راستے کی کہانی - افسانہ از عاتق شاہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-11-23

راستے کی کہانی - افسانہ از عاتق شاہ

old-woman-on-road
آج پھر مجھے دورہ پڑا اور میں جیسے اپنے خول کو توڑ کر باہر نکلتے ہوئے چیخا:
"کہاں ہے میرا قلم۔۔۔؟ کہاں ہے میرا پیڈ۔۔۔؟"
اس کا مطلب تھا کہ میں آج کچھ لکھوں گا۔ کوئی بات جو مجھے اکسا رہی تھی، کوئی واقعہ جو مجھے جھنجھوڑ رہا تھا اور کوئی کہانی جو میرے توسط سے اپنا اظہار چاہ رہی تھی۔ لیکن میری چیخ میرے ہی وجود کے سنسان مکان میں چپ ہوکر رہ گئی۔ ویسے اس وجود کے باہر بھی بڑا سناٹا تھا۔
پہلے ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس گھر میں اس بوڑھی خاتون کا وجود تھا، ہر شئے اپنی اپنی جگہ پرتھی یہاں تک کہ میں خود کو ایک مفید اور کارآمد آدمی سمجھتا تھا ۔ ایسا بھی نہیں تو کم از کم مجھے نامعلوم طور پر اپنی اہمیت کا ضرور احساس ہوتا تھا، یا پھر چاہے جانے کی ایک بے پناہ آرزو ضرور اس بڑھیا کی ممتا بھری مسکراہٹ سے مطمئن ہو جاتی تھی۔ بہرحال ایک عجیب سی بات تھی اس بڑھیا میں۔۔۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا جیسے میرے دل کی ہر بات کا اسے پتہ چل جاتا تھا ، جب ہی تو وہ موقع بے موقع کہتی تھی:
"لے چائے پی لے۔۔۔ اور سن یہ پان لیتا جا، کب سے بنائے میں تیرا انتظار کر رہی ہوں۔"
باتیں کرنا اور میری ایک ایک حرکت پر نظر رکھنا گویا اس کا ایک محبوب مشغلہ تھا۔ وہ چھالیہ کترتی ہوئی آپ ہی آپ مجھے دیکھ دیکھ کر یوں مسکراتی تھی جیسے میں اس کی زندگی کی سب سے بڑی کمائی اور اس کے بڑھاپے کی ایک مضبوط لاٹھی ہوں۔ یہی نہیں اس کی مسکراہٹ میں ایک غرور تھا، ایک نامعلوم سی فتح کا احساس تھا اور ایک ایسی دنیا کا پتہ تھا جسے اس بوڑھی کے سوا کسی نے دریافت نہیں کیا۔ ویسے میں نے کبھی بھی اس مسکراہٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس خیال سے نہیں کہ اس بوڑھی کے کسی جذبہ کو دھکا پہنچے گا بلکہ صرف اس لئے کہ میں نے کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ، کیونکہ محبت کے کسی جذبہ کو آپریشن کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

بڑھیا، بڑھیا کہہ کر شاید میں نے نادانستہ طور پر اس محترم خاتون کی توہین کی ہے ، لیکن میں ایسا کہنے پرمجبور اسلئے ہوا کہ میں اب تک اس کے نام سے واقف نہیں ہوں۔ ویسے ایک بار میں نے اس کا نام پوچھنے کی جسارت ضرور کی تھی مگر اس کی پوپلی طنزیہ ہنسی نے مجھے خاموش کر دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ، اس نے کہا تھا:
"نام کیا پوچھتا ہے ، کہیں بڑھاپے کا بھی کوئی نام ہوتا ہے ؟"
بات ٹھیک تھی، بڑھاپے کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ لیکن بڑھاپا ایک دم کہاں سے آتا ہے۔ وہ تو کئی راستوں ، منزلوں ، اور طوفانوں کے بعد آتا ہے۔ بڑھاپے سے پہلے ادھیڑ پن اور اس سے پہلے جوانی اور اس سے پہلے بچپن ۔۔ اور بچپن سے پہلے یقینا اس کا نام تھا۔
میرا خیال ہے ، ایک نہیں کئی نام تھے اس کے۔ ایک نام جو اس کے باپ نے اسے عنایت کیا تھا۔ دوسرا نام جو اس کی ماں نے بڑے پیار سے اسے دیا تھا۔ اور تیسرا نام یقیناً اس کے اس نے دیا ہوگا جب وہ پہلی بار اس کا گھونگھٹ الٹ کر اس کے گلابی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ہوگا۔
نہ جانے کیا کہا ہوگا ، میں تو کچھ بھی نہیں جانتا کیوںکہ یہ تو اس لمحے کی بات ہے جب میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے، بہت پہلے جوانی کا طوفان اس کے وجود کے سمندر میں اٹھ اٹھ کر ٹھہر گیا ہوگا۔
میں تو بہت بعدمیں اس سے ملا، ملا کہاں وہ مجھے مل گئی یا میں اسے مل گیا ، ایسے ہی جیسے کسی کو راہ چلتے ہوئے کوئی انمول چیز مل جاتی ہے۔ وہ مجھے راستہ پر پڑی مل گئی ۔۔ دراصل اس کا میرا رشتہ فٹ پاتھ کا رشتہ ہے۔ مجھے اصولاً اس فٹ پاتھ کا ممنون ہونا چاہئے جہاں سے اٹھا کر میں نے اسے اپنی آنکھوں پر بٹھا لیا۔
میں نے کہا۔۔۔ "مائی تم میرے گھر چلو۔۔۔ !"

ہوا یوں کہ میں بازار جا رہا تھا ، تاکہ صبح صبح پیٹ کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کے لئے کچھ خرید لاؤں۔ اور وہ بازار سے اسی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا سامان لئے چلی آ رہی تھی، اس کے ایک ہاتھ میں لاٹھی تھی ، دوسرے ہاتھ میں ایک کھلی ہوئی کھجور کی چھوٹی سی ٹوکری تھی جس میں آٹا تھا، پیاز تھی اور ایک کٹوری میں تیل۔ اور یہ سب چیزیں دیکھتے ہی دیکھتے فٹ پاتھ پر آ پڑیں ۔ معلوم نہیں، یہ ٹھوکر کا اثر تھا یا اس بھوکے فٹ پاتھ کا جس نے زبردستی وہ تمام چیزیں اس سے چھین لیں۔
وہ محترم خاتون جھک کر ان تمام چیزوں کو سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ تیل کیا ملتا وہ تو فٹ پاتھ کے رویں رویں میں جذب ہو چکا تھا۔
مجھ سے دیکھا نہ گیا، جھک کر اس کی مدد کرتے ہوئے میں نے اس سے کہا:
"کون ہے وہ ظالم جو تمہیں اس عمر میں بازار بھجواتا ہے ؟"
لیکن میری حقیر مدد اس کے کچھ کام نہ آئی، مٹی آٹے میں اور آٹا مٹی میں مل چکا تھا۔

اسے سہارا دے کر گری ہوئی لاٹھی کو اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے میں نے اس بزرگ خاتون کی خدمت میں ایک میلی کچیلی روپے کی نوٹ پیش کی جو کئی دن سے میری مٹھی میں بند تھی۔ لیکن مجھے بڑی مایوسی ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اور میں نے محسوس کیا کہ جیسے میں نے کوئی بڑی غیر اخلاقی حرکت کی ہے۔ وہ غصہ میں کانپتی ہوئی صرف ایک فقرہ کو دہراتی جا رہی تھی:
"آخر تو نے کیا سمجھا ہے مجھے۔۔۔ مجھے بھیک دیتا ہے ۔۔۔ مجھے۔۔۔!!"
پھر اس سے معذرت چاہتے ہوئے میں نے اس سے کہا ، اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ فٹ پاتھ نے جو نقصان کیا ہے اس کا میں دراصل حرجانہ دے رہا ہوں۔ لیکن وہ خاتون اس کے لئے بہرحال تیار نہیں ہوئی۔ اور اس نے بڑے ہی مردانہ انداز میں اپنی بانہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، جب تک ان بازوؤں میں دم ہے میں کسی سے کیوں لوں۔۔؟

ساتھ ہی میں اس باہمت خاتون کے بازوؤں اور ہاتھوں کو غور سے دیکھنے لگا، ان میں کتنی قوت تھی یا نہیں ایک دوسری بحث ہے لیکن ان ہاتھوں کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ زمانے کی کلائی موڑتے موڑتے وہ ہاتھ خود مڑ چکے تھے۔ اور لٹکتے ہوئے گوشت پر سینکڑوں ان گنت جھریاں ماضی کے ایک ایک تجربے اور محنت کی نشان دہی کر رہی تھیں۔ ان بزرگ ہاتھوں کو سلام کرتے ہوئے میں نے اس خاتون کے مقدس چہرے پر نظر ڈالی اور میں نے محسوس کیا جیسے کسی ڈھیلی ڈھالی باریک جال کے پیچھے ایک نورانی شعاع تڑپ رہی ہے، اس کے بال دودھ کی طرح سفید تھے ۔ میرا خیال ہے وہ معمر خاتون ستّر کے اوپر تھی۔
میں نے کہا۔۔۔ "مجھے معاف کردو مائی جی! مگر بتاؤ تو تم اس ضعیفی میں اتنی محنت کیوں کرتی ہو۔ آخر تمہارا کوئی تو ہوگا ، کوئی۔۔ لڑکی۔۔۔لڑکا۔۔۔ پوتی یا پوتا؟"
یہ بات بھی اسے اچھی نہیں لگی۔۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں نے یہ بات پوچھ کر اس کی شخصی زندگی میں بےجا مداخلت کی ہو۔۔۔ وہ جھنجھلائی، اوراس کا دودھیا چہرہ سلگتی ہوئی آگ کی طرح لال بھبھوکا ہو گیا، فٹ پاتھ کے سینہ پر لکڑی مار کر آگے بڑھتے ہوئے اس نے کہا۔۔۔
"میرا کوئی نہیں ہے، کوئی نہیں۔۔۔!"

"میرا بھی کوئی نہیں ہے ۔۔۔" میرے اندر کا آدمی چیخا۔
نہ میرے آگے کوئی ہے اور نہ پیچھے کوئی تھا۔ میں تنہا ہوں، بالکل تمہاری طرح شاید تم اپنے ماضی کو بھلا بیٹھی ہو یا اسے بھلا دینا چاہتی ہو۔ اور میرا تو کوئی ماضی ہی نہیں ہے تو اسے بھلا دینے یا یاد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نہ مجھے اپنی ماں کا خیال ہے اور نہ مجھے اپنے باپ کا چہرہ یاد ہے۔ بچپن میں یہ دونوں اللہ کو پیارے ہو گئے اور میں اس دنیا میں اکیلا رہ گیا۔ پتہ نہیں کن کن ہاتھوں سے ہوتے ہوئے میں عمر کی اس منزل میں آیا ہوں۔ لیکن تنہائی کا کرکراتا ہوا سناٹا اب تک میرا پیچھا کر رہا ہے مگر تم سے ملنے کے بعد ، تمہیں دیکھنے کے بعد یوں لگتا ہے جیسے تم اس کمی کو پورا کر سکتی ہو۔ وہ پیار جو مجھے اپنی ماں اور باپ سے نہ مل سکا شاید تم مجھے دے سکو ، اپنا بیٹا بنا کر!

لیکن اپنی شدید جذباتیت پر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھ کر میں نے اسے روک لیا اور اس کی لاٹھی کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے میں نے اس سے کہا:
"تم ادھر کہاں چلیں مائی۔ اب تم میرے ساتھ چلو، میرے گھر۔ آج سے میں تمہارا بیٹا ہوں۔"
وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ اس کا جھریوں بھرا چہرہ غم، غصہ، نفرت اور مسرت کے ملے جلے جذبات کے بوجھ سے اور لٹک گیا۔
پھر وہ میرے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی آپ ہی آپ بڑ بڑانے لگی۔
"بیٹا کیا تیری عمر کا تو مجھے پوتا ہو سکتا تھا، مگر بیٹا ہی نہ ہو تو پوتا کہاں سے آتا۔ میں نے اسے ڈانٹ بتائی۔ اس کے ہاتھ کو چبا ڈالا۔ شادی سے پہلے وہ بدمعاش چاہتا تھا، اونہہ میں نے اچھا ہی کیا۔ میں کنواری ہی بھلی!

قریب قریب تین مہینے وہ میرے ساتھ رہی۔ اور میں نے یہ جانا کہ وہ میری زندگی کی ایک ان مٹ سچائی ہے، ماضی کی کھوئی ہوئی جنت ہے اور میرے جسم میں دوڑتا ہوا گرم گرم خون ہے اور قریب قریب میرے تعلق سے بھی اس کے یہی جذبات تھے۔ لیکن جب وہ مجھے اور اس دنیا کو چھوڑ کر جانے لگی تو اس جدائی پر اس نے قطعی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے دیکھا اس کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ ہے۔ میرا خیال ہے ملک الموت بھی اس مسکراہٹ کو دیکھ کر پریشان ہوا ہوگا۔ کیونکہ آدمی کی زندگی کا آخری لمحہ بڑا نازک اور طویل ہوتا ہے ، مگر وہ پرسکون ہی نہیں رہی بلکہ بڑے پیار سے میرا بوسہ لیتے ہوئے اس نے اپنی زندگی پر پڑے ہوئے اس پردہ کو اٹھایا جس کے پیچھے اس کی اپنی تباہی کا راز تھا اور اس کا ذمہ دار صرف وہ نوجوان تھا جس نے آج سے پچاس پچپن سال پہلے شادی کا وعدہ کر کے اسے دیہات سے اٹھا لایا تھا اور پھر اسے شہر کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں چھوٹ کر کہیں غائب ہو گیا۔
اس کے بعد وہ ایک ثانئے کے لئے چپ ہو گئی، اور اپنی جاتی ہوئی سانس کو واپس لاکر اس نے صرف ایک نصیحت کی اور وہ یہ کہ میں کسی لڑکی کو دھوکا نہ دوں۔

آج بھی اس کے آخری بول میرے کانوں میں گونج رہے ہیں، مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ یہی بات کہنے کے لئے زندہ تھی۔ جی میں آیا کہ اس شخص کو تلاش کروں جس نے اسے دھوکا دیا تھا لیکن میں اس کی تلاش کہاں کرتا اور وہ مجھے کہاں ملتا۔ اس لئے جب کبھی مجھے اس کی یاد آتی تو میں اس کی آخری آرام گاہ پر جاتا یا اس فٹ پاتھ پر جہاں وہ مجھے ملی تھی۔ ایک دن اسی مقام پر میں نے دیکھا ایک نوجوان لڑکی اور ایک نوجوان لڑکے میں جھگڑا ہو رہا ہے ۔ اور بہت سے راہ چلنے والے انہیں گھیرے ہوئے کھڑے ہیں۔ لڑکی کو شکایت تھی کہ وہ نوجوان شادی کے بہانے اسے شہر لے آیا اور چند دنوں کے بعد اسے چھوڑ کر کہیں غائب ہو گیا ،اور اب کئی مہینوں کے بعد اسے ملا ہے اور اس کا بیان تھا کہ وہ چند مجبوریوں کی وجہ سے نہ آ سکا لیکن اب وہ اپنی پہلی فرصت میں آ کر اسے اپنالے گا ، غرض لڑکی رو رہی تھی اور وہ نئے نئے بہانوں اور وعدوں کے ساتھ اپنا پیچھا چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔
لیکن اس کا راستہ روکتے ہوئے اس لڑکی کے قریب جا کر میں نے کہا:
"میڈم! یہ تم نے اچھا کیا جو اسے سرراہ پکڑ لیا، اور اب اسے چھوڑو مت ورنہ یہ کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں ، اس سے پہلے بھی اس نے تمہاری طرح دیہات کی ایک معصوم حسین لڑکی کو دھوکا دیا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس کا کوئی نام نہیں ہے، کیونکہ یہ ہر زمانے اور ہر دور میں اپنا روپ بدل بدل کرنئے نئے ناموں کے ساتھ آتا ہے۔۔۔!"
پھر میں خاموش ہو گیا اور لڑکی نے بڑی ممنونیت اور حیرت کے ساتھ ایک لمحہ کے لئے مجھے دیکھا اوردوسرے لمحے پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی نوجوان کے ہاتھ کو اس نے مضبوطی سے پکڑ لیا ۔
ساتھ ہی مجھے کوئی ضروری بات یاد آ گئی۔ ایک پاگل کی طرح میں دوڑا دوڑا گھر آیا اور کمرے میں قدم رکھتے ہی چیخا:
"کہاں ہے میرا قلم۔۔۔۔؟
کہاں ہے میرا پیڈ۔۔۔۔؟"

ماخوذ از کتاب:
راستے کی کہانی (افسانوی مجموعہ)
مصنف : عاتق شاہ
ناشر: حمیرہ پبلی کیشنز، حیدرآباد۔ (سن اشاعت: نومبر 1978)

Raaste ki kahani. Short Story: Aatiq Shah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں