ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں سائنس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-02-29

ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں سائنس

science-in-ibne-safi-novels

سنجیدہ ادب درحقیقت انسان کی ایجادی صلاحیتوں کا علمبردار ہوتا ہے اور ایسے ادب کے ذریعے نہ صرف ذہن کی پرتیں کھلتی ہیں بلکہ قاری کے علم و اکتساب میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ سنجیدہ ادب کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
سنجیدہ ادب کے ساتھ ساتھ آج کی دنیا مقبول ادب یا پاپولر لٹریچر کی اصطلاح کو بھی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے جو درحقیقت عام انسانوں کی فکر و فہم اور ان کی دلچسپی کی نمائندگی کرتا اور انسان کو تفریحی ماحول سے وابستہ کرتا ہے۔ لازمی ہے کہ تفریحی ماحول صرف ہنسی مذاق کا پروردہ نہیں بلکہ اس کے توسط سے بھی سنجیدہ معاملات کی عکاسی ممکن ہے۔
طویل عرصے تک اردو میں "جاسوسی ادب" کو غیر معیاری اور انسانی تجسسات کو بڑھانے والا تصور کر کے اس میں موجود ٹوہ کی صلاحیت کی وجہ سے اس کی اہمیت سے انکار کیا جاتا رہا لیکن آج کے ترقی یافتہ زمانے میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انسانی تجسس نے نئی نئی ایجادوں اور ترقیات کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس لئے ایسا ادب جو تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ذہنی گرہوں کو کھولنے کا سبب بنتا ہے اسے بلاشبہ اہمیت کا حامل سمجھا جانا چاہئے اور ایسا ادب مقبول ادب یا پاپولر لٹریچر کی حیثیت سے شناخت رکھتا ہے۔
اگرچہ اردو نثر میں انگریزی ناولوں کے ترجمے کی وجہ سے جاسوسی ادب اور مقبول ادب کا سلسلہ شروع ہوا۔ تیرتھ رام فیروز پوری اور رام سروپ کے جاسوسی ناول انتہائی مقبول ہوئے لیکن اردو کے جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی اس وجہ سے اہمیت کے حامل ہو گئے کہ انہوں نے سائنس فکشن کے توسط سے ایسے مقبول ادب کی بنیاد رکھی جس میں سراغ رسانی اور تفتیش کے جدید رویوں کے علاوہ انسانیت کو بچانے کے جدید تقاضوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قتل و خوں اور غارتگری کے علاوہ اخلاق سوز حرکات کی کسی ناول میں نمائندگی کی جائے تو اس قسم کے ناول کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں، لیکن ایسے ناولوں کا دوسرا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ جب قاتل نئے نئے طریقوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے تو انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کے توسط سے اس کی غلط روش کو نہ صرف ہدف بنا سکے بلکہ اس کی سرکوبی کا طریقہ بھی اختیار کر سکے۔ ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں اسی انداز کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
وہ نہ صرف ایک انسانیت دوست قلم کار ہیں بلکہ اپنے رویے کے ذریعے دنیا میں بڑھتی ہوئی بے اعتدالی ، بے راہ روی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے مقبول ذرائع کا استعمال کر کے انسان کو اخلاق اور تہذیب سے وابستہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ قیمتی وصف ہے جو ابن صفی کے ناولوں میں قتل و خون اور غارت گری کے علاوہ مار دھاڑ کے منظر کی نمائندگی کرنے کے باوجود انسانیت کو صلاح اور فلاح سے ہم آہنگ کرنے کی خصوصیات کو نمایاں کرنے کے اعزاز کی دلیل بنتا ہے۔
ابن صفی نے جاسوسی ناولوں میں جہاں تفتیش کرنے والے نمایاں کردار جیسے فریدی اور عمران کے توسط سے ایک جانب حقیقت کی تلاش کی طرف توجہ دی تو دوسری جانب حمید اور قاسم کے کرداروں کے علاوہ سینئر پولس عہدیدار آصف کے توسط سے ناولوں میں طربیہ عناصر کی نشاندہی بھی کی۔ محبت کی بے لوث نمائندگی کے لئے انور اور رشیدہ کے کرداروں کو پیش کر کے ابن صفی نے مرد اور عورت کی چاہت کے بے مثال نمونے پیش کئے۔ عورت کے روپ میں جولیانا فٹزواٹر اور مادام تھریسیا کے کردار میں ان تمام تفتیشی عناصر کو شامل کر دیا جو درحقیقت یوروپی عورت کے بدلہ لینے کے جذبے اور ٹوٹ کر چاہنے کی خصوصیت کے علمبردار ہیں۔

اگرچہ ابن صفی کے بیشتر ناول سائنس فکشن کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن "دھواں ہوئی دیوار" کے علاوہ "آگ کا شعلہ" اور "جہنم کا شعلہ" ایسے ناول ہیں جن میں سائنس فکشن کی بھرپور نمائندگی دکھائی دیتی ہے۔ فریدی کے کردار میں ابن صفی نے ان اوصاف کو یکجا کر دیا ہے جو مرد کے وقار اور اس کی قوامیت کی دلیل ہے جس کے نتیجے میں حمید نے اسے 'کرنل ہارڈ اسٹون' کے خطاب سے نوازا ہے۔ ابن صفی کے ناولوں میں حمید کا کردار اگرچہ مضحک رویوں کا علمبردار ہے لیکن اس کے رویے میں عام انسان کی موقع پرستی نمایاں ہونے لگتی ہے۔ جب کہ ابن صفی نے قاسم کے کردار کو اس درجہ نمایاں کیا ہے کہ بلا شبہ رتن ناتھ سرشار کے ناول کے کردار 'میاں خوجی' کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اور یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ ابن صفی نے اردو ناول نگاری کی تاریخ کو فریدی، حمید، انور اور قاسم جیسے کردار سے وابستہ کر کے ناول نگاری کی تاریخ میں بیش بہا اضافہ کیا ہے جس سے ان کی مقبول ادب سے وابستگی اور ناولوں میں سائنس فکشن کی شمولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اسرار احمد کے نام سے شاعری اور خواتین کے ادب سے دلچسپی رکھنے والے ادیب نے جب پہلی مرتبہ جاسوسی ناولوں کی طرف توجہ دی تو الہ آباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ "نکہت" اور "جاسوسی دنیا" جیسے رسالوں میں سب سے پہلے ان کے ناولوں کی پذیرائی ہوئی اور اسرار احمد نے ابن صفی کے نام سے شہرت حاصل کی۔ ان کے قلم کی روانی کا یہ عالم تھا کہ بیک وقت "نکہت" اور "جاسوسی دنیا" کے لیے ہر ماہ ایک ایک ناول لکھ کر جاسوسی ادب کی نمائندگی کرتے رہے۔ اگرچہ ابن صفی کے عہد میں ہی کئی دوسرے جاسوسی ناول نگاروں نے اسی نہج پر اپنے قلم کی جولانی دکھائی اور جاسوسی ادب کی نمائندگی کرنے والے رسالوں کی بھی کثرت ہو گئی، چنانچہ دہلی سے "مجرم" شائع ہونے لگا اور قانون والا ایم۔ اے۔ کی جاسوسی تحریریں توجہ کا ذریعہ بن گئیں اور کئی اردو کے ناول نگاروں نے جاسوسی ادب کی طرف توجہ دی جس کے نتیجہ میں عجیب و غریب دنیاؤں کی سیر پر مبنی ناول لکھے گئے جن میں اظہار اثر، سراج انور اور سلامت علی مہدی کے ناولوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
"ستاروں کی سیر"، "ستاروں کے قیدی"، " خوفناک جزیرہ"، "کالی دنیا" اور" زمرد" جیسے ناولوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن صفی نے جس دور میں جاسوسی ناول کو عوامی جذبہ کا مرکز بنایا اسی عہد میں اردو کے بیشتر ناول نگاروں نے سائنس فکشن کی طرف توجہ دی لیکن ایسے ناول نگاروں کے قلم سے جو ادب فروغ پانے لگا اس کی حیثیت Saga ہو گئی۔ خود کرشن چند کے ناول "الٹا درخت" اور "ایک گدھے کی سرگزشت" بھی ساگا کی سرشت میں شامل ہیں جب کہ "خوفناک جزیرہ"، "کالی دنیا" کے علاوہ "زمرد" کو بھی ساگا ناول میں شمار کیا جاتا ہے۔
ابن صفی نے اپنے ناولوں میں ساگا کی خصوصیات کی بجائے تفتیش اور سراغ رسانی کے عوامل کو شامل کر کے ان تمام جدید رویوں کو ناولوں کی زینت بخشی جو درحقیقت سائنسی ترقیات کے نتیجے میں سراغ رسانی کا وسیلہ بن چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ابن صفی نے سائنسی ایجادات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے ناول کے کرداروں میں ایجادی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ہے چنانچہ ان کے بیشتر ناولوں میں فریدی اور عمران کے کردار جہاں ایک عام انسان کی زندگی بسر کرتے ہیں وہیں سراغ رسانی اور تفتیش کے نئے نئے طریقے اختیار کر کے نہ صرف قاری کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کرداروں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے عام قاری کی ذہنی صلاحیت کو بھی بلند پروازی عطا کی ہے۔
ایک دور تھا کہ ابن صفی کے مقبول ادب کا یہ عالم تھا کہ ہر اردو کا قاری ان کے ناولوں کا منتظر رہتا تھا۔ ابن صفی نے صرف ناول نگاری اور مقبول ادب کی طرف ہی توجہ نہیں دی بلکہ سائنس فکشن کو اردو میں متعارف کرواتے ہوئے زبان و بیان کی خدمت بھی انجام دی۔ ان کے ناولوں میں جہاں شعر و ادب کی آبیاری کا تصور ملتا ہے وہیں پیروڈی کی خصوصیات بھی جلوہ گر ہیں۔ ان کے ناولوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ روایات کے پاسدار اور ادب میں جدید تجربوں کے حد درجہ مخالف ہیں اور انہوں نے ایشیائی تہذیب کو اپنے سینے سے لگائے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی تہذیب ان کے ناولوں میں رچی بسی بلکہ چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے اور انہوں نے ہر ناول میں اپنے تفتیشی رویے کے علاوہ سائنس فکشن کے توسط سے ظلم و بربریت اور قتل و خون و غارت گری کی ازلی شکست کا بھرپور نمونہ پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی ایک اہم رویہ ہے کہ ابن صفی نے اپنے جاسوسی ناولوں کے توسط سے جہاں اس ملک کی تہذیب کو مقبول ادب کے توسط سے نمائندگی دی ہے وہیں ہندوستانی رسم و رواج اور ملی جلی معاشرت کی بھرپور نمائندگی کی ہے۔ گو کہ انہوں نے پاکستان میں سکونت اختیار کر لی تھی اور وہ تمام ناول پڑوسی ملک میں بیٹھ کر لکھا کرتے تھے لیکن ان کے کسی ناول میں بھی سرحدی اختلافات اور ملکی سازشوں کی طرف نشاندہی نہیں ملتی بلکہ وہ اپنے جاسوسی ناولوں میں انگریزوں کے شاطر رویے اور ان کی وجہ سے ساری دنیا میں پھیلنے والی بدامنی کا ضرور اظہار کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ابن صفی نے اپنے ناولوں میں مقبول ادب اور سائنس فکشن کی بھرپور نمائندگی کی لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ابن صفی عالمی برادری کے روح رواں ہیں اور انہوں نے ساری انسانیت کے دکھ کو قصے کہانی میں بیان کر کے کرداروں کے توسط سے مسائل کے حل کی طرف توجہ دی ہے۔ اور یہ مسائل، سماجی، معاشی اور معاشرتی اور زیادہ سراغ رسانی اور انٹلی جنس سے متعلق ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سماج اور معاشرے میں انصاف نہ ملنے کی وجہ سے کوئی انسان ظلم و زیادتی یا پھر تشدد کا شکار ہوتا ہے۔

غرض ابن صفی کے ناول جاسوسی ادب کے نمائندہ ہیں لیکن ان ناولوں میں انسانی طرز معاشرت اور مشرقی حسیت اپنا اثر دکھاتی ہے جس کے ساتھ ہی ابن صفی نے ان ناولوں کے ذریعے مستقبل شناسی کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔ بلاشبہ جس دور میں ابن صفی نے ناول لکھے وہ دور قتل و خون اور ظلم و زیادتی سے اس قدر وابستہ نہ تھا جتنا کہ آج کا دور دہشت و بربریت کا غماز ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن صفی نے مستقبل کی انسانی روش کی شناخت کر لی تھی، اسی لیے انہوں نے جاسوسی ناولوں کے توسط سے انسانی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور ان کے ناولوں نے ایک عہد کے اہم طبقے کو متاثر کیا اور ناولوں کو جدید سائنسی ایجادات اور تجربات سے مالامال کر کے انہوں نے مقبول ادب اور سائنس فکشن کی روایت کو فروغ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:
ابن صفی کے ناولوں میں سائنس فکشن - ایک مکالمہ
سائنس فکشن - ابن صفی کے ناول اور ہماری عظیم کائنات
ابن صفی - اپنے عہد کے منفرد سماجی اور سیاسی مبصر

ماخوذ از کتاب:
ابن صفی کا جاسوسی سنسار (مرتب: ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی)

Science in Ibn-e-Safi novels, Essay by: Prof. Majeed Bedar

2 تبصرے:

  1. بہت عمدہ تحریر جو ابنِ صفی کے کام کی بلندی، گہرائ اور وسعت دکھاتی ہے۔ اردو کے فروغ، صحت مند معاشرے کی تعمیر میں ان کے کردار، اور ادب کے دائرے کو وسیع کرنے کے احسانات کے ان کے نام کو زندہ رکھیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ ایک اچھا مضمون ہے جس میں جناب ابنِ صفی کے ناولوں اور کرداروں کی خصوصیات پر گفتگو کی گئی۔ جناب ابنِ صفی کوئی سائنسی ناول لکھتے ہوئے اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ بالکل ہی غیر عقلی ایجادات نہیں لکھیں۔ (مظہرکلیم نے کئ غیر عقلی ایجادات اپنے ناولوں میں بڑی غیر ذمے داری سے پیش کی ہیں) انھوں نے ایک دو غیرعقلی ایجادات پیش کی ہیں، مگر بعد میں اس پر شرمندگی کا اظہار بھی کیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں