ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 07 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-31

ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 07


ram-mohammad-desouza-qist07

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
تالاب پر شنکرا، شان اسلام اور رابرٹ کا بھائی ڈیلبی موجود تھے۔ شنکرا اور شان اسلام میں ڈبکی لگانے کا مقابلہ چل نکلا۔ رحیم یہ جھگڑا دیکھ کر تالاب کے دوسرے کنارے کی طرف چل پڑا اور وہاں اس نے بچے کو بھی تالاب کے ٹھنڈے پانی سے نہلا دیا۔ جب بچہ ٹھنڈ سے ٹھٹھر رہا تھا تب اچانک وہاں جیا آ نکلی اور اس نے ٹھنڈ سے سکڑے بچے کو اپنی گود میں بھر لیا ۔۔۔۔ اب آگے پڑھیے ۔۔۔

قسط : 01 --- قسط : 06

مگر جیا نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ وہ رحیم کے کپڑے تالاب سے اور دور پھینک کر بچے کو اٹھالے گئی، رحیم ننگاہونے کی وجہ سے تالاب کے باہر نہیں نکل سکا۔ پانی کے اندر چیختا چلاتا رہ گیا۔
جب رحیم جیا کے گھر پہنچا تو اس کی ساری محنت پر پانی پھر چکا تھا، جیا چراغ محمد کو دودھ پلانے کے بعد اس کی آنکھوں میں کاجل اور ماتھے پر کالا ٹیکہ لگا کر اسے اپنے بچہ نتھی کے بستر پر اسی کے ساتھ سلا چکی تھی ۔ اور دونوں معصوم بچے ایک دوسرے سے لپٹے محو خواب تھے ۔ چراغ محمد آہستہ آہستہ خراٹے لے رہا تھا، بچہ کے اس آرام کو دیکھ کر رحیم کا غصہ غائب ہوگیا، جگا نے کی ہمت بھی نہ پڑی۔
جیا نے جوار کی موٹی روٹی بنائی تھی۔۔بغیر بات کئے وہ کنکھیوں سے رحیم کی طرف دیکھ رہی تھی ، رحیم اس سے دور بچہ کے اٹھنے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔
"تونے کچھ کھایا۔"
جیا نے پوچھا۔
رحیم نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے جیا کا جملہ سناہی نہیں ۔ وہ بہت دور کہیں گیا ہوا تھا، جیا نے پھر سے پوچھا۔
"تونے کچھ ناستہ پانی کیا؟"
تو رحیم واپس آیا۔
"جیا، سالی تو مسلمان کیوں نہیں ہوجاتی؟"
جیا نے ایک ہی پل میں رحیم کا پورا سفر اور اس کی منزل سمجھ لی۔
"مسلمان کیسے بنتے ہیں راجہ؟"
"امام صاحب بنادیں گے تجھ کو!"
"وہ کیا کرے گا میرے ساتھ؟"
"کچھ بھی نہیں۔ بس بسم اللہ پڑھا کر کلمہ شریف پڑھادیں گے، تیری جوانی جہنم کی آگ میں جلنے سے بچ جائے گی۔"
"مجھے پڑھنا کہاں آتا ہے، اور میری جوانی تو دنیا کی آگ میں بھسم ہوچکی، اب دھری کہاں ہے۔"لیکن اس احساس سے کہ وہ آج بھی رحیم کو جوان نظر آئی ہے جیا کے بدن میں ایک بجلی کا کوندا سا لپک گیا، جیسے پل بھر میں اس کی تمام پچھلی زندگی بھسم ہوگئی اور اس کو اسی پل ایک نیا جنم مل گیا۔ جیسے وہ شاید مسلمان ہوگئی۔
"تجھ کو پڑھنا نہیں پڑے گا۔۔ امام صاحب جو بولیں گے بس تو وہی بول دینا۔"
"اور میرا نتھو کیسے تمہارے جہنم کی آگ سے بچے گا؟ وہ تو بول بھی نہیں سکتا۔"
رحیم چکرا گیا۔ اس سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ بڑا آدمی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوسکتا ہے لیکن جو بچہ بول بھی نہیں سکتا، وہ کیسے مسلمان ہوسکتا ہےاور اگر وہ مرجائے تو اس کا کیا ہوگا؟ اس کے دماغ میں یہ مسئلہ کبھی آیا ہی نہ تھا۔

رحیم کا دماغ الجھ گیا۔ گتھی حل کرنے کے لئے وہ بچوں کے پاس آگیا اور دونوں پر سے جیا کی پھٹی ساڑی ہٹاکر دونوں بچوں کو غور سے دیکھنے لگا اس نے ان دونوں کے جسم کے ایک ایک عضو کو بہت غور سے دیکھا ، لیکن اس کوکوئی بھی بنیادی فرق ان دونوں میں نظر نہیں آیا، اس کو دکھ ہوا۔
نندن سیلاب زدہ علاقے کے سینکڑوں آدمیوں سے مل چکا تھا کہ کسی طرح کوئی اس کو اس مکان کے رہنے ولوں کا پتہ نشان بتادے جس مکان سے اس کو بچہ ملا تھا۔ وہ سیلاب میں مَرے ہوئے انسانون کی لاش میں اس عورت کی لاش کو ڈھونڈھنے میں بھی ناکامیاب ہوا تھا جس لاش کو ان تینوں نے مکان کے روشن دان میں سے نکالا تھا۔۔۔ خانماں برباد لوگوں کی ایک بستی گاؤں کے پاس ایک اونچے ٹیلے پر بس گئی تھی وہ سب اس انتظار میں تھے کہ جب پانی بہہ جائے گا تو اپنی اپنی زمینوں پر پھر آباد ہوجائیں گے۔
اسی بستی میں وہ ایک رات بھٹک رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک انیس بیس سال کی خوبصورت سی لڑکی دہشت زدہ ہوکر ہانپتی کانپتی بھاگ رہی ہے۔ نندن اس کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا کہ وہ کسی بڑی مصیبت میں ہے۔اس نے بڑھ کر اس سے پوچھنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ لڑکی اس سے ڈر کر ایک طرف باڑھ میں گھس گئی ، ذرا سی دیر میں نندن نے دیکھا کہ چار مسٹنڈے شرابی اس کو ڈھونڈرہے ہیں۔
"اس کی ماں کی۔۔۔ جائے گی کدھر؟"
"کیوں بے ادھر کوئی لڑکی گئی ہے کیا؟"
ایک بڑی مونچھوں والے نے نندن سے پوچھا۔
"کون ہو تم؟ اس کے پیچھے کیوں لگے ہو۔"نندن نے پوچھا۔
"میری لگائی ہے، سالی، آوارہ ہوگئی ہے ۔"ایک اور نے بڑھ کر کہا۔
"ادھر باڑھ میں گھستے دیکھا تھا ،میں نے۔"نندن نے معصومیت سے بتایا۔
"ارے ہاں۔۔۔۔وہ رہی سالی۔"
چاروں آدمی نندن کو چھوڑ کر باڑھ کی طرف بھاگے، لڑکی جھڑ بیڑی کی کانٹوں بھری جھاڑیوں میں گھس کر آہستہ آہستہ ہانپ رہی تھی ۔ نندن نے جب ان لوگوں کو اس کا پتہ دیا تو وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن بیروں کی جھاڑیوں میں سوئیوں کی طرح کے کانٹے تھے جن میں اس کی اوڑھنی اور الجھ گئی ۔ اس کے پیچھے ایک شرابی پہنچ گیا تھا۔ لڑکی نے آگے بڑھنے کے لئے زور لگایا تو چولی کے بند ٹوٹ گئے ۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے سینے کو دبا کر زمین پر اوندھی پڑ گئی ۔ پیچھے کے آدمی سے بچنے کے لئے اس نے اپنے پیر اندر سمیٹ لئے لیکن اس کا لہنگا تھوڑا باہر رہ گیا ، جس کو شرابی نے پکڑ لیا اور اپنی طرف گھسیٹنے لگا۔ لڑکی نے دونوں ہاتھوں سے گھاگرے کو گھسیٹا تو وہ اس کے ہاتھ میں آگیا ۔اس نے اپنی فتح پر ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔ اتنی دیر میں باقی تینوں آدمی جھاڑیوں کی دوسری طرف پہنچ چکے تھے اور انہوں نے لکڑیوں سے جھاڑیوں کو پیٹ پیٹ کر لڑکی تک پہنچنے کا راستہ بنالیا تھا۔۔۔ پرنچے مرغی کے بچے کی طرح لڑکی گٹھری بنی پڑی تھی ۔ اس کے گورے گورے ننگے بدن کو دیکھ کر گھٹیلے بدن اور بڑی بڑی مونچھوں والے نے لڑکی کو ایک بڑی سی گالی دے کر کہا"سالی کیا چیج ملی ہے۔"
اور اپنے آپ کو لڑکی کے جسم پر پھینک دیا ، باقی دونوں آدمیوں نے لڑکی کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں اس کو چت کردیا۔
لڑکی نے ایک ایسی چیخ ماری جیسے اس چیخ میں اس کی روح بھی نکل گئی ۔ اس کے ساتھ ہی نندن کا ہاتھ مونچھوں والے شرابی کی گدی پر اس زور سے پڑا کہ وہ سانس بھی نہ لے سکا۔ باقی دو آدمیوں نے نندن پر لکڑیوں سے حملہ کیا۔ نندن ہاتھ سے لکڑیوں کی مار روکتا رہا، اتنے میں تیسرا آدمی بھی پہنچ گیا، اس کے پاس کھٹکے دار رام پوری چاقو تھا۔ وہ پیچھے سے نندن پر ٹوٹ پڑا۔ چاقو اچٹتا ہوا نندن کے بازو میں لگا بھی لیکن وہ آدمی نندن کی گرفت میں آگیا۔ اس کو الٹ کر نندن نے اس کی دونوں ٹانگیں دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر گھمانا شروع کیا۔ باقی دونوں آدمیوں نے لاٹھیاں نندن پر برسانی شروع کیں تو نندن سب لاٹھیاں اسی آدمی پر روکنے لگا۔ اپنے ساتھی کو بچانے کے لئے انہوں نے لاٹھیاں پھینک دیں اور دونوں نے نندن پر ٹوٹنے کی کوشش کی۔
نندن نے اس آدمی کو گھماکر اس کے ساتھیوں کے اوپر پھینک دیا ، چاقو والے آدمی کے دل پر دہشت بیٹھ گئی تھی وہ قلا بازیاں کھاتا ہوا بھاگا اور اپنے ساتھیوں کو آواز دی۔
"ابے بھاگ یہ بھوت ہے ۔ بھوت، آدمی نہیں۔"
باقی دونوں کے قدم بھی اکھڑ گئے اور نندن کی لاتیں کھاتے ہوئے گرتے پڑتے بھاگے۔
لڑکی کی آنکھیں کھلی تھیں ، کانوں سے بھی وہ سب سن رہی تھی۔ پھر بھی اس پر ایسا سکرا ت تھا کہ وہ نندن کے سامنے ننگی پڑی رہی، اس کی بھولی معصوم صورت اور ماتھے پر بڑا سا بندیا کا لال گول ٹیکا دیکھ کر وہ نندن کو سرسوتی کی مورت نظر آنے لگی۔ نندن نے اس کا گھاگرا اس پر ڈال دیا پھر بھی لڑکی نے جنبش نہیں کی۔ اس کے بدن، ہاتھ اور گوری گوری پنڈلیوں پر مہین مہین خون کی لکیروں کا جال بن گیاتھا۔ کچھ لکیروں سے خون کے قطرے نکل کر تھوڑا بہے تھے اور کچھ پر خون کی بوندیں وہیں سوکھ گئی تھیں۔
نندن نے لڑکی کو کانٹوں کے بستر سے اٹھا کر اپنے کاندھے پر لاد لیا۔ اور ایک ایسی جگہ ڈھونڈھنے لگا جہاں وہ اسے آرام سے لٹا سکے ۔
"دیوی اب تو کہاں جائے گی؟"
"جہاں تم لے چلو۔"
گلابو۔۔۔ نندن کی باندی بن چکی تھی، گاؤں کے سیلاب میں اس کا گھربار عزیزو اقارب سب ہی بہہ چکے تھے، اس کا کوئی ایک بھی باقی نہ تھا۔
بس اس کی جوانی اور اس کا حسن تھا جو ایک تنہا لڑکی کے لئے خود ایک سیلاب بن گیا تھا۔ ہر مرد اس کی بے چارگی اور کسمپرسی کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
جیسے کسی بھیڑکے موٹرکے نیچی زخمی ہوتے ہی گاؤں کے تمام کتے اس پر چاروں طرف سے ٹوٹ کر اس کو کھاجاتے ہیں۔ اسی طرح گلابو کو سیلاب بربادی کے بعد آوارہ مرد کھاجانا چاہتے تھے۔ اس حالت میں ایک انسانی فرشتے نے اس کوبچالیا۔اب نندن کو چھوڑ کر وہ کہاں جاسکتی تھی۔
نندن نے آج تک اپنی زندگی میں کوئی عورت اس طرح نہیں دیکھی تھی، کسی کو اپنی بانہوں میں نہیں لیا تھا۔ اس کی زندگی کے ڈھنگ نے اس کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا کہ عورت کیا ہوتی ہے۔ اس نے پہلی بار ایک حسین عورت کو بالکل برہنہ دیکھا تھا ،کسی دیوی کی مورتی اس کو اس قدر حسین اور پاک نہیں لگی تھی جتنی یہ لڑکی۔ اس نے اس کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا تھا۔ اس کے گداز جسم کی گرماہٹ کو محسوس کیا تھا، بس اتنے سے تجربہ سے اس کو گلابو سے ایسی قربت محسوس ہورہی تھی جیسے وہ بہت دنوں سے اس کی بیاہتا بیوی ہو۔کندھے پر گلابو کو لے جاتے جاتے اس نے پہلی بار عورت کے جسم کی مہک بھی سونگھی تھی، جو اب اس کے سارے دجود میں سماگئی تھی ۔ اس کو خواہ مخواہ محسوس ہورہا تھا جیسے یہ کوئی پوتر چیز ہے جس سے مس ہوکر وہ پاک ہوگیا۔
"تم جس دھرم سنکٹ میں پھنسی ہو۔۔۔ ایسے ہی سنکٹ میں ہمارے ہندو دھرم کا ایک اور بالک بھی ابھی تک پھنسا ہے۔۔ جیسے میں نے تم کو بچایا ہے اسی طرح تم اس کو بچا سکتی ہو۔تمہارے گاؤں کے سیلاب میں ایک ہندو دھرم کا بچہ ہم کو ملا ہے لیکن اس پر ایک مسلمان اور عیسائی نے قبضہ کیا ہوا ہے ، تم میرا ساتھ دو تو ہم دونوں مل کر اس کو بچاسکتے ہیں۔ میری خاطر نہیں تو اپنے دھرم کی خاطر یہ کام کردو میں جنم بھر تمہارے چرن نہیں چھوڑوں گا، تمہاری پوجا کروں گا۔"
گلابو بڑی پریشانی میں پڑ گئی۔ گلابو مسلمان تھی، امیر جان کے کوٹھے پر ناچتی گاتی تھی۔ گلابو نے کوٹھے کے بوڑھے طبلچی سے سنا تھا کہ وہ حیدرآباد کے کسی شریف گھرانے کی لڑکی تھی جس کو اڑالیا گیا تھا۔ امیر جان نے سوادو سو روپے میں خریدا تھا اور ناچ گانے کے ساتھ قرآن بھی پڑھایا اور نماز بھی سکھائی تھی ۔ جوان ہوکر گلابو اس قدر حسین ہوئی کہ امیر جان نے اس کو لکھنولے جاکر وہاں روسا میں تہلکہ مچانے کا بیڑا اٹھایا لیکن گلابو نماز پڑھ پڑھ کر دعا مانگتی تھی کہ کسی طرح اس زندگی سے نکل کر حیدرآباد پہنچ جائے۔
سیلاب نے امیر جان کو مع ان کے ارمانوں کے تہہ آب کردیا اور گلابو کو نندو کے پاس پہنچا دیا جو اس میں دیوی کا روپ دیکھ کر ہندو دھرم کی رکھشا چاہتا تھا اور نندن میں گلابو کو رحمت کا فرشتہ نظر آرہا تھا۔
وہ انکار کیسے کرسکتی تھی۔۔۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ نندن کو سچ سچ اپنے بارے میں بتادے گی تو نندن اس کو پھر بیچ منجدھار میں چھوڑ جائے گا۔
گلابو کی پوری زندگی ایک ایکٹنگ تھی، اس وجہ سے اس نے نندن کا سیکھا ہوا پارٹ بڑی خوبصورتی سے ادا کیا۔نندن کے سبق کے مطابق وہ بچہ کا پتہ لگانے کے لئے جولی اور رابرٹ کے پاس پہنچی اور اس کے پاس دہائی دے کر بچہ جس کا نام رام سدن ہے وہ ٹھاکر سروپ سدن کا اکلوتا بچہ ہے۔

(باقی اگلی قسط میں ۔۔۔)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:07

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں