* کیا ہندوستان میں اردو معاشرہ بےحسی یا سرد مہری کا شکار ہے؟
* کیا ہندوستان کے سوشل میڈیا اردو منظرنامے پر صرف اردو شعر و شاعری کا دور دورہ ہے؟
* کیا ہندوستانی اردو ویب سائٹس سے سماجی، سائنسی، ثقافتی، مذہبیاتی، عمرانی ۔۔۔ تمام طرح کی فکری بحثیں ختم یا کم ہو چکی ہیں؟
* اردو یا اردو زبان و ادب کے حوالے سے ہندوستانی و پاکستانی معاشرے سماجی سطح پر کس طرح کا فرق رکھتے ہیں؟
* کیا ہندوستان کے 'نیو میڈیا' میں قومی و بین الاقوامی مسائل و معاملات پر (اردو) مباحثوں میں کمی یا تفریق برتی جاتی ہے؟
ایسے ہی کچھ سوال سابق مدیر ماہنامہ "آجکل" خورشید اکرم نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر اٹھائے اور ان سوالات کے کچھ بلکہ تفصیلی جوابات مدیر سہ ماہی "اثبات" اشعر نجمی نے دئے ہیں۔ ادارہ تعمیرنیوز اس مکالمے کو دستاویزی حیثیت کا باور کرتے ہوئے ڈیجیٹل شکل میں یہاں محفوظ کر رہا ہے۔
از: مکرم نیاز (مدیر اعزازی، تعمیرنیوز)
ہندوستان کے اردو معاشرے کی بے حسی
خورشید اکرم
کل میں نے ہندوستان کے اردو معاشرے کی ایک طرح کی بے حسی سے متعلق جو پوسٹ لگایا تھا اس پر بیشتر احباب نے اتفاق کیا۔ کچھ نے نہیں بھی کیا اور کچھ نے دوسری طرح کی منطق پیش کی۔ پہلے،میں یہ واضح کر دوں کہ کوئی بھی مشاہدہ اور اس سے اخذ نتیجہ اکثریت کے رویہ کی بنیاد پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر میں نے اردو معاشرے کے سرد رویے کے بارے میں بات کی تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کسی نے کچھ کیا ہی نہیں (ہوگا)۔ لیکن پچھلے ایک ہفتہ میں سوشل میڈیا اور کم از کم دہلی کے سب سے بڑے اردو اخبار کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا جس کا ذکر کیا۔ دو تین ہفتہ پہلے بنگلہ دیش میں اتنے بڑے اتھل پتھل کے دوران بھی میں نے ہندوستانی اردو معاشرہ کو کم و بیش اسی طرح لا تعلق پایا۔ میں ایسا ہر گز نہیں کہتا کہ ہر معاملے میں ہر شخص لازماً بولے۔ لیکن جو بڑے معاملات ہیں ان میں کم از کم کچھ لوگ تو اس طرح بات کریں کہ باقی لوگ جن کی معلومات یا سمجھ کم ہے انہیں کچھ معلوم ہو، سمجھ ہو۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس کے معاملات سے باخبری ہمارے شعور اور لاشعور دونوں کوکمک پہنچاتی ہے۔اور کم از کم ادیب کے لیے باخبری بہت ضروری چیز ہے، صرف باخبری نہیں بلکہ اس کی اپنی ایک رائے بھی ہونی چاہیے۔جس کا اظہار وہ بوقت ضرورت کر سکے۔
اب سوال یہ کہ پاکستان معاشرے کے مقابلے یہاں بے خبری زیادہ ہے تو کیوں ہے؟ تو اس کا جواب تلاش کرنے کی یہ ایک ادنی سی کوشش ہے۔ یہاں میں اپنی بات کو مسلمانوں کے عمومی رویہ پر نہیں بلکہ اردو سے وابستہ دانشور طبقہ، اہل قلم اور صحافی تک محدود رکھتا ہوں۔ میری پوسٹ کے مخاطب بھی اصحاب قلم ہی تھے۔ مختصرا ًجو وجہیں میں سمجھ پایا ہوں وہ نکتہ وار یوں ہیں:
اول: ہندوستان کا جواردومعاشرہ ہے وہ شاعری میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ اس کے اندرسنجیدہ بحث میں الجھنے کا مادہ ہی نہیں رہا۔ اس کی تجزیاتی فکر کو شاعری گھن کی طرح کھا چکی ہے۔ ویسے تو یہ پورے اردو معاشرے کا مسئلہ ہے لیکن ہندوستان میں یہ زیادہ کیوں ہے اس کی وجہ آگے آتی ہے۔
دوئم : یہاں وہ میڈیم یا پلیٹ فارم نہیں ہیں جہاں سیاسی، سماجی، ثقافتی، فکری بحثیں ہوتی یا ہو سکتی ہیں۔ ادب میں جدیدیت کے حامیوں نے رسائل سے 'غیر ادبی' موضوعات کو ٹاٹ باہر کردیا تھا۔ یہاں تک کہ ان موضوعات پر بات کرنے والا ترقی پسندی کا طوطا سمجھا جانے لگا۔ لہذا اردو میں سماجی، سائنسی، ثقافتی، مذہبیاتی، عمرانی ۔۔۔تمام طرح کی فکری بحثیں ختم ہو گئیں۔ بچ گئی صرف تحقیق اور تنقید۔ایک سے بڑھ کر ایک ادبی رسالے نکلے مگر یہاں سے کبھی ارتقا جیسا رسالہ نہیں نکلا جس میں کچھ فکر و نظر کی باتیں ہوں۔ یہاں تو کوئی 'ہم سب' یا 'تجزیات' جیسا آنلائن میگزین بھی نہیں۔
تین: یہاں کے اردو اخبارات ہمیشہ سے صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص رہے ( فلسطین اورعالم اسلام اسی کی توسیع رہے ہیں)۔ لیکن پچھلے پچیس تیس برس میں یہ پوری طرح مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ ہر اخبار یک رنگا ہوگیا ہے جس میں ہندوستانی مسلمانوں کی مظلومیت اورمذہب کی باتوں کے علاوہ کوئی اور مضمون مشکل سے ملے گا۔ پچھلے دس برس میں مودی اور بھاجپا کی مخالفت بھی ایک مستقل موضوع ہے۔ یہاں دیگر موضوعات یا دیگر متبادل خیالات کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ نتیجہ کے طور پر غور و فکر کرنے اور متبادل نقطہء نظر رکھنے والوں کے لیے کوئی پلیٹ فارم ہے ہی نہیں۔پچھلے چالس پچاس برس میں یہاں کوئی ڈھنگ کا اردو صحافی نہیں پیدا ہوا۔ کالم نگار اخبار کا پیٹ بھرتے ہیں اور اخبار مولوی کا منہ بھرتے ہیں۔
چار: سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک ایک ایسا متبادل پلیٹ فارم بن سکتا تھا جس پرمباحثے نہ سہی کچھ سنجیدہ باتیں تو ہو ہی سکتی تھیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا جدیدیت کے لا شعوری طورپرپروردہ ادیبوں کو سیاسی و سماجی مسائل پر بات کرنا بالکل گوارہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ پھربحث و تمحیص کی تمیز بھی نہیں پیدا ہوسکی۔ شاعری بھلے کر لیں گے۔ سیاست اور سماج سے بے گانگی کا عالم یہ ہے کہ ابھی ہمارے وقت کے سب سے بہترین ادبی رسالہ اثبات نے جب اپنا مزاحمت نمبر نکالا تو اس میں نوے فی صد مواد ہندی انگریزی کے تراجم تھے یا پاکستان کے آنلائن رسائل سے ماخوذ مضامین ۔ یہاں لکھنے والے ہیں ہی کہاں؟ خود ہندوستان میں جو سب سے بڑی سیاسی مزاحمت سوشل میڈیا کے ذریعہ چل رہی ہے اس کا رسالہ میں خفیف سا ہی ذکررہا۔ہندوستان کے اردو دانشوروں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ اس بار کا ہندوستانی چناؤ سیاسی پارٹیوں سے زیادہ میڈیا کی جنگ تھی جس میں یوٹیوب اور سوشل میڈیا نے حکومت کے پٹھو مین اسٹریم میڈیا کوچت کر دیا۔ حد تو یہ کہ اثبات میں شامل اپنے مضمون میں میں نے مزاحمت کی مثال کے طور پر میاں پوئٹری کا خصوصی ذکر کیا لیکن ایڈیٹر صاحب نے اس کو توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھا۔
پانچ: کہا جاتا ہے کہ آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمان مستقل دیوار سے لگے ہوئے ہیں۔ اس نے ان کی ذہنیت کو شکست خوردہ کردیا ہے۔ لیکن۔۔۔ کرکٹ تووہ پھر بھی کھیلتے ہیں۔ فلم اورگلیمرانڈسٹری میں تو پھربھی چھائے ہوئے ہیں اور مشاعرے پھر بھی دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں۔ مذہبی اور ملی تنظیمیں بے حساب و بے شمار ہیں۔ اردو کے اخبارات و رسائل کی بھرمار ہے۔ تو کیا وہ واقعی وہ دیوار سے لگے ہوئے ہیں۔تھوڑی حد تک تو یہ بات صحیح ہے مگر پوری نہیں۔ انہیں ہندو اور مسلمان دونوں کی فرقہ پرست جماعتیں دیوار سے لگائے ہوئے ہیں۔ ہر مذہبی اور ملی جماعت ایک ہی زبان میں بات کرتی ہے، وہ بات جو انہیں ان کے زخمی احساسات و جذبات سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں دیتی۔ یہ ویسے تو عامیوں کا مسئلہ ہے لیکن بیشتر ادیب بھی عین مین عامیوں کی طرح ہی سوچتے ہیں۔ اور ان ہی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ جب معاشرہ کا سوچنے والا ذہن عامیانہ رویے کو درست مان لے تو بہتری کا، متبادل راستہ کہاں سے نکلے گا۔
اور آخری مگر سب سے تلخ بات : ہندوستانی اردو ادیبوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جن مسائل سے وہ براہ راست متاثر ہوتے یا ہو سکتے ہیں، مثلا فسادات یا سی اے اے وغیرہ، ان کے سوا معاملات میں ان کی شرکت ، شمولیت نہ کے برابر ہے۔ بنگلہ دیش سے اسے کچھ نہیں لینا، منی پور سے اسے کچھ نہیں لینا۔ مگر فلسطین اور بوسنیا سے اتنا زیادہ ہے کہ عادل منصوری جیسے خالص جدیدیے بھی جذبات میں آکر نظم کہتے ہیں اور شب خون جیسے 'خالص ادبی رسالہ ' میں وہ چھپتی ہے۔
لہٰذا میں پھر کہوں گا کہ ہندوستان کے مقابلے پاکستانی اردو ادیبوں نے مومیتا دیب کے معاملے میں ہندوستانی اہل اردو کے مقابلے صد گنا زیادہ حساسیت دکھائی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ خود کو معاشرہ کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ہم۔۔۔افسوس ہم خود کو اس معاشرہ کا حصہ نہیں اس کےکشتہ سمجھتے ہیں۔ اور ہمیں تھپک کے سلانے کے لیے ادب کا معجون تو ہے ہی۔
'رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی'
اشعر نجمی
مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں اس وقت شاید تیسری یا چوتھی کلاس میں تھا جب مجھے سالانہ امتحان میں 'اونٹ' پر مضمون لکھنا تھا اور میں 'گائے' پر لکھ آیا تھا، چونکہ میں گائے پر رٹّا مار کر گیا تھا۔ اس 'حادثے' نے مجھے ایک سبق سکھایا جو میں زندگی بھر نہیں بھولا کہ جو بات کرو نفس موضوع پر کرو ورنہ پہلے اپنا ہوم ورک اچھے سے کرکے آؤ۔ لیکن آج بھی اس وقت مجھے میرا بچپن یاد آجاتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ 'اونٹ' پر مضمون لکھتے لکھتے 'گائے' کی سینگ سے الجھ جاتے ہیں اور ان کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے سے انکار کردیتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک بار پھر مجھے اپنے بچپن کا یہی عبرت ناک واقعہ یاد آگیا۔
مؤقر ماہنامہ 'آجکل' کے سابق ایڈیٹر خورشید اکرم صاحب نے گزشتہ دنوں اپنی فیس بک وال پر ایک پاکستانی دوست کی پوسٹ شیئر کی جس میں ایک ویڈیو میں کولکاتہ کی ڈاکٹر مومیتا دیب کے جنازے کا منظر تھا جن کا ریپ کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ اس بہیمانہ اور ہلادینے والے واقعے نے ہر صاحب دل شخص کے ذہن و دل کو مفلوج کرکے رکھ دیا، نتیجتاً جہاں کروڑوں لوگوں کی زبانیں اس دہشتناک واقعہ سے گنگ ہو کر رہ گئیں تو وہیں ملک گیر بلکہ بین الاقوامی سطح پر مذمت و احتجاج کی آوازیں بھی گونجیں۔ سابق ایڈیٹر صاحب نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ایک طنزیہ اور بالکل غیر متعلقہ کیپشن لگایا کہ اس بھیڑ میں 'حجاب والیاں' کہیں نہیں دکھائی دے رہی ہیں، ظاہر ہے اس سے ان کی مراد وہ مسلم لڑکیاں یا عورتیں تھیں جو حجاب کے ایشو پر سراپا احتجاج نظر آتی ہیں۔ یہاں سے محترم سابق ایڈیٹر نے 'اونٹ' کی جگہ 'گائے' پر مضمون لکھنے کا آغاز کردیا ،چونکہ ان کے احتجاج و مزاحمت کا رٹّا مسلم عورتیں اور مسلم شناخت تک محدود ہے۔
خیر ہم اس پر بعد میں بات کریں گے، پہلے ہم دیکھ لیتے ہیں کہ اس 'گائےوالے مضمون' کا کیا حشر ہوا؟ اب لوگوں نے انھیں انھی کی اس ویڈیو والی پوسٹ پر ٹرول کرنا شروع کردیا۔ ملک بھر میں برپا حجاب والی عورتوں کے احتجاج کی کئی تصویریں اور نیوز کے اسکرین شاٹس وہاں پیش ہونے لگے اور چشم زدن میں صاحب کیپشن کے 'استہزا'نے خود ان ہی کی معلومات اور باخبری کو شک کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ 'ہوم ورک' اچھے سے نہ کرنے کی جو شرمندگی میں نے تیسری یا چوتھی کلاس میں اٹھائی تھی، سابق ایڈیٹر اب اس سے دوچار ہوئے ، نتیجتاً انھوں نے کچھ ہی دیر بعد اپنا اعتذار نامہ اپنی وال پر پوسٹ کردیا۔ مگر آج آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں کہ شرمند ہ ہونا دل گردے کا کام ہوتا ہے، یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ اپنی غلطی کا احساس ہونے کے باوجود اس کا اعتراف کرنا آسان کام نہیں ہے اور بطور خاص اس وقت جب معاملہ کسی مؤقر و معزز ادبی رسالہ کے سابق ایڈیٹر کا ہو اور جو ابھی ابھی دہلی اردو اکیڈمی کی مجلس عاملہ کا معزز رُکن بھی نامزد ہوا ہو۔ چنانچہ سابق ایڈیٹر نے کچھ ہی گھنٹوں بعد ویڈیو والی پوسٹ اور اپنا اعتذار نامہ دونوں فیس بک کے لوح مکرر سے ڈیلیٹ کردیا اور 'گائے' پر ایک دوسرا مضمون لکھ مارا۔
اس نئے مضمون میں موازنۂ انیس و دبیر کی طرح ترقی پسندی بنام جدیدیت کا وہی ساٹھ سال پرانا راگ آلاپا گیا ، جو اَب بے سُرا ہوچکا ہے۔ سابق ایڈیٹر کی اس پوسٹ میں 'ادب اور سماج' کے قسم کے موضوع پر وہی مبتدیانہ باتیں ہیں جن پر برسوں پہلے خود ترقی پسندوں کا ایمان ڈگمگا چکا تھا اور صراط مستقیم سے سیدھا جدیدیت کے 'جہنم' میں جاگرے تھے۔ اس پر اپنا وقت اور قوت ضائع نہیں کرنا چاہتا، اصل ایشو پر آنا چاہتا ہوں لیکن چلیے بطور ریکارڈ ایک پُرجوش اور باغی سابق ترقی پسند (اور سابق جدیدیے بھی) باقر مہدی صاحب کے ایک چھوٹے سے اقتباس کو دیکھ لیتے ہیں، آپ فرماتے ہیں:
"1949 میں ترقی پسند مصنفین نے (بمبئی میں) جو منشور پاس کیا، اس کی روشنی میں ترقی پسند شاعروں نے سنسنی خیز اور دہشت انگیز شاعری کا آغاز کیا اور اس شاعری کو انقلابی شاعری کا نام دیا گیا۔ اس کی وجہ آج سب کو معلوم ہے کہ ترقی پسند ادبی رہنماؤں نے کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی کو ترقی پسند شاعری کا 'صحیح نقطۂ نظر' سمجھ لیا تھا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ شاعری میں موضوع اور انداز بیان کی یکسانیت کے ساتھ ساتھ فنی خوبیاں بھی زائل ہو گئی تھیں۔ شاعری سے حسن، موسیقی، نغمگی، تازگی، متوازن فرزانگی، شیریں دیوانگی اور سرشاری کی خوبیاں ایک نعرہ میں کھو گئی تھیں اور وہ سیاسی نعرہ غلط تھا اور زندگی کا ہم نوا نہیں تھا۔ سیاسی شاعروں کو صرف اس لیے مطعون کرنا کہ یہ کھلی ہوئی سیاست ہے بذات خود زندگی میں سیاسیات اور سماجی مسائل کی اہمیت سے بے خبری کی دلیل ہے۔ "
ایک منٹ رکیے، چونکہ مومیتا دیب کا سانحہ مغربی بنگال میں وقوع پذیر ہوا ہے اور خود سابق ایڈیٹر کا تعلق مغربی بنگال سے ہے تو میں مشہور ترقی پسند دانشور اور بنگالی ادیب پروفیسر ڈی پی مکھرجی کا ایک قول بھی مقتبس کردیتا ہوں:
"ادبی بحران اس وقت تحریک میں داخل ہوتا ہے جب ادبی جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہو جو حالات کو سمجھنے کے دعویدار ہوں مگر حقیقت میں اپنے ذہنی افلاس کو پوشیدہ رکھنے کے لیے بلند بانگ نعرے لگاتے ہوں۔ ایک ایسے دور میں جب نظام حیات کی صورت گری ہو رہی ہو اور سماجی تنظیم کا شیرازہ بکھرا بکھرا سا ہو اور ایک دور پوری طرح ختم نہ ہوا ہو اور نئے دور نے نقاب نہ الٹی ہو۔"
میرے خیال میں یہ دو اقتباسات ترقی پسندی کے اس مقدمے کی تابوت پر جسے فاضل سابق ایڈیٹر ڈھونے پر اب تک آمادہ نظر آ رہے ہیں، آخری کیل ثابت ہوں گے۔ پھر بھی تشفی نہ ہو تو اثبات کے سابقہ ضخیم شمارے 'مزاحمت نمبر' میں شامل مذاکرہ ہی پڑھ لیں جس میں ہندی اور اردو ادیبوں بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے ادیبوں کے خیالات کی روشنی میں مدد ملی سکتی ہے اور ہاں، یہ مذاکرہ 'ہم سب' سے ڈائجسٹ نہیں کیا گیا تھا بلکہ راقم الحروف کے کیے گئے سوالوں پر مبنی تھا۔ لیکن میں آپ سے کیوں کہہ رہا ہوں کہ "پڑھ لیں"، یہ شمارہ تو آپ نے پڑھا ہی ہوگا، اس میں آپ کا بھی ایک مضمون آپ ہی کے موقف کے ساتھ چھپا تھا جس کا بالواسطہ جواب میں نے اپنے اداریہ میں دے دیا تھا۔ دراصل آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ تخلیق ادب اور ایکٹیوزم دونوں کو ملا کر دیکھ رہے ہیں جب کہ دونوں میں بعد المشرقین ہے۔ مثلاً سارتر اور البیئر کامیو کے ادب اور ایکٹیوازم دونوں سے ہم واقف ہیں، لیکن ان دونوں وجودیت کے علمبرداروں نے اپنے ادب کو ایکٹیوازم سے بارہ کوس دور رکھا۔ اس کے برخلاف جب ہمارے ہاں اروندھتی رائے نے اپنا پہلا ناول لکھا تو بہت زبردست لکھا لیکن اس کے بعد انھوں نے ایکٹیوازم شروع کردی، اس میں بھی کوئی بری بات نہیں تھی، بری بات اس وقت ہوئی جب اروندھتی نے اپنے دوسرے ناول میں ایکٹیوازم گھسیڑ دیا، نتیجتاً ان کا دوسرا ناول اوسط سے بھی کم درجے کا نکلا۔ ادب اور ایکٹیوزم پر بھی 'مزاحمت نمبر' میں کافی باتیں ہوچکی ہیں، اگر آپ کو فرصت ملے تو دوبارہ انھیں پڑھیے۔ خیر اس قصے کو یہیںچھوڑتے ہیں کہ مجھے اپنی ایک ہی بات بار بار دہرانی اس طرح پسند نہیں جس طرح مثلاً آپ کو مرغوب ہے کہ مزاحمت نمبر میں شائع آپ کے مضمون میں شامل وہی موقف ہیں جو اب آپ ایک بار پھر اپنی پوسٹ میں دہرارہے ہیں، کوئی نیا زاویہ نہیں، کوئی نئی دلیل نہیں(آپ کا یہ مضمون بھی میں نے کسی آن لائن جریدے یا 'ہم سب' سے نہیں لیا تھا، بلکہ آپ نے میری درخواست پر لکھا تھا)۔
خیر ، فاضل سابق ایڈیٹر کی ہندوستان کے بیشتر اردوادیبوں سے یہ شکایت ہے:"ہندوستان کے احباب کے یہاں بہت یک رنگی ہے۔ ان کو دنیا، زمانہ، حالات و حوادث سے جیسے کوئی مطلب ہی نہیں۔ اپنی شاعری، اپنی تصویر، اپنی شادی کی سال گرہ، اپنی کتاب، اپنے خون میں شوگر کی مقدار، اپنے باپ کی بیماری جیسی باتوں یعنی خود تشہیری کے علاوہ کچھ جیسے ان کے پاس ہے ہی نہیں۔"
اب اس پر کیا کہوں سوائے اس کے کہ خود سابق ایڈیٹر صاحب کی فیس بک وال چیک کریں تو سب سے پہلے ان کے افسانے مجموعہ 'رات کی بات' پر کولکاتہ کے ہی ندیم احمد کا ایک عمومی تبصرہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے 'پِن پوسٹ' ہے جس کی جگہ اب تک نہ تو ڈاکٹر مومیتا دیب کا سانحہ لے سکا ، نہ دہلی بارڈر پر ہونے والا کسان آندولن جس میں کئی کسان سرکاری استبداد کے منھ کا نوالہ بن گئے اور نہ ونیش پھوگاٹ اورسات خواتین ایتھلیٹس کی جنسی ہراسانی اور پھر انھیں دہلی پولیس کے ذریعہ سڑکوں پر بے دردی سے گھسیٹنے کے واقعےپر کوئی پوسٹ، حتیٰ کہ منی پور فسادات میں عورتوں کو ننگا گھمائے جانے والی وائرل ویڈیو نے جس طرح پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اس پر بھی آپ کی کوئی مزاحمتی پوسٹ ندیم احمد کے تبصرے کی جگہ نہ لے سکی۔آپ کی فیس بک وال کا کوئی بھی ایماندار قاری سرسری تجزیہ کرے تو صاف پتہ لگ جائے گا کہ جس تشہیر پسندی، اپنی کتاب، اپنی تصویر کا الزام دوسرے اردو ادیبوں پر لگا رہے ہیں، ان سے خود آپ کی وال پٹی پڑی ہے۔ کہانی'سات جمعرات' پر ارون دیو کا تبصرہ، فخرا لدین عارفی کا آپ پر چار سطری عمومی و تعارفی نوٹ، خان رضون کا آپ کی کتاب 'جدید ہندی شاعری' پر تبصرہ، مصطفیٰ ارباب کا اظہار تشکر وغیرہ جیسی بے ضرر چیزیں آپ کی 'المعلقات' کی زینت ہیں۔ انھیں آپ کس خانے میں رکھیں گے؟ تشہیر پسندی یا خود پسندی؟
آپ لکھتے ہیں، "ہندوستان کا جواردومعاشرہ ہے وہ شاعری میں اس قدرڈوبا ہوا ہے کہ اس کے اندرسنجیدہ بحث میں الجھنے کا مادہ ہی نہیں رہا۔" گویا آپ کی نظر میں شاعری سنجیدہ شے نہیں ہے، یہ رویہ از خود بتاتا ہےکہ ترقی پسندوں کےلیے شاعری پر نعرہ کس قدر مقدم رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندوں نے ایک زمانے میں فیض تک کو
نہیں بخشا چونکہ وہ نعرے سے شاعری کی طرف نکل گئے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ ترقی پسندوں کی بجائے فیض کی دریافت نو جدیدیوں نے کی۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔
لیکن آپ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ "جدیدیوں نے رسائل سے غیرادبی موضوعات کو ٹاٹ باہر کردیا تھا۔" کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ آپ اتنے دنوں کے گزرنے کے بعد بھی جدیدیت کا اصل مقدمہ سمجھ نہیں پائے۔ جدیدیوںکا 'موضوعات' سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ، ان کا اصرار 'فنکارانہ برتاؤ' پر تھا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کو 'خالص جدیدیے' عادل منصوری کی فلسطین اور بوسنیا پر نظمیں تو 'شب خون' میں نظر آگئیں لیکن حیرت ہے کہ آپ کو اسی شب خون میں 'خون میں لتھڑی ہوئی دو کرسیاں' نامی نظم(کچھ ایسا ہی عنوان تھا) نظر نہیں آئی جو گجرات:2002پر مبنی تھی، اور شاید اس لیے نظر نہیں آئی چونکہ اس کا عنوان 'گجرات' نہیں تھا، یہی وہ فنکارانہ برتاؤ ہے جس سے ترقی پسند احباب نجات چاہتے تھے اور ہیں، انھیں اس طرح کے فن پاروں میں وہ ایکٹیوازم نظر نہیں آتا جو مثلاً سردارجعفری کی 'روس اب دور نہیں' قسم کی پارٹی لائن والی نظموں میں بآسانی مل جاتی ہے۔ یاد آیا کہ ابھی دو چار روز پہلے اسی فیس بک پر اشفاق احمد صاحب نے پاکستان سے شائع محمد حنیف کا ناول 'A Case of Exploding Mangoes'جس کا اردو ترجمہ سید کاشف رضا نے کیا ہے، پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے، "اس ناول کو آپ ضیاالحق سے نفرت میں پڑھ سکتے ہیں، ادب کی محبت میں نہیں۔ ادبی لحاظ سے انتہائی لچر ناول ہے یہ۔" ناول بھی پاکستان کا اور مبصر بھی پاکستان کا۔ یہ ہےسادہ لفظوں میں 'ایکٹیوازم' اور 'ادب ' کا فرق جسے ایک قابل ہندوستانی سابق ایڈیٹر نہ سمجھ سکا اور ایک باشعورادب شناس پاکستانی قاری نے دو سطروں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔
اچھا سابق ایڈیٹر صاحب کی مذکورہ پوسٹ تضادات کا انوکھا مجموعہ بھی ہے۔ صرف دو مثالیں لے لیجیے: آپ لکھتے ہیں؛"ہندوستانی اردو ادیبوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جن مسائل سے وہ براہ راست متاثر ہوتے یا ہو سکتے ہیں، مثلا فسادات یا سی اے اے وغیرہ، ان کے سوا معاملات میں ان کی شرکت ، شمولیت نہ کے برابر ہے۔" یہ تو ایک بات ہوگئی لیکن صرف ایک جملے بعد معزز سابق ایڈیٹر یُو ٹرن لیتے ہیں اور فرماتے ہیں، "مگر فلسطین اور بوسنیا سے اتنا زیادہ (لگاؤ) ہے کہ عادل منصوری جیسے خالص جدیدیے بھی جذبات میں آکر نظم کہتے ہیں اور شب خون جیسے خالص ادبی رسالہ میں وہ چھپتی ہے۔"
آپ کا کیا مسئلہ ہے، میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک طرف تو آپ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی اردو ادیب ان معاملات میں شرکت نہیں کرتے جن سے وہ براہ راست متاثر نہیں ہیں لیکن جب عادل منصوری بوسنیا اور فلسطین پر نظمیں لکھتے ہیں جو ان علاقوں میں ہونے والے واقعات سے براہ راست متاثر نہیں تھے، تو بھی آپ اس پر جز بز ہوجاتے ہیں؟ کیوں بھائی؟ کسی ایک اسٹینڈ پر قائم رہیں۔ ویسے فلسطین پر تو آپ نے بھی نظم لکھی ہے جو آپ ہی کی فیس بک وال پر موجود ہے۔ اب دوسرا تضاد دیکھیے، جس پر ابرار مجیب نے آپ ہی کی پوسٹ پر جواب دیا ہے:
" رہی بات مسلمانوں کے مودی، بی جے پی اور سنگھ مخالف اظہار رائے کی تو آپ یہ کہہ کر خود اپنی بات رد کررہے ہیں کہ اردو معاشرہ سیاسی صورت حال پر اظہار خیال نہیں کرتا۔"
اب آپ کی ایکٹیوازم پر مبنی تضادات کو مختصراً یہاں اشاروں میں نشان زد کردیتا ہوں جس پر آپ شکوہ کناں ہیں کہ ہندوستان کے اردو ادیب بے حس ہوچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ایک مذاکرہ کے بہانے - اشعر نجمی
احیائے مذاہب : اتحاد، انتشار اور تصادم - اثبات کا خصوصی شمارہ
اس نے کہا تھا - اردو کا پہلا پوسٹ ماڈرن ناول : تبصرہ از خالد جاوید
(1)ممکن ہے کہ میں غلط ہوں لیکن مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ آپ کو 'ریپ وکٹم' سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے بہیمانہ تشدد پر کوئی خاص بے چینی، ورنہ کیا وجہ ہے کہ آپ کو مومیتا دیب کے بعد اتراکھنڈ میں تسلیم جہاں نامی ایک نرس کا ریپ ہوا جو انسٹاگرام پر وائرل ہورہا ہے لیکن شاید اس کی آپ کو خبر تک نہ ہو چونکہ مومیتا دیب کی طرح اس ریپ کو اب تک میڈیا نے ویسا گلیمرائز نہیں کیا ہے۔
(2) منی پور فسادات میں عورتوں کا ننگا کرکے گھمانے والی وائرل ویڈیو، جسے دیکھ کر اقوام متحدہ تک ہل گیا تھا، اس کے خلاف آپ نے کتنی پوسٹ لکھی؟
(3) آپ ہی کی دہلی میں کچھ عرصہ پہلے کسان آندولن ہوا تھا جنھیں دہلی کے بارڈر پر حکومت نے روک دیا تھا اور ان پر مظالم کی انتہا کردی، کئی لوگ مرگئے، کیا آپ اس میں شریک ہوئے تھے؟ اگر شریک نہ بھی ہوئے ہوں تو فیس بک پر کوئی پوسٹ کی تھی؟
(4) جب برج بھوشن سنگھ کے خلاف اسی دہلی میں ونیش پھوگاٹ اور ان کے علاوہ سات خواتین ایتھلیٹکس نے جنسی استحصال کا الزام لگایا اور سڑکوں پر احتجاج کیا تو پوری دنیا نے دیکھا کہ دہلی پولیس ان خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹ رہی تھی، اس پر تو پوری دنیا کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں، کیا آپ نے اس پر اپنا احتجاج پوسٹ لکھ کر درج کیا؟
(5) آپ نے ہندوستان میں ہونے والی کتنی لنچنگ پر پوسٹ کی ہے؟
(6) آپ نے اتر پردیش کے کیا ان کم عمر اور کم سن بچوں پر بھی کوئی پوسٹ کی تھی جن کے بارے میں کچھ رپورٹ بتاتی ہیں کہ این آر سی کی مخالفت کے دوران ان کے مقعد میں یوپی پولیس نے ڈنڈا ٹھونسا تھا اور جب وہ رہا ہوئے تو ان کا پاجامہ خون سے سرخ تھا؟
(7) مجھے یقین ہے کہ آپ نے ایران میں زبردستی حجاب پہنانے والی انتظامیہ کے خلاف ضرور پوسٹ کی ہوگی لیکن کیا آپ نے کرناٹک میں حجاب زبرستی اُتارنے والوں کے خلاف کوئی پوسٹ کی تھی؟
(8) بنگلہ دیش کے حالیہ بحران کےبعد جس طرح وہاں ہندوؤں کی ٹارگیٹ کلنگ ہورہی ہے، کیا اس کے خلاف آپ نے کوئی پوسٹ کی اور کیا آپ نے اپنے پاکستانی دوستوں سے پوچھا کہ کیوں نہیں کی؟
ظاہر ہے ہر شخص ہر سانحے پر بول نہیں سکتا، بطور خاص اتنے بڑے ملک میں ، جہاں ہر روز بیسویں چھوٹے بڑے سانحات جنم لیتے ہوں، لیکن میں آپ سے اس لیے اس کا اصرار کررہا ہوں کیوں کہ آپ نے اردو ادیبوں کو مومیتا دیب کے واقعہ پرہی تو گھیرا ہے اور فیس بک پر پوسٹ لگا کر اردو کے ادیبوں کے ردعمل نہ کرنے پر ہی انھیں لتاڑا ہے، چنانچہ اب میرا یہ پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ آپ نے کن کن واقعات و حادثات پر پوسٹ لگائی اور احتجاج درج کیا؟ اگر نہیں کیا، تو پھر کیا ضروری ہے کہ آپ جس واقعے اور حادثات پر فیس بک پر پوسٹ لگا کر مزاحمت کریں، اس پر اردو کے تمام ادیبوں کے لیےلازم ہو جاتا ہے کہ وہ آپ کی امامت میں یہ فرض کفایہ ادا کریں؟ ('لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا')
خیر، آپ کو پاکستانی ادیب، ہندوستانی ادیبوں کے مقابلے میں بڑے باخبر لگتے ہیں بلکہ حساس بھی جہاں 'ہم سب' اور 'تجزیات آن لائن' جیسی انٹرنیٹ میگزن بھی ہیں جو ہندوستان میں بقول آپ کے ناپید ہیں۔ خیر اس کا ایک مختصر جواب تو وہی ہے جو ابرا رمجیب نے آپ کی پوسٹ پر دیا تھا: " پاکستان کا اردو معاشرہ سماجی اور سیاسی معاملات پر کھل کر اظہار رائے پیش کرتا ہے تو اس کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ جو معاشرہ سماجی اور سیاسی طور پر بیدار ہوتا ہے وہ کم از کم پاکستان جیسا ملک نہیں بناتا، میرا مطلب ہے فوجی آمریت اور اسلامی دہشت گردی اس ملک کا مقدر نہیں ہوتی۔ "
حالاں کہ یہ جواب آپ کے لیے کافی سے زیادہ ہونا چاہیے لیکن چلیے میں اسے ذرا پھیلا کر آپ کو سمجھاتا ہوں۔ آپ دراصل ہندوستانی ادیبوں /مسلمانوں کو ان کے اپنے ان حقیقی مسائل کو چھوڑ کر پاکستانی ادیبوں/مسلمانوں کے مسائل کے ساتھ خلط ملط کررہے ہیں اور اسی بنیاد پر جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان یا ادیب مولوی پر، مدرسے پر، اسلامی شعائر وغیرہ پر پاکستانیوں کی طرح سوال کیوںنہیںکھڑے کرتے تو آپ کنفیوز ہوکر سوچنے لگتے ہیں کہ ہو نہ ہو ہندوستانی مسلمان بے حس ہیں، مذہبی ہیں، تنگ نظر ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن آپ بھول جاتے ہیں کہ ہر خطہ کے جغرافیائی مسائل بھی ہوتے ہیں جو دوسروں سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ مثلاً پاکستان ایک اسلامی ملک ہےجس نے اسلام کا 'تجربہ' کرلیا ہے، اور اب اسی تجربے سے ان کی غیر اطمینانی کا سرچشمہ پھوٹا ہے۔ جب کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں ہندو اکثریت کا غلبہ ہے، لہٰذا ہندوستانی مسلمانوں یا اردو ادیبوں کے سامنے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔آپ ایک چھوٹی سی بات سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ پاکستان کے قومی مسائل ہندوستان کے قومی مسائل سے الگ ہیں۔ وہاں اگر مسلم فرقہ واریت مسئلہ ہے تو ہندوستان میں ہندو فرقہ واریت۔ اسی اعتبار سے احتجاج اور مزاحمت کاپیٹرن اور ان کا ہدف بھی تبدیل ہوگا۔ اگر یہاں کا اقلیتی مسلمان جبر اور مظالم کے زیر اثر مذہب اور مذہبی شناخت میں پناہ تلاش کررہا ہے تو اس کی جغرافیائی اور سیاسی مجبوری ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو CAA/NRC کی دھمکی سے پیداشدہ بےدخلی اور بے مکانی کا وہ خوف نظر نہیں آتا جس کی منزل ڈٹینشن سنٹر ہے۔ موقع ملے تو کبھی آسام کےڈٹینشن سنٹر سے پاکستان کو دیکھنے کی کوشش کیجیے گا تو شاید سمجھ میں آجائے کہ اپنے ہی ملک کی برسر اقتدار حکومت کے خلاف بوڑھی اور جوان عورتوں نے شاہین باغ کیوں سجایا تھا؟ تب شاید آپ کو علم ہو کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر پولیسیانہ قہر ٹوٹنے کے خلاف اس ملک کے مسلمان اور ہندو دونوں شانہ بشانہ سڑک پر کیوں اترے تھے؟ تب شاید آپ کومعلو م ہوجائے کہ دہلی فسادات اور لکھنؤ کا بلڈوزر راج ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں جن پر اس ملک کا ہر انصاف پسند شخص اور صرف اردو اخبار ہی نہیں بلکہ وہ انگریزی اور ہندی اخبار بھی چیخ اٹھے جنھیں اب تک سرکار خرید نہ سکی ، ممکن ہے یہ چیخ آپ کو سنائی نہ دی ہو، ممکن ہے آپ کسی پاکستانی چیخ کے انتظار میں کان لگائے بیٹھے ہوں۔شاید اسی لیے آپ اس جغرافیائی فرق کی تحلیل نفسی نہیں کر پا رہے ہیں کہ ہندوستان میں مودی، بھاجپا اور فرقہ پرست ہندوتوا وادی وہی مسئلہ ہیں جو پاکستان میں مولوی اور 'ریاست مدینہ' کی تنگ نظری۔ فریقین کے ساتھ ساتھ مسائل کے چہرے بھی بدل گئے ہیں لیکن درحقیقت چیلنج
ایک ہی ہے یعنی اقتدار کے خلاف قطار بند ہونا۔ پاکستان میں مولوی مقتدر اعلیٰ ہے جب کہ ہندوستان میں ایک فرقہ پرست پارٹی اقتدارمیں ہے۔
آپ کی اپنی بے خبری کا عالم یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پاکستان جیسا کوئی آن لائن میگزین نہیں ہے اور یہ کہ یہاں کے اردو اخبار صرف مسلمان مسلمان کرتے رہتے ہیں۔ اس سے کسی کو بھی یہ یقین ہوجائے گا کہ آپ نے ہندوستان کی تمام میگزین کو ضرور دیکھا ہوگا یا ان کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ پھر تو آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا آپ نے' ممبئی اردو ٹائمز 'کے کل کا اداریہ پڑھا جو مومیتا دیب کے سانحے کی مذمت پر ہی مبنی ہے؟ پھر تو آپ سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا آپ نے انٹرنیٹ پرہندوستان سےجاری ان اخبارات ا ور میگزین پر نظر ڈالی: 'آواز دی وائس'، 'نیوز 18' ،'ہندوستان ایکسپریس'، 'تاثیر ڈاٹ کوم'، 'اخبار مشرق'، 'ہندوستان سماچار'، 'سچ بات ڈاٹ اِن'، 'سیاست ڈاٹ کوم'، 'لازوال ڈاٹ کوم'، 'دی وائر اردو'، 'ساحل آن لائن'، 'روزنامہ سہارا' وغیرہ وغیرہ۔ واضح رہے کہ یہ سب اردو کے ہی اخبارات یا آن لائن میگزین ہیں جن میں سے کئی اخباروں نے اس سانحے پر اداریے لکھے، تفصیلی تجزیہ پیش کیا، اور کئی نے اس سانحے پر ہونے والی پروگریس رپورٹ بھی پیش کی۔ آپ نے دیکھا جس بے خبری کا الزام آپ اردو اہل قلم اور صحافیوں کے سر منڈھ رہے تھے، وہ اب آپ کی بے خبری پر سوالیہ نشان ثبت کررہاہے۔ آپ کی بے خبری کا یہ بھی عبرت ناک نظارہ ہے کہ آپ فیس بک پراس سانحے کے تعلق سے اردو ادیبوں اور صحافیوں کے ردعمل تک سے انجان ہیں اور سب کو ایک قطار میں کھڑا کرکے 'بے حسی' کی گولی ماردیتے ہیں، جب کہ آپ بھی شاید جانتے ہیں کہ پورے فیس بک میں ہونے والی سرگرمی سے آپ واقف کبھی نہیں ہوسکتے چونکہ فیس بک بھی پاکستان سے بہت بڑا ہے اور ایلگوردم کا راج چلتا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ مجھے احمد نعیم (فیس بک)، رضوان الدین فاروقی (انسٹا گرام)، علیزے نجف (فیس بک)، حمیراعالیہ (فیس بک)،رمیشا قمر (فیس بک)، نوشاد مومن (فیس بک) وغیرہ اس سانحے پر مذمت کرتے نظر آئے اور انھوں نے آپ سے پہلے مذمت کی۔آپ اپنے اطمینان کے لیے ان حضرات اور اخبارات کی 'باخبری اور باضمیری' کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، پھر شاید آپ اپنی ویڈیو والی پوسٹ کی طرح ہی تازہ پوسٹ کو بھی ڈیلیٹ کرنے کی سوچنے لگیں۔
اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی لیکن اہم بات یہ بھی ہے کہ زبان کے معاملے میں بھی پاکستان کی طرح ہندوستان یک رنگا نہیں ہے۔ پاکستان کی طرح اردو ہندوستان کی قومی زبان نہیں ہے اور یہاں کابیشتر مسلمان (اس میں اردوادیبوں کو بھی شامل کرلیں) کم از کم سہ لسانی ہے:اردو، ہندی اور انگریزی، مقامی زبانیں اس کے سوا ہیں۔ مثال کے طور پر فاروقی اردو کے ادیب تھے، لیکن وہ اکثر سماجی، سیاسی اور ثقافتی مضامین انگریزی اخباروں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ اچھا فاروقی کو چھوڑیں، علی گڑھ کے پروفیسر سجاد کو لے لیں، ان کے انگریزی آرٹیکل آپ نے پڑھے ہیں جو خود اپنے ادارے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی، مسلم پرسنل لا ، اوقاف وغیرہ پر جیسے ڈھیروں موضوعات پر مبنی ہیں؟ ظاہر ہے نہیں پڑھے ہوں گے چونکہ وہ ملک کے تقریباً تمام اہم انگریزی اخبارات اور انٹرنیٹ میگزین کے لیے لکھتے ہیں۔ کیا آپ نے پروفیسر ہلال احمد کے مضامین پڑھے ہیں، جن کا بنیادی موضوع مسلمانوں کے اطوار، تاریخ اور سیاست کی معروضی تنقید پر ہی مبنی ہوتے ہیں؟ اگر اب تک نہیں پڑھا ہے تو میں ان کے کئی مضامین اثبات کے آئندہ شمارہ 'نیا ہندوستان پرانا مسلمان' میں شائع کررہا ہوں، پڑھ لیجیے گا۔ حیدر عباس کو بھی غالباً نہیں پڑھا ہوگا جو لکھنؤ میں مقیم ہیں اور اپنی کمیونٹی کی سیاسی قیادت اور رجحانات پر لکھتے ہیں۔ اچھا مالک اشتر تو آپ کے دوست ہیں،جو مسلمانوں کی نفسیات، ان کے رجحانات، ان کی معاشرت، حتیٰ کہ ان کی مذہبیت پر بھی تنقیدی مضامین لکھتے رہے ہیں جن میں سے کئی 'ہم سب' میں شائع ہوئے اور' اثبات' میں بھی مل جائیں گے۔ اس کے علاوہ نایاب حسن کی متنوع انٹرنیٹ اردو میگزین 'قندیل' بھی شاید آپ نے دیکھ کر نظر انداز کردیا ہوگا ورنہ آپ کو علم ہوتا کہ کتنی عرق ریزی سے وہ معاصر اور اہم موضوع پر مضامین اکٹھے کرتے ہیں، ان کے ترجمے کرتے ہیں اور شائع کرتے ہیں، ان کی ایک ترجمہ شدہ کتاب جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہے جو ہندوستانی مسلمانوں پر عبدالرحمٰن صاحب (سابق آئی پی ایس) کی انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے۔
اچھا ، شاید آپ نے Beyond the Headlines نامی ہندوستانی انٹرنیٹ میگزین کا نام تک نہ سنا ہو جسے علی گڑھ کے ہی کچھ سابق طلبا آپریٹ کرتے ہیں جن کے روح رواں افروز عالم ساحل ہیں جو اپنے اس انٹرنیٹ میگزین کے ذریعہ پسماندہ مسلمانوں، وقف بورڈ، حج کمیٹی اور دیگر اقلتیی اداروں کی بدعنوانیوں کے ساتھ ساتھ مسلم اور ہندو فرقہ واریت دونوں سے لوہا لیتے ہیں اور جن کے کارناموں کا ریفرنس پارلیمانی مباحث میں بھی شامل ہوتا ہے اور غیر ملکی اہم اخبار اسے مقتبس بھی کرتے ہیں۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کی تنگ نظری بھی پاکستانی معاشرے کی سی ہے جن کے اردو اخبار بلوچستان اور جبری گمشدگی کے خلاف خاموش ہیں اور جو صرف 'سر تن سے جدا' کرنے والوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔
خیر، باتیں کافی ہیں، اب میں سمیٹتا ہوں۔ آپ نے اثبات کو ہندوستان کا بہترین رسالہ کہا، اس کے لیے شکرگزار ہوں لیکن ظاہرہے کہاہے تو اس کی کچھ وجہیں بھی ہو ں گی۔ آپ نے مزاحمت نمبر کے حوالے سے فرمایا؛ "سیاست اور سماج سے بے گانگی کا عالم یہ ہے کہ ابھی ہمارے وقت کے سب سے بہترین ادبی رسالہ اثبات نے جب اپنا مزاحمت نمبر نکالا تو اس میں نوے فی صد مواد ہندی انگریزی کے تراجم تھے یا پاکستان کے آنلائن رسائل سے ماخوذ مضامین۔"
آپ کے اس طنز لطیف سے قطع نظر ، ایک سوال کرنے کا دل کرتا ہے کہ کیا پاکستان اور ہندوستان کے کسی اردو رسالے نے مزاحمت پر اتنا وقیع شمارہ مرتب کیا ہے؟ بھلے ہی 'ہم سب'،' دی وائر'، تراجم یا مطبوعہ چیزوں کو ہی ڈائجسٹ کیا گیاہو، لیکن کیا مزاحمتی ادب اور اس مزاحمت پر گلوبل مباحث کو اکٹھا کرنے پر اتنا وقت خرچ کرنے کی کسی نے زحمت اٹھائی ہے جس میں فلسطین ، امریکہ اور بوسنیا وغیرہ کے ساتھ ساتھ بلوچستان، کشمیر اور ہندوستانی خطے میں ہونے والے سرکاری مظالم کی بھی مزاحمت ہو؟ کیا آپ کی نظر سے پاکستان کے کسی رسالے بشمول 'ارتقا' کاکوئی ایک شمارہ نظروں سے ایسا گزرا ہے جس میں پاکستانی مولویوں کی بچہ بازی،آنر کلنگ' پاکستانی انتظامیہ اور عدلیہ کے خلاف اسی طرح مزاحمت موجود ہو جس بے باکی سے ہم نے ہندوستانی حکومت کے خلاف ہی نہیں بلکہ یہاں کی مسلم فرقہ واریت کے خلاف بھی مزاحمت کی ہےِ، کیا آپ نے کبھی بلوچستان پر ہونے والے مظالم پر پاکستان کے کسی ادبی پرنٹ میڈیا میں کوئی خاص شمارہ دیکھا ہے؟
دو چار غزلیں، چار پانچ نظمیں، ایک دو مضامین، دو افسانے، تین روایتی قسم کے تبصرے تو کوئی بھی ایڈیٹر اکٹھا کرکے اپنی روزی حلال کرسکتا ہے لیکن اپنی راتوں کی نیند اور دن کا سکون حرام کرکے کسی ایک موضوع پر سینکڑوں متعلقہ کتابوں، ویب سائٹس اور رسائل و اخبار کو تلاش کرنا، انھیں حاصل کرنا، ان کے سینکڑوں نہیں ہزاروں صفحات کو الٹنا پلٹنا، انھیں پڑھنا، پھر ان ہزاروں صفحات میں سے صرف آٹھ نو سو صفحات کا انتخاب کرنے کی اذیت سے صرف وہی لطف اندوز ہوسکتا ہے جو تحقیق کے ہنر سے واقف بھی ہو اور اسے مزہ بھی آتا ہو۔ 'نقوش' پاکستان کو تو جانتے ہوں گے آپ؟ محمد طفیل صاحب اس کے ہر موضوعی شمارے کے لیے پہلے تحقیق ہی کیا کرتے تھے، پھر ان کا انتخاب کرکے اسے ترتیب دیتے تھے، ممکن ہے 'رسول نمبر' جیسا کئی جلدوں والا شہرۂ آفاق شمارہ بھی آپ کی نظروں میں صرف لفظ 'ڈائجسٹ' میں ہی سماجائے۔ خیر، جانے دیجیے، میں کسی بھی ایسی بات کا برا نہیں مانتا جو اپنی محدود سوچ کے سبب کی گئی ہو یا جو لفظ 'تحقیق' کو 'ڈائجسٹ' کا نعم البدل تصور کرتا ہو۔
مجھے افسوس ہے کہ آپ کی تجویز کردہ 'میاں پوئٹری' میں نے شامل اشاعت نہیں کی اور ارادتاً نہیں کی چونکہ میں ہنگامہ اور ادب، نعرہ اور ادب کے درمیان فرق کرنا جانتا ہوں جس کے لیے ایک بار پھر میں آپ کو اپنا اداریہ اور مزاحمت نمبر میں شامل مضامین پڑھنے کی زحمت دوں گا تاکہ مجھےاپنی بات نہ دہرانی پڑے۔
آپ فرماتے ہیں:" لہٰذااردو میں سماجی، سائنسی، ثقافتی، مذہبیاتی، عمرانی...تمام طرح کی فکری بحثیں ختم ہو گئیں۔ بچ گئی صرف تحقیق اور تنقید۔ ایک سے بڑھ کر ایک ادبی رسالے نکلے مگر یہاں سے کبھی ارتقا جیسا رسالہ نہیں نکلا جس میں کچھ فکر و نظر کی باتیں ہوں۔ یہاں تو کوئی 'ہم سب' یا 'تجزیات' جیسا آنلائن میگزین بھی نہیں۔"
سب سے پہلی بات یہ کہ یہاں بھی مقدمہ غلط ہے۔ ادبی رسالہ ظاہر ہے ادب ہی چھاپے گا، لیکن آپ اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہاں رچرڈ ڈاکنز کے ساتھ گولی واجد علی شاہ بھی مل جائے،یا 'شعر شور انگیز' کے ساتھ 'مرنے کے بعد کیا ہوگا' پر تبصرہ بھی مل جائے۔'ذہن جدید' نے اس طرح کا تجربہ کیا تھا اور اس کے ہر شمارے میں فلم، مصوری، ثقافت، سیاست، موسیقی پر کچھ ویکیپیڈیائی معلومات شامل کرکے خانہ پُری کی جاتی رہی ہے۔ اب آجائیے 'اثبات ' کی طرف، بطور خاص اس کے دور دوم یعنی شمارہ نمبر 16سے شمارہ نمبر41تک، تو میں اگر بہت زیادہ کسر نفسی سے کام بھی لوں تو اعداد و شمار یوں بنتے ہیں:
سائنس: 22مضامین
ثقافت: 18مضامین
فلم: 12مضامین
موسیقی:8 مضامین
مصوری:4 مضامین
سیاست:38 مضامین
جنس:16 مضامین ( 'ہم جنسیت' پرایک پورا شمارہ اس سے سوا ہے۔)
مذہب:42 مضامین ('احیائے مذاہب' کی تین ضخیم جلدیں اس سے سوا ہے۔)
اس کے علاوہ 'ادب میں عریاں اور فحش نگاری'، 'سرقہ نمبر'، 'تراجم نمبر'، 'مزاحمت نمبر' اور اب آئندہ شمارہ 'نیا ہندوستان پرانا مسلمان' یعنی ہندوستانی مسلمان نمبر۔ ذرا اپنی پاکستانی فائل ٹٹولیں اور بتائیں کہ کس ادبی رسالے بشمول 'ارتقا' نے ایسا تحقیقی کام کیا ہے؟ پھر ایک سوال تو اور بھی رہ جاتا ہے کہ آپ خود 'آجکل' کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، آپ نے اپنے 'دور اقتدار' میں کتنے مضامین فلموں، موسیقی، مصوری، سیاست، جنس، مذہب، ثقافت وغیرہ پر شائع کیے؟
خیر، اب چونکہ میری انگلیاں ٹائپ کرتے کرتے اکڑ گئی ہیں ، اور آپ بھی پڑھتے پڑھتے تھک گئے ہوں گے ،اس لیے بہتر ہوگا کہ اس سلسلے کو یہیں ختم کیا جائے۔ یوں بھی آپ کی دوستی اور آپ کا وقار میرے لیے محترم ہے۔ اسے صرف آپ اپنے اختلاف کا اختلاف سمجھیں کہ لفظ اختلاف یک ضربی نہیں ہوتا، اس کے ردعمل کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں اس ردعمل میں ایک بھی بات میں نے 'ذاتی' نہیں کی، ساری باتیں آپ کے اعتراضات کے محور پر ہی گھومتی رہیں، ہاں یہ ممکن ہے کہ میرا لہجہ تھوڑا اوپر نیچے ہو گیا ہو جو عموماً اس طرح کے مکالموں میں ہوجانا فطری ہے لیکن اس شائستگی کی جس کی مجھ سےآپ توقع کرتے ہیں، اسے میں نے اپنی دانست میں برقرار رکھا ہے، البتہ میرا اسلوب وہی جانا پہچانا ہے۔ میں نظریاتی اختلافات کو اس طرح ذاتی نہیں بناتا جس طرح مثلاً آپ نے راجندر یادو والی میری پوسٹ کو اپنے دل سے لگا لیاتھا اور پھر مجھے فیس بک سے 'انفرینڈ' کرکے مجھے تقریباً چونکا دیا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک کمیٹیڈ ادیب میں 'اختلاف رائے' کو برداشت کرنے کا اتنا بھی یارا نہیں۔ خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اشعرنجمی شروع ہی سے 'ایکلا چلو رے' کا نعرۂ مستانہ لگاتے ہوئے ہر ندی پہاڑ سے گزرتا چلاآیا ہے۔
بہرحال اس پوسٹ میں میری ہر تفصیل ، ہر تنقید، ہر حوالہ آپ کی پوسٹ میں اٹھائے گئے سوالوں اور تشویشات پر ہی مرکوز ہیں ، چونکہ میں اب 'اونٹ' پر مضمون لکھتے ہوئے 'گائے' پر مضمون لکھنے کی غلطی کرنا چھوڑ چکا ہوں۔
اشعر نجمی |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں