ایک مذاکرہ کے بہانے - اشعر نجمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-29

ایک مذاکرہ کے بہانے - اشعر نجمی

aik-muzakarah-ke-bahane-ashar-najmi

شمس الرحمٰن فاروقی نے ایک بار جب یہ کہا تھا کہ نئے لکھنے والوں کو اپنا نقاد لانا چاہیے تو اس پر کافی واویلا مچا تھا، لیکن کسی نے اس مطالبے کے بین السطور میں پوشیدہ آڈن (Auden) کے فقرے کی گونج نہیں سنی کہ کوئی نسل اس وقت تک جدید نہیں کہلا سکتی جب تک وہ اپنی فوری پیش رو نسل کو مسترد نہ کرے۔
گویا فاروقی کہہ رہے تھے کہ اگر نئی نسل یہ سمجھتی ہے کہ اس کے مسائل، موضوعات، نظریۂ حیات، تخلیقی طریقہ کار جدیدیوں سے مختلف ہیں بلکہ اس سے سوا ہیں تو پھر ظاہر ہے اس کے تنقیدی اوزار بھی مختلف ہوں گے یا ہونے چاہئیں۔ لیکن افسوس، فاروقی کے اس 'چیلنج' کا جواب اب تک اردو تنقید پیش نہیں کرپائی ہے، وہ اب بھی ترقی پسند تنقید اور جدید تنقید کے قبلے کے چاروں طرف طواف کر رہی ہے بلکہ اکثر دونوں کے ملغوبے کا بقدر ضرورت استعمال کرتی رہی ہے۔ یہ صورت حال اس وقت زیادہ پریشان کن محسوس ہونے لگتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جدیدیوں کی صفوں کو توڑتے ہوئے کئی فن پارے آگے نکل جاتے ہیں اور اپنی خاموش زبان سے چیخ چیخ کر نئے نقادوں کو اپنے اوزاروں پر نظر ثانی کرنے کے لیے للکارتے ہیں۔
انھیں کچھ تخلیق کاروں میں ایک نام خالد جاوید کا ہے۔ خالد جاوید کا پہلا ناول 'موت کی کتاب' کو میں اردو فکشن کے تناظر میں 'جدیدیت ' کے خاتمے سے تعبیر کرتا ہوں۔ یہ اردو فکشن کا وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے پہلی بار ہمیں 'تنگنائے تنقید' کا احساس دلایا۔ اگرچہ فاروقی نے اس ناول پر میری ہی فرمائش پر ایک طویل مضمون لکھا اور اچھا لکھا ('اثبات':10) لیکن آپ اس مضمون کو پڑھ چکے ہوں تو پھر ایک بار پڑھ ڈالیے، چند باتیں چھوڑ کرآپ کو محسوس ہوگا کہ وہ خالد جاوید کے ناول کی متن کشائی میں جدیدیوں کے پرانے اوزار کو ناکافی سمجھ رہے ہیں، مثلاً انھوں نے اپنے مضمون کی ابتدا ہی کچھ اس طرح کی ہے:
"خالد جاوید کے بارے میں کچھ لکھنا اس لیے مشکل ہے کہ اگر ہم ان کے افسانے کے معنی بیان کرنے سے بات شروع کریں تو ان کی نثر دامن گیر ہوتی ہے کہ پہلے ہم سے معاملہ کرو۔"
یعنی ان کے ایک طرف تو انتظار حسین کی سادہ اور ہر قسم کی تزئین کے بوجھ سے عاری لیکن پُر فریب نثر تھی تو دوسری طرف انور سجاد کی بے حد مرتب اور منظم نثر تھی اور تیسری طرف نیر مسعود کی بظاہر سادہ لیکن رواں نثر تھی۔ ظاہر ہے جدید نثر کے ان تین بڑے ستونوں سے بالکل مختلف نثر خالد جاوید کی ہے جس کی پرتیں کھولنے کے لیے فاروقی کا سنبھلنا فطری تھا۔ کہتے ہیں:
"خالد جاوید کی نثر ان تینوں سے مختلف ہے۔ بناؤ اور تزئین کی کوشش یہاں بھی نہیں ہے،لیکن ان کے افسانے کی فضا، اور اس کے کردار اور واقعات ، طرح طرح کی ناپسندیدہ با توں سے بوجھل ہیں،اور یہ سارا بوجھ ان کی نثر اٹھاتی ہے۔"


فاروقی نے خالد جاوید کی نثر اور ان کی تخلیقی کارگزاریوں پر جو طویل مضمون لکھا ہے اسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کے اس چیلنج کا جواب جس کا ذکر میں نے مضمون کی ابتدا میں کیا ہے، 'موت کی کتاب' آج سے گیارہ برس قبل دے چکی تھی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ہمارے نقاد نہیں دے پائے۔ اب تک ہمارے ناقدین (چند مثتثنیات کو چھوڑ کر) نے نقد افسانہ کے باب میں 'پلاٹ سمری' (Plot Summery) پیش کر کے اپنے مضمون کو حجم دینے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ دوسروں کی بات چھوڑیے، فضیل جعفری ایک پڑھے لکھے نقاد تھے اور میں انھیں جدید ناقدین میں وارث علوی سے کچھ اوپر ہی رکھتا ہوں۔ لیکن ان سے بھی جب میں نے صدیق عالم کے افسانوں کا جائزہ لینے کی فرمائش کی تو انھوں نے بھی 'پلاٹ سمری' پیش کی اور سماج کی عکاسی وغیرہ کہہ کر دامن چھڑا لیا جو ترقی پسندوں کے پسندیدہ اوزار تھے۔ ان اوزاروں کا استعمال کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن آپ اول تو ان کا استعمال ہر قسم کے متن پر نہیں کرسکتے اور دوم یہ کہ اس سے مخصوص فن پارے کی قدر کا تعین نہیں ہوسکتا۔ جوزف براڈسکی نے ایک بار کہا تھا کہ زندگی کے عام حالات میں آپ ایک لطیفے کو تین بار سنا کر لوگوں کو تین بار ہنسا کر جان محفل بن سکتے ہیں لیکن ادب میں اسی فعل کو از کار رفتہ یا کلیشے کہتے ہیں۔پریم چند سے لے کر مشرف عالم ذوقی تک یہ 'لطیفہ'(سماج کی عکاسی یا نمائندگی) اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ اب اس پر ہنسنا تو کجا، رونے کا بھی جی نہیں چاہتا۔ ہمارے ہر افسانہ نگار میں 'گہرا سیاسی ، سماجی ، ثقافتی اور معاشی شعور' مل جائے گا تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اس مخصوص فن پارے یا فن کار کا نقطہ امتیاز کیا ہے؟


گفتگو طویل ہوجائے گی جسے کسی اور روز کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
لیکن جن باتوں کا ذکر اوپر میں نے کیا ہے ، اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ خالدجاوید کے فکشن پر گفتگو کرنے کے لیے تادم تحریر ہمارے پاس نئے تنقیدی اوزارنہیں ہیں، چونکہ انھوں نے اپنے نقادوں اور مبصروں کے لیے پلاٹ سمری پیش کرنے کی عیاشی کی راہیں مسدود کررکھی ہیں اور دوم یہ کہ وہ بورخیس کی طرح نامانوس کو مانوس بنانے اور پھر مانوس کو نامانوس بنانے کے باب میں ایک بے مثال کاریگر ہیں۔ اور اس کے لیے وہ بورخیس ہی کی طرح فکشن لکھنے کا روایتی ڈھانچہ بآسانی توڑتے چلے جاتے ہیں ؛ پلاٹ غائب، جیتے جاگتے کردار غائب، آغاز وسط اور انجام کا ارسطوئی نظام غائب؛ جس سے پروفیسر سرور الہدیٰ جیسے قارئین بوکھلا جاتے ہیں جو اب تک ڈپٹی نذیر احمد کے دور میں شاید جی رہے ہیں اور جو اب بھی شاید ای۔ایم، فورسٹر کے Aspects of the Novel پر تکیہ کیے ہوئے ہیں جو 1927 میں لکھی گئی تھی اور جس کے بعد دنیا کی ہر شے کے ساتھ ناول میں انقلاب آفریں تبدیلی آچکی ہے۔
خیر، ہم سرور الہدیٰ صاحب کے مزعومات پر آگے تفصیل سے بات کریں گے، فی الحال ہم اس آن لائن مذاکرے میں شریک ہوتے ہیں جو خالد جاوید کے تازہ ترین ناول 'ایک خنجر پانی میں' کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی نے آن لائن منعقد کیا تھا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ خالد جاوید بھی اسی تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں، اس لیے اس موقر ادارے کے شعبہ اردو نے اپنے ساتھی پروفیسر کے اعزاز میں یہ محفل منعقد کی تھی۔ اس پروگرام کے اعلان کے بعد بنگال کے ایک نومولود ناول نگار نے خالد جاوید پر طنز کیا تھا کہ اس محفل میں 'سارے پروفیسر ہی ہیں۔' یہ طنز تقریباً اسی طرح کا تھا جیسا کچھ دنوں قبل لکھنؤ کے ایک نومولود ناول نگار نے میرے ناول پر خالد جاوید اور صدیق عالم کے تبصرے پر کیا تھا کہ 'یہ لوگ مصنف کے میکے والے ہیں۔' میں اپنا جواب اسی وقت دے چکا تھا، خالد جاوید پر کیے گئے طنز کا جواب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 'ڈین' اسدالدین صاحب نے دیا کہ اکثر ہم اپنے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کام کرنے والوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتےجب کہ یہ ہماری یونیورسٹی کے برانڈ ایمبیسڈر ہوتے ہیں۔ مجھے یہاں ایک بات اور یاد آتی ہے کہ سید محمد اشرف صاحب کا ناول 'آخری سواریاں' جب ریلیز ہوا تھا تو ان کے کسٹم ڈیپارٹمنٹ نے اس ناول پر مذاکرہ رکھا تھا۔ ممکن ہے بنگال کے نومولود ناول نگار جہاں کام کرتے ہیں، وہاں ان کے کولیگ بھی انھیں خاطر میں نہ لاتے ہوں جس کا مجھے سخت افسوس ہے۔


اس مذاکرے میں پہلی بار میری کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو ان تنقیدی اوزاروں سے لیس تھے ، جن سے ہمارے پیش رو نقاد محروم نظر آتے ہیں۔ پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر نیرج کمار، پروفیسر نجمہ رحمانی اور بطور خاص پروفیسر سونیا سوربھی گپتا جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہی اسپینش اور لاطینی امریکی اسٹڈیز کے شعبے میں پڑھاتی ہیں ، اتنا ہی نہیں بلکہ گبرئیل گارسیا مارکیز پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان کا ایک پیپر کچھ دنوں پہلے ہی جمع کیا گیا ہے۔ یہ چاروں شرکا اس مذاکرے کا حاصل تھے۔


شافع قدوائی کو میں نے زیادہ نہیں پڑھا لیکن پڑھا ضرور ہے اور جتنا پڑھا ہے وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان کے تبصرے اور تنقید میں روایتی تنقیدی عناصر بہت کم ہوتے ہیں اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اردو کے 'برانڈیڈ نقادوں' میں اس طرح شمار نہیں کیے جاتے جس طرح ان کا حق ہے۔ ان کا تدریسی شعبہ بھی علیحدہ ہے، اگر شعبہ اردو ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ بھی پروفیسر سرور الہدیٰ کی کاپی ہوتے۔ لیکن شافع قدوائی کے کسی بھی کالم یا مضمون کا صرف ایک پیراگراف آپ کو بتا اور جتا دیتا ہے کہ مضمون نگار کی دلچسپی کی جولان گاہیں مختلف ہیں اور ان کی فکری ترجیحات بھی الگ ہیں۔


شافع قدوائی نے'ایک خنجر پانی میں' پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وبا اصل دنیا کی پیروڈی ہے اور اسی کے گرد پورا ناول گردش کرتا ہے۔ پانی جو آب حیات ہے، وہ کیسے باعث ہلاکت بن سکتا ہے، خالد جاوید کے اس ناول کا مرکزی خیال کہا جا سکتا ہے۔ شافع قدوائی اس تمہید کے بعد آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک یوٹوپیا ہوتا ہے جس میں ایک ایسی خیالی دنیا کا تصور ہوتا ہے جس میں ہر شے پرفیکٹ یا کامل ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف ایک ڈس ٹوپیا (Dystopia) ہوتا ہے، یہ بھی خیالی ہوتا ہے لیکن یوٹوپیا کے برعکس یہ دنیا تمام برائیوں، گندگیوں اور نا انصافیوں کا مرکز ہوتی ہے بلکہ مطلق العنان ہوتی ہے۔'ایک خنجر پانی میں' ڈس ٹوپیا پر محیط ہے۔ اس ناول میں ایک پانی کا ایشو اٹھا کر انسانی وجود اور سائیکی پر سوالیہ نشان ثبت کیا گیا ہے۔ شافع قدوائی نے ایک مزے کی بات مسکراتے ہوئے کہی کہ ناول کی جزئیات یا اس میں ہو رہے 'ایکشن' وغیرہ کی تفصیلات اخباری رپورٹروں کی دلچسپی کا باعث ہوسکتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ ناول اس لیے اہم ہے چونکہ یہ ناول اخلاقی اور مذہبی تناظر سے ہٹا کر وبا کو ایک انسانی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ان کا اشارہ ماضی قریب و بعید میں وبا کے اثرات کی جانب تھا، مثلاً :
'زمانۂ قدیم میں،جب آتشک کا مرض لامعلوم تھا، بدن کے چھالوں اور نہ بھرنے والے زخموں کو ہمیشہ جذام سے تعبیر کیا جاتا تھا اور مشرق و مغرب دونوں میں جذام کو عذاب خداوندی تصور کیا جاتا تھا،اور جذام کے مریض کو بقیہ آبادی سے الگ کر دیا جاتا تھا۔جذام کو گناہ کا ثمرہ قرار دیاجاتا تھا۔'
اور پھر زمانۂ قدیم ہی کیوں، حالیہ وبا کورونا وائرس کے نزول کا سبب بھی بعض مذہبی حلقوں کے طرف سے عذاب الٰہی ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں خالد جاوید کا ناول 'ایک خنجر پانی میں' اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے چونکہ یہ انسانی وجود کے اندر اس پوشیدہ سیاہ دھبے کو کسی محدب شیشے کی طرح بڑا بنا کر قارئین کے سامنے پیش کردیتا ہے جو اس کے وجود کا ہی حصہ ہے لیکن جسے ہر انسان عموماً اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے۔ شافع قدوائی نے دوران گفتگو میرے ناول 'اس نے کہا تھا' کا بھی ذکر کیا جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔


لیکن شافع قدوائی کی اس گفتگو کو مزید وسعت دیتے ہوئے پروفیسر سونیا سوربھی گپتا اور نیرج کمار نے 'ایک خنجر پانی میں' کو سیاسی ناول قرار دیا بلکہ پروفیسر سونیا نے اس ناول کو 'پلیگ' اور مارکیز کی 'وبا کے دنوں میں محبت' سے موازنہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے دلائل کی روشنی میں حوزے ساراماگو کی 'بلائنڈنس' کے قریب بتایا۔ لیکن یہ لمبی گفتگو ہے، اس پر ہم کل بات کرتے ہیں۔


دوسری قسط

جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی) کا یہ مذاکرہ کئی اعتبار سے اُن آن لائن مذاکروں سے منفرد تھا جو گزشتہ کئی برسوں سے webinar کے نام سے ہمارے روبرو ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے سبب ان میں تیزی آئی ہے۔ اب 'عظیم الشان مشاعرے' اور 'بین الاقوامی سیمینار' چٹکی بجاتے ہی منعقد ہوجاتے ہیں جنھیں برپا کرنے کے لیے کبھی لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے تھے۔لیکن گزشتہ دو سالوں میں میری نظروں سے صرف دو ایسے آن لائن مذاکرے گزرے ہیں جنھیں میں سچ مچ اس آن لائن ٹرینڈ کا ثمرہ کہہ سکتا ہوں۔ تقریباً دو ماہ قبل بہاالدین ذکر یا یونیورسٹی (ملتان) نے 'ترجمہ اور بین الثقافتی مطالعات' کے نام سے ایک مذاکرہ منعقد کیا تھا جس میں دنیا بھر کے مترجم، دانشور ، اساتذہ اور ادیب شریک ہوئے تھے اور موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
دوسرا یادگارآن لائن مذاکرہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تھا جس پر گفتگو جاری ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا یہ مذاکرہ ان معنوں میں بھی منفرد تھا کیوں کہ یہ 'رسم اجرا' کی قسم کا کوئی نمائشی پروگرام نہیں تھا بلکہ اس میں خالد جاوید کے تازہ ترین ناول کے حوالے سے نئے فکشن کے ابعاد و جہات پر اتنی سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کی مدد سے اگر کوئی اسکالر نئے فکشن کی بوطیقا تیار کرنا چاہے تو اسے اس پروگرام سے کافی مدد مل سکتی ہے۔ چونکہ ایک ایسا ناول جس پر لب کشائی کرنے سے پہلے شرکا کے لیے 'ہوم ورک' کرنا ضروری ہو(جس کا اظہار کئی شرکا نے اس مذاکرے میں بھی کیا) ، وہ رسمی اور عمومی مذاکرہ نہیں ہو سکتا تھا۔ 'ہوم ورک' کرنا کوئی بری بات نہیں ہے کہ ہر باشعور نقاد جانتا ہے کہ تخلیق میں چھپنے چھپانے کی تھوڑی بہت تو گنجائش ہو تی ہے لیکن تنقید کھلے میدان میں آنے کا نام ہے جہاں فوراً نظر میں آجاتا ہے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔
ایک کمزور تنقید کسی تخلیق کے صرف ظاہری تزئین و بناوٹ پر فریفتہ ہوجاتی ہے جو تخلیق اور تنقید دونوں کی مشترکہ موت کے مترادف ہے۔ جہاں تن آسان تنقید کو یہ سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں، وہاں اس کی جھنجھلاہٹ کبھی کبھی تخلیق کو خارج کرنے یا اسے نظر انداز کرنے کی یا پھر اسے کمتر قرار دینے کی کوششوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔


اس نہایت ہی اہم مذاکرے کو ترتیب دینے کا سہرا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر شعبہ اردو پروفیسر شہزاد انجم صاحب کے سر بندھتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے لاک ڈاؤن کی اذیت ناک تنہائی کو جشن میں بدل دیا۔ لیکن یہ جشن اس طرح کا جشن نہیں تھا جو عموماً عالمی مشاعروں یا تہنیتی محفلوں کا خاصہ ہوتا ہے بلکہ یہ ادب کے ان فاقہ زدہ تربیت یافتہ قارئین کا جشن تھا جواس خود آرائی، خود پسندی، خود فروشی اور خود نمائی کے دور میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ میں اس فرض کفایہ کو ادا کرنے کے لیے پروفیسر شہزاد انجم کا شکرگزار ہوں کہ ان کا یہ کام ہم فاقہ زدگان کے لیے 'مسیحائی' سے کم نہیں۔ شہزاد انجم صاحب نے نہ صرف اس با وقار پروگرام کو ترتیب دیا بلکہ پورے سیشن کو جس تدبر اور حکمت کے ساتھ رواں رکھا، وہ بھی کم اہم نہیں تھا۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ مشاعروں کے ناظم کے طرح لوگ مذاکروں کو بھی چلاتے ہیں جب کہ اول الذکر کی بہ نسبت مذاکروں کا ماحول الگ ہوتا ہے، اس کے سامعین و شرکا بھی الگ ہوتے ہیں جن کے ذوق کی ضیافت اس طرح ممکن نہیں ہے جس طرح مثلاً مشاعروں کے سامعین و شعرا کی ہو سکتی ہے۔ مذاکروں میں فقرے بازی ، لطیفے اور پھڑکتے ہوئے اشعار کام نہیں کرتے بلکہ اس کا ناظم خود اس موضوع پر دیگر شرکا کی ہی طرح دسترس رکھنے والا ہوتا ہے جس کا کام کلاس روم میں نہ تو حاضری لینے تک محدود ہے اور نہ وہ شرکا کو پاؤڈر اور لپ اسٹک لگا کر سامعین کی 'منڈی' میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح کے سنجیدہ مذاکروں میں ناظم ہر مقرر کے بعد مختصر میں اپنے تاثرات بھی پیش کرتا جاتا ہے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے اس تین گھنٹے کے سیشن کو جس دانشورانہ حسن اسلوبی سے نمٹایا، وہ اس طرح کے سنجیدہ مذاکروں کی نظامت کرنے والوں کے لیے یہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی صفیں درست کریں۔


شہزاد انجم صاحب نے پروفیسر سونیا سوربھی گپتا کا ہم سے تعارف کراتے ہوئے ان کے بارے میں بتایا کہ آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہی ایک شاخ Centre for Spanish and Latin American Studies میں پڑھاتی ہیں۔ پھر خود سونیا گپتا نے دوران گفتگو بتایا کہ گبرئیل گارسیا مارکیز پر ان کا ایک پیپر آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر غور ہے۔ سونیا گپتا بہت اچھی ہندی اور انگریزی بول رہی تھیں لیکن وہ کوشش کررہی تھیں کہ اردو کا استعمال بھی کریں جس سے ان کی گفتگو کی روانی متاثر ہو رہی تھی جس پر وہ بار بار معذرت بھی کررہی تھیں۔ شہزاد انجم صاحب نے انھیں اطمینان دلایا کہ وہ جس زبان میں بات کرنا چاہیں ، کرسکتی ہیں۔ سونیا گپتا نے خالد جاوید کے ناول کا ہندی ترجمہ پڑھا تھا جس کے مترجم رضوان الحق ہیں۔


سونیا گپتا نے ابتدا میں خالد جاوید کے تینوں ناول یعنی 'موت کی کتاب'، 'نعمت خانہ' اور 'ایک خنجر پانی' کو trilogyقرار دیا جیسا کہ خود خالد جاوید اپنے آخر الذکر ناول کو 'موت کی تیسری کتاب' کہہ چکے ہیں۔پروفیسر سونیا گپتا نے کہا کہ ان تینوں ناول کے درمیان ایک رشتہ تو ہے لیکن تینوں کے تخلیقی assets مختلف ہیں۔ اس ناول میں کوئی بظاہر اسٹوری لائن نہیں ہے لیکن اس میں جس طرح پورے شہر کو کنسٹریشن کیمپ (Concentration Camp)میں تبدیل کیا گیا ہے وہ مجھے نازی (ناتسی) کنسٹریشن کیمپ کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے دوران گفتگو ایک چونکا دینے والی بات بتائی جو اس سے پہلے کم از کم میرے علم میں نہیں تھی کہ نازی کیمپوں میں قیدیوں کو ذہنی اذیت دینے کے لیے 'مسلمان' کہہ کر پکارا جاتا تھا، حالاں کہ وہ مسلمان نہیں تھے لیکن نازی اس لفظ 'مسلمان' کو 'وحشی' کا متبادل سمجھتے تھے۔
پروفیسر سونیا گپتا نے کہا کہ جس طرح کورونا وائرس نے گزشتہ دو سال سے وطن عزیز کو ایک کنسٹریشن کیمپ میں بدل دیا ہے، وہ نازیوں کے کنسٹریشن کیمپ ہی کی طرح ہے جہاں چیخنے پر بھی سزا مقرر تھی۔ واضح رہے کہ 1933اور 1945 کے دوران نازی جرمنی نے بیس ہزار کیمپ بنائے تھے جن میں نام نہاد 'ملک دشمن' افراد کو قید کرنے، انھیں مختلف قسم کی ایذائیں دینے اور انھیں موت کے گھاٹ اتارنے کے بہت سے شعبے تھے۔ ان کیمپوں میں ہزاروں قیدی بھوک، تھکن، بیماری اور موسم کی شدت کے اثرات سے بھی مرگئے۔'آشوٹز' کیمپ کے کمپلیکس 'برکینوقتل گاہ' میں تو چار گیس چیمبر تھے جہاں آٹھ ہزار قیدیوں کو روزانہ مارا جاتا تھا۔ بہرحال اس حوالے سے سونیا گپتا نے کہا کہ کنسٹریشن کیمپ میں جو bare life ہوتی تھی، وہ اب ہماری سب کی ہے۔ کورونا کے سبب ہم سب اس bare life کو جینے پر مجبور ہیں، اس اعتبار سے خالد جاوید کا ناول سیاسی ہے کہ یہ اسی animal life کی نمائندگی کرتا ہے جسے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔


پروفیسر سونیا گپتا نے کہا، قاری کو اس ناول کو پڑھنے اور خود کو ایڈجسٹ کرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے لیکن کچھ صفحات کے پڑھنے کے بعد خالد کی رواں نثر ہمیں اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے سونیا گپتا نے مزاحاً کہا کہ خالد جاوید کی جو خرابی ہے، وہ ان کا ٹریڈ مارک ہے۔ مثلاً کچھ لوگ بے تکی حقیقت نگاری کے زاویے سے اگر اسے پڑھیں تو اس میں تشدد، ہیجان، نفرت، گندگی، انتشار وغیرہ ملتا ہے لیکن خالد جاوید کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ان کی حقیقت نگاری بالکل منفرد ہے، جو سطحی قارئین کو الجھا سکتا ہے اور غیر تربیت یافتہ قارئین کو گمراہ بھی کرسکتا ہے۔
خالد جاوید کی حقیقت نگاری کو جادوئی حقیقت نگاری بھی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ post realist ناول ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو اپنی دنیا کو realist novels سے زیادہ بہتر اور زیادہ واضح طور پر دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پروفیسر سونیا گپتا نے کہا کہ اسی لیے میں خالد جاوید کا ناول مارکیز کے کسی ناول کی بجائے ساراماگو کے بلائنڈنس سے موازنہ کرنا زیادہ پسند کروں گی چونکہ زیر بحث ناول اسی کیٹگری کا ہے۔ مارکیز کا ناول Love in the Time of Choleraیا البیئر کامیو کا The Plague میں کچھ کرداروں کی کہانیوں کو وبا کے تناظر میں دیکھا گیا تھا، بلاشبہ ان ناولوں میں وبا پس منظر میں پوری طرح موجود ہے لیکن 'ایک خنجر پانی میں' وبا پس منظر میں نہیں بلکہ پیش منظر میں موجود ہے۔خالد جاوید کے لیے کردار مسئلہ نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے زیر بحث ناول میں پوری سوسائٹی، پورے شہر کو ایک کردار بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور یہیں 'ایک خنجر پانی میں' عالمی وبا پر لکھے گئے تمام ناولوں سے الگ ہوجاتا ہے۔ سونیا گپتا نے اپنے انھی دلائل کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا کہ زیر بحث ناول اس اعتبار سے ان کی نظر میں ایک شاندار سیاسی ناول ہے۔


پروفیسر سونیا گپتا کی گفتگو اتنی مدلل اور اتنی focused تھی کہ مجھ جیسا سامع ان کے نتائج سے تھوڑا سا اختلاف رکھتے ہوئے بھی ان کا قائل رہا۔ اگرچہ مجھے 'ایک خنجر پانی میں' کو ایک سیاسی ناول تسلیم کرنے میں تامل ہے لیکن جس زاویے سے انھوں نے اس ناول کو پیش کیا، وہ بتاتا ہے کہ خالد جاوید کے اس ناول میں اتنی تہہ داری ہے کہ اسے مختلف قاری مختلف زاویہ نگاہ سے پڑھ سکتا ہے، بقول مظفر حنفی:
'ایک اچھے شعر کی ہوتی ہیں تفسیریں بہت۔'


حالاں کہ پروفیسر سونیا گپتا کے بعد پروفیسر نجمہ رحمانی نے گفتگو کی لیکن میں ان سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہندی شعبہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر نیرج کمار کی گفتگو پیش کرنا چاہوں گا چونکہ پروفیسر سونیا گپتا نے جہاں اپنی گفتگو ختم کی تھی یعنی 'سیاسی ناول' پر، وہیں سے پروفیسر نیرج کمار نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔
نیرج کمار صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ خالد جاوید اتنے sensuous اور اتنے contemporaryہیں کہ وہ ہمیشہ تناؤ میں رہتے ہیں جسے ان کا قاری نہیں جھیل پاتا۔ اس لیے میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ اس ناول کو سیاسی ناول سمجھ کر ہی پڑھنا چاہیے چونکہ اس میں ایکٹیویزم ہے۔ ناول کے عنوان میں 'ایک خنجر' ہی دراصل اس ناول کو ایکٹیویزم میں بدل دیتا ہے چونکہ' ایک' کا لفظ ہی غیریت کا استعارہ ہے، اس لیے اس' ایک خنجر' میں کئی خنجر پیوست ہیں۔ اس ناول میں اندھیرا اس لیے اتنا زیادہ ہے چونکہ روشنی کی چاہ بہت ہے۔
پروفیسر نیرج کمار نے ایک انوکھا نکتہ پیش کیا، کہتے ہیں:پانی نیچر کا ایک element ہے لیکن پانی کی آلودگی' ہیومن نیچر' کا حصہ ہے۔ اگر اس ناول سے' نیچر' کوہٹا کر اس کی جگہ'ہیومن نیچر' رکھ دیاجائے تو ناول کی گرہیں کھلتی چلی جائیں گی اور اس کی آلودگی بھی واضح ہوجائے گی۔ یہ ناول اس بیانیہ کا counter narrative ہے جس کے ہم ان دنوں شکار ہیں۔ یعنی جیسا کہ پروفیسر سونیا گپتا نے اس ناول کو سیاسی کہا تھا ، تقریباً نیرج کمار بھی ان کی اس بات سے متفق نظر آئے۔


یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک ذرا ٹھہر کر ناول کے سیاسی ہونے یا نہ ہونے پر تھوڑی گفتگو ہوجائے۔ میرا خیال ہے کہ ممکن ہے ایک تربیت یافتہ قاری اپنے طور پر کسی ناول سے وہ چیز بر آمد کرلے جس کے بارے میں ناول نگار نے لکھتے ہوئے سوچا تک نہ تھا لیکن تنقید صرف سطور کے درمیان نہیں بلکہ لفظوں کے پیچھے بھی دیکھتی ہے۔ اس اعتبار سے وہ لاشعور کے کاروبار کی تفتیش کرنے والا ایک شعوری عمل بھی ہے۔ وہ تخلیق میں استعمال ہونے والے الفاظ، صرف و نحو ، وقفے حتیٰ کہ رموز اوقاف میں بھی پوشیدہ ان 'حرکتوں' کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کی حکمت بھی ہے جن سے تخلیق کار خود بے خبر ہوتا ہے۔ ایک شہ پارہ صرف متن یا ٹیکسٹ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کے اسلوب سے بھی اپنے معانی ترسیل کرتا ہے۔ تنقید کی نظر اس 'کہے' اور 'اَن کہے' ، اور اس میں مزاحم یا مددگار عناصر پر بھی جاتی ہے۔ کسی تنقید کو پڑھنے کے بعد جتنا فن پارہ روبرو ہوتا ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ نقاد کی قابلیت اور حدود کا ایکسرے بھی پیش کرتا ہے۔ اس لیے میں کہوں گا کہ سونیا گپتا اور نیرج کمار کی گفتگو کا حاصل دراصل قاری اساس تنقید کا نتیجہ ہے جس میں خود قاری کے اپنے تحفظات اور نظریات در ہی آتے ہیں۔


جہاں تک اس ناول کے بارے میں میری قرأت کا تعلق ہے تو اسے پڑھتے ہوئے یہ احساس غالب رہا کہ میری تمام حسیات ناکافی ہیں اور انھیں پڑھنے کے لیے مجھے دو چار مزید محسوسات بیدار کرنے ہوں گے۔
برسبیل تذکرہ میں ایک مزیدار بات بتاتا ہوں جو ممکن ہے آپ کو مضحکہ خیز بھی لگے۔ 'ایک خنجر پانی میں' پڑھنے کے دوران اور اس کے بعد معمول سے دو چار بار زیادہ غسل کیا، ہاتھ پاؤں زیادہ دھوئے، یہ کیفیت مجھ پر کافی دنوں تک طاری رہی۔ممبئی شہر میں آپ جانتے ہیں کہ پانی کی کتنی قلت ہے۔ یہاں ہفتے میں ایک دو بار پانی نہ آنا عام بات ہے جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں لیکن اس ناول کو پڑھنے کے دوسرے یا تیسرے دن جب ہماری بلڈنگ کے واچ مین نے خبر دی کہ کل پانی نہیں آئے گا تو پتہ نہیں کیوں میرے جسم نے ایک جھرجھری لی، حالاں کہ اس سے پہلے ایسی خبر میرے لیے معمول کا حصہ تھی۔ اسی لیے میں نے کبھی کہا تھا کہ میں پورے جسم کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ لہٰذا اس ناول کی قرأت جہاں سونیا گپتا کو نازی کنسٹریشن کیمپ کی یاد دلاتی ہے اور نیرج کمار کو عالمی وبا کے تناظر میں درپیش بیانیہ کا counter narrative محسوس ہوتا ہے، وہیں مجھے یہ میرے وجود کے اندر پھیلے ہوئی غلاظت کا شدید احساس دلاتا ہے جسے میں بار بار غیر شعوری طور پر دھونے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔
اب یہاں تین قارئین(سونیا گپتا، نیرج کمار اور راقم الحروف) کی قرأت اور اس کے نتائج سے یہ راز افشا ہوتا ہے کہ تخلیق کا فن سماج کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ یہ صرف اس شخص کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو اس کے رابطے میں آتا ہے۔ معروف نوبل انعام یافتہ ناول نگار گاؤ ژینگیان (Gao Xingjian) تو یہاں تک کہتا ہے کہ "ادب ایک ناگزیر انسانی سرگرمی ہوتا ہے جس میں قاری اور مصنف دونوں اپنی مرضی سے مصروف ہوتے ہیں۔" لہٰذا، پھر کہتا ہوں کہ ایک اچھا ناول نگار اپنے تجربوں سے جتنا سیکھتا ہے، اپنے تصورات میں اتنا ہی سچا ہوتا ہے۔ اور شاید اسی لیے میں نے بارہا محسوس کیا ہے کہ ایک 'سچے تصوراتی' ناول کو آپ خواہ کتنی بار ہی کیوں نہ پڑھ جائیں، یہ بتانا ہمیشہ مشکل ہوگا کہ وہ کیسے لکھا گیا ہوگا۔ ہر شہ پارہ اپنی اکائی میں پُراسرار ہوتا ہے ، آپ جتنی بار پڑھ جائیں ، ہر بار اس میں سے کچھ نیا ڈھونڈ نکالیں گے، جیسا کہ مثلاً سونیا گپتا اور نیرج کمار نے نکالا۔آپ ایسے ناولوں کی مدد سے اچھے ناول نگاروں کا طریق کار تلاش کرسکتے ہیں، ان کی ترجیحات اور ان کے تخلیقی عمل کو 'ڈی کوڈ' کرسکتے ہیں اور اس کے لیے آپ کو نقاد ہونے یا کہلانے کی ضرورت نہیں ہے۔


میں خالد جاوید کے تینوں ناولوں کو پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ زندگی کے تجربات پر تکیہ نہیں کرتے،نہ ہی وہ اپنے ذاتی تجربے کے پابند ہوتے ہیں۔چنانچہ وہ حقیقت کی محض ایک Backup file نہیں بناتے بلکہ اس کی سطحوں میں سرایت کرتے ہیں اور ان کی اندرونی بنت کی گہرائیوں تک پہنچ جاتے ہیں، ناراست فریب نظر کو رفع کرتے ہیں، معمولی واقعات کو بہت اونچائیوں سے دیکھتے ہیں اور ان کی کلیت کو ایک وسیع تناظر میں افشا کرتے ہیں۔
میرے خیال میں آج کی قسط کافی طویل ہو چکی ہے اور ابھی بہت سی باتیں باقی ہیں۔ چنانچہ پروفیسر نجمہ رحمانی، پروفیسر سرور الہدیٰ اور پروفیسر خالد مبشر پر کل گفتگو ہوگی۔

تیسری اور آخری قسط

پروفیسر نجمہ رحمانی دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں ، آپ کی نظر نہ صرف اردو ادب پر بلکہ ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ادب کے ساتھ عالمی ادب پر بھی رہی ہے جس سے ان کے دائرہ مطالعہ کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے انکسار کا یہ عالم ہے کہ وہ اس مذاکرے میں اس اعتراف کے ساتھ اپنی گفتگو کا آغاز کرتی ہیں کہ انھیں خالد جاوید کا پہلا ناول 'موت کی کتاب' پہلی قرأت میں سمجھ میں نہیں آیا تھا اور اسے انھوں نے کنارے رکھ دیا تھا لیکن کوئی ایسی بے نام سے کشش تھی جو بار بار اس ناول کی طرف انھیں کھینچ رہی تھی۔ لہٰذا انھوں نے اسے پورا پڑھا، پھر کچھ وقفے کے بعد اس کا دوبارہ مطالعہ کیا اور یوں خالد جاوید کے دیگر ناولوں کے سروکار اور ان کی نثر نے مجھے پوری طرح اپنا لیا۔


نجمہ رحمانی نے 'ایک خنجر پانی میں' پر اپنی گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ادب ہوا میں نہیں پیدا ہوتا۔ خالد جاوید کے تمام ناول جو وجودی ہیں، ان کا تعلق بھی اسی دنیا سے ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پوری دنیا کو سفید و سیاہ میں تقسیم کررکھا ہے۔ ہم مان چکے ہیں کہ جو سفید ہے وہ سب اچھا ہے اور جو سیاہ ہے وہ سب خراب ہے۔ لیکن ہم جب اپنے اندر جھانکتے ہیں تو خود اپنے اندر وہی سیاہی پھیلی ہوئی پاتے ہیں جنھیں اکثر ہم اپنی کوتاہ بینی یا منافقت کے سبب نظر انداز کرجاتے ہیں۔ خالد جاوید اسی کوتاہ بینی اور منافقت پر ضرب لگاتے ہیں۔ وہ عام لوگوں کی طرح اس سیاہی سے نظریں نہیں چراتے بلکہ اس کا سامنا کرتے ہیں اور ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ فاروقی نے اپنے مضمون میں اسی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا تھا:
"یہی وجہ ہے کہ خالد جاوید کو پڑھ کر ان لوگوں کو گھبراہٹ اور وحشت ہوتی ہے جو افسانے میں زندگی کے صرف اخباری وجود کابیان اور وہ بھی سادہ اور یک رنگ بیان پسند کرتے ہیں۔"


پروفیسر نجمہ رحمانی نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
وبا کی صورت حال انسانی نفسیات کو بدلنے کی بجائے انسان کے اندر چھپے ہوئے جانور کو باہر نکال دیتی ہے۔ پھر انھوں نے آج کی صورت حال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ وبا ئی صورت حال نے بھی اقتدار کے سامنے موت کو گھٹنے ٹیکتے دیکھا ہے۔ خالد جاوید نے اپنے تازہ ترین ناول میں اسی آئینے کے سامنے ہمیں لا کھڑا کیا ہے ۔ آپریشن کرنے کے لیے زخم کھولنا تو ہوگالیکن یہ اور بات ہے کہ خالد جاوید نے اس سرجری کے لیے ان آلات جراحی کا استعمال نہیں کیا جو مثلاً ڈپٹی نذیر احمد کے تھے۔


میرے خیال میں نجمہ رحمانی کے یہ نتائج ناول مذکور کی کلید ہے۔ شاید اسی لیے خالد جاوید سے جو شکایتیں لوگوں کو رہتی ہیں، وہ اسی سبب ہیں کہ ان میں سادہ اور یک رنگ بیان موجود نہیں ہے۔ایسے لوگوں نے شاید یہ مان لیا ہے کہ ناول یا افسانے صرف ایک ہی طرح سے لکھے جا سکتے ہیں۔ ایک عدد پلاٹ، دو چار عدد کردار، ایک عدد مرکزی خیال، مٹھی بھربھر کے سماجی معنویت کا گرم مسالہ اور چٹکی بھر تخلیقی زعفران ؛ ہوگیا تیار ناول، اب اسے Code of Honour کی تام چینی کی پلیٹ میں پروس کر عام دعوت کر ڈالیے اور شکم سیر فقیروں کی دعائیں لیجیے۔
خالد جاوید کے ہاں یہ اہتمام آپ کو نہیں ملے گا اور اگر آپ اسی طرح کی پکوان کی تلاش میں ان کے دسترخوان کے گرد بیٹھے ہیں تو معاف کیجیے گا، آپ کا معدہ خراب ہوسکتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ کئی دنوں تک آپ نفخ شکم کے شکار رہیں یا پھر طبی اعتبار سے اب تک 'فاسٹ فوڈ' کھانے کے سبب آپ کے دماغ کے مخصوص حصوں کی نشو و نما سست پڑگئی ہو۔
خالد جاوید ناول نگاری کے ان تمام تصورات سے جو پہلے سے سوچی ہوئی Position اور رویے، جو دوسرے لوگوں نے مثلاً پریم چند یا ڈپٹی نذیر احمد کے فکشن کے رول ماڈل سے جاری ہوئے تھے، اس سے وہ انکار کرتے ہیں۔


پروفیسر نجمہ رحمانی کہتی ہیں:
خالد جاوید کے نزدیک جس طرح محبت زندگی کا ایک سچ ہے، اسی طرح نفرت بھی زندگی کا ایک سچ ہے جسے ہم صرف برا کہہ کر خود کو الگ نہیں کرسکتے۔ ناول میں گندگی پانی میں نہیں ہے بلکہ پانی کے حوالے سے انسان کے اندر کی گندگی، اس کا کمینہ پن باہر لایا گیا ہے۔ تینوں ناول کی ایک کڑی ہونے کے باوجود ان کا ہر ناول ارتقائی منزل طے کر رہا ہے۔


پروفیسر سرورالہدیٰ (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے بھی خالد جاوید کے نالوں کی ارتقا پر بات کی لیکن اس کےعلاوہ انھوں نے ناول کے حوالے سے کچھ ایسے سوال بھی اٹھائے جس سے مذاکرے کی معنویت و افادیت مستحکم ہوگئی۔ عموماً سیمیناروں میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوتا ہے جس میں حاضرین پیش کیے گئے مقالوں یا خطبات پر مقررین یا مقالہ نگاروں سے اپنے ترددات کو رفع کرنے کی غرض سے سوال کرتے ہیں جس سے موضوع کے کئی تاریک گوشوں اور اشکالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آن لائن مذاکروں میں یہ اہتمام اس لیے نہیں ہوسکتا چونکہ اس میں حاضرین غائب ہوتے ہیں ۔ اس مذاکرے میں پروفیسر سرور الہدیٰ کی شمولیت نے اس کمی کو دور کر دیا۔
میرے خیال میں ان کی اس مذاکرے میں شرکت سے مذاکرے میں توازن آیا اور دوم یہ کہ انھوں نے خالد جاوید کے ان قارئین کی ایک طرح سے بالراست نمائندگی کی جنھیں ان کے تخلیقی اسلوب سے بہت سی الجھنیں اور دشواریاں پیش ہیں جن کا ذکر پروفیسر سونیا گپتا، نیرج کمار اور نجمہ رحمانی نے بھی اپنے اپنے ڈھنگ سے کیا۔ پروفیسر سرور الہدیٰ نے بڑی حکمت سے انھی سوالوں کو اٹھایا ، جن سے ان ترددات کا ازالہ ممکن ہوپائے اور ان قارئین کی تشفی ممکن ہو پائے۔


مثلاً ابھی کچھ روز قبل فیس بک پر ایک صاحب نے 'ایک خنجر پانی میں' کے عنوان پر کہا کہ یہ 1962 میں بنی ایک پولش سائیکلوجیکل تھریلر 'Knife in the Water' کا ترجمہ ہے۔ خورشید اکرم نے انھیں اس کا جواب وہیں دے دیا تھا۔ سرور الہدیٰ صاحب نے بھی اسی فلم کا حوالہ دیا۔
ناموں کا مسئلہ عجیب ہے۔ 'آگ کا دریا' جگر مرادآبادی کے ایک شعر کا ٹکڑا ہے، جسے قرۃ العین حیدر اپنے ناول کا عنوان بنانے کی سزاوار ہیں، یا پھر قرۃ العین حیدر نے اپنے بیشتر کتابوں کے عنوانات فیض صاحب کے اشعار سے ماخوذ کیے ہیں، یا خود شمس الرحمٰن فاروقی نے احمد مشتاق کے ایک شعری فقرے کو اپنے ناول 'کئی چاند تھے سرآسماں' کا عنوان بنا دیا۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ شعر کے کسی مصرعے سے کوئی فقرہ اٹھالینا معیوب بات نہیں ہے تو پھر فضیل جعفری کے تنقیدی مجموعے 'کمان اور زخم' کو کیا کہیں گے جس پر کافی پہلے شمیم طارق صاحب نے اعتراض کیا تھا کہ یہ ایڈمنڈ ولسن کی کتاب 'The Wound and the Bow' کا چربہ ہے۔ سرور الہدیٰ صاحب نے ایسا کچھ نہیں کہا ، ظاہر ہے انھوں نے وہی کہا جو شاید کچھ قارئین سوچتے ہوں گے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میرے دوست خورشید اکرم کو معلوم ہوا کہ میں نے اپنے ناول کا نام 'اس نے کہا تھا' رکھا ہے تو انھوں نے مجھے طباعت سے پہلے ہی آگاہ کردینا مناسب سمجھا کہ اس نام سے ہندی میں چندر دھرشرما گلیری کی کتاب ہے جو 1915 میں لکھی گئی تھی اورجو شاید ہندی ساہتیہ کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ لیکن یہ جاننے کے باوجود میں نے اپنے ناول کا نام اس لیے نہیں بدلا چونکہ میں عنوان کو کوئی نمائشی چیز نہیں سمجھتا اور نہ کتاب کی خانہ پُری سمجھتا ہوں۔ ناول کا عنوان، ناول کا حصہ ہوتا ہے اور اسے ناول نگار نہیں بلکہ خود ناول مقرر کرتا ہے۔ ہر اچھا ناول اپنے عنوان بلکہ سرورق سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔


دیکھنے کی بات یہ ہے کہ خالد جاوید کے اس ناول کا عنوان ناول کا حصہ ہے یا نہیں، یا ان کا ناول عنوان ہی سے شروع ہوجاتا ہے یا نہیں۔ میں شیکسپیئر کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ:
'نام میں کیا رکھا ہے؟'
بلکہ میں ایک فلم اسکرپٹ لکھتے وقت بھی کرداروں کے نام سوچنے میں کافی وقت لگا دیتا ہوں جو ان کی کردار سازی کا اہم عنصر ہوتا ہے۔ اور شاید اسی لیے بعض تجریدی ناولوں میں اس کے لکھنے والوں نے اپنے کرداروں کے نام نہیں دیے بلکہ حروف تہجی کا سہارا لیا۔ میں نے خود اپنے ناول میں اس کا بقدر ضرورت استعمال کیا چونکہ نام رکھتے ہی وہ کردار کچھ مخصوص صفات کا حامل ہوجاتا ہے جسے میں ہر اچھے برے صفات سے پاک رکھنا چاہتا ہوں۔ خالد جاوید نے بھی اکثر اپنے کرداروں کو بے نام رکھا ہے۔


سرور الہدیٰ صاحب نے ایک بڑا اچھا نکتہ اٹھایا کہ خالد جاوید کا مطالعہ کافی وسیع ہے اور انھوں نے مغربی ادب اور مغربی تصور کائنات کا خوب مطالعہ کیا ہے اور انھیں اپنے ناولوں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ واقعی ، خالد جاوید کا مطالعہ کافی وسیع ہے، بورخیس کا بھی تھا، فاروقی کا بھی تھا۔ بورخیس نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ لائبریری میں گزارا تھا جہاں اس نے رنگارنگ علوم کی ایک دنیا اپنے سینے میں جذب کر رکھی تھی۔ اس کا قول ہے کہ میرے لیے جنت کا تصور کسی لائبریری سے مختلف نہیں۔ لیکن یہاں واضح رہے کہ صرف پڑھنا کافی نہیں ہے، پڑھ کر اسے سمجھنا اور سمجھ کراپنے وجود کا حصہ بنانا اور وجود کا حصہ بنانے کے بعد اسے اپنے فن کی جادوئی چھلنی سے گزار کر پیش کرنے کا ہنر بھی آتا ہو تبھی کوئی بورخیس یا خالد جاوید بن سکتا ہے۔اس کے برخلاف فاروقی صاحب کا 'کئی چاند تھے سر آسماں' دیکھیے، اس میں فاروقی صاحب کا مطالعہ celestial body کی طرح کام کررہا ہے، حتیٰ کہ انھیں حاشیہ لکھنے کی ضرورت آن پڑی۔ قرۃ العین حیدر کا 'آگ کا دریا' پڑھ ڈالیے، کیا ایسا ناول بغیر کثیر المطالعہ ہوئے لکھا جا سکتا تھا؟


سرور الہدیٰ صاحب نے قارئین کے اس طبقے کی جانب سے سوال اٹھانے کی دور اندیشی کی جنھیں خالد جاوید کا ناول اس لیے مایوس کرتا ہے چونکہ وہ بے ربطی کا شکار ہوتا ہے، اس میں نہ آغاز ہے اور نہ انجام۔ناول کے کسی مقام پر جب بات بنتی نظر آتی ہے تو وہ اچانک دوسری کروٹ لے لیتا ہے اور ایک بار پھر قاری کی یکسوئی متاثر ہوجاتی ہے یہ شکایت پرانی ہے اور صرف خالد جاوید سے نہیں بلکہ متعدد جدید فکشن نگاروں سے ہے۔ اس کا بہت اچھا جواب برسوں پہلے ایک انٹرویو میں فاروقی صاحب نے قرۃ العین حیدر کے حوالے سے دیا تھا، بہتر ہوگا کہ میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے اسے ہی پیش کردوں۔

فاروقی کہتے ہیں:

" جہاں ناول ختم ہوتا ہے، اس پر آپ کو ایک طرح کی بے اطمینانی ہو کہ ناول نگار نے آپ کو بہت گھمایا پھرایا لیکن بتایا نہیں کہ باہر کیسے نکلیں، لیکن ہوسکتا ہے یہ اس کی استواری ہو۔ ناول نگار پوزیشن نہیں لے رہی ہے اور آپ کے گلے میں پھندا ڈال کر دوڑا نہیں رہی ہے جیسا کہ پریم چند کرتے ہیں۔ تو ممکن ہے اس میں شامل ہو یہ بات کہ اگرچہ وہ آپ کو غیر مطمئن چھوڑ دے جیسے بالزاک آپ کو غیر مطمئن چھوڑتا ہے۔ بالزاک اپنے ناولوں میں دکھاتا ہے کہ دنیا میں دولت کی کتنی زیادہ بھرمار ہے۔ ہر چیز دولت ہی کے بل بوتے پر چلائی جارہی ہے۔ شادی ہے تو، عشق ہے تو، موت ہے تو، چل رہے ہیں تو، وہ کہتے نہیں کہ اس سے کیسے بھاگیں ، چھوڑدینا ہے آپ کو۔ ہوسکتا ہے کہ قرۃ العین حیدر کی طرف سے یہ کہا جائے اور صحیح کہا جائے کہ صاحب ہم نے تو چھوڑدینا ہے۔ ہم نے آپ کو دکھا دیا کہ ہندوستان ایسا ہے اور ہم اس کو یوں دیکھتے ہیں۔ اب اس میں اگر کوئی Trap ، اس میں کوئی Deilemma ہے تو اس سے کیسے باہر نکلیں ، یہ آپ کا معاملہ ہے۔ "


معاملہ صرف اتنا ہے کہ خالد جاوید ہر پڑھنے والوں کے لیے لقمۂ تر نہیں ہیں۔ اور یہ بات صرف خالد جاوید پر ہی موقوف نہیں ، بلکہ عالمی ادب کے کئی لکھنے والوں پر کھری اترتی ہے۔ مثلاً جب بورخیس کی پہلی کتاب 'ناانصافی کی عالمی تاریخ' کے صرف 37 نسخے ہی بک سکے تھے، تو انھوں نے ان خریداروں سے جا کر معذرت کرنے اور ان کا شکریہ ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، کیوں کہ ان کے مطابق وہ تو سترہ نسخے، یا سترہ کیوں، صرف سات نسخے بکنے پر بھی مطمئن رہتے ۔ اسی لیے میں بار بار کہتا ہوں کہ ہر اچھا ادیب اپنا قاری ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور اس میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔


سرور الہدیٰ صاحب نے فرمایا کہ خالد جاوید کے بقیہ ناولوں کے مقابلے میں ان کا یہ ناول ('ایک خنجر پانی میں') الگ ہے، اس میں انھوں نے رپورٹنگ بھی کی ہے۔ رپورٹنگ کا تو خیر مجھے علم نہیں کہ وہ کہاں اور کس صفحے پر کی ہے، البتہ اس ناول میں انھوں نے جزئیات نگاری ضرور کی ہے جسے ہم اسکرپٹ کی زبان میں build-up کہتے ہیں۔ لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ضرور ہے کہ ایک ناول نگار اپنا ہر ناول ایک ہی طرح سے لکھے؟ میں نے کبھی لکھا تھا کہ ایک نیا ناول لکھتے وقت میرا ناول نگار ویسا ہی نہتا ہوتا ہے جیسا وہ گذشتہ ناول لکھنے سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ نیا ناول شروع کرتے ہوئے اسے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اس بار کھیل کے اصول کیا ہوں گے۔ اسے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھر سے کھیلنے جا رہا ہے۔ ہمیشہ یہی بے نام خوف اسے متشکک بنادیتا ہے، اسے مہم جو بنا دیتا ہے، وہ اس ادھیڑ بن کی گرفت کا شکار ہوجاتا ہے کہ پتہ نہیں اس بار اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، کیا پانے والا ہے، اس بار وہ کیا کھونے والا ہے اور اس بار کون سی ایسی شے اس کے ہاتھ لگنی والی ہے جس کا اس سے پہلے اسے تجربہ نہیں تھا۔ یہ ساری چیزیں ناول کو ایک ایسی قوت سے سرفراز کرتی ہیں جن میں بہت ساری چیزوں کے آنے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ناول اپنی رفتار سے، اپنی قوت سے آگے جاری رہتا ہے۔


اگر میرے کسی ایک پسندیدہ مصنف کے دو ناولوں میں مجھے کچھ تبدیلی محسوس ہوتی ہے تو سمجھ جاتا ہوں کہ وہ کھیل کے اصولوں کی تبدیلی کے سبب ہے۔میں نے بہت سارے ایسے ناول پڑھے ہیں، جن میں ایک خاص اسلوب اختیار کیا جاتا ہے، جس میں سب کچھ طے شدہ ہوتا ہے، کوئی الجھن نہیں نظر نہیں آتی۔ کھیل کے اصول بھی مقرر ہیں۔ ایک ہی طرح سے ناول اپنا سفر کرتا ہے، ایک ہی طرح سے منزل پر پہنچتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اصول برسوں کی ریاضت کے بعد پیدا کیا گیا ہو، ممکن ہے کہ اس اسلوب کو وضع کرنے میں ناول نگار نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ جھونک دیا ہو ، لہٰذا ایک صاحب اسلوب ناول نگار خوفزدہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر کی کمائی کہیں لٹا نہ دے، اس لیے وہ تادم مرگ اس اسلوب سے چمٹا رہتا ہے، اس کے اندر نئی راہوں کو تلاش کرنے کی وہ فطری صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے جو گمنام جزیروں کی بازیافت کرسکتی تھی۔ پھر ایسا تن آسان ناول نگار یہ نہیں دیکھتا کہ اس کا نیا ناول اس سے کس اسلوب کا تقاضا کررہا ہے، وہ تو بہرحال اس کی انگلی پکڑ کر اپنی چال چلانا چاہتا ہے۔ اس کے اندر نئی شروعات کا جذبہ تقریباً ختم ہوچکا ہوتا ہے۔


اب درج بالا میرے تحفظات میں سے 'میراناول نگار' کی جگہ 'خالد جاوید 'کو رکھ دیجیے تو آپ کو پروفیسر سونیا سوربھی گپتا کے اس قول کی گونج سنائی دے گی کہ:
"ان تینوں ناول کے درمیان ایک رشتہ تو ہے لیکن تینوں کے تخلیقی assets مختلف ہیں۔"


گفتگو طویل ہوجائے گی، اگرچہ میں خالد جاوید کے ناول سے کچھ اقتباسات بھی یہاں پیش کرکے ان کے زیر نظر ناول کے assets پر بات کرنا چاہتا تھا لیکن اس کام کو اس دن کے لیے اٹھا رکھتا ہوں جب میں خالد جاوید کی تخلیقی انفرادیت پر مضمون لکھوں گا ، فی الحال میں خود کو مذاکرے میں ہونے والی گفتگو تک محدود رکھوں گا۔

سرور الہدیٰ صاحب نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ وبا کے گزر جانے کے بعد اس ناول کا مقام کیا ہوگا؟
یہ سوال اتنا اہم ہے کہ اس پر ان لوگوں کو ضرور غور کرنا چاہیے جو موضوع کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہنگامی ادب تخلیق کرتے ہیں۔میرے خیال میں خالد جاوید کو مذاکرے میں یہ صفائی دینے کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی کہ انھیں اس ناول کا آئیڈیا حالیہ کورونا وبا سے تین سال قبل ذہن میں آیا تھا۔ سرور الہدیٰ صاحب نے ناول نگار کے اس دعوے کو مسترد کرکے اچھا کیا چونکہ یہ ناول پر منحصر ہے کہ اس میں کتنے دنوں تک زندہ رہنے کی صلاحیت ہے۔ خالد جاوید کے ناول میں اگر وہ عناصر ہیں جو ہنگامی یا پروپیگنڈائی ادب کا خاصہ ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کی جواں سال موت یقینی ہے۔ لیکن جو ناول اس ذیل میں ہی نہیں آتا کہ وہ پاپولر لٹریچر کی طرح سنسنی پیدا کرےیا قارئین کے فوری ردعمل کو کیش کرے، اس کی عمرکے بارے میں زیادہ شک نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً The Plague غالباً 1927 میں لکھا گیا تھا ، Love in the Time of Cholera، 1985میں اور Blindness، 1995 میں ریلیز ہوا تھا لیکن یہ ناول اب بھی زندہ ہیں۔
وجہ؟
ظاہر ہے یہ ناول اپنے موضوع سے نہیں بلکہ اپنی تخلیقیت کے سبب زندہ ہیں۔
اس لیے مجھے خالد جاوید کے زیر بحث ناول پر اس قسم کی کسی تشویش کی منطقی وجہ نہیں ملتی، خواہ انھوں نے یہ ناول حالیہ وبا کے تین سال پہلے لکھنا شروع کردیا ہو یا وبا کے دوران لکھا ہو۔ کیوں کہ خالد جاویدکے ہر ناول کی طرح اس ناول کی کلید بھی 'موت' ہے جو کبھی از کار رفتہ نہیں ہوسکتی۔ وبا ختم ہوسکتی ہے، موت نہیں۔ سبھی کا اس پر یقین ہے کہ ہماری زندگی فانی ہے اور کسی بھی وقت موت ہمیں آنی ہے۔ موت کے خوف پر قابو پانے کے لیے مذہب اور فلسفہ نے ہمیں کئی وسائل مہیا کیے ہیں لیکن بقول پیٹر بخسل، دل گیری پر قابو نہیں کرپائے۔ ادب کا واسطہ اسی دل گیری کو قبول کرنے سے ہے۔انسانی فطرت کے اندر پائے جانے والی یہی دل گیری اسے ادیب بنا دیتی ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ادیب اس وصف کے باوجود لکھنے کی استطاعت رکھتا ہو لیکن وہ ادب کا مخلص اور بے لوث قاری نہیں بن سکتا۔ چنانچہ خالد جاوید موت کا جب تک تعاقب کرتے رہیں گے، ان کے قارئین انھیں زندہ رکھیں گے۔ اس کی ایک وجہ پال تلخ(Paul Tillich) نے ہمیں بتائی ہے کہ مایوس ہونے کے لیے بھی جرأت درکار ہوتی ہے۔ مایوس ہونا اس بات کا اعتراف کرلینا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔زندگی زندگی کا رٹّا مارنے والے ادیبوں اور قارئین میں اسی جرأت کی کمی ہے۔

میں پروفیسر سرور الہدیٰ صاحب کا ذاتی طور پر شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنے ناخن تدبیر سے ناول کی کچھ گرہیں کھولنے میں مدد فرمائی،اگر وہ یہ سوال نہ اٹھاتے تو مذاکرہ ادھورا کہلاتا اور میں خود اتنی باتیں نہ کرسکتا۔ اس مذاکرے کے آخر میں پروفیسر خالد مبشر(جامعہ ملیہ اسلامیہ) شریک ہوئے۔ وقت کافی ہوچکا تھا، اس لیے خالد مبشر نے اس نزاکت کو سمجھتے ہوئے مختصر میں اپنی بات ختم کردی۔ انھوں نے بتایا کہ خالد جاوید ان کے استاد بھی رہ چکے ہیں اور اب ان کے ساتھی ہونے کا انھیں فخر حاصل ہے۔ واقعی یہ اعزاز ہی ہے کہ کوئی طالب علم جس استاد سے تعلیم حاصل کرے، بعد میں وہ اسی کے ساتھ اسی تعلیمی ادارے میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے منصب پر فائز ہو۔ خالد مبشر کو بہت بہت مبارکباد کہ انھوں نے بہت مختصر وقت میں خالد جاوید کے تعلق سے اظہار خیال کیا۔ ہم مستقبل قریب میں امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی تخلیقی سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔


خالد مبشر کے بعد کسی سبب میں مذاکرے میں شامل نہ رہ سکا اور مجھے افسوس ہے کہ میں مشہور ترجمہ نگار اور انگریزی و اردو کے شاعر ڈاکٹر عبدالنصیب خان کو سن نہ سکا۔ بعد میں اس پروگرام کی رپورٹنگ کی مدد سے صرف اتنی بات جان سکا کہ انھوں نے فرمایا، یہ ناول عالمی وبائی ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ خالد جاوید نے عصری المناکیوں، وبا کے خوف، انسانی مصائب، بیماری کی ہمہ گیریت اور اشرف المخلوقات کی بے بضاعتی کو نرالے انداز میں پیش کیا ہے۔ پورا ناول ایک جبراً تھوپی ہوئی خاموشی ، قیامت خیز تباہی اور معاشرتی تعطل کا غماز ہے۔ میر ا اس پر تبصرہ کرنا اس لیے مناسب نہیں ہے کہ جب تک ان کے اس بیان کے سیاق وسباق سے میں واقف نہ ہوں تب تک اس پر کچھ کہنا نا انصافی ہوگی۔


مذاکرہ ختم ہوا اور اس کے ساتھ ہی میرا زیر نظر تجزیہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
لیکن میں آخر میں ایک ضروری بات صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ شہزاد انجم صاحب سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ شاندار مذاکرہ برپا کرکے بہت بڑا کام کیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دور ادبی رسائل کا دور نہیں ہے جہاں کسی قلم کار کو خود کو ثابت کرنے کا چیلنج بڑا تھا۔ اچھا لکھنے والوں کو تربیت یافتہ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں برسوں لگ جاتے تھے۔ افسانہ نگاروں کو بھی سال میں دو چار کہانیاں لکھنی پڑ جاتی تھیں۔
اس کے برعکس آج خود آرائی، خود پسندی، خود فروشی اور خود نمائی کی جو آندھی چل رہی ہے اس سے کسی جینوئن لیکن بے نیاز تخلیق کار کی حفاظت کا کام اب تعلیمی اداروں کا ہی ہے۔ سوشل میڈیا نے جس طرح فوری تعین قدر کو حاوی کردیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نان رائٹرس اپنا پروموشن دھڑلے سے کررہے ہیں اور یہ وہ دنیا ہے جہاں ہر احمق کو دس بیس احمق 'لائکس' کرنے والے مل ہی جاتے ہیں۔ اب تخلیق کی کسوٹی ادبی محاسن نہیں بلکہ لائکس اور شیئرنگ کی تعداد ہوگئی ہے، اب کسی ادبی ناول کی ریٹنگ اس کے فروخت کی تعداد پر منحصر ہوگئی ہے جب کہ ہمیں فاروقی صاحب نے بتایا کہ:
"کوئی چیز جس کا نام ادب عالیہ اگر ہے تو اس کے پڑھنے والے ڈیڑھ دو لاکھ نہیں ہوں گے۔ اب آپ دیکھیں کہ ورجینیا وولف خود ایک پریس کی مالک تھی لیکن اس کے زمانے میں اس کے ناولوں کا پرنٹ آرڈر تین ہزار ہوتا تھا۔۔۔ لیکن اگاتھا کرسٹی کی سترہویں سالگرہ پر پنگوئن نے اس کے دس ناول چھاپے اور ہر ناول کا پرنٹ آرڈر دس لاکھ دیا تھا۔ بڑے ادب کی پہچان ہے کہ وہ رہتا ہے اگرچہ اس کے پڑھنے والے کم ہوتے ہیں۔"
('وہ جو چاند تھا سر آسماں')


مختصر یہ کہ سوشل میڈیا کی اس جمہوری توسیع کی قیمت ادب کو چکانی پڑ رہی ہے کیوں کہ یہاں ہر ڈیل (deal) ایک پیکج ڈیل (package deal) ہوتی ہے۔
اس قحط الرجال میں ایک تعلیمی ادارے کا کام اور بھی اہم اور نسبتاً مشکل ہوجاتا ہے ۔ اسے اس دھند کے پار بھی دیکھنا ہے اور خود کو دھندلکا پھیلانے سے بچانا بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں شہزاد انجم صاحب کی طرح دیگر تعلیمی اداروں کے سربراہان بھی اس طرف متوجہ ہوں گے۔



اشعر نجمی

A discussion by JMI on Khalid Javed's novel 'Aik khanjar paani mein', Critical Analysis by: Ashar Najmi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں