انیل کپور - آرٹ فلموں سے دوری بھلی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-18

انیل کپور - آرٹ فلموں سے دوری بھلی

anil-kapoor

انیل کپور (پیدائش: 24/دسمبر 1956، بمبئی) بالی ووڈ کے ایک نامور اور سدا بہار اداکار و کیرکٹر آرٹسٹ رہے ہیں۔ فلمی نامہ نگار شاہین راج نے کئی سال قبل، مشہور فلم "مسٹر انڈیا (ریلیز: مئی-1987)" کی تیاری کے دوران ان کا انٹرویو لیا تھا جس میں انہوں نے مختلف موضوعات پر اپنے نقطہ نظر سے واقف کرایا ہے۔ یہ انٹرویو دہلی کے مشہور فلمی و نیم ادبی رسالہ "شمع" کے شمارہ جون-1987 میں شائع ہوا تھا۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پہلی بار اردو سائبر دنیا میں پیش خدمت ہے۔

سوال:
کبھی فرصت میں بیتے دنوں کا جائزہ لیتے ہوگے تو کیا یہ خیال تمہیں نہیں آتا ہوگا کہ کامیابی تمہارے ساتھ بار بار آنکھ مچولی کا کھیل کھیلتی رہی ہے؟
جواب:
آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میرا حال کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ شروع سے ہی ہٹ کے بعد فلاپ اور فلاپ کے بعد ہٹ فلمیں میرے نصیب میں آتی رہی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ہٹ اور فلاپ کی یہ دھوپ چھاؤں اچھی ہی ہے۔ اس کی وجہ سے میں اپنے آپ کو، اپنے مقام کو بچانے کے لیے ہر دم چوکس، چوکنا اور مستعد رہتا ہوں۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ کسی ایک کامیابی کی چاندنی میں آرام سے بیٹھا رہوں۔ لیکن فلم "کرما" کے بعد خود کو نمایاں نہ کرنے کی اپنی پرانی عادت مجھے چھوڑنا پڑی ہے۔ میں کمر کس چکا ہوں اور اس سے بھی بہتر کارگزاری دکھانے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔

سوال:
"کرما" میں تم نے اپنی لاابالی، آوارہ گرد امیج کو ہی پھر ابھارا ہے اور اس فلم میں تمہاری اداکاری اتنی عمدہ قرار دی گئی ہے جتنی اس سے پہلے کی تمہاری کسی فلم میں نہ تھی۔ خود تمہاری اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟
جواب:
میں اپنے منہ میاں مٹھو کیوں بنوں؟ میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اس فلم میں میری اداکاری ایسی ہے جسے عوام نے بھی سراہا اور پسند کیا ہے۔ جہاں تک میرے رول کا تعلق ہے، وہ خود ہی ایسا تھا کہ مجھے عوام کی پسند کا قدم قدم پر خیال رکھنا پڑا۔ بالکل اسی طرح جیسے میں نے "مشعل" میں ایک شورہ پشت دادا کے رول میں کیا تھا۔ وہی بےلگام زبان، وہی لاابالی انداز، وہی کسی کو بھی خاطر میں نہ لانے کا رویہ۔ اب تو میں نے مانگ اور سپلائی کے اصول پر پوری طرح عمل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ میں وہی مال پیش کروں گا جو میرے پرستار مجھ سے مانگتے ہیں۔

سوال:
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم خود ہی اپنے آپ کو ٹائپ بنانے پر اور اپنی اداکاری کو ایک لاابالی آوارہ گرد کی امیج تک محدود رکھنے پر تلے ہوئے ہو؟
جواب:
نہیں، میں نے ایسا کب کہا ہے؟ میرے کہنے کا مطلب تو یہ ہے کہ "کرما" کے بعد میں اس طرح کے رول کو صرف اپنی ذاتی فلم "مسٹر انڈیا" میں دہراؤں گا۔ دوسری فلموں میں اپنے پرستاروں کو خوش کرنے کے لیے میں کوئی اور امیج تراشوں گا۔ ٹائپ بننے اور کسی ایک امیج کا پابند رہنے کا میں قائل نہیں۔

سوال:
لیکن ایک امیج کے پابند تو تم ہمیشہ رہتے ہو، میری مراد ہفتہ بھر تک شیو نہ کرنے کی امیج سے ہے۔
جواب:
(مسکراتے ہوئے) جی ہاں۔ ابھی تک تو میرا یہی حال رہا ہے۔ انیل کپور کا کلین شیو کیا ہوا چہرہ لوگوں کو کم ہی دیکھنے کو ملا ہوگا۔ اوروں کی بات چھوڑیے، میری بیوی، میرے ماں باپ، میرے بھائی، سب کے سب میرے اس بدنما حلیے کے خلاف ہیں۔ وہ مجھے ٹوکتے ہیں، بڑبڑاتے ہیں، مگر مجھ پر اثر ہوتا ہی نہیں۔ لیکن اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ "مسٹر انڈیا" کے بعد اپنے چہرے کو اس جھاڑ جھنکاڑ سے پاک ہی رکھوں گا۔ بلکہ اس سلسلے میں شروعات میں نے کر بھی دی ہے۔ کیا لوگوں نے بوکاڈیہ صاحب کی فلم "پیار کیا ہے پیار کریں گے" میں انیل کپور کا 'چکنا چہرہ' نہیں دیکھا ہے؟

سوال:
لیکن یہ "ڈاڑھی والی امیج" تم نے پیدا ہی کیوں کی تھی؟
جواب:
اس میں میری کسی کوشش کو دخل نہ تھا۔ اس پورے شہر میں مجھ سے بڑھ کر کاہل کوئی نہ ہوگا۔ جب کبھی کوئی مجھے شیو کرنے کو کہتا، میں منہ لپیٹ کر جھٹ نیند کی گود میں پہنچ جاتا۔ آج بھی بیوی کو شیو کا سامان لیے لیے میرے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ عیش ختم ہونے والے ہیں۔ میری سمجھ میں آ گیا ہے کہ اپنے حلیے کو کچھ تو بہتر اور قابل قبول بنانا ہی چاہیے۔

سوال:
اپنے مقام کو محفوظ رکھنے کے لیے تم نے کوئی اور عہد بھی کیا ہے؟
جواب:
دیکھیے، میرا مقام تو پہلے سے ہی محفوظ ہے۔ میر مطلب ہے، "کرما" کے بعد تو محفوظ ہی ہے۔ عہد کرتے رہنے سے یوں بھی کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ یہ زندگی کے بدلتے ہوئے حالات میں اکثر ٹوٹتے رہتے ہیں۔ اس لیے اکثر میں نے کوئی عہد کیا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اپنی ساری پروفیشنل ذمہ داریوں کو پہلے ہی کی طرح پوری لگن، نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پورا کرتا رہوں گا۔

سوال:
اگر اپنی کامیابی پر ناز کرنا تمہیں اچھا لگتا ہے تو کیا اتنی ہی خوشدلی کے ساتھ تم اپنی ناکامیوں کو بھی قبول کر سکتے ہو؟
جواب:
اس کے سوا میرے پاس ۔۔۔ یا کسی بھی اداکار کے پاس چارہ ہی کیا ہے؟ ناکامی میرے حوصلوں اور ولولوں کو کبھی پست نہیں کر سکتی۔ تھوڑے سے وقت کے لیے اداسی ضرور گھیر لیتی ہے۔ لیکن پھر بھی ناکامی کی وجہ تلاش کرنے میں اپنے ذہن کو مصروف کر لیتا ہوں۔ مثلاً سوچ بچار کے بعد مجھے احساس ہوا کہ "پیار کیا ہے پیار کریں گے" کی ناکامی کی وجہ ایک دہائی پرانی فرسودہ تھیم تھی جسے آج کے حالات کے مطابق بنانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی تھی۔ "جانباز" میں میرے رول اور میرے کام کے بیچ میں ایک اعتبار سے "پہچان کا بحران" گڑبڑ مچا گیا تھا۔ پھر نشیلی دواؤں کے دھندے کی تھیم بھی اس سے پہلے بار بار دہرائی جا چکی تھی اور اس میں کوئی تازگی، کوئی نیاپن نہیں رہا تھا۔ لیکن یہ بہرحال میری اپنی رائے ہے، میکرز کا خیال اس سے مختلف ہو سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے تو اس بات کی کہ میں نے انہیں فلاپ فلمیں دیں، لیکن اس کے باوجود اپنی نئی فلموں میں انہوں نے مجھے دوبارہ موقع دیا۔

سوال:
"جانباز" (ریلیز: 1986) کی ناکامی کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انیل ڈمپل کی جوڑی بےمیل تھی اور تماشائیوں کو پسند نہیں آئی۔ تمہارا کیا خیال ہے؟
جواب:
یہ بات نہیں۔ کسی فلم کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہیرو ہیروئین کی جوڑی پر نہیں ہوا کرتا۔ کم از کم "جانباز" کے معاملے میں تو قطعی نہیں تھا۔ دو دن کبھی کے رخصت ہوئے جب کوئی خاص جوڑی ہی دھوم مچا سکتی تھی۔ اب تو تماشائیوں کی توجہ کھینچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ سبجیکٹ عمدہ ہو اور فلم پیش کش کا انداز اچھا ہو۔ یہ درست ہے کہ ڈمپل میچیور ہیں لیکن ہماری جوڑی بےمیل کسی طور نہ تھی، کم از کم وہ میری "اماں" تو نظر نہ آتی تھیں، جیسی میری پہلی فلم "رچنا" (ریلیز: 1983) میں بینا (پردیپ کمار کی بیٹی) لگتی تھیں۔

سوال:
دو آرٹ فلموں "چمیلی کی شادی" (ریلیز: 1986) اور "کہاں کہاں سے گزر گئے" (ریلیز: 1986) کی ناکامی کے بعد تو تم اس سمت میں تیسری کوشش کے خیال سے ہی ڈرنے لگے ہوگے؟
جواب:
کسی حد تک۔ "چمیلی کی شادی" کے بعد میں نے کسی بھی عام ڈگر سے ہٹی ہوئی فلم سے امیدیں وابستہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ کبھی کبھی یہ خیال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ شاید آرٹ کی فضا کے لیے میں بنا ہی نہیں ہوں۔ مزید ستم یہ ہوا کہ "کہاں کہاں سے گزر گئے" سرے سے ریلیز ہی نہیں ہوئی، صرف پیشگی شوز کے تماشائی اس کے حصے میں آئے۔
اس لیے مجھے خود کو "ڈرپوک" کہلوانا منظور ہے مگر کسی اور آرٹ فلم میں کام کرنا قبول نہیں۔ کم از کم کچھ عرصے تک تو میں آرٹ فلم کے بارے میں سوچوں گا بھی نہیں۔

سوال:
آوارہ گرد کی امیج سے الگ ہٹ کر تمہارے اندر کامیڈی کی صلاحیت بھی تو ہے۔ پھر تم پوری طرح کامیڈی کے میدان میں کیوں نہیں اترتے؟
جواب:
میرا خیال ہے کہ اس میدان میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکوں گا۔ چند مناظر میں مسخرے جیسی کچھ حرکتیں کر لینا ہی میرے لیے کافی رہے گا۔ مکمل کامیڈی رول کے لیے میں زیادہ موزوں نہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا، اس میدان میں میری پرخلوص کوشش کا "چمیلی کی شادی" میں کیا حشر ہوا؟

سوال:
ایک ذرا چبھتا ہوا سوال پوچھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ کیا اس احساس سے تمہیں دکھ نہیں ہوتا کہ تمہارا دوست، تمہارے ساتھ ہی فلموں میں آنے والا جیکی تو اسٹار بن بھی گیا ہے اور تمہارے لیے اپنے بہترین اداکار کے خول سے نکل کر اسٹار بننے کا مرحلہ ابھی باقی ہے؟
جواب:
خوب! بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ کیا آپ دو دوستوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کا یہ ارادہ ہے تو اس میں آپ کو کامیابی نہیں ہوگی۔ ویسے ذاتی دوستی سے ہٹ کر میں پروفیشنل محاذ پر اپنے اور جیکی کے بارے میں نہایت بےلاگ ہو کر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے جگو (جیکی شراف) برا نہیں مانے گا۔ ایک بات یہی ہے کہ پروفیشنل محاذ پر ہم دونوں برابری کی سطح پر ہیں۔ اگر مجھے اچھے اداکار کے طور پر جانا جاتا ہے تو اسے یہ درجہ حاصل نہیں۔ اور اگر وہ اسٹار کے طور پر مشہور ہے تو مجھے یہ رتبہ حاصل نہیں۔ لیکن میں پھر بھی اپنی جگہ اسے دینے اور اس کی جگہ خود لینے کو تیار نہ ہوں گا۔ ایک آرٹسٹ جو اپنے آپ کو ایک اچھا اداکار تسلیم کرا چکا ہے، کسی بھی وقت اسٹار بن سکتا ہے۔ لیکن ایک اسٹار کے لیے اچھا اداکار بننا اتنا سہل نہیں۔ "ہیرو" جیسی صرف ایک ہٹ فلم مجھے از خود اسٹار بنا سکتی ہے، لیکن جگو کو اچھے اداکار کے طور پر اپنی پہچان کرانے کے لیے اپنے کیرئر میں ایک سے زیادہ "کرما" یا "صاحب" یا "میری جنگ" کی ضرورت ہوگی۔ اس صورت حال پر میرے اداس ہونے کا خیر سوال ہی نہیں اٹھتا۔ آپ خود ہی سوچیے، اگر جیکی کی جگہ میرا بھائی سنجو ہوتا تو کیا مجھے جلن ہوتی؟ جیکی میرے لیے ایک اچھا دوست ہی نہیں، بہت اچھا بھائی بھی ہے۔

سوال:
افواہیں، اسکینڈل، معاشقے، آج کسی کے ساتھ تو کل کسی اور کے ساتھ نام جوڑا جانا ۔۔۔ ایسی باتوں کو تم شہرت کا ایک لازمی نتیجہ سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہو یا تمہارے خیال میں ان باتوں کی کوئی حد بھی ہونا چاہیے؟
جواب:
میری رائے میں تو حد کا دھیان خود پریس کو رکھنا چاہیے۔ اس طرح کی گپ شپ ایک حد تک تو قبول کی جا سکتی ہے۔ بلکہ تھوڑی سی مبالغہ آرائی کے ساتھ بھی قبول کی جا سکتی ہے۔ اگر لکھنے والے کی نیت نیک ہو اور متعلق شخص کو نقصان نہ پہنچے۔ مثال کے طور پر شادی سے پہلے اگر کسی کے ساتھ میرا نام جوڑا جاتا تھا تو مجھے اس کی زیادہ پروا نہیں ہوتی تھی۔ اس دھرتی پر کوئی بھی آدمی فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، اس لیے اگر مجھے بھی خطاؤں کا پتلا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی تو میں پریشان کیوں ہوتا؟ لیکن شادی کے بعد ظاہر ہے کہ میں معاشقوں سے ہی نہیں، معاشقوں کی افواہوں سے بھی کوسوں دور رہنا پسند کروں گا۔

سوال:
شاید کبھی کبھی جرنلسٹوں سے کوسوں دور رہنے کی بھی یہی وجہ ہے؟
جواب:
لیجیے، آپ بھی وہی ستم کر بیٹھے۔ جرنلسٹوں کی یہی ادا مجھے اچھی نہیں لگتی کہ وہ بات کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں۔ کسی بات کا اگر غلط مطلب نکالا جائے تو کیا آدمی چپ رہنے کو ترجیح نہ دے گا؟ یوں بھی ایسے مرحلے ہر آرٹسٹ کی زندگی میں آتے ہیں جب اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، جب اس کا جی چاہتا ہے کہ تنگی کے دنوں میں اسے کوئی نہ چھیڑے اور اسے منظر عام پر گھسیٹ کر نہ لایا جائے۔ آپ ہی بتائیے کہ کیا اس کی یہ خواہش بےجا ہے؟ کاش قلم کے جادوگر بھی ہماری مزاجی کیفیت کے اتار چڑھاؤ کا تھوڑا بہت خیال رکھا کریں۔

سوال:
جس طرح کچھ ماڈل فلم اسٹار بن جاتے ہیں، اسی طرح کچھ فلم اسٹار بھی ماڈلنگ کے میدان میں طبع آزمائی کر لیتے ہیں۔ پھر آپ اشتہاروں میں کیوں نظر نہیں آتے؟
جواب:
اس سلسلے میں کیا کہوں؟ مجھے نہ ماڈلنگ کے حق میں دلیلیں سوجھتی ہیں، نہ اس کی مخالفت میں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ماڈلنگ کے لیے جو آفرز آئیں وہ نہ مالی اعتبار سے زیادہ سودمند تھیں نہ کسی اور پہلو سے۔ اور خواہ مخواہ دوسروں کے فائدے کے لیے کھلونا بننا مجھے پسند نہیں۔ صرف میری شہرت کو بیچ کر روپیہ بٹورنے والوں کے ہاتھوں میں بدھو کیوں بنوں؟ اس لیے فی الحال تو اشتہاری ماڈلنگ کے باب میں مجھے شک کا شکار ہی سمجھیے۔ ان اِدھر نہ اُدھر۔

سوال:
اگر میں یہ کہوں کہ فلم میکرز کی نظر میں تمہارے اندر اسٹار بننے کے سارے لوازم موجود نہیں ہیں، تو کیا تمہیں برا لگے گا؟
جواب:
کیوں بھئی؟ آپ سب لوگوں کی مجھ سے کیا کوئی دشمنی ہے؟ مجھے صاف صاف بتائیے تو سہی کہ مجھ میں آخر کون سی کمی ہے؟ اگر میرے اسٹار بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے تو صرف یہ کہ ابھی تک اکیلے ہیرو کے طور پر میرے حصے میں کوئی سوپر ہٹ فلم نہیں آئی ہے۔ بس ایسی ایک سپر ہٹ فلم آ جائے، پھر دیکھیے گا، یہی لوگ مجھے بھی سپر اسٹار کہنے سے باز نہیں آئیں گے۔

سوال:
تو اپنی آنے والی فلموں میں سے کون سی فلم کے ذریعہ تم اسٹار بننے کی امید لگائے بیٹھے ہو؟
جواب:
کئی فلمیں اس امکان کو حقیقت بنا سکتی ہیں۔ مثلاً ایک تو "مسٹر انڈیا" ہی ہے۔ اس کے علاوہ "جوشیلے" ہے، "ابھیمنیو" ہے، "امبا" ہے، "رام اوتار" ہے۔ اور بھی کئی فلمیں ہیں جو مجھے اسٹار کا درجہ دلا سکتی ہیں۔ صرف ایک فلم کے دھوم مچانے سے اسٹار کے طور پر میری بھی دھوم مچ جائے گی !!

انیل کپور کے چند یادگار فلمی نغمے:
یار بنا چین کہاں رے (فلم: صاحب)
زندگی ہر قدم اک نئی جنگ ہے (فلم: میری جنگ)
کہہ دو کہ تم ہو میری (فلم: تیزاب)
کوئل سی تیری بولی (فلم: بیٹا)
کبھی میں کہوں، کبھی تم کہو (فلم: لمحے)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: جون 1987

Anil Kapoor, an iconic personality of timeless look.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں