تقریباً پونے چار سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 14 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
ادا جعفری کی تصنیفات:
- میں ساز ڈھونڈتی رہی (شعری مجموعہ کلام) - 1950
- شہر درد (شعری مجموعہ کلام) - 1968
- غزالاں تم توواقف ہو (شعری مجموعہ کلام) - 1974
- ساز سخن بہانہ ہے (شعری مجموعہ کلام) - 1982
- حرف شناسائی (شعری مجموعہ کلام)
- موسم موسم (کلیات) - 2002
- جو رہی سو بے خبری رہی (خود نوشت) - 1995
زیرنظر خودنوشت سے چند اقتباسات پیش ہیں ۔۔۔یہ خود نوشت اک عام سی لڑکی اور ایک روایتی گھریلو عورت کی چھوٹی سی کہانی ہے جس میں کوئی کہانی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لڑکی اکیلی تھی اور بہت اکیلی۔ اپنے دل کی تنہائی میں گرفتار اور وہ عورت چار دیواری کے حصار میں رہ کر بھی اپنے وجود کی پہنائیوں میں سرگرداں رہی۔ اس نے سوچا کہ میں سائے کا پیچھا نہیں کروں گی۔ اب میرے سائے کو میرے پیچھے پیچھے چلنا ہوگا، جل کی مچھلی ریت پر جینے کا ہنر سیکھنا چاہتی تھی۔
شاعری کی دنیا میں ادا بدایونی اور ادا جعفری کے درمیان بارہ پندرہ برس کی مسافت حائل رہی، وجوہ کچھ بھی ہوں مگر ایسا ہوا کہ آئینے دھندلا گئے تھے۔ وہاں میں تو موجود تھی مگر وہ شاعرہ کہیں نہیں تھی۔
اس خودنوشت کے بارے میں مجھے ایک وضاحت بھی کرنا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے کبھی کسی سے دکھ نہ پہنچا ہو۔ دوستوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے مگر جن باتوں نے دل دکھایا انہیں اپنی یادوں میں کیوں شریک رکھا جائے؟ یہ زندگی بہت مختصر ہے اور عفو و درگزر میرے مولا کی صفت ہے اور اسے پسند ہے، ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا:
مقدر بھر جو راہ کا پتھر بنے رہے
وہ لوگ یاد آئے ہیں اکثر دعاؤں میں
میں نے اس سرگزشت میں صرف انہی لوگوں کا ذکر کیا ہے اور اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہیں کہیں صرف ان کے نام لکھے ہیں جن سے ملاقات کے مواقع حاصل ہوتے رہے اور مل کر خوشی ہوئی۔ شاید ایسے کئی عزیز اور محترم نام لکھنے سے رہ بھی گئے ہوں جس کا افسوس رہے گا۔ ہماری یادداشت کبھی کبھی ہمارے ساتھ بےوفائی بھی کر جاتی ہے۔
۔۔۔ اب لکھتے لکھتے اچانک دھیان آیا ہے کہ کیا ہم خود کو اتنا جانتے ہیں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھ بھی سکیں۔ حقیقت یہی ہے کہ میں نے تو اب بھی جسے زندگی کہتے ہیں، اس کی صرف جھلکیاں ہی دیکھی ہیں۔ میرا سرمایہ تو صرف ایک چنگاری تھی۔ اسی کو راکھ میں دفن ہونے سے بچانے کی کوشش کرتی رہی ہوں۔ بس ایک لگن ساتھ رہی جس نے کبھی تھکنے نہیں دیا اور میرے لیے یہی بہت ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ظہور پذیر ہونے والے ذاتی احوال کے حوالے سے ادا لکھتی ہیں :دسمبر1947ء میں نور اپنی ملازمت کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ میں لکھنؤ میں شمسہ باجی کے پاس تھی۔ وہ ایک انوکھا موسم تھا۔ جب صبا اور سموم قدم قدم ساتھ چلیں۔ جب چراغوں نے اجالوں کی سوگند کھائی تھی اور آندھیاں اپنا بل آزما رہی تھیں۔ تند ہوائیں بھی موجود تھیں اور چاروں کھونٹ دیے بھی روشن تھے۔ محبتوں کے کشکول خاک دھول پر اوندھے کر دیے گئے تھے تو ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی خالی جھولیاں محبتوں ہی کے کھنکتے ہوئے سکوں سے بھر دی گئی تھیں۔ ایک مانوس گھر کے دروازے بند ہوئے تھے تو بے کراں جذبوں اور قربانیوں کے ساتھ حاصل کیا ہوا وطن خیر مقدم بھی کر رہا تھا۔ مارچ 1948ء میں جب میں پاکستان آئی تو اپنے وطن میں تھی۔ جہاں میں کسی بھی شہر میں رہوں سب اپنے تھے۔ اور میری بہن جو ہندوستان میں رہیں، وہ اپنے گھر، اپنے شہر رہ کر بھی ان پر آشوب دنوں میں بے وطن ہو چکی تھیں۔ تنہائی اور مہاجرت تو اس وقت ان کے نصیبوں میں آئی تھی اور ایسے منقسم خاندان بہت سے تھے۔ اور ابھی تک ہیں۔
اپنے شوہر نور الحسن جعفری کا ذکر یوں کرتی ہیں:
"نور کے وجود میں بیک وقت دو بڑی دل آویز شخصیتیں سانس لیتی ہیں۔ ایک حفاظت اور امان کی علامت وہ چھتنار گھنا سایا جسے باپ کہتے ہیں اور ایک وہ بچہ جو دو سال کی عمر میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا۔ (دو سال کی عمر تھی جب نور الحسن جعفری کی والدہ کا انتقال ہوا تھا) نور نے سائبان بن کر مجھے موسموں کی شدت سے محفوظ رکھا ہے انہوں نے میری خوشی کو کتنا عزیز جانا ہے، یہ لکھنے کی ضرورت بھی کیا اور حاصل بھی کیا۔ احساس کی امانت کا بار الفاظ کہاں اٹھا سکیں گے۔"
بحوالہ باب: پردیس، ص:260
۔۔۔ یہ ایوب خاں کے دور حکومت اور جشن عشرۂ ترقی دونوں کا آخری زمانہ تھا۔ بنگلہ دیش ذہنوں میں پرورش پا رہا تھا۔ ان دنوں بنگالی اصحاب اردو بولنا تو درکنار سمجھنا تک نہیں چاہتے تھے۔ ہم پاکستانی جب ان محفلوں میں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے یا کھڑے ہوتے تو آپس میں گفتگو انگریزی زبان میں ہوتی۔ اس کے برعکس ہندوستان سے جو دو مندوب آئے تھے، ایک مدراس اور ایک بہار سے، ان لوگوں سے بےتکلف اردو میں باتیں ہوتی تھیں۔ ان کی ہندی اور ہماری اردو میں گفتگو کی حد تک کوئی فرق نہیں تھا۔
اس پورے کورس (واشنگٹن میں عالمی بنک کے ایک دفتری کورس میں ادا جعفری کے شوہر کی شرکت) کے دوران ہماری جو میزبان تھی، اس نے اس بات کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ ایک دن مجھ سے کہا:
"آپ پاکستان کے دونوں حصوں میں رہنے والے ایک دوسرے کی زبان سے ناآشنا ہیں، جبکہ ہندوستانیوں کی اور آپ کی زبان ایک ہے؟"
اصل وجہ وہ مجھ سے زیادہ جانتی تھی۔
بات رکھنے کے لیے میں نے کہا کہ ہمارے یہاں ایک محاورہ ہے 'جیسا دیس ویسا بھیس' ، شاید اسی لیے آپ کے ملک میں آپ کی زبان ہماری ترجمانی کر رہی ہے ورنہ کوئی مجبوری نہیں ہے۔ بےشک علاقوں کی اپنی اپنی زبانیں بھی ہوتی ہیں لیکن اردو ہماری رابطے کی زبان بھی ہے۔ پاکستان کا ہر فرد اس زبان کو بولتا اور سمجھتا ہے۔
***
نام کتاب: جو رہی سو بےخبری رہی
خود نوشت از: ادا جعفری
تعداد صفحات: 373
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 14 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Jo Rahi So Bekhabri Rahi_Ada Jafarey.pdf
جو رہی سو بےخبری رہی - خودنوشت :: فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | بڑی حویلی | 7 |
2 | گوشۂ عافیت | 20 |
3 | بدایوں کے شام و سحر | 33 |
4 | جہاں میں تھی | 42 |
5 | آئینہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے | 53 |
6 | روشنی کی لکیر | 63 |
7 | سفر ہے شرط | 74 |
8 | مسافتوں کے درمیاں | 84 |
9 | دشت میں سامنے تھا خیمۂ گل | 95 |
10 | میں آپے رانجھا ہوئی | 104 |
11 | ورنہ سفر حیات کا بےحد طویل تھا | 111 |
12 | شہرِ عزیزاں | 122 |
13 | موجِ ہوا کے ساتھ ساتھ | 133 |
14 | مہرباں لمحے | 144 |
15 | ایک سب آگ ایک سب پانی | 153 |
16 | آمش | 167 |
17 | سلسلے | 180 |
18 | کچھ اور اجالے | 195 |
19 | کچھ اور یادیں | 212 |
20 | شہر کو سیلاب لے گیا | 226 |
21 | منزل منزل | 239 |
22 | پردیس | 527 |
23 | مگر ایک شاخِ نہالِ غم | 269 |
24 | نقشِ قدم یہاں وہاں | 278 |
25 | نگاہوں نے زمیں کو آسماں دیکھا | 298 |
26 | غلام گردشیں | 303 |
27 | کہانیاں مہ و سال کی | 317 |
28 | قریہ بہ قریہ کو بہ کو | 329 |
29 | جو رہی سو بےخبری رہی | 360 |
Jo rahi so Bekhabri Rahi. Autobiography by Ada Jafarey, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں