ہم لفظوں میں مر رہے ہیں - آصف انظار عبدالرزاق صدیقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-08-20

ہم لفظوں میں مر رہے ہیں - آصف انظار عبدالرزاق صدیقی

obsolete case of using Urdu vocabulary

احساس کی گدگدی یا احساس کی وحشت کبھی آنکھوں دیکھے مناظر سے پیدا ہوتے ہیں، کبھی کانوں سنے بول یہ ہنگامہ آرائی کرتے ہیں۔
چلتے پھرتے ،آتے جاتے نہ آپ آنکھیں موند سکتے ہیں نہ کان بند کر سکتے ہیں۔کبھی دوسروں کی باتوں کے جملے بے ارادہ آپ کے کانوں میں پڑ سکتے ہیں۔ایسی غیرارادی شنیدہ باتیں اگرچہ از روئے اصولِ شرع نہ قضاءً قابل مواخذہ ہیں نہ دیانۃً باز پرس کے زمرے میں آتے ہیں۔۔
البتہ یہ اَن چاہی آگہی آپ کے احساس کو زخمی ضرور کرتی ہیں۔۔


ہم روزانہ سیکڑوں جملے سنتے سناتے ہیں مگر کچھ جملے ، اس جملے کے پیچھے کی ناواقفیت یا بے احتیاطی آپ کے حساس دل کو پھاڑ دیتی ہے۔۔ آپ دکھے دل کے ساتھ غور و فکر کی وادی میں دور تک نکل جاتے ہیں۔ آپ غور کرتے ہیں کہ لفظیات کا مرجانا یا اس کا کسی اور مفہوم میں مبدل ہوجانا آپ کی تہذیب کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے یا سود مند ٹھہرا ہے۔
زبانوں اور اس سے جڑی تہذیبوں میں لفظیات اور اس کے اردگرد گھومتے معنوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
بسا اوقات ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے حسب مراتب مختلف الفاظ کبھی صریح معنوں کے ساتھ کبھی کنایوں کی دبیز تہہ داری لیے ہمارے نظام ابلاغ و اطلاع میں برتے جاتے ہیں۔۔


انتقال ، وفات ، موت، پردہ فرمانا ، وصال ہوجانا۔
زبان و محاورے کی ایسی ہی چند لفظیات ہیں۔ سننے والے کو حتمی اور یقینی بات ان سے جو معلوم ہوتی ہے وہ صرف یہ کہ "کوئی جو زندہ تھا مرگیا " مگر لفظوں کے استعمال سے یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ مرنے والا کس طرح کی روح رکھتا تھا۔
بلکہ کہیں کہیں تو کسی کسی مخصوص شخصیت کے لیے مرنے کا لفظ آپ استعمال بھی نہیں کر سکتے کہ لفظیات نے نہ صرف ایک تہذیب بنائی ہے بلکہ ایک عقیدہ بھی گڑھا ہے۔۔
ماردی زبان میں لفظیات کے بر محل اور درست استعمال سے ہم زیادہ تر لغت دیکھنے کے جھگڑے سے بچے رہتے ہیں۔


بر صغیر میں عموماً مادری زبان تعلیم کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔جو علاقائی زبانیں اپنے اسکول کالج اپنی زبان میں چلاتے ہیں ان کا احوال ہم نہیں جانتے کہ ان کی لسانی حد کتنی پختہ ہے ہم تو اردو بولنے والے علاقوں اور اردو والوں کے احوال آشنا ہیں۔ خاص ان کا قصہ سناتے ہیں۔
اردو جس علاقے کے لوگوں کی مادری زبان ہے وہاں ابتدائی تعلیم اردو میں نہیں دی جاتی یعنی بہار اور اتر پردیش ، مہاراشٹر یا کرناٹک میں ابتدائی یا ثانوی تعلیم کا نظم غالباً اردو میں بھی ہے۔۔سو وہاں کے احوال ابھی زیر غور نہیں۔بہار میں اگرچہ اردو میڈیم پرائمری اسکول پائے جاتے ہیں مگر وہاں سے اردو اسی طرح غائب ہے جیسے مسلمانوں کے یہاں سے اسلام۔


کچھ اسکول ایسے ہیں جہاں سے اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا بھی غائب ہیں۔ ہماری پنچایت چکوتی ضلع سیتامڑھی کے ایک گاؤں میں ایسا ہی ایک اردو میڈیم اسکول ہے ، گاؤں کے بڑے گھرانے اپنے بچوں کو وہاں بھیجتے نہیں۔آس پاس کے غریب غرباء اپنے بچوں کو وہاں بھیجتے تو ہیں لیکن وہ اردو زبان میں تعلیم نہیں چاہتے۔چنانچہ اردو میڈیم اسکول میں ہندی ذریعہ تعلیم ہے۔اسکول کے ہیڈ ماسٹر خیر سے ہمارے آشنا ہیں۔۔ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ مسلم بچے آتے نہیں اس لیے مجبوری ہے۔۔حالانکہ یہ عجیب منطق تھی۔ارے بھائی آپ کا اسکول حکومت بہار کے نظام میں اردو میڈیم ہے تو آپ مسلم ہندو کی بات کیوں کرتے ہیں۔۔آپ تو جو بچے آپ کے اسکول میں داخل ہوں اسے اردو زبان میں تعلیم دیں۔ جو والدین اپنے بچوں کو اردو زبان میں تعلیم نہیں دلانا چاہتے وہ اپنے بچوں کو اغل بغل کے اسکول میں داخل کروائیں۔۔
مگر ماسٹر صاحب اتنی محنت کیوں کریں۔اور اس میں نقصان بھی ہے کہ بچے زیادہ تو مڈ ڈے میل زیادہ ، مڈ ڈے میل زیادہ تو آمدنی زیادہ۔
یوں نہ گھر میں زبان کا ماحول بنتا ہے نہ تعلیم گاہوں سے زبان کا ذوق وفہم حاصل ہوتا ہے۔۔


سرکار اور اس کے نظام سے کیا شکوہ ،مسلمانوں کے جو تعلیمی ادارے ہیں وہاں بھی ان کی اپنی مادری زبان جانکنی کے عالم میں ہے۔۔یادش بخیر کانپور میں قیام کے دوران ہم کچھ دنوں تک مدرسہ" فیض عام " جو خیر سے اب فیض عام انٹر کالج ہے۔۔میں" استادانہ" آئے گئے۔ یہ وہی فیض عام ہے جس کی چٹائیوں پر #ندوۃ العلماء کی ولادت ہوئی تھی۔
۔۔۔ ہم بچوں سے پوچھتے تھے کہ تم لوگ کونسی زبان بولتے ہو۔ لڑکے یک زبان ہو کر اظہار کرتے ہم ہندی بولتے ہیں۔۔ایک دن ہم نے ان سے سر سے پاؤں تک اعضائے جسمانی کے نام دریافت کیے ،سبھوں نے سارے نام نستعلیق اردو میں لکھے یا ماشاءاللہ۔ اسماء سب اردو کے اور زبان کا نام ہندی خوب۔
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
یعنی سارے بچے سجدے میں سر جھکاتے تھے کوئی "شیش نہیں نِواتا تھا "بال کو بال ہی لکھا کسی نے" کیش" نہ لکھا سارے بچوں کی" پیشانی" ہی عرق آلود ہوئی تھی کسی کا " ماتھا" نہ ٹھنکا تھا دل سب کے نزدیک دل تھا کسی کی زبان سے" ہردے" نہ نکلا۔آنکھیں بھی"نین" نہ بن سکیں۔سب کی زبان تالو سے لگی کسی کی "جیبھ" باہر نہ آئی۔
سبھی کا منہ لٹکا کسی کا " مکھ" نہ کھلا ہوا۔ سب اپنا ہاتھ استعمال کرتے تھے کوئی "ہستھ" کا پریوگ نہیں کرتا تھا۔ سب کانپور کی گلیوں میں پاؤں پاؤں چلتے تھے کوئی پگ گھنگرو باندھ کے نہیں پھرتا تھا۔


گویا ظالموں نے یک لخت اردو کو ہندی کردیا تھا۔ اور سیاست ملکی نے آزادی کے بعد یہی کیا بھی ہے کہ اردو کو دیوناگری رسم الخط میں لکھی کر ،سنسکرت کے تن مردہ سے ریشے پٹھے اور بوسیدہ ہڈیاں نکال نکال کے اردو یا ہندوستانی یا ہندوی کی ہندی زبان کے نام سے تشکیل کی۔اور اس میں وہ کامیاب رہے۔۔
اردو کی بقا کا بیڑا اب ان پروفیسروں کے ہاتھ ہے جن کی تنخواہیں اردو کے نام کی ہیں بقیہ سب انگلش میڈیم ہے۔


مدرسوں میں ذریعہ تعلیم اردو ہے نصاب کی تمام کتابیں اعلی درجے کی علمی یا ادبی عربی میں ہیں۔۔نتیجتا طلبائے مدارس اسلامیہ نہ اردو کے واقف کار ہیں نہ آشنائے عربی۔
سماجی چلن میں ایک اور زبان دھیرے دھیرے نفوذ کر رہی ہیں جس میں صرف پیشے وری کی اہمیت ہے
اس طرح زبانوں کی لفظیات دھیرے دھیرے بدلتی رہتی ہیں۔اور لفظوں سی جڑی تہذیب ختم ہوتی رہتی ہے۔


ایک دن ہم نے جامعہ ہمدرد کے دروازے پر ایک رکشے والے سے کہا "ہمایوں کے مقبرے " چلو گے اس نے حیرت سے ہمیں دیکھا۔ہمایوں اس کے لیے آشنا لفظ تھا اس کی ساری حیرت" مقبرے" پر تھی وہ اگر مقبرے کے فن تعمیر کو دیکھ کر حیرت کرتا تو یہ حیرت انگیز نہ ہوتا۔ھم نے اس کے کھلے منہ میں دوبارہ" ہمایوں کا مقبرہ" ڈال دیا اس بار اس نے کچھ قیاس وغیرہ سے کام لے کر ہم سے پوچھا۔۔ "ہمایوں ٹومب " ہم نے کہا یا انگریزی تیرا ہی آسرا ہے۔یعنی کہ حد ہوگئی میر،غالب ،استاذ ذوق اور داغ کی دلی میں مقبرے کی حقیقت واضح کرنے کے لیے "چارلس ڈکنز اور شکسپیئر" کی زبان کا سہارا درکار ہے۔۔
مقبرے سے مسلمانوں کا ذہن فوری وہاں تک پہنچ جاتا ہے جہاں بذریعہ "ٹومب" کبھی نہیں پہنچ سکتا


ہمارے پاس الفاظ اور محاورے کے استعمال کے حوالے سے رونے کےلیے کافی مواد ہے
موسم سہانا ہے آسمان ابر آلود ہے۔ ہواؤں میں خنکی ہے
یہ خنکی سرور آگیں ہے۔۔بادل چھٹ جاتے ہیں ، سورج آگ برسانے لگتا ہے۔ ہم مسجد سے نماز پڑھ کے نکل رہے ہیں لوگ شکوہ کرتے ہیں۔بادل" ہٹ" گیاہے تو گرمی بڑھ گئی ہے۔۔۔
مسلمانوں کی ایک بات اچھی ہے۔
کہتے ہیں سب خدا کے اختیار میں ہے۔۔


مقبرے کا مبدل بہ "ٹومب" ہوجانا۔
اردو میڈیم اسکول میں ہندی کا ذریعہ تعلیم ہونا۔
اردو پروفیسروں کا انگلش ہوجانا۔
مدرسوں میں اردو زبان کا مرجانا۔
میرا زار زار رونا اور آپ کا تسلی نہ دینا۔
سب خدا کے اختیار میں ہے۔



The obsolete case of using Urdu vocabulary, Essay by: Asif Anzar Abdul Razzaq Siddiqi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں