ادبی رسائل کے پچیس سال - از ابن انشاء - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-29

ادبی رسائل کے پچیس سال - از ابن انشاء

adabi-rasail-ke-25-saal

معروف و مقبول شاعر و ادیب ابن انشاء کا یہ مضمون مشہور ادبی رسالے "ساقی" (کراچی، اجرا: 1930) کے ایک یادگار خصوصی شمارہ "جوبلی نمبر 1955ء" سے ماخوذ ہے۔
آج سے پچیس سال پہلے کے ادبی رسالوں کا عجب ہنجار تھا۔ بلکہ اس زمانے کے سارے ادب کا مزاج ہی آج سے بہت الگ تھا۔ یہ ادب میں حقیقت پسندی کی تحریک آنے سے پہلے کی بات ہے ۔ خدا نیاز فتح پوری کو بھلا کرے کہ جن کی بدولت اردو میں ٹیگوریت، آسکر وائلڈیٹ اور یونانی منیت کاریلا آیا، انہی اثرات کی بدولت اردو میں وہ عجیب و غریب صنف پیدا ہوئی جسے ادب لطیف کہتے تھے۔ اب تو خیر مضمونوں اور تاریخوں تک میں اس کا ذکر نہیں ملتا لیکن ربع صدی پہلے کے لوگ اسی طرح اس پر ہزار جان سے عاشق تھے ، جس طرح آج غزل پر ہیں۔اردو، نگار اور معارف وغیرہ کے مزاج اور ظاہری ہیئت میں ان سالوں میں کچھ ایس فرق نہیں آیا ۔ اور اب سے پچیس برس بعد بھی مجھے یقین ہے ان کے قلب، قالب کی ماہیت نہیں بدلے گی ۔ لیکن جو پرچے تخلیقی ادب کے لئے وقف رہے ہیں ان کا سراپا اکثر بدلا اور بہت بدلا، اس وقت ہمیں انہی سے غرض ہے ۔
الہ آباد سے منشی کنہیا لال ایڈوکیٹ ایک ماہنامہ نکالتے تھے”چاند” 1930ء میں انہوں نے ایڈیٹر نمبر نکالا۔ دراصل ان دنوں خاص نمبرنکالنے کا رواج بھی آج کی نسبت کہیں زیادہ تھا۔ عام رسالے سال میں چار چار خاص خاص نمبر نکالتے تھے ۔ خود ساقی کی بہت دنوں یہی روش رہی ہے ۔ اپنی اشاعت کے دوسرے ہی سال اس نے بھی چار نمبرنکالے ۔ سالگرہ نمبر، ظریف نمبر، افسانہ نمبر،اور دلی نمبر ۔ جنہیں خدا، اور توفیق دیتا ہوگا وہ چار سے زیادہ بھی نکالتے ہوں گے ۔ ارادہ ہونا چاہئے نام اور بہانے ہزاروں۔ پشاور سے ایک پرچہ ادیب نکلتا تھا اس نے 1931ء میں خریداروں کو چار خاص نمبر، عید نمبر افسانہ نمبر ، مزاحیہ نمبر اور کابل نمبر مفت دینے کا اعلان کیا تھا۔ سالنامہ اور سالگرہ منبر ان پر مستزاد تھے۔ نیرنگ خیال اور عالمگیر اس زمانے میں بڑے جید پرچے سمجھے جاتے تھے اور نیرنگ خیال تو خیر اس سنت شریفہ کا موجد ہی تھا۔ یہ بڑا جہازی سائز، نیلے پیلے حاشیے،بلامبالغہ بیسیوں تصویریں، دورنگی بھی اور سہ رنگی چہار رنگی بھی۔ آج کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ان تصویروں میں اور مٹھے کے تھانوں پر سے اتاری ہوئی رنگین تصویروں میں زیادہ فرق معلوم نہ ہوگا لیکن اس زمانے کے لوگوں کا مزج بھی رومانی اور یونانی قسم کا ادب پڑھتے پڑھتے عجیب سیلو ڈرامیٹک اور کلاسیکی سا ہوگیا تھا۔ غزلوں اور نظموں تک میں آہ کا لفظ بار بار آتا تھا ۔ ادب لطیف تو آہ کے بغیر ایک سطر بھی نہ چلتا تھا۔ یہ کیفیت 1934ء اور 1935ء تک رہی اس کے بعد حقیقت پسندوں اور ترقی پسندوں نے ادب کا رخ ہی بدل دیا۔ اور رسالوں کے انداز نظر میں بھی بلوغت آنے لگی۔
میں نے اوپر چاند کے ایڈیٹر نمبر کا ذکر کیا تھا۔ یہ ایک بہت دلچسپ اور عجیب تالیف ہے۔ منشی کنہیا لال نے ہندوستان کا کوئی ایڈیٹر اور سابق ایڈیٹر نہ چھوڑا ہوگا سب سے مضامین حاصل کئے(بعض مضمون آدھ آدھ بلکہ پاؤ پاؤ صفحے کے ہیں) اور سب کی تصویریں چھاپیں۔ یہ پکچر گیلری بجائے خود عبرت کا سامان ہے۔ آج کے پرائم بڈھے اس زمانے میں درشنی جوان تھے اور اس زمانے کے بڈھوں میں سے اکثر کو قبروں میں لیٹے مدتیں ہوئیں ۔ فوٹو کھنچوانے کی خاطر ٹائی باندھنے یا بندھوانے کا رواج تو خیر اب بھی ہے اس وقت لوگ سینری دار پردے کے سامنے کھڑے ہوکر یا کتاب سامنے کھول کر یا کسی مکلف اسٹینڈ پر کہنی رکھ کر تصویر کھنچواتے تھے اور سارے زمانے کی علمیت چہرے پر یکمشت طاری کرلیتے تھے ۔ ایک محترمہ تو ہاتھ میں پھول تک لئے کھڑی ہیں اور ایک صاحب نے سگریٹ اور فیلٹ کی مدد سے ای بلیموریاکی شکل اڑائی ہے ۔ ستم ظریف ایڈیٹر نے نکیلی مونچھوں والوں کو برابربرابر چھاپا ہے، مولوی عبدالحق، جوش ، لسیانی اور شوکت تھانوی قریب قریب اس زمانے میں بھی ایسے ہی تھے، جیسے اب ہیں، البتہ سید عابد علی، حفیظ جالندھری ، سالک اور نیاز فتح پوری وغیرہ اب بہت مختلف تھے۔ ہمارے شاہد صاحب اس البم میں نہیں ہیں ممکن ہے اس زمانے میں بڑے ایڈیٹر نہ سمجھے جاتے ہوں ۔ ان کی عمر بھی تو اس وقت چوبیس پچیس برس کی ہوگی۔
ساقی جنوری 1930ء میں نکلا۔ ادبی دنیا عمر میں دو چار ماہ بڑا ہوگا، اس کے موسس اور ایڈیٹر مولاناتاجور مرحوم تھے ۔ ہمایوں کو ان دنوں جوانا سرگ منصور احمد ایڈٹ کرتے تھے ۔ مخزن غالباً دم توڑ چکا تھا۔ نیرنگ خیال اور عالمگیر کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ بڑے بڑے اور اہم رسالے یہی تھے۔ اختر شیرانی کے خیالستان کو اور شامل کرلیجئے۔ لاہور کارہنمائے تعلیم بھی زوروں پر تھا اور محض تعلیمی پرچہ نہ تھا ۔ زمانے کا ذکر بھی ضروری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمانے میں زمانے کے ساتھ ساتھ اتنی تبدیلی نہیں آئی جتنی اور پرچوں میں آئی ۔ شباب اردو کا سرورق نقرئی اور بھڑکیلا تھا لیکن اندر کچھ نہ رہ گیا تھا۔
غرض یہ ہے آج سے پچیس برس پہلے کے ادبی رسائل کی کیفیت ۔ بعد میں ان میں سے کچھ پرچے ہلال شام سے بڑھ کے ماہ تمام ہوگئے تھے جیسے ساقی، ادبی دنیا ، اور ہمایوں اور بعضے ہر برج میں گھٹتے گھٹتے صبح تلک گمنام ہوگئے ۔ ان میں نیرنگ خیال اور عالمگیر وغیرہ آتے ہیں۔ پنجاب ہمیشہ سے ادبی رسائل کا مرکز رہا ہے ورنہ نکلنے کو دلی ہی نہیں اردو کے دوسرے مراکز پٹنہ اور حیدرآباد و دکن وغیرہ سے بھی پرچے شائع ہوتے تھے ۔ ساقی کا ڈھراالگ رہا، پنجاب میں مسابقت بھی زیادہ رہی۔ 1933ء میں ایک گروپ نے جو نیرنگ خیال کی روح رواں تھا کارواں کے نام سے ایک ہمہ آفریں سالنامہ نکالا ۔ اس کے ایڈیٹر مجید ملک تھے جو اب پاکستان کے پرنسپل انفرمیشن آفیسر ہیں۔ اس کا دوسرا سالنامہ 1934ء میں نکلا۔ اب کے ڈاکٹر تاثیر شریک ادارت تھے۔ جن لوگوں نے یہ دونوں سالنامے دیکھے ہیں وہ مانیں گے کہ اردو رسائل کے جلال و جمال کی روایت کو آگے بڑھانے میں کارواں نے کتنا بڑا حصہ لیا ہے۔اس زمانے میں صوبائی بنیادوں پر ایک لسانی بحث بھی چل نکلی تھی جس میں ایک طرف غالباً ساقی اور اس کے مصنفین کا گروپ تھا اور دوسری طرف کچھ لوگ نیاز مندان لاہور کے نام کے پیچھے مجتمع ہوگئے تھے۔ دونوں طرف سے خوب خوب چوٹیں رہیں ۔ جو جتنی پر لطف تھیں اتنی ہی افسوسناک بھی۔ کاررواں غالباً نیزینگ خیال کے خاص نمبروں کا توڑ کرنے کے لئے نکالا گیا تھا ۔ سچ یہ ہے کہ اس کے بعد نیرنگ خیال میں وہ بات نہ رہی اور وہ روز بروز گرتا گیا ۔ غالباً 1936ء میں اس کا مشرقی نمبر نکلا لیکن اتنے میں کچھ اور رسالے جوان ہوگئے تھے اور ادب ادیب لوگ ان کے گرد جمع ہوچلے تھے، ادبی دنیا ، تاجور مرحوم کو نقصان اٹھا کے بیچنا پڑا تھا۔ اب یہ ان صلاح الدین احمد کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کے شریک کار ہمایوں کے سابق ایڈیٹر منصور احمد تھے لیکن فی الواقع اس کا زریں دور میرا جی کی جوائنٹ ایڈیٹری کے وقت سے شروع ہوا اور قیام پاکستان تک رہا۔ مولانا صلاح الدین احمد نثری مضامین اور افسانوں کا جائزہ لیتے تھے اور اس زمانے کے افسانہ نگاروں کو ابھارنے میں جو بعد میں ادب ہائے آسمان پر چاند اور سورج بن کر چمکے ، ان کا بڑا حصہ ہے۔ میرا جی کی طبیعت میں اپج اور جدت پسندی کے ساتھ شعر کی تنقیہ کا عجب مذا ق رچا ہوا تھا۔ انہوں نے ادبی دنیا کے ذریعے اردو کو ایک نیا اسلوب تنقید دیا ۔ ادبی دنیا اپنے وقت کا سب سے سر برآوردہ پرچہ رہا ہے ۔ اور سات آٹھ برس تک تو اس کا یہ عالم رہا ہے کہ فائل میں دوسرے درجے کی کوئی تحریر شاید ہی ملے یہ بات اتنے دعوے سے کسی اور پرچے کے متعلق نہیں کہی جاسکتی ۔
مولانا تاجور مرحوم کی یہ کمزوری تھی کہ وہ پرچہ نکالے بغیر نہ رہ سکتے تھے ۔ انہوں نے ادبی دنیا کو بیچنے کے بعد شاہکار، نکالا، شاہکار واقعی بڑی آب و تاب سے نکلا۔ سات رنگا ٹائیٹل ہوتا تھا ۔ مضامین بھی اچھے خاصے ہوتے تھے ۔ لیکن ساقی، ادبی دنیا ، اور ادب لطیف والی بات نہ تھی۔ دو چار برس بعد اس کا زوال شروع ہوگیا اور اسے بھی انہوں نے بیچ دیا۔ دراصل مولانا مرحوم کا مزاج اس زمانے کے مزاج سے ذرا الگ واقع ہوا تھا ۔ وہ وقت کے نئے تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکتے تھے ۔ اس دور کے ادیب موضوعی اور تکنیکی دونوں میدانوں میں باغی کہلانا فخر سمجھتے تھے ۔ اور تاجور صاحب ہر پرچے میں دو صفحے زبان کی غلطیوں پر صرف کرتے تھے۔
عالمگیر، شبلی بی کام کی ادارت میں 1940ء کے بعد تک بڑی شان سے نکلتا رہا ۔ اس کا حلقہ معاونین ذرا مختلف تھا۔ ساقی، ادبی دنیا اور ادب لطیف کے علی الرغم اس پر نئے ادب کا رنگ نہ چڑھا تھا ۔ مضامین میں تاریخی مذاق ہمیشہ غائب رہا ۔ ادب لطیف کے ایڈیٹر مرزا ادیب اس زمانے میں صحرا نورد کے خطوط کی بدولت مقبول ترین ادیبوں میں شمار ہونے لگے تھے اور ادب لطیف والوں کا مکتبہ بھی نئے ادب کا قریب قریب سرکاری اشاعت گھر بن گیا تھا۔ پھر مرزا ادیب کے رخصت ہونے کے بعد اسے فیض، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی اور ساحر لدھیانوی جیسے ایڈیٹروں نے بہت کچھ سنوارا ۔ اس نے بائیں بازو کے اثرات بھی دوسرے پرچوں کی نسبت زیادہ جذب کئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب لطیف ، اردو پرچوں کے لئے ماڈل بن گیا ۔ جوش ملیح آبادی کا کلیم غالباً 1936ء میں نکلا اور اس کے ذریعے جوش نے غزل اور روایتی شاعری کے خلاف خوب خوب لڑائیاں لڑیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین 1935ء کے آخر میں وجود میں آئی تھی ۔ دوسری جنگ سے کچھ قبل اس کا سرکاری ترجمان نیا ادب شائع ہونا شروع ہوا ۔ بعد ازاں کلیم، اور نیا ادب ، ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے ، پھر صرف نیا ادب زندہ رہ گیا ۔ چونکہ دو پرچے بھی اتنے ہی ترقی پسند لیکن دلچسپی کا سامان زیادہ لئے ہوتے تھے اس لئے نیا ادب کبھی ڈھنگ سے نہ چل پایا۔
1935ء میں یا اس کے لگ بھگ ، دلی سے شاہد احمد صاحب نے بھی ایک پرچہ نکالا تھا ۔ شاہجہاں کینام سے وہ دلی کی انجمن ترقی پسند مصنفین کی سرکاری ترجمانی کا مدعی تھا ۔ لیکن اکثر سرکاری ترجمانوں کا ساحشر اس کا بھی ہوا یعنی چل نہ پایا۔
ہمایوں بھی اب سے بارہ چودہ برس پہلے محض یادِرفتہ کی حیثیت نہ رکھتا تھا بلکہ بڑے ٹھسے سے نکلتا تھا ۔ اس کے بھی ایڈیٹر بدلتے رہے ہیں ۔ تاجور تو خیربہت پہلے یعنی 1921ء یا 1922ء میں رہے جس زمانے کی ہم بات کررہے ہیں اس زمانے میں منصور احمد جوائنٹ ایڈیٹر تھے۔ بعد ازاں حامد علی خاں بہت برس رہے اور حقیقت یہ ہے کہ حامد علی خاں صاحب کی جوائنٹ ایڈیٹری کے دور میں ہمایوں کو جو شان اور تمکنت نصیب ہوئی وہ اس سے پہلے اور بعد میسر نہ ہوئی ۔ اس زمانے میں میاں بشیر احمد بھی آتش جواں تھے اور مالک ہونے کے ساتھ ساتھ واقعی ایڈیٹر بھی تھے ۔ حامد علی خاں صاحب کے جانے کے بعد یوسف ظفر شیر محمد اختر اور مظہر انصاری اسے چلاتے رہے، لیکن ہمایوں کی وضعداری زمانے کا ساتھ نہ دے سکی ۔ ناصر کاظمی نے آکر چندجدتیں کیں لیکن معلوم ہوتا ہے یہ صبح دم بالائے بام آنے کی سی بات ہے ۔
اس دور کے پرچوں میں شاعر، آگرہ کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ یہ سیماب اکبر آبادی مرحوم اور ان کے آگرہ اسکول، کا آرگن تھا اور اسمیں بالعموم ان کے شاگردوں کا کلام چھپتا تھا پھر بھی اس کا حلقہ بہت وسیع تھا اور شاعری کے نکات کی تفہیم میں اس سے لوگوں کو بڑی مدد ملتی تھی۔بہت سے لوگوں نے شروع میں اس کے ذریعے شاعری سیکھی لیکن بعد میں ایسے باغی ہوئے کہ اس ذکر پر بھی محجوب ہوتے ہیں ۔ یہ پرچہ آج کل بمبئی سے نکل رہا ہے لیکن اب اس کی حیثیت ہدایت نامہ شعرا کی سی نہیں عام ادبی پرچوں کی سی ہے ۔
پچھلے سات آٹھ سال سے شائع ہونے والے رسالوں کا ذکر کرنے سے پہلے ہم پچھلے پچیس سال کے بعد ایڈیٹروں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے ایڈیٹری کی دنیا میں ہلچل پیدا کی ان میں مولانا صلاح الدین احمد، مولانا حامد علی خاں اور شاہد احمددہلوی کے نام بہت ممتاز ہیں۔ ان لوگوں نے اردو کا ادیبوں کی ساری نئی نسل دی ہے ۔ ان کے ساتھ ساتھ حکیم یوسف حسن صاحب (فی الحقیقت ان کے دوستوں تاثیر۔ مجید ملک وغیرہ وغیرہ) اور منصور احمد مرحوم کے نام آتے ہیں۔ میرا جی بھی اس میدان میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔بعد کے ایڈیٹروں میں ادب لطیف کے مرزا ادیب کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کا ذکر ضروری ہے جو ادب لطیف کے کئی برس تک ایڈیٹر رہے، اور بعد میں سویرا اور نقوش کے موسس مدیر بنے جو اس وقت بھی اردو کے چوٹی کے رسالے ہیں۔ سویرا ، داں، لطیف کی پسلی سے نکلا تھا لیکن اجتہاد کاعلم لئے اس کی بغاوتیں آگے چل کر دوسروں کی دائیں بنیں ۔ قطع کلام ہوتا ہے لیکن بات واضح کرنی ضروری ہے۔ ادیبوں کے ناموں کے لکھنے کے اوضاع سے لے کر مضامین کی ترتیب تک میں بہت تبدیلیاں ہوئی ہیں ۔ کبھی نام مضمون کے نیچے لکھاجاتا تھا اب اوپر لکھاجانے لگا ۔ پھر سرخی کے نیچے آگیا ۔ کبھی داہنے کونے میں کبھی بائیں ہاتھ۔ عالمگیر تو سرخی کے ساتھ بیل بوٹے بھی بناتا تھا اور توضیحاً ایک اخلاقی نظم ایک علمی مقالہ وغیرہ کی ذیلی سرخی دیتا تھا تاکہ کہیں کچھ اور نہ سمجھ لیاجائے ۔ ادیب بھی اپنے نام کے ساتھ القاب اور ڈگریاں دھوم دھام سے لکھتے ہیں۔بی، اے اور ایم ۔اے تو نام کے ساتھ لکھنے کا رواج ابھی حال تک رہا اور ہمایوں کو اس کا خاص لحاظ رہتا تھا ۔ لیکن لوگ اپنے عہدے اور پیشے تک لکھدیتے تھے مثلاً زاہد حسن بی۔ اے نائب تحصیلدار وغیرہ۔ پھر ایک زمانے میں قلمی ناموں کی اور پھر خوبصورت مرکب ناموں کی ریل پیل ہوئی، ترتیب میں نظموں ، افسانوں اور مقالوں کے فنکشن الگ کرنا اب ایک عام رواج ہے ۔ لیکن میرے خیال میں اس کی ابتدا 1946ء میں سویرا نے کی۔ سویرا کا ہمارے ادب میں اب بھی بہت اونچا مقام ہے لیکن اس کی آغاز اشاعت کے وقت تو معیار اور حسن ترتیب میں اس کا کوئی رقیب نہ تھا۔پھر عسکری اور منٹو نے اردو ادب نکالا جو سیٹھ کی یہی کی طرح کھلتا تھا لیکن خدا جانے کیوں نہ چلا، اس کی دیکھا دیکھی اسی سائز پر جاوید نکلا۔ ریاض قادر اور ناصر کاظمی نے اوراق نو کی صورت میں ایک صوری عیاشی کی۔ پرچہ بہت نفیس نکالا لیکن دیکھنے والوں نے شرو ع ہی میں اعلان کردیا تھا کہ صاحبزادے جوان ہوتے نظر نہیں آتے ۔ میرا جی نے بمبئی سے خیال نکالا تھا جس پر میرا جیت کی گہری چھاپ تھی ۔بعد میں اختر الایمان بھی ادارت مین شریک ہوئے لیکن اس خیال کو میرا جی سے بھی پہلے موت آگئی۔ لاہور سے انتظار حسین نے اسی نام سے پرچہ نکالا اور کی اٹھان بڑی زبردست تھی لیکن اب اس سے تین شمارے اور ایک لطیفہ یادگار ہے اور بس۔ انتظار نے غالباً نقوش والوں کو جلانے کے لئے یہ فقرہ اشتہار میں لکھ دیا تھا کہ خیال ایک ایسا پرچہ ہے جس کا ایڈیٹر بھی ہوگا ۔ اور واقعی ادارت کے سلیقے کی وجہ سے ان کی بات ماننی پڑی لیکن مالک غالباً اس کمائی سے لاکھوں میں کھیلنا چاہتا تھا ۔ پرچہ بند ہوا اور ایک درست نے کہا کہ خیال بند ہونے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس پرچے کا ایڈیٹر کے علاوہ ایک مالک بھی تھا ۔ پشاور سے فارغ بخاری اور رضا ہمدانی بڑی ہمت سے سنگ میل نکالتے رہے ۔ اور انہوں نے بڑے اچھے عام اور خاص نمبر پیش کئے ۔ اس پرچے کی افتاد طبع بھی ترقی پسند تھی عارف عبدالمتین نے ماہنامہ ماحول نکالا جو سالنامہ ہوکر رہ گیا ہے ۔نقوش غالباً اردو کے پرچوں میں اب سب سے زیادہ مقبول ہے اور واقعی بڑے ٹھاٹ سے نکلتا ہے ۔ابتدا میں محمد طفیل کے علاوہ احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور ایڈیٹر تھے پھر کچھ ایسا پیچ پڑا کہ صرف محمد طفیل رہ گئے اور ادارت میں وقار عظیم کا نام اوپر آنے لگا وہ بھی گیا اور ثبات صرف محمد طفیل کے حصے میں آیا۔ اتنا اچھا پرچہ نکالنا اتنی بڑی خوبی کی بات نہیں۔ لیکن اسے باقاعدہ نکالنا بڑی بات ہے ۔ ممتاز شیریں اور صمد شاہین کئے نیا دور کا تذکرہ اس سے پہلے آنا چاہئے تھا ۔ یہ پرچہ 1946ء میں بنگلورسے نکلا ۔ اور پنگوئن نیور ٹینگ کے ماڈل پر تھا ۔ انہوں نے بہت جلد اردو کے بیشتر اچھے ادیبوں کو دامن میں سمیٹ لیا ۔ اس وقت اس کی روش سرکاری ترقی پسند تحریک سے چند اں الگ نہ تھی ، لیکن کراچی منتقل ہونے کے بعد کچھ ترقی پسند آگے بڑھے اور کچھ نیا دور کے ایڈیٹر پیچھے ہٹے۔ نہ صرف فصل پیدا ہوا بلکہ خاصی ٹھن بھی گئی ۔ وہ انہیں رجعت پسند کہتے تھے اور انہیں ان کی پاکستانیت کے متعلق شکوک تھے ۔ کراچی میں آنے کے بعد پہلے سی باقاعدگی بھی اشاعت میں نہ رہی اور غالباً 1952ء میں یہ پرچہ بھی مرحوم ہوا۔ اس کے جتنے نمبر نکلے خوبنکلے۔ اس کی مقبولیت میں ممتازشیریں کے سالانہ ادبی جائزوں کا خاص دخل تھا۔
دکن ہمیشہ سے اردو کا ایک اہم مرکز رہا ہے ۔ اور حیدرآباد سے متعدد ادبی رسالے نکلتے رہے ہیں اور اب بھی نکلتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ایک دو کے سوا کوئی معیار اور شان میں شمالی ہند کے رسالوں کی برابری کا مدعی نہیں ہوسکتا ۔ سب رس، حیدرآباد کے پرانے پرچوں میں سے ہے اور اس نے مختلف مدیروں کے زمانے میں مختلف رنگ بدلے ہیں ۔ آج کل یہ نجمہ سمیع اور سلیمان ادیب وغیرہ کی ادارت میں شائع ہورہا ہے اور رجحان کے اعتبار سے ترقی پسند ہے ۔ اگرچہ اس کے مضمون نگاروں کا دائرہ اب بھی بڑی حد تک مقامی ہے تاہم اب یہ ترقی کررہا ہے اور اس کے خاص نمبر تو بالخصوص خاصے وقیع ہوئے ہیں۔
تقسیم کے بعد افکار بھی بھوپال سے کراچی آگیا اور اب تک صہبا لکھنوی کی ادارت میں کامیابی سے نکل رہا ہے ۔ کراچی کے پرچوں میں اختر انصاری اکبرآبادی کا مشرب بھی ترقی کررہا ہے اور اسے اچھے ادیبوں کا تعاون حاصل ہے ۔
نوائے وقت کے ایڈیٹر حمید نظامی اب مشہور صحافی ہیں ایک زمانے میں مشہور ادیب تھے۔ انہوں نے 1949ء میں مخزن کو زندہ کیا اور ادارت کے لئے حامد علی خاں کو بلایا ۔ افسوس یہ پرچہ چل نہ سکا اور اب تو یہ نظر آتا ہے کہ اس نام کا پرچہ کبھی نہ چلے گا ۔ حامد علی خاں نے الحمرا نکالا۔اس کا کردار عام ادبی پرچوں سے الگ ہے اور اس میں آج کا رنگ کم ہے آج سے بیس برس پہلے کا اندازہ زیادہ ۔ ساقی کی طرح اس کی فہرست مضامین بھی سکہ بند ہوچلی ہے اور بعض نام صرف یہیں نظر آتے ہیں ۔ اس پر سنجیدگی اور علمیت کا زیادہ غلبہ ہے جو مبارک ہے لیکن کبھی کبھی یہ کہنگی اور فرسود گی کے درجے کو پہنچ جاتا ہے۔ بہر حال اس کا حلقہ الگ ہے ، یہ عندلیب شادانی کا خادرد(ڈھاکہ) بھی علمی شان کا ماہنامہ تھا غالباً بے قدری کی وجہ سے بند ہوگیا۔
جنگ کے دنوں میں حکومت ہند نے دہلی سے ایک نیم ادبی نیم سیاسی پندرہ روزہ پرچہ آج کل کے نام سے نکالا تھا ۔پہلے یعقوب دواشی اس کے ایڈیٹر تھے پھر وقار عظیم صاحب آگئے ۔ اس کا معیار اچھا خاصا تھا اور یہ اپنی صوری خوبیوں اور کم قیمتی کی وجہ سے بہت مقبول بھی ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی سے حکومت نے ماہِ نوا کے نام سے جو ماہنامہ وقار عظیم صاحب ہی کی ادارت میں نکالا اس کا شروع میں تو خیر آج کل ہی کا سا ہنجار تھا ۔ لیکن بعد میں ادبی اور علمی رنگ زیادہ چڑھا اور روز بروز زیادہ ہوتا گیا ۔ وقار عظیم کے بعد کچھ دنوںمحمد حسن عسکری اس کے ایڈیٹر رہے پھر رفیق خاور ہوئے، پرچہ خوب صورت ہوتا تھا اور سرکاری پرچہ ہونے کی وجہ سے اچھے ادیبوں کے اچھے مضامین حاصل کرنے میں اسے زیادہ دشواری نہیں ہوئی ۔ گزشتہ سال سے کراچی سے آرٹ پیپرپر سیارہ نام کا ایک رسالہ نکلنا شروع ہوا ہے۔ یہ بڑی حدتک ادبی ہے اور اب آکے توجلال و جمال دونوں اعتبار سے پہلے سے کہیں زیادہ ترقی کرگیا ہے ۔ ادارے میں محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کے نام ہیں۔ اگریہ پرچہ محض ذہنی عیاشی نہیں اور اپنا خرچ نکال سکتا ہے تو دوسرے رسائل کے لئے نشان راہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
اب ہم ہندوستان کے ایک دو پرچوں کا ذکر کریں گے ۔ ساحر لدھیانوی نے 1948ء میں دلی سے شاہراہ نکالا خود تو وہ حسب عادت اس کے چند شمارے بڑے ٹھاٹ سے نکال کے بمبئی چلے گئے بعد میں پرکاش پنڈت اسے کئی برس تک ترقی پسند مصنفین کے نیم سرکاری آرگن کے طور پر کامیابی سے چلاتے رہے ۔آخر میں وہ شاہراہ سے رخصت ہوکر دو ماہی فنکار کے ایڈیٹر ہوئے اور شاہراہ سے رخصت ہوکر دو ماہی فنکار کے ایڈیٹر ہوئے اور شاہراہ نے ایک سال میں چار ایڈیٹر بدلے ۔ پہلے مخمور جالندھری آئے پھر دامق آہوزی اب ظ الفاری ہیں اور انہوںنے اس میں بعض طباعتی جدتیں پیدا کی ہیں۔فنکار دو ماہی بڑا ہونہار ہے لیکن سویرا کی طرح بے قاعدگی کا روگ اس کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے ۔
ان پچیس برس میں دنیابدل گئی ۔اگر ہمارے جائزے کے سال اول کے بہترین نمائندہ پرچے نیرنگ خیال، ساقی اور عالمگیر وغیرہ تھے تو آج یہ پدوی سویرا، نقوش اورفنکاروغیرہ کو حاصل ہے ۔ کل خدا جانے کیا رنگ ہو ۔ اس مختصر اور نامکمل جائزے سے اگر ایک اجمالی تصویر (Sketch) اسکیچ بھی قاری کی نظر کے سامنے آجائے تو بہت ہے ورنہ اگر واقعی اس زمانے کے سارے پرچوں کے فائل سامنے رکھ کے بالاستعجاب جائزہ لکھا جائے تو ایک کتاب پرمحیط ہوسکتا ہے ۔ پھر ہم نے ہفت روزہ ادبی پرچوں کو لیا ہی نہیں نہ علمی پرچوں کے متعلق تفصیل سے کچھ لکھاہے ۔ ادیبوں کا کون سا کارواں کب آیا ، کس طرح آیا اور کب گزر گیا ۔اس کی حکایت بھی لذیذ لیکن بہت دراز ہے ۔ یہ ہے کہ ہر پرچہ کی تاریخ الگ لکھی جائے اور تفصیل اس میں آجائے ، اس وقت تو یہ احساس ہورہا ہے کہ تھوڑا سمیٹا گیا ہے اور بہت رہ گیا ہے بہر حال آپ بھی زندہ ہیں اور ساقی بھی اور خدا نے چاہا تو ہم بھی۔

یہ بھی پڑھیے:
ماضی کے جھروکوں سے - دلچسپ ادبی تحریروں کا انتخاب - راشد اشرف
ادب لطیف - افسانہ نمبر 1949 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
ماہنامہ ساقی - افسانہ نمبر - جولائی 1938 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ماخوذ:
ماہنامہ "ساقی" (کراچی)۔ شمارہ: جوبلی نمبر 1955۔

25 years of Urdu literary magazines, Essay by: Ibn-e-Insha

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں