ڈاکٹر زینت ساجدہ - ایک آواز ایک تاثر - عاتق شاہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-15

ڈاکٹر زینت ساجدہ - ایک آواز ایک تاثر - عاتق شاہ

Dr-Zeenat-Sajida
{ڈاکٹر زینت ساجدہ کے ہم عصر نامور افسانہ نگار اور ترقی پسند ادیب عاتق شاہ نے یہ مضمون 1981ء میں لکھا تھا}

ایک آواز جو مسلسل تینتیس سال یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے باہر گونج رہی ہے اور جسے لڑکے ، لڑکیاں ، بچے ، بوڑھے اور جوان بڑے غور سے سنتے ہیں اور جو سب کے لیے قابل قبول ہے ۔ ایک آواز جس نے شعر اور حکمت کی گتھیاں سلجھائیں اور جس نے درس و تدریس کے پیشے کی آبرو رکھ لی ۔ ایک آواز جو معتبر ہے اور جس میں دو دھاری تلوار کی کاٹ بھی ، ایک آواز جو بڑی دور اور قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ اور اس آواز کا نام ہے زینت ساجدہ ۔ ۔
لیکن زینت ساجدہ صرف ایک آواز کا نام نہیں ہے ! زینت ساجدہ ایک بھرپور اور مکمل شخصیت کا نام ہے اور اس شخصیت کے اندر کئی زینت ساجدائیں سانس لے رہی ہیں ۔ یہ سب آپس میں مشابہ ہوتی ہوئی بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور جن کا تقابل ممکن نہیں ۔
پہلی ملاقات میں زینت ، آپ سے اس طرح بات کریں گی جیسے وہ آپ کو برسوں سے جانتی ہیں ۔ گفتگو اور لب و لہجہ بہت ہی نرم ہوگا ۔ اور انداز پُرخلوص اور سرپرستانہ ۔ آپ بڑے احترام اور سعادت مندی سے زینت کو سنیں گے اور جب لوٹیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ آپ نے صرف اچھے سامع ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔
زینت سنتی کم ہیں اور بولتی زیادہ ہیں ۔
صبح سے شام تک وہ یونیورسٹی میں اپنی اس عادت کو پورا کرلیتی ہیں لیکن لمبی چھٹیوں پر جب یونیورسٹی بند ہوجاتی ہے تو زینت کی بے چینی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے کیوں کہ وہ گھر خاموش بیٹھ ہی نہیں سکتیں ۔ ان دنوں شعر و ادب کے شیدائی دونوں شہروں میں ادبی جلسے اور مشاعرے منعقد کرواتے ہیں اور وہ تقریر کے لیے نکل پڑتی ہیں ۔
ہر مداح اور جھک کر ملنے والے کو زینت اپنا شاگرد سمجھتی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہر شاگرد اور جھک کر ملنے والا مداح نہیں ہوتا ۔
زینت کے مداحوں کی گنتی یقیناً مشکل ہے اس طرح شاگردوں کی بھی جو ملک اور بیرون ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ آپ چاہیں تو اس لمبی فہرست میں میرا نام بھی لکھ سکتے ہیں ۔
جی ہاں ! میں بھی زینت کا شاگرد رہا ہوں !
لیکن اس میں حیرت کی کیا بات ہے ! اگر کوئی وقت پر پڑھے لکھے نہیں اور اپنی عمر عزیز کا بہترین اور قیمتی وقت آوارہ گردی میں یا سونے میں گزار دے تو کوئی کیا کرسکتا ہے ۔ اور اگر کسی کو بعد میں ہوش آئے اور اپنے نقصان کی تلافی کے لیے پھر تعلیم کی طرف متوجہ ہوتو اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو میرا ہوا ۔ یعنی دوست ، استاد بن جاتے ہیں اور چھوٹے مشورے دینے لگتے ہیں ۔ یہ مقام عبرت ہے ۔ خدا ایسا دن کسی کو نہ دکھائے ۔ شاعر نے اسی دن کے لیے کیا خوب کہا ہے ۔ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو !
دوسروں کے لیے سامانِ عبرت فراہم کرنے والا خود کیا عبرت حاصل کرسکتا ہے ۔ چنانچہ میں نے ایم اے میں داخلہ لیا ۔ اور اپنے کم عمر ساتھی نوجوان لڑکوں ، اور لڑکیوں کے ساتھ کلاس میں جابیٹھا ۔ میری اس حرکت پر کتنے ہنسے اور کتنے زیر لب مسکرائے ، میں نہیں جانتا البتہ مجھے ان پر ضرور ہنسی آتی تھی ۔ مجھے غور سے دیکھتے تھے بلکہ سچ پوچھئے تو میں ان پر ہنستا تھا ۔ بے غیرتی کی بھی حد ہوتی ہے ۔ اب آپ سے کیا عرض کروں ۔ میں بڑی سپاہیانہ شان سے کلاس روم میں داخل ہوتا اور چاروں طرف مسکراہٹ کی ایک لہر دوڑ جاتی !
میرے بجائے اگر کوئی اور ہوتا تو شرم سے پانی پانی ہوجاتا لیکن میں نہیں شرمایا البتہ مجھے دیکھ کر زینت شرماگئیں !
یہ زینت کی پہلی کلاس تھی ۔ ہم سب طالب علم زینت کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ۔ مجھے دیکھ کر وہ رُک گئیں ۔ دوسرے طالب علم کلاس روم میں داخل ہوگئے ۔ زینت نے اشارے سے مجھے رُکنے کے لیے کہا اور بولیں : " میں تمہیں کیا پڑھاؤں گی ؟ "
پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ، آئندہ سے میری کلاس میں آنے کی ضرورت نہیں میں تمہیں حاضری دیتی رہوں گی ! جاؤ گھر جاؤ ۔۔۔ "
زینت ساجدہ کی اور میری افسانہ نگاری کی عمر قریب قریب ایک ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ زینت کا افسانوی مجموعہ " جل ترنگ " 1947 ء میں شائع ہوا اور مجموعہ " فٹ پاتھ کی شہزادی " مئی 1948 میں چھپا ۔ اس وقت میرے علاوہ زینت کے ساتھی افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ، عزیز النسا حبیبی ، سعیدہ مظہر ، نوشابہ خاتون ، محبوب حسین جگر ، سردار سلیم ، شفقت رضوی اور ظفر عالم گیر قابل ذکر ہیں ۔
ابراہیم جلیس بہت پہلے سے لکھ رہے تھے اور ان کے دو مجموعے " زرد چہرے " اور " چالیس کروڑ بھکاری " شائع ہوکر مقبول ہوچکے تھے ۔ بہرحال حیدرآباد میں افسانہ نگاروں کا ایک قابلِ لحاظ گروہ تھا جو ملک کے دوسرے افسانہ نگاروں کے ساتھ آزادی کی لڑائی میں برابر کا شریک تھا ۔ یہاں کے تمام افسانہ نگار متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی زندگی کو پیش کررہے تھے ۔ زینت بھی ان میں سے ایک تھیں !
لیکن ایک ہونے کے باوجود ان سب سے مختلف تھیں ، الگ تھیں ۔ زینت نے صرف دو تین کہانیاں لکھ کر ہی ادبی حلقوں کو چونکا دیاتھا اور اردو کا ایک عام قاری یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ یہ وہی آواز ہے جو اس کے گھر کی چار دیواری میں بند اس کی بیوی ، بیٹی ، بہن اور محبوبہ کی روح کے کسی گوشے میں صدیوں سے دبی پڑی ہے اور جس نے اظہار کے لیے زینت کو اپنا وسیلہ بنایا !
زینت کہانی سنانا جانتی ہیں !
کیونکہ کہانی زینت کے خون میں شامل ہے ۔ اس لیے وہ جب عام قسم کی بات بھی کرتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کہانی سنارہی ہیں یا سنانے والی ہیں ۔
زینت اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ کوئی مانے نہ مانے کم از کم مجھے اس کا اعتراف ضرور کرنا چاہئے ۔ میں زینت سے خائف تھا خائف کیا میں زینت سے جلتا تھا اور سوچتا تھا کہ یہ محترمہ ہانڈی چولہا چھوڑ کر کیوں افسانہ نگاری کے میدان میں اُتر آئی ہیں ؟ عورت کا صحیح مقام تو اس کا گھر ہے اور اس کا آرٹ تو اچھی دال بگھارنے میں پوشیدہ ہے ۔ اکبر الہ آبادی نے سچ ہی کہا تھا ۔
رقابت وہیں ہوتی ہے جہاں آدمی مقابلے کا ہو ورنہ کمزور سے ڈر کیسا ؟
" جل ترنگ " کی اشاعت کے بعد غیر محسوس طور پر زینت افسانہ نگاری کے میدان سے دور ہوتی گئیں اور پھر ایک موڑ ایسا بھی آیا کہ وہ صرف نام کی افسانہ نگار باقی رہ گئیں لیکن اس سے ہٹ کر وہ سب کچھ تھیں ۔
ایک اچھی مقرر اور نقاد کی حیثیت سے زینت کی صلاحیتوں سے کون انکار کرسکتا ہے ؟
لیکن ہوا یوں کہ زینت ہر مرض کی دوا سمجھی جانے لگیں ۔ چنانچہ ادبی جلسوں کی صدارت سے لے کر مشاعروں کی کمنٹری تک زینت کی ذمہ داری سمجھی جانے لگی ۔ اب حد یہ ہوگئی کہ زینت کو مہمان خصوصی بناکر دوتین گھنٹوں کے لیے بٹھا دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ خاموش رہیئے کیوں کہ آپ مہمان خصوصی ہیں ۔ اور اچھا مہمان خصوصی وہی ہوتا ہے جو جلسے کے اختتام تک مسکراتا رہے ۔ میں نہیں جانتا کہ یہ بات زینت کے لیے اعزاز ہے یا سزا ۔
یہی نہیں بلکہ شعری اور افسانوں مجموعوں کی رسم اجرا میں بھی زینت کی موجودگی ضروری سمجھی جانے لگی ہر شاعر اور ادیب دوڑا دوڑا زینت کے یہاں پہونچ رہا ہے کہ ہمارے مجموعے پر ایک مقدمہ لکھ دیجئے یا نہیں تو مختصراً رائے لکھ دیجئے ۔ مگر لکھیئے ضرور اور زینت کا یہ حال کہ اخلاق اور مروت میں انکار ہی نہیں کرپاتیں اگر معذرت کی نوبت بھی آئے تو یہاں زینت کی سننے والا کون ہے ۔ لہذا زینت کو کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑتا ہے اور اب تو " مقدمہ بازی " میں زینت اتنی اکسپرٹ ہوگئیں ہیں کہ بغیر کتاب پڑھے لکھ دیتی ہیں اور اس خوبی اور نفاست سے لکھتی ہیں کہ پبلک بھی خوش اور صاحبِ کتاب بھی ۔
چنانچہ میرے ایک شاعر دوست بھی خوش تھے کہ ان کے پہلے شعری مجموعے پر زینت نے بہت ہی عمدہ مقدمہ لکھا ہے ۔ کئی بار انہوں نے اپنی مسرت کا اظہار کیا اور مجھ سے میری رائے پوچھتے رہے ۔ میں ہمیشہ مسکرا کر ٹالتا رہا ۔ لیکن جب وہ مصر ہوگئے تو میں نے کہا ، زینت نے تمہاری شاعری اور فن کے بارے میں ایک فقرہ بھی نہیں لکھا ۔ بڑی خوبی سے تمہیں ٹال گئیں اور خود کو یہ کہہ کر بچالیا کہ میں دوستوں کے عیوب پر نظر نہیں ڈالتی ورنہ تمہاری خیر نہ تھی۔ باقی جو بھی لکھا اس میں تمہاری شخصی نالائیقوں کا ذکر ہے اور اس میں یہ بتانا ہے کہ تم نے اپنا سفر عابد روڈ سے شروع کیا تھا اور معظم جاہی مارکٹ پہنچے کر ٹھہرگئے اور پینتیس سال سے اس کے اطراف گھوم رہے ہو ۔ یہ کوئی تعریف نہیں بلکہ تمہیں آئینہ دکھایا گیا ہے کہ تم کہاں واقع ہو؟
میری اس سخت رائے پر وہ برہم ضرور ہوئے لیکن زینت کی تعریف میں کمی نہیں ہونے دی ۔ اور میں حیران سوچتا رہ گیا کہ زینت کی تحریر کا آخر وہ کون سا جادو ہے جو انہیں اپنی گرفت سے آزاد نہ کرسکا ۔
مخدوم محی الدین کے بعد زینت کی ہی وہ واحد شخصیت ہے جسے عوام اور خواص میں یکساں مقبولیت حاصل ہے ۔ زینت کے بغیر حیدرآباد کے کسی علمی ، ادبی اور تہذیبی جلسے کا تصور ممکن نہیں ۔ یہی نہیں بلکہ زینت شادی بیاہ کی تقاریب اور میت کے جلوس میں بھی اس اہتمام کے ساتھ شریک ہوتی ہیں جیسے کسی ادبی جلسے میں۔ فرق اتنا ہے کہ وہ یہاں تقریر نہیں کرتیں بلکہ خاموش گواہ کی حیثیت میں سب کچھ دیکھتی رہتی ہیں ۔ اسی لمحے شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ زینت کے اندر چھپی ہوئی آرٹسٹ جاگ رہی ہے !
اسی ایک لمحہ میں مجھے ماضی کی ایک ایک بات یاد آگئی اور برسہا برس زن سے میری نظروں کے سامنے سے گزر گئے ۔
زینت میرے سامنے کھڑی تھیں ۔
میرے ہم جماعت کلاس روم میں جاچکے تھے اور میں زینت کی شرافت اور پڑھائی کا قائل ہوگیا ورنہ چھوٹے لوگ تو ایسے لمحوں میں اچھل پڑتے ہیں ۔
میں نے ہنس کر کہا " بھئی واہ ! آپ کی کلاس کیوں چھوڑی جائے ۔ جب طالب علم ہی بنے ہیں تو اسے بھی اٹنڈ کریں گے "
چنانچہ زینت کے پیچھے پیچھے میں کلاس روم میں داخل ہوا ۔ یہ 1963ء کی بات ہے ۔
اس سال ایم ۔ اے ابتدائی میں بڑے جغادری قسم کے لوگوں نے داخلہ لیا تھا ۔ آنے والے سال میں بھی یہی ہوا ۔ میری جماعت میں کوئی تیر یا چودہ طالب علم تھے ۔ چار کو چھوڑ کر باقی سب لڑکیاں تھیں ۔ ان طالب علموں میں دو نام بڑے اہم تھے ۔ ایک سید مصطفےٰ کمال اور دوسرا اشرف رفیع کا ۔
اردو حلقوں میں اشرف رفیع ایک شاعرہ کی حیثیت سے اور مصطفےٰ کمال صحافی کی حیثیت سے مشہور ہوچکے تھے ۔ جونئیرس میں فارسی اور اردو کے مشہور شاعر قمر ساحری اور شفیق سنجر قابل ذکر ہیں ۔ نوجوان ادیب احمد جلیس اور " مخدوم ایک مطالعہ " کے مصنف داؤد اشرف سے اسی بیاج میں شامل تھے ۔ مختصر یہ کہ شعبۂ اردو ، عثمانیہ یونیورسٹی ایک فوجی یونٹ کی طرح کام کررہا تھا ۔ اور بقول صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر مسعود حسین خاں سارا اسٹاف الرٹ تھا ۔
میں نے سوچا کہیں زینت میری اور مصطفےٰ کمال کی موجودگی سے نروس تو نہیں ہیں لیکن خود مجھے اپنی اس سوچ پر ہنسی آگئی کیوں کہ زینت اور نروس پن دومتضاد لفظ ہیں ۔ میں نے دیکھا ایک ثانیہ کے لیے زینت نے مسکراتے ہوئے مجھ پر نظر ڈالی اور دوسرے ثانیے میں وہ میرے وجود کو سرے سے بھلا کر اس طرح کلاس سے مخاطب ہوئیں جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی ۔ دنیا کا اور یونیورسٹی کا ہر کام برابر اور وقت پر ہورہا ہے ۔ ۔
زینت کی بات نہ مان کر میں نے کلاس اٹنڈ کی اور یہ ٹھیک ہی کیا ۔ ورنہ میں جس نئے اور اچھے تجربے سے آگاہ ہونے والا تھا اس سے محروم رہتا اور انجانے میں پتا ہی نہیں چلتا کہ میں نے کیا چیز کھودی ہے !
زینت ڈرامہ پڑھا رہی تھیں ۔
اور میں حیران تھا کیوں کہ یہ وہ زینت نہیں تھیں جنہیں میں ترقی پسند مصنفین کے جلسوں سے لے کر عام ادبی جلسوں میں سن چکا تھا ۔ یہ ایک نئی زینت ساجدہ تھیں ، خاموش سنجیدہ اور سوفیصد انٹلکچویل ۔
زینت اردو ڈرامے کا تاریخی پس منظر دیتی ہوئی اس کی ناکامی کے اسباب پر روشنی ڈال رہی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ڈرامے پر لکھی ہوئی درجنوں کتابیں میرے سامنے کھلتی جارہی ہیں ۔
مجھے یاد ہے ڈرامے کی ایک اور کلاس میں طلبہ کی اکثریت نے زینت سے ڈرامے پر چند نوٹس لکھوانے کی خواہش کی ۔ پہلے تو زینت نے انکار کیا پھر راضی ہوگئیں اور کہا لکھئے ۔
سب اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے تھے کہ زینت کہیں نہ کہیں سے کوئی نوٹ بُک برآمد کریں گی اور اسے کھول کر کسی نہ کسی صفحہ سے لکھوانا شروع کریں گی ۔ لیکن زینت نے ایسا نہیں کیا بلکہ شروع ہوگئیں اور مسلسل پچاس یا پچپن منٹ تک بولتی رہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی اچھا اسکالر کسی سمینار میں پیپر پڑھتا ہے ۔ ایک متوازن لب و ولہجہ اور متوازن رفتار کے ساتھ ۔
ڈرامے کے علاوہ زینت نے غالبؔ بھی پڑھایا تھا اور ذاتی طور پر میں نے یہ تاثر قبول کیا تھا کہ یہ غالبؔ بڑے کام کی چیز ہیں اور انہیں بار بار پڑھنا چاہئے ۔ اس تاثر کو میں ایک اچھے ٹیچر کی دین سمجھتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ زینت صرف ہماری یونیورسٹی کی نہیں بلکہ ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں میں اردو پڑھانے والے ان اچھے ٹیچروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے طلبہ کو ایک تخلیقی فکر عطا کی ۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ زینت لڑکوں میں زیادہ مقبول ہیں یا لڑکیوں میں ۔ البتہ لڑکیاں زینت سے زیادہ متاثر معلوم ہوتی ہیں۔ ابھی حال حال میں میری ایک کزن کے گھر ان کی سہیلی سے ملاقات ہوئی جو دو بچوں کی ماں ہیں ۔ تعارف ہوا ۔ اور انہوں نے رسماً نہیں بلکہ عملاً خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ، "بھیاّ ! ٹہریئے میں آپ کے لیے چائے بناکر لاتا ہوں " ۔
میں نے مسکرا کر پوچھا ، کہیں آپ زینت کی اسٹوڈنٹ تو نہیں ؟
وہ فوراً اچھل کر پوچھیں " اللہ ۔ آپ نے کیسے پہچانا بھیّا ۔ !
میں تو ان کا ہی اسٹوڈنٹ ہوں " ۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا ، بہت سیدھی اور آسان سی بات ہے اور یہ کہ لڑکی یا خاتون بات چیت میں صیغہ مذکر استعمال کرے تو وہ سوائے زینت کے اور کس کی اسٹوڈنٹ ہوسکتی ۔ !
یہ مردانہ لب و لہجہ اصل میں ایک نفسیاتی ردِعمل ہے سماج کے اس طبقے کے خلاف جس نے عورت کی آواز کو ہمیشہ دبائے رکھا ۔ زینت کے الفاظ میں ۔ " ایک عورت اور اس کے ساتھ ہزار جنجال ۔ بال سے باریک اور تلوار سے تیز راستے پر سنبھل سنبھل کر چلنا ہی اس کا سب سے بڑا کمال ہے ۔ اور یہ عورت اور صرف عورت ہی کرسکتی ہے ۔ اس لیے اگر کوئی کہے کہ عورت کسی فن میں کامل نہیں ہوسکتی تو اس کا منہ نوچ لیجئے اور کہیئے کہ ایک کمرہ اور فرصت کا ایک دن تو فراہم کردے " ۔ (" ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور "زینت ساجدہ کا ایک انشائیہ ) ۔
کیا کوئی مائی کا لال عورت کی اس مشکل کو حل کرسکتا ہے ؟
سب ہی جانتے ہیں کہ زینت متوسط گھرانے میں پیدا ہوئیں اور اپنے گھر کی سب سے بڑی لڑکی ہیں ، لیکن ایک لڑکا بن کر انہوں نے اپنے چھوٹے بھائیو ں اور بہنوں کو پڑھایا ، لکھایا اور انہیں سماج میں ایک باعزت مقام دلایا ۔ زینت کی زندگی کا یہ گوشہ بڑا ہی اہم ہے اور قابل احترام بھی ۔ اچھے فنکار اور اچھے انسان کی نشانی اور شناخت یہی ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں بھی ذمہ دار رہے ۔ ورنہ وہ فن کاریا شخص جو اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں سے انصاف نہ کرسکے وہ بھلا اپنے دوستوں سے یا پڑوسی سے یا قوم سے کیا انصاف کرسکتا ہے ؟ اوراس سے کیا توقع کی جاسکتی ۔
اس وقت تک زینت نے اپنے بارے میں کچھ نہیں سوچا جب تک کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرلیں ۔ بعد میں میں نہیں جانتا کہ زینت نے شاہد کو دریافت کیا یا شاہد نے زینت کو ، اور یہ بھی نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کون کس کی فتوحات میں شامل ہے اور کون کس کی زندگی کا حاصل ۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ شادی کے بعد زینت کے لب و لہجہ پر بڑا گہرا اثر پڑا ۔ اور صیغہ مذکر کا استعمال آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا ۔
یہ شاہد کا کمال نہیں ۔ زینت کا اعجاز ہے ۔
آخر میں ایک راز کی بات بتادوں اور وہ یہ ہے کہ انٹلکچویل خاتون ڈاکٹر زینت ساجدہ اپنے شوہر ڈاکٹر حسینی شاہد سے بے حد ڈرتی ہیں ۔ شاہد کے حکم کے بغیر گھر کے اڈمنسٹریشن کا کوئی پتا بھی نہیں کھڑکتا ۔ یہی نہیں بلکہ زینت اپنے میاں کے سامنے چیں تک نہیں کرتیں ، خواہ وہ ادبی گفتگو ہو ، یا علمی یا سیاسی یا کوئی اور ۔ یوں مسکراتی ہوئی پان بناتی بیٹھتی ہیں جیسے سو فیصد گھریلو قسم کی کوئی خاتون جسے دھوبی کا حساب لکھنے کے سوائے کچھ نہیں آتا ۔
وہ لمحہ بڑا ہی دل چسپ ہوتا ہے جب شاہد اپنی میڈم ڈاکٹر زینت کو کسی بات پر ڈانٹ پلاتے ہیں اور انہیں مزید کچھ کہنے سے روک دیتے ہیں اور زینت چُپ ہوکر بے کسی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگتی ہیں ۔ اس وقت سچ پوچھئے تو طبیعت خوش ہوجاتی ہے کہ واہ شاہد صاحب واہ ! آپ نے ہم مردوں کی ناک بچالی ۔ ورنہ ہم نے اپنے کئی ایسے دوستوں کو دیکھا ہے جنہوں نے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ملازم لڑکیوں سے شادیاں کیں اور شادی کے بعد منہ تک نہیں کھولا ۔ جب بھی بات کی بحوالہ متن بات کی اور ہمیشہ متن کے قریب رہے ۔
سنا کہ شاہد کے سسرالی عزیز بھی شاہد سے ڈرتے ہیں ۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔ البتہ ان کے ایک منہ بولے سالے کو جانتا ہوں جن سے آپ بھی واقف ہیں اور جن کا نام ہے سری نواس لاہوٹی ۔
جب لاہوٹی بڑے لاڈ سے اپنے بہنوئی شاہد سے چائے کی فرمائش کرتے ہیں تو اس موقع سے شاہد پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں ۔
" اجی جناب سالے مارواڑی صاحب ! آپ کو شرم نہیں آتی ۔ سارا زیور تو رہن رکھ کر ہڑپ کر ڈالا ۔ اب آپ سود بھی مانگ رہے ہیں ۔ کیا آپ کے اباجان نے میرے نام کوئی جائیداد لکھ چھوڑی ہے ! "
شاہد کسی سالے والے کی سفارش نہیں سنتے ۔ یہاں تک کہ زینت کی سفارش پر بھی کان نہیں دھرتے ۔ زینت کو اس کا پتا ہے اگر کسی بدنصیب نے اصرار کے ساتھ زینت سے سفارش کروادی تو اس کی خیر نہیں ۔ اچھا خاصا ہونے والا کام بھی بگڑ کر رہ جائے گا۔ اصل میں شاہد نے زینت کو اپنے کالج کے اڈمنسٹریشن سے الگ رکھا اور کسی معاملہ میں دخل دینے نہیں دیا ۔ بس اصول اصول ہے ۔
حسینی شاہد سے زینت ساجدہ ایسا ہی ڈرتی ہیں جیسے کوئی بندہ اپنے خدا سے ڈرتا ہے لیکن اس کے باوجود خدا سے محبت کم نہیں ہونے پاتی ۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ شاہد سخت بیمار پڑے اور انہیں پیٹ کے ایک نہیں دو آپریشن کروانے پڑے اور دواخانے میں انہیں ایک لمبے عرصہ تک رہنا پڑا ۔ بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کی کیفیت میں انہوں نے کئی گھنٹے گزارے ۔ اس وقت زینت کی حالت کا کچھ نہ پوچھئے ۔ یونیورسٹی کیا ساری دنیا کو چھوڑ کر وہ ہفتوں اپنے شوہر کے سرہانے یا پائینتی بیٹھی رہیں چپ چاپ خاموش خاموش ۔ صرف گھڑی کی ٹک ٹک سنتی ہوئی یا منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتی ہوئی !
یہ عبادت نہیں تو اور کیا ہے !
میں شاید یہ بات بتانا بھول گیا کہ زینت بے حد مذہبی خاتون ہیں ۔ ماہ رمضان میں پورے روزے رکھتی ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ نمازیں پڑھتی ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ باقی گیارہ مہینوں کی پیشگی نمازیں بھی اسی مہینے میں پڑھ کر حساب چکتا کردیتی ہیں ۔ کسی کو بُرا کہتی ہیں اور نہ کسی کا بُرا دیکھتی ہیں ۔ البتہ زینت ان حضرات سے بے حدالرجک ہیں جو پدمابھوشن یا پدماشری قسم کے ٹائٹیل رکھتے ہیں ، جو کھدر پہنتے ہیں یا پھر کسی یارجنگ بہادر کی اولاد ہیں ۔ زینت انہیں کبھی نہیں بخشتیں ۔
زینت کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سادگی کسے کہتے ہیں ، ملنے کے بعد شرافت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے اور گفتگو کے بعد زندگی کے معنی کسی چھپے ہوئے راز کی طرح منکشف ہوجاتے ہیں اس لیے کہ زینت ان تمام چیزوں سے عبارت ہیں۔
دیکھئے زینت آرہی ہیں ۔ اٹھئے اور بڑھ کر ان کا استقبال کیجئے ۔

ماخوذ:
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ جلد:42، شمارہ:2۔ شمارہ: فروری 2009۔

یہ بھی پڑھیے:

Dr Zeenat Sajida, a prominent name in Hyderabad Literary circles. Essay by: Aatiq Shah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں