) کے ممتاز طنز و مزاح نگار رہے ہیں۔ ان کے منتخب افسانوں کا ایک مجموعہ "دو منٹ کی خاموشی" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہاں پیش کیا گیا تھا:
دو منٹ کی خاموشی - عاتق شاہ - افسانوی مجموعہ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

اسی کتاب کا مقدمہ پیش خدمت ہے جو خود عاتق شاہ کے قلم کا تحریر کردہ ہے اور جو 19/دسمبر 1986 کو تحریر کیا گیا تھا۔

گفتگو

"عاتق شاہی اسکیم" کے تحت شائع ہونے والی میری نئی تصنیف "دو منٹ کی خاموشی" آپ سب کی خدمت میں پیش ہے۔ میں خوش ہوں کہ میرے پڑھنے والوں اور چاہنے والوں نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اور پیشگی خریدار بن کر مجھے ایک نیا حوصلہ عطا کیا۔ اس چاہت کے لئے میں انہیں سلام کرتا ہوں ورنہ ہوتا یہی ہے کہ مصنفین کتابیں چھاپ کر بیچتے ہیں، یا بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور میں کتاب بیچ کر چاپتا ہوں۔ اس فرق کو محسوس کرنے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ اعزاز صرف مجھے ہی حاصل ہے اور اردو دنیا میں میری واحد مثال ہے جس کی تصنیف چھپنے سے پہلے بک جاتی ہے۔ میں اسے اپنا کوئی کارنامہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کا سارا کریڈٹ میرے اپنے پڑھنے والوں کو جاتا ہے جو مجھے اپنا سمجھتے ہیں۔

مختلف موقعوں اور مختلف سطحوں پر ادیبوں اور شاعروں نے میری اسکیم کا مذاق اڑایا، بعد میں استحصال کیا۔ اور آخر میں اس کے منہ پر کالک مل دی۔ ان میں سے کچھ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ کچھ پڑوسی ملک کو چلے گئے اور جو باقی بچے تھے وہ کھا پی کر سو گئے۔ پوچھے جانے پر انہوں نے بتایا کہ اس میں خیانت کیسی؟ طباعت کے وقت ان کے شعری یا نثری مجموعے کے سارے حرف پتھر یا پلیٹ پر سے اڑ گئے۔ جواب میں خریدار مسکرائے۔ اور اس مسکراہٹ کا کیا مطلب تھا وہ آپ بھی جانتے ہیں۔ میں بھی جانتا ہوں۔ لیکن اس تفصیل سے ایک بات ضرور سامنے آتی ہے کہ عوام اور قاری اچھی کتابوں اور اچھے لٹریچر کے بھوکے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اس وقت حیدرآباد، پورے ملک میں اردو کا ایک ایسا مرکز ہے جہاں باہر سے آنے والی ہر اچھی اور بری کتاب بک جاتی ہے۔ اگر نہیں بکتی ہے تو یہاں پر چھپنے والی کتاب۔۔آخر کیوں؟

میری اپنی اسکیم کے قطع نظر میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہم ادیبوں اور شاعروں کا بھی بڑا قصور ہے۔ کتاب پریس سے گھر آنے کے بعد ہم مطمئن ہوجاتے ہیں کہ چلو ایک بڑا کام ہوگیا۔ اور ہماری تخلیق محفوظ ہوگئی۔ حالانکہ اصل کام تو یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اس غفلت کی وجہ سے کتاب کا سفر ختم ہوجاتا ہے اس کے ذمہ دار ہمارے وہ ادبی ادارے ہیں جو اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ اگر وہ اس پروجکٹ کو ہاتھ میں لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کتاب دور دور تک لوگوں کے ہاتھوں میں نہ پہنچے۔
لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن کو پریشان کرتا رہتا ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو اس رہی سہی اور بچی کچی نسل کے بعد کون ان کی جگہ لے گا؟ اور کون اردو کتابوں کو پڑھے گا؟ سامنے دیکھئے تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ مگر ادو کی روٹی کھانے والے اردو کے نام نہاد قائدین اردو کی موٹروں میں تشریف لاکر بڑے بڑے جلسے اور سمینار منعقد کرتے ہیں۔ اور اردو کے پنکھوں کے نیچے بیٹھ کر ریزویشنس پاس کرتے ہیں کہ اردو کو اس کا جائز مقام ملنا چاہئے۔ لیکن خود اردو کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ ان کی اولاد بھی اردو سے واقف نہیں۔ کردار کا یہ تضاد ہوسکتا ہے کہ سماجی مفکر کی نظر میں ایک زوال آمادہ معاشرے کی نشانی ہو۔ لیکن زبانوں کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کہ کسی زبان کے بولنے والے خود اپنی زبان کا ہزاروں اور لاکھوں روپیہ بغیر کسی ڈکار کے ہضم کرتے جائیں ، اور زبان کو بے بسی اور بے کسی کے عالم میں سڑکوں اور گلی کوچوں میں چھوڑیں۔ یہ محترم قائدین اردو زبان کے وہ مجرم ہیں جنہیں گرفتار کرکے اردو کی عوامی عدالتوں کے کٹہرے میں لانا چاہئے اور ان پر مقدمہ چلانا چاہئے۔ اور خود ان سے پوچھنا چاہئے کہ اس شرمناک جرم کی انہیں کیا سزا دی جائے ؟

وقت کا یہ بڑا چیلنج ہے جسے اردو عوام کو قبول کرنا چاہئے۔ اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ متحد ہوکر اٹھ کھڑے ہوں۔ ساری نام نہادلیڈر شپ کو رد کرکے خود اپنے رہنما بن جائیں۔ ضلع ضلع، گاؤں گاؤں اور محلہ محلہ اپنی انجمنیں اور سوسائٹیاں بنائیں اور اپنے مسائل کو حل کریں۔ خواہ وہ تعلیمی سطح پر ہوں، یا معاشی اور ادبی سطح پر رقیب رو سیاہ سے روایتی جھگڑے کو کون روکتا ہے۔ لیکن کیا کوئی ایسی ترکیب نہیں ہے کہ رقیب بھی اپنا دوست بن جائے۔ ویسے اردو غزل میں کیا نہیں ہوتا۔ مگر دوست کو کسی صورت بھی رقیب نہیں بنانا چاہئے۔ خطرہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ آج کل اردو زبان میں بڑے جید قسم کے ممتاز ادیب اور شاعر پیدا ہورہے ہیں۔ متوسط اور کم درجہ کا کوئی پیدا ہی نہیں ہوتا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سب کے سب بر صغیر کے ممتاز افسانہ نگار یا شاعر بن جاتے ہیں۔ اور پھر ایک غزل ایسی بھی آتی ہے جب انہیں اردو کے عظیم شاعر اور افسانہ نگار کے ٹائیٹل سے پکاراجاتا ہے۔ یہ ایک بڑی خوفناک صورتحال ہے جس سے یہ غریب زبان دوچار ہے۔ اسے کوئی ادیبوں یا شاعروں کا فرسٹریشن کہہ لے یا کچھ اور۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ۔۔ جب کسی قوم پر تباہی آتی ہے تو اس زبان کے لکھ نے والے ذہنی کرائسس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے۔ یہ کسی بھی زبان اور کلچر کی بقا کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ اس تعلق سے میں اپنے عزیز جواں سال دوست سید عبدالقدوس ، اڈوکیٹ کے اس خیال سے پوری طرح متفق ہوں کہ آج کل ایک بونا کلچر پیدا ہورہا ہے جو بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

سچ پوچھئے تو یہ بونا کلچر پچھلے کئی دہوں سے ہماری سماجی، تہذیبی اور ادبی زندگی کی تہوں میں دبا ہوا اپنا زہر پھیلاتا رہا۔ اور اب یہ زہر ابھر کر زخم کی شکل میں جسم کے اوپری سطح پر آگیا ہے۔ تو کون سی حیرانی کی بات ہے۔ اس کا سب سے برا اثر نقادوں پر پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو میں حالی اور ان کے ہم عصروں کے بعد کوئی نقاد ایسا نظر نہیں آتا جو ایماندار ہے۔ دو چار کو چھوڑتے ہوئے باقی سب کے سب، کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ہیں۔ کسی کی زنبیل میں ایک یا دیڑھ افسانہ نگار پڑا ہے تو کسی کی زنبیل میں ایک آدھ شاعر۔ باقی سب اپنی اپنی زنبیلوں کو خالی لئے پھر رہے ہیں۔ کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق اردو ادب میں تخلیقی عمل رک گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان کی نظریں مغربی ادب تک جاکر رک جاتی ہیں۔ اور اس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کو سامنے رکھ کر یہاں کے لکھنے والوں کے بارے میں اظہار خیال کیاجاتا ہے۔ جب کہ ان کی جڑیں یہاں کی زمین میں پیوست ہیں۔ اس مقام سے جو نقاد ذرا آگے کی طرف بڑھ جاتا ہے وہ ایک رٹے ہوئے طوطے کی طرح سوشلسٹ ممالک کے ان فن کاروں کی مثال بار بار اس طرح دیتا ہے جیسے اس کے ان سے بڑے ذاقی قسم کے تعلقات رہے ہوں یا پچھلے جنم میں اس نے خود بہ نفس نفیس انقلاب کا مشاہدہ کیا ہو۔
بہرحال اردو تنقید برسہا برس سے ایک مصنوعی فضا میں سانس لیتی ہوئی آئی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک یہ پل کر جوان ہوچکی ہے۔ غلامانہ ذہنیت اب تک دماغوں سے نہیں گئی۔ یہی وجہ ہے کہ باہر سے آنے والے ہر معمولی قسم کے ادیب اور شاعر کو دونوں ہاتھ باندھ کر سناجاتا ہے۔ اور اس کے ہر شعر اور فقرے پر واہ واہ کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمار ا نقاد بھی اسی غلامانہ ذہن کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں سب سے باخبر اور چالاک اردو کا نقاد ہوتا ہے۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ سچ نہیں بولتا۔ کیوں کہ اس سے اس کی دکان بند ہوجاتی ہے اور اس خالی دکان میں ہر قسم کے گتے کاکام ہوتا ہے۔ گتہ داری خواہ وہ ادبی سطح پر ہو یا کسی اور سطح پر ایک منافع بخش کام ہے۔ اردو کا نقاد اس گُر سے واقف ہے۔ لہٰذا وہ بڑی ہوشیاری سے فن کاروں کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے تاکہ وہ اس کے پیچھے پیچھے آئیں۔ اور وہ حسب ضرورت ان کی تائید میں سر ٹیفیکٹس اور فتوے جاری کرسکے۔ صوبائی سطح پر فتوے جاری کرنے والے کم و بیش تمام نقادوں میں ایک خاص قسم کی سوجھ بوجھ ہوتی ہے جو انہیں ایک دوسرے کے قریب کردیتی ہے۔ اور آج کل یہ کاروبار خاموش انداز میں بڑے زوروں پر چل رہا ہے اور اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ آپ میرے سالے کو انعام دلوائیں۔ میں آپ کے بہنوئی کو ایوارڈ دلواتا ہوں۔ کیا خوب سودا نقد ہے والا معاملہ ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اردو کا قاری اس سے واقف نہیں۔
اردو صحافت سے درخواست ہے کہ وہ اس کا نوٹ لے۔ اور ان بے ایمان نقادوں کے چہروں پر سے نقاب اٹھائے۔ یہی نہیں بلکہ ادب میں اس گتہ دارانہ نظام کو ختم کروا کے ادیبوں اور شاعروں کو ان کے شکنجے سے آزاد کرائے۔ کیوں کہ فن کار خواہ وہ کسی زبان کا ہو زبان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور جب ریڑھ کی ہڈی کمزور پڑ جاتی ہے تو جسم کا سارا اعصابی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔کسی صورت مٰں ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھاجاسکتا۔

بھلا تنقید سے کون انکار کرسکتا ہے۔ لیکن تنقید اتنا آسان اور سہل کام نہیں ہے۔ اس میں جی کو جلانا اور دل کا خون کرنا پڑتا ہے۔ فن کار کو اپنے پیچھے بلانے کی بجائے اس کے پیچھے پیچھے جانا پڑتا ہے اور ان تمام گلی کوچوں، سڑکوں اور تاریک راستوں پر سے گزرنا پڑتا ہے جہاں جہاں سے فن کار گزرا۔ تب کہیں جاکر تنقید ایک تخلیقی عمل بن جاتی ہے۔

اس گفتگو کے پس منظر میں یقینا آپ چاہیں گے کہ میں خود اپنے بارے میں کچھ عرض کروں۔ لیکن میں کیا عرض کرسکتا ہوں۔ میں تو ایک کھلی ہوئی کتاب ہوں جسے آپ یا کوئی اوربھی پڑھ سکتا ہے۔ ویسے میری اپنی کوئی شناخت نہیں ہے اور نہ میں نے کبھی اس کی کوشش کی۔ اس پر بھی اگر کسی کو اصرار ہے تو میں یہی کہوں گا کہ میری شناخت میرے اپنے وہ لوگ جن کے ساتھ میں رہتا بستا ہوں۔ سانس لیتا ہوں اور جن سے الگ میرا کوئی وجود نہیں ہے اور وہ لوگ ہیں آپ سب۔ رہ گئی کہانیوں کی بات تو آپ انہیں آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے سن چکے ہیں۔ اور مختلف رسائل میں آپ نے انہیں پڑھا بھی ہے۔
میرا خیال ہے کہ کہانی ایک مسلسل تخلیقی عمل کا نام ہے جو لکھنے والے کے دماغ اور دل میں پرورش پاتی رہتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ماں کی کوکھ میں بچہ نشوونما پاتاہے۔ فرق اتنا ہے کہ بچہ نو مہینے کے بعد تولد ہوتا ہے اور کہانی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دل اور دماغ ایک نقطہ پر مل جائیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے لئے نو برس بھی لگ جائیں یا نو لمحوں میں ہی یہ جنم پالے۔ بہرحال کہانی کو پٹری اور پرکار کی مدد سے نہیں ناپا جاسکتا اور نہ کسی ایکسرے مشین سے اس کی تہوں میں دوڑتی ہوئی لہر کو دیکھاجاسکتا ہے اور نہ اس کے تجزئیے کے لئے کسی کمپیوٹر والی زبان کو استعمال کیاجاسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایک سوال ابھر کر سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ اچھی اور بری کہانی کی پہچان کیا ہے؟

اچھی کہانی وہ ہے جو دلوں کو چھولے اور پڑھنے والوں کو کچھ سوچنے پر مجبور کرے۔ اور بری کہانی وہ ہوتی ہے جس میں سب کچھ ہوتا ہے اگر کچھ نہیں ہوتا ہے تووہ روح نہیں ہوتی جو کہانی کے پہلو میں چھپے ہوئے دل کو حرکت میں رکھتی ہے۔ آخر کیوں؟
اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے۔ ایسی بے روح تمام کہانیاں بغیر کسی تخلیقی کرب کے وجودمیںآ تی ہیں، کہانی میں اسی وقت حرارت، زندگی اور گرفت پیدا ہوتی ہے جب لکھنے والا اسی کرب، بے چینی اور درد کی کیفیت سے گزرے جیسے کہ بچے کو جنم دیتے وقت ماں گزرتی ہے۔ اگر درد نہ ہو تو میڈیکل سائینس میں اس کا علاج ہے، لیکن ادب کی دنیا میں کوئی ایسا انجکشن ایجاد نہیں ہوا جو لکھنے والے کو تخلیقی کرب کی بھٹی میں جھونک دے۔ یہ آگ تو زندگی کی اور حالات کی دین ہوتی ہے جو فن کار کے دل میں روشن رہتی ہے۔ یہ آگ بڑی مقدس ہے جو فن کار کوکبھی چین سے سونے نہیں دیتی اور ہمیشہ بیدار رکھتی ہے۔

یکم مئی 1948ء میں شائع ہونے والے اپنے پہلے مجموعے "فٹ پاتھ کی شہزادی" میں کہانی کے تعلق سے میں نے تفصیلی اظہار خیال کیا تھا۔ اس کا ایک اقتباس خدمت میں پیش ہے۔
"مظلومیت کی آنکھوں میں سہمے ہوئے آنسو مجھ سے کہتے ہیں کہ تو کہانیاں لکھ۔ وہ کہانیاں جو ہمارے سینوں میں دفن ہیں۔ ہماری ان بے رونق اور اداس آنکھوں میں منجمد ہیں۔ ہمارے ان میلے کچیلے چیتھڑوں میں چھپی ہوئی ہیں۔۔اور میں لکھتا ہوں۔"
آج بھی میں لکھ رہا ہوں لیکن سچ پوچھئے تو میں لکھتا کہاں ہوں۔ کہانیاں خود اپنے آپ مجھ سے لکھوا لیتی ہیں۔ ان چند الفاظ کے ساتھ میں اپنی گیارہویں تصنیف۔۔"دو منٹ کی خاموشی" کو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

آخر میں مَیں، اپنے عزیز دوست اور ساتھی افسانہ نگار اکرام جاوید صدر نشین عاملہ کونسل اردو اکیڈمی آندھرا پردیش اور سکریٹری ،ڈائرکٹر خلیل الرحمن کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے مسودے کی اشاعت کے لئے مالی اعانت منظور کی۔
عزیز دوست ڈاکٹر سید مصطفی کمال کا شکریہ مجھے کن الفاظ میں ادا کرنا چاہئے میں نہیں جانتا۔ شروع سے آخر تک انہوں نے دو منٹ کی خاموشی خود پر مسلط کرلی۔ اس لئے حساب دوستاں والی بات دل ہی میں رہے تو اچھا ہے۔ میں زبان پر کیوں لاؤں؟

میرے دوست اور کرم فرما محمد منظور احمد نے کتاب کی ترتیب و تزئین کی۔ اور دوسرے دوست آرٹسٹ سعادت علی خاں نے ٹائٹل کی خوبصورتی میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا ثبوت دیا۔ محمود سلیم نے جس توجہ اور دلچسپی سے اس مجموعے کی کتابت کی اتنی ہی توجہ اور لگن سے نور محمد نے اپنے پریس میں اسے چھاپا۔

یہ بھی پڑھیے:
میں کتھا سناتا ہوں (مکمل کتاب) ۔ عاتق شاہ
ڈاکٹر زینت ساجدہ - ایک آواز ایک تاثر - عاتق شاہ
راستے کی کہانی - افسانہ از عاتق شاہ

***
ماخوذ از کتاب:
دو منٹ کی خاموشی - افسانوی مجموعہ از: عاتق شاہ

Preface from Urdu short stories book "Do minute ki khamoshi" by Atiq Shah.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں