شدید گرمی میں فریضہ حج کی ادائیگی: مکہ میں ایک اسلامی اسکالر کے تجربات
پروفیسر احمد ٹی کورو، سین ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی، کیلوفورنیا
ایام حج کےدوران تپتی ہوئی گرمی میں تقریبا 1300 افراد نے داعی اجل کو لبیک کہا، اس مرتبہ جون 2024 حج کے دوران یہ پہلا موقع نہیں جب حجاج اس طرح کے حادثے سےدو چار ہوئے۔ 1985 میں گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ تقریبا 1000 سے زیادہ افراد مارے گئے ، اس سے قبل بھی بھگدڑ اور بھیڑ کی وجہ سے دوسرے طور کے آفات بھی وقوع پذیر ہوئیں۔ خطرات اپنی جگہ، مسلمان حج کرتے ہیں، محض اس سال صرف 1۔8 ملین افراد نےفریضہ حج کی ادائیگی میں حصہ لیا۔
میں نے بھی اس سال فریضہ حج کی ادائیگی کی خاطر امریکہ سے سعودی عرب کے لئے سفر کیا۔میں نے ایک ایک مسلمان کی حیثیت سے فریضہ حج ادا کیا مزید یہ کہ مجھے ایک ایسے ماہر سماجیات کی حیثیت سےجو سیاسیات کا مطالعہ کر رہا ہےمسلم معاشرے کا تنوع بھی دیکھنے کا موقعہ ملا۔ گوکہ دردناک اموات میڈیا کی توجہ کا مرکز رہیں، 2024 کے اس حج کے دوسرے پہلو بھی تھے۔ حج دراصل ایک خالصتا روحانی سفر بھی ہےجو دیگر مسلمانوں سے ملنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن، سعودی حکومت کے اس انتظام کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا، بالخصوص مکہ کے تاریخی پہلو کی بربادی کے حوالے سے۔
دینی اہمیت:
حج اسلام کے پانچ ستونوں ، ایمان کا اعلان، پنج وقتہ نماز، روزہ اور زکوة، میں سے ایک ہے۔وہ مسلمان جومالی طور پر بے نیاز ہیں ان پر کم سےکم زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔
مناسک حج کی ادائیگی کے دوران، مرد بنا سلے کپڑے کے دو ٹکڑے پہنتے ہیں جبکہ خواتین کسی بھی طرح کے با حیا لباس پہن سکتی ہیں۔ مرد اور عورتیں دونوں ہی خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرتے ہیں۔۔۔۔کعبہ دراصل ایک معکب عمارت ہے جسے خانہ خدا کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا کے افراد خانہ کعبہ کی جانب قبلہ رو ہو کر پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔
حج کی مختلف الجہات روحانی پہلو بھی ہیں جیسے کہ غور و فکر، دعاواستغفار۔بہرحال، مناسک حج کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مثلا، حج کے مناسک میں سے ایک اہم اور ضروری عمل عرفات کے میدان کا سفر بھی ہے جو کہ کعبہ سے 15 میل یعنی 24 کیلومیٹرکی دوری پر ہے، ایک پورے دن کا سفر۔
جسمانی مشکلوں میں منیٰ میں خیموں میں سونا بھی شامل ہے جو کہ کعبہ سے پانچ میل یا آٹھ کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ حجاج کومزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے رکنا بھی ہوتا ہے جو کعبہ سے تقریباً 8 میل (13 کلومیٹر) دور ہے۔
ان ساری جگہوں کا سفرمکہ میں تمام فرائض کے علاوہ ہیں، جس میں بہت زیادہ چلنا بھی ہوتا ہے۔ میں نے اپنے حج کے دوران 80 میل یا 129 کلو میٹر پیدل چلنے کا حساب لگایا۔ مزید یہ کہ اس سال کی شدید گرمی نے مشکلیں بھی بڑھائیں۔
عالمی اسلام:
حج دنیا بھر میں تقریبا 2 بلین مسلمانوں کی نسلی اور معاشرتی۔اقتصاد ی تنوع کی نمائندگی کرتاہے۔ نسلی تعلقات کے حوالے سے حج کی اہمیت پر افریقی۔امریکی رہنما اور مفکر میلکم ایکس نے خاصہ زور دیا ہے۔ 1964 میں میلکم ایکس کے حج نے انہیں ایک سیاہ فام قوم پرست سے تصور اسلام کےتمام رنگ و نسل کو مساوی طور سے اپنانے کے تصورکو اختیار کیا۔ اپنے کسی مداح کے ایک خط میں میلکم ایکس نے یہ ذکر کیا کہ کیسے ان کی ملاقات سفید فام حاجیوں سے حد درجہ مثبت تھی" یہاں ہر رنگ و نسل کے مسلمان ہیں، سر زین کے ہرحصے سے ہیں، میں انکی نیلگوں آنکھوں میں بحسن خوبی دیکھ سکتا تھا کہ وہ بھی مجھےاپنے جیسا (اپنا بھائی) سمجھتے ہیں اس لئے کہ ان کا ایک وحدہ لا شریک پر اعتقاد نے ان کے ذہن سے "سفید " مٹا ہی دیا ہے۔
اس سال تقریبا 180 ممالک سےحجاج آئے جہاں مختلف اسلامی مکتب فکر اور فقہ پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔
حتی کہ سنی شیعہ یا اسلام کے کسی اور تعبیر کے ماننے میں تفریق کرنا بھی مشکل تھا اس لئے فرائض حج کی ادائیگی میں کسی قسم کا قابل توجہ فرق تو ہرگز نہیں تھا۔میں نے امریکہ، ناروے، فن لینڈ ، البانیہ، ترکی، مالی، بھارت، ملیشیا اور انڈونشیا کے حجاج اکرام سے ان کے مکاتب فکر کو جانے بغیر ان سے گفتگو بھی کی۔
اس کے باوجود، کچھ فرق کا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ درجنوں ایرانی بآواز بلند جوشن پڑھ رہیں جو شیعوں کی دعاوں کی کتاب ہے اور سنیوں میں غیر مقبول ہے۔
تنقیدی نقطہ نظر:
اسلامی باحثین نے عام طور سے حجاج کو ذاتی عقیدت اور رسومات پر توجہ دینے کی جانب ترغیب دلائی ہے لیکن کچھ ایسے حجاج بھی ملے جو سعودی حکومت کے حج کے انتظام و انصرام پر تنقید کرتے رہے، ان کی تنقیدوں میں یہ تنقید بھی تھی کہ حکومت فرائض حج کو تجارتی رنگ دے رہی ہے۔
2014 میں اپنے متعدد حج و عمرہ کی بنیاد پر ، برطانوی مسلم مفکر ضیاء الدین سردار کہتے ہیں کہ کیسے سعودی عرب نے مکہ سےتاریخی مزارات اور عمارتوں کو ہٹا کر ہوٹل، مالز اور دنیا کا سب سے طویل گھنٹہ گھر تعمیر کیا۔ گھنٹہ گھر خانہ کعبہ کے پاس ہی اس طور سے واقع ہے گویا وہ مقدس عمارت کا منہ چِڑھا رہا ہے۔
دراصل مکہ میں تاریخی عمارتوں کو مسمارکرنے کا عمل اس خوف پر مبنی تھا کہ مبادا یہ تاریخی عمارتیں خدائے واحد کو چھوڑ کر عبادت کا مرکز نہ بن جائیں۔ جس کے نتیجے میں مکہ میں کعبہ کے علاوہ کوئی بھی تاریخی عمارت باقی نہ رہی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب آل سعود نے بالآخر اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔میں نے دیکھا کہ مکہ اور مدینہ میں نئے طور کے میوزیم ان تاریخی وراثت کی حفاظت کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔
بہرحال، بہت سے حجاج ان مسائل کی جانب توجہ نہیں کرتے اور سفر کی روحانی پہلووں پر زیادہ تر دھیان دیتے ہیں۔ حج ایسا تجربہ ہے جو بالکل ہی مخلتف اور الگ پس منظر کے افراد سے میل جول رکھ کر ان کے ساتھ رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ عالم اسلام میں مسلمانوں کی نسلی، تہذیبی، اور سماجی۔معاشرتی تنوع کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سال کی شدید گرمی بھی فرائض حج کی ادائیگی سے کسی کو نہ روک سکی۔
انگریزی مقالہ: پروفیسر احمد ٹی کورو، سین ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی، کیلوفورنیا۔
اردو ترجمہ: ڈاکٹر سعد احمد، جامعہ ملیہ اسلامیہ۔
ای-میل: saadfarouqee[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں