جموں و کشمیر میں اردو خودنوشت - ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-30

جموں و کشمیر میں اردو خودنوشت - ایک جائزہ

urdu-autobiography-in-jammu-kashmir

ریاست جموں و کشمیر مناظر فطرت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ جس کو ہندوستان کا تاج بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں قدرت نے اس ریاست کو حسین و دلفریب مناظر سے نوازا ہے وہیں اعلی پایہ کے ادباء، شعرا، رشی، منی اور صوفی سنت بھی پیدا کئے ہیں۔ جہاں تک اس ریاست میں اردو زبان و ادب کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بہ ریاست ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے ممتاز حیثیت کی مالک ہے کیوں کہ یہ ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاں اردو زبان کو ریاستی آئین کی رو سے سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں جہاں ناول نگار، افسانہ نگار وغیرہ موجود ہیں وہیں اردو ادب کی دیگر اصناف شعر و ادب میں بھی ایسے فنکار جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے اردو شعر و ادب کو ترقی کی طرف گامزن کیا۔
اگر خودنوشت سوانح عمری کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں بھی سوانح عمریاں لکھنے والوں کی تعداد کافی ہے۔ جنہوں نے اپنی سوانح عمریوں کو اس طرح صفحہ قرطاس پر لایا ہے، جو حقیقت پر مبنی ہیں۔ اب تک ریاست جموں و کشمیر میں جو خود نوشتیں وجود میں آئی ہیں، ان میں شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی "آتش چنار"، شورش کاشمیری کی "بوئے گل نالہ دل دود چراغ"، بیگم ظفر علی کی "مرے شب و روز" ، قدرت اللہ شہاب کی "شہاب نامہ" ڈی ڈی ٹھاکور کی "یادوں کے چراغ"، چوہدری غلام عباس کی "کشمکش"، ڈاکٹر کرن سنگھ کی "سفر زندگی"، سید علی شاہ گیلانی کی "وُلر کنارے"، پروفیسر شہاب عنایت ملک کی "یادوں کے لمس" اور حامدی کاشمیری کی "رہگزر در رہگزر" قابل ذکر ہیں۔

اگر ریاست جموں و کشمیر میں اردو آپ بیتی کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ منشی محمد دین فوق کی تصنیف "سرگذشت فوق" ریاست کی پہلی خودنوشت سوانح حیات ہے۔ اگرچہ یہ خودنوشت زیور طبع سے آراستہ نہ ہوئی مگر اس کا مسودہ بحوالہ علیم الدین سالک ، مولوی محمد عبداللہ قریشی کے پاس موجود ہے۔
یہ تصنیف کب لکھی گئی اس کا ذکر تو کہیں نہیں ملتا البتہ محمد دین فوق کی وفات 1945ء میں ہوئی۔ اس طرح یہ آپ بیتی 1945ء سے پہلے کی تصنیف ہے۔ اس سے قبل کسی دوسری آپ بیتی کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔ مصنف کی آپ بیتی "سرگذشت فوق" نہ صرف اسلئے اہم ہے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں اردو خودنوشت کا پہلا نمونہ ہے بلکہ اس لیے بھی کہ فوق صاحب نے ایک سیاح کی حیثیت سے پنجاب ، راجپوتانہ کی ریاستوں ، بنگال، وسط ہند اور کشمیر سمیت دور دور تک سفر کیا تھا جس کی وجہ سے اس دور کے مہاراجوں کی ریاستوں کی صورت حال ان کی خودنوشت میں ملتی ہے۔ ڈاکٹر علیم الدین سالک "سرگذشت فوق" کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
اس آپ بیتی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ فوق صاحب خود اس کا مرکزی کردار ہیں۔ وہ ایک منٹ کے لئے بھی اس بات کو فراموش نہیں کرتے کہ وہ اپنی سرگذشت لکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جو شخص ان سے ملا، اس کا تذکرہ انہوں نے اس انداز سے کیا کہ اس کی خوبیاں نمایاں ہو جاتی ہیں اور وہ زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ ان کے بیان میں متانت اور سنجیدگی ہے۔ وہ مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے مگر حقیقت کو ایسے انداز سے بیان کرتے ہیں کہ اس میں افسانے کا مزہ آتا ہے۔ ان کی زندگی میں حیرت انگیز انقلابات ہندوستان میں آئے۔ کئی تحریکیں ابھریں، جماعتیں بنیں اور بگڑیں، پرانی قدریں مٹیں اور نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ ان سب کا ذکر اور اثر آپ کی زندگی کی ہر منزل میں نظر آتا ہے۔
(بحوالہ: علیم الدین سالک مشمولہ نقوش آپ بیتی نمبر، ص:59)

ڈاکٹر اجمل نیازی "سرگذشت فوق" کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"سرگذشت فوق" آپ بیتی اور جگ بیتی کا ایک دلچسپ امتزاج ہے۔ اس میں علامہ اقبال کے علاوہ مولانا عبدالحلیم شرر ، مولانا حالی، داغ دہلوی ، محمد حسین آزاد ، اکبر الہ آبادی ، ابوالکلام آزاد، ظفر علی خان ، خواجہ حسن نظامی ، آغا حشر کاشمیری اور کئی دوسرے اہل علم اور اہل قلم حضرات کے ساتھ فوق کی ملاقاتوں اور خط و کتابت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح ان کے زمانے کے فکری رجحانات اور ذاتی خیالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
(بحوالہ: فوق الکثیر۔ ص:19)

مختصراً 1947ء سے پہلے ریاست میں آپ بیتی کا آغاز ہو تو چکا تھا مگر یہ ابتدائی مرحلے میں تھی۔ لہذا جموں و کشمیر میں ہم اسے اردو خودنوشت کا ابتدائی زمانہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد جو آپ بیتی منظر عام پر آئی ہے وہ ہے: آتش چنار۔

آتش چنار - بابائے قوم شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ کی معرکتہ الآرا اس تصنيف کے اب تک جو ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ان میں پہلا ایڈیشن 1976ء میں علی محمد اینڈ سنز سرینگر (کشمیر) اور دوسرا 2008ء میں گلشن بک (سرینگر) سے منظر عام پر آیا۔ 73 ابواب پر منقسم اور 705 صفحات پر مشتمل بہ تصنیف ریاست جموں وکشمیر کے سابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی خودنوشت سوانح عمری ہے۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے، انہوں نے سیاسی اسٹیج پر جو اہم کردار ادا کیا ہے اس کی بدولت ان کی شخصیت برصغیر ہند و پاک کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

***
ماخوذ از کتاب:
جموں و کشمیر میں اردو خودنوشت : تحقیق و تنقید
پی۔ایچ۔ڈی مقالہ از: پرشوتم پال سنگھ (گائڈ: پروفیسر سکھ چین سنگھ)
جموں یونیورسٹی، جموں و کشمیر۔ (شعبہ اردو، 2017)

Urdu Autobiography in Jammu & Kashmir, Research article: Parshotam Paul Singh.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں