ابن صفی - اپنے عہد کے منفرد سماجی اور سیاسی مبصر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-01

ابن صفی - اپنے عہد کے منفرد سماجی اور سیاسی مبصر

ibne-safi-unique-social-political-commentator

ابن صفی سے اکثر لوگوں کی طرح میرا تعارف سری ادب کے اعلیٰ مصنف کے طور پر ہوا پھر طغرل فرغان اور اسرار ناروی کو جانا اور پچھلے کچھ سالوں میں ابن صفی کی ذاتی شخصیت کے بارے میں بھی بہت کچھ پڑھا اور یہ اندازہ ہوا کہ ابن صفی کی تحاریر، ان کے اسلوب، کردار، ان کی شخصیت، ان سب پر جتنا کچھ لکھا جاچکا ہے وہ اپنے میں ایک ریکارڈ ہے۔

اس تناظر میں کسی عام قاری کے لئے ابن صفی کے بارے میں کچھ نیا لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، یہ تحریر ابن صفی کے جاسوسی ناولوں سے متعلق وہ مشاہدہ ہے جو ان ناولوں کو بارہا پڑھتے ہوئے کیا۔

ابن صفی کے قاری جانتے ہیں کہ ان ناولوں میں جاسوسی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے اخلاقیات، طنزومزاح، جذباتیت، ہلکا پھلکا رومانس، سائنس فکشن اور ان سب کے علاوہ ایک چیز اور بھی بڑے subtle انداز میں ہوتی ہے جسے ہم اس وقت نوٹ کرتے ہیں جب ان ناولوں کو ترتیب وار پڑھیں، وہ ہے اس دور کے سیاسی اور معاشرتی ماحول پر ان کا تبصرہ۔

ابن صفی کے ابتدائی ناول کا ماحول دوسری جنگ عظیم کے بعد کا دور ہے، یہ وہ وقت ہے جب انگریز بر صغیر سے کوچ کر رہا تھا لیکن معاشرے پہ اس کی تہذیب کی گہری چھاپ تھی، اس لئے ان ناولوں میں نائٹ کلب، شراب، ڈانس، لباس وغیرہ اس وقت کے لحاظ سے نظر آتے ہیں، کردارں میں بھی اپ کو سر، خان، نواب، سردار وغیرہ زیادہ نظر آتے ہیں۔

اس کے علاوہ گھریلو سطح پر اس مغربی اور مشرقی تہذیب کے تصادم نے کیا اثرات مرتب کیے اس کی مثال ابن صفی نے عمران کی پیچیدہ شخصیت کے ذریعہ دی ہے، سیاسی طور پر بھی نہ صرف بر صغیر میں تبدیلی آئی تھی بلکہ سلطنت برطانیہ کے زوال کے بعد نئے ورلڈ آڈرکی شروعات ہوئی تھی، دوسری جنگ عظیم کےاثرات ساری دنیا پر باقی تھے جن کا اظہار مختلف پیرائے میں کیا گیا ہے، ٹھنڈی آگ کے اس اقتباس میں جنگ کے برے اثرات کسی شخصیت پر کیسے مرتب ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے حمید کہتا ہے۔

"گھروں میں بیٹھ کر جنگ کی خبریں سننا اور بات ہے لیکن اپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ میدان جنگ کس چڑیا کا نام ہے، کشت و خون، قتل وغارت گری نے میری زندگی میں مایوسیاں بھر دیں، میں بے تحاشا شراب پینے لگا تھا اور برائیاں میری زندگی کا جزو لازم بن کر رہ گئی تھیں، میں اتنا بدنام ہوگیا تھا کہ سزا کے طور پر میرا درجہ گھٹا دیا گیا لیکن مجھے اس کی بھی پروا نہیں تھی کیونکہ میری انگلی سے مضراب نکال کر اسے زبردستی رائفل کے ٹریگر پر رکھ دیا گیا تھا۔"

اس کے علاوہ جنگ میں شکست یافتہ قوم کے افراد کس طرح برسوں ہزیمت کی آگ میں جلتے ہیں اور ان کا جذبہ انتقام کیا کیا رنگ بدلتا ہے اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں، شیمران، کنگ چانگ کا ساواکا، پرچھائیاں سیریز کا اوزاکا، ریشوں والی سیریز کا ریٹ ماؤنٹ اور ڈاکٹر برنارڈ، جو اپنی قوم پر ہوئے مظالم کا بدلہ لینے کے لئے کس طرح انسانیت کی سطح سے نیچے گر جاتے ہیں۔

ساٹھ کی دہائی میں ساؤتھ ایشیا میں ہونے والی جنگوں کے علاوہ برصغیر کا معاشرہ اپنی شناخت بنانے لگا تھا، ناولوں میں خواتین کے کردار میں اینگلو انڈین کی جگہ مشرقیت نظر آنے لگتی ہے، لباس میں ساری، غرارہ، شلوار قمیض وغیرہ کا اکثر ذکر ملتا آتا ہے، لڑکیوں کا جزیرہ ناول میں عمران شرارتاً زیبا کو پتلون چھوڑ کر شلوار قمیض یا ساری ٹائپ کے لباس پہننے پر مجبور کرتا ہے۔

عالمی سیاست میں سرد جنگ اپنے عروج پر تھی دنیا دو کیمپوں میں بٹ رہی تھی اور کمیونزم کو پھیلانے کے مختلف ہتھکنڈنے اپنائے جا رہے تھے، ہیروں کا فریب میں داور نامی کردار کے بارے میں عمران کہتا ہے:

"ہالی ڈے کیمپ میں زیادہ تر نوجوانوں کا اجتماع ہوتا ہے، مستقبل کے متعلق ان کے خیالات رجائی ہوتے ہیں لیکن داور ان میں مایوسی اور دہریت کے جراثیم پھیلاتا تھا، وہ اس کی باتیں سن کر سوچتے تھے کہ اتنے فرشتہ سیرت آدمی کو خدا نے اپاہج کیوں کر دیا....! کیا یہ انصاف ہے؟ بس پھر ان کے ذہن بہکنے لگتے تھے وہ انہیں اچھی طرح مایوس کردینے کے بعد اپنے آقاؤں کے دیس کا پروپیگنڈہ شروع کر دیتا تھا۔"

دوسرا عالمی مسئلہ جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں نظر آتا ہے وہ ہے چرس، گانجہ، افیم جیسی منشیات کی اسمگلنگ اور ہپی ازم کا تھا، اس منشیات کی وبا کے بارے میں بیمبو کیسل میں عمران کہتا ہے:

"اگر تم چاہتے ہو تمہاری اعلی قسم کی شرابیں محفوظ رہیں تو عوام کو گانجے اور چرس میں الجھے رہنے دو ورنہ ان کی صحت مندی ایسا بھیانک انقلاب لائے گی کہ تم تصور بھی نہیں کر سکتے، یہ وبا سرمایہ دار کیمپ کی پھیلائی ہوئی ہے اس کے ہاتھ مضبوط کرو۔"

دوسری طرف ہپی ازم نے کس طرح اخلاقیات کا تیاپانچہ کیا اس کی بہت سی مثالیں ان ناولوں میں ملتی ہے۔

ستر کی دہائی کے آخر تک معاشرہ کافی حد مشرقیت کے لبادے میں ملبوس نظر آنے لگتا ہے، کئی مقامات پر شراب کی ممانعت نظر اتی ہے، خواتین کا ایک بڑ طبقہ ڈاکٹر، ٹیچر، سائنسی ریسرچ اسکالر قسم کے مختلف شعبوں میں نظر آتا ہے ساتھ ہی اس آزادی نسواں کے معاشرے پر ہونے والے دوسرے اثرات کو بھی بتا دیا گیا ہے، زہریلی تصویر میں ساجدہ کہتی ہے۔

"آجکل تعلیم نسواں پر بڑا زر و شور ہے، بہنیں گریجویٹ ہو جاتی ہیں اور بھائی گدھے گاڑی ہانکتے رہتے ہیں، گودیوں میں سامان ڈھوتے ہیں اور یہ بہنیں جو گریجویٹ ہوجاتی ہیں نہ اپنے طبقے میں کھپ سکتی ہیں نہ اپنے سے اونچے طبقے میں، اپنے طبقے کے مردوں سے متنفر ہوتی ہیں اور اونچے طبقے میں تانگے والوں کی اولاد کہلاتی ہیں پھر بتاؤ ایسی صورت میں کیا ہوگا کیا اس طرح ہمارا معاشرہ متوازن رہ سکے گا؟"

عالمی سطح پر مختلف کیمپوں کے حریف اور حلیف کو اشارتاً جتایا گیا ہے ساتھ ہی مختلف ممالک کے ایٹمی طاقت بننے کی کوشِش کا بھی ذکر ملے کیا گیا ہے، فضا میں تباہ ہونے والے اسکائی لیب اور مڈل ایسٹ میں ہونے والی تیل کی دریافت، اس سے پیدا ہونے والی دولت کی فراوانی اور اس کے ضیاع یہ سب بھی کسی نہ کسی حوالے سے ناولوں میں موجود ہے، دوسرا پتھر کی کلارا عمران سے کہتی ہے۔

"تمہارے یہاں اخوت اور مساوات کے بڑے چرچے ہیں لیکن تمہاری قوم کے پچھتر فیصد افراد فقر وفاقہ اور صبر و قناعت کی زندگی گذارتے ہیں اور پچیس فیصد کا یہ عالم ہے کہ دن بھر میں دو ڈھائی پونڈ لیونڈر اپنے کپڑوں پر اسپرے کر ڈالتے ہیں، دور کیوں جاؤ حال ہی میں تمہارے ملک سے لاکھوں روپیوں کے شکاری باز خریدے گئے ہیں۔"
"ارے وہ تیل والے عرب بھائی تھے۔"
"تمہاری قوم کے فرد تھے؟"
"بلکل تھے۔"
"تو پھر یہ کیسی اخوت و مساوات ہے، کیا وہی رقم جو بازوں پر ضائع کی گئی تمہاری فاقہ زدہ آبادیوں کے کام نہیں آ سکتی تھی۔"

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کی یہ 250 ناول صرف جاسوسی ناول ہی نہیں ہیں بلکہ چالیس کی دہائی سے لیکر ستر کی دہائی کی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں سے متعلق ایک خوبصورت دستاویز بھی ہیں جو آنے والی نسلوں کو اُس دور کی جھلکیاں بھی دکھاتی ہے اور لطیف انداز میں ان کے مثبت اور منفی پہلووں پر تبصرہ بھی مہیا کرتی ہیں۔

بشکریہ فیس بک گروپ: دی گریٹ ابن صفی فینز کلب

Ibn-e-Safi, a unique social and political commentator of his times. Article: Tabassum Hijazi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں