ڈاکٹر رشید موسوی : سنجیدگی میں شگفتگی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-06-21

ڈاکٹر رشید موسوی : سنجیدگی میں شگفتگی

rasheed-mosavi-sketch-by-mujtaba-hussain

ڈاکٹر رشید موسوی نے جب مجھے حکم دیا کہ میں اُن کی کتاب کے لئے تعارف لکھوں تو میں نے اُنھیں بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مجھے اس کٹھن آزمائش سے نہ گزاریں تو اچھا ہے۔ میری دلیل معقول تھی کہ اردو کے کسی استاد کی کتاب کا دیباچہ یا تعارف لکھنے کا حق اردو کے کسی طالب علم کو نہیں پہنچتا۔ وہ ٹھیریں اردو کی مسلم الثبوت استاد اور میں ٹھیرا اردو کا ایک ادنی طالب علم۔ مانا کہ وہ میری ہم عمر ہیں لیکن علم و فضل میں تو مجھ سے بڑی ہیں۔ اگرچہ وہ میری ہم جماعت رہ چکی ہیں، لیکن جس جماعت میں ہم دونوں ہم جماعت تھے، اُس کے بعد تو میں نے تعلیم کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا اور بی۔اے کے بعد کوئی معقول یا نامعقول تعلیم حاصل نہیں کی جبکہ رشید موسوی نے علم و آگہی کی کھوج میں پہلے تو ایم۔ اے کیا۔ اس پر بھی چین نہ آیا تو پی، ایچ ڈی کرلی۔ رشید موسوی سے وہ ڈاکٹر رشید موسوی نہیں اور اب تک نہ جانے اپنی کتنی ہی طالبات کو اپنی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرا چکی ہیں۔ اب چاہتی ہیں کہ مجھ جیسا کم علم اور بے بضاعت آدمی اُن کی کتاب کے لئے تعارف لکھے۔ اسے آپ ڈاکٹر رشید موسوی کا علمی مذاق نہ کہیں تو اور کیا کہیں گے۔


ڈاکٹر رشید موسوی پر کچھ لکھنے سے گریز ، میں اس لئے بھی کرنا چاہتا تھا کہ مجھے اُن پر کچھ لکھنے کے لئے تیس پینتیس برس پہلے کی یادوں کو سمیٹنا پڑے گا۔ جن اصحاب نے تیس پینتیس برس پہلے کے حیدرآباد کے ادبی ماحول کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ اب اس ماحول کو یاد کرنا بھی ایک آزمائش سے کم نہیں۔ اردو شعر و ادب کا طوطی بولتا تھا۔ عثمانیہ یونی ورسٹی کی عمارت میں شعر گونجا کرتے تھے۔ اردو تہذیب کا سکہ چلتا تھا۔ اردو ایک زبان ہی نہیں ایک طرز زندگی بھی تھی۔ آئے دن ادبی محفلیں، تہذیبی جلسے ، بیت بازی کے مقابلے، مشاعرے اور تقریری مقابلے۔۔۔ نہ جانے کیا کیا منعقد ہوتے تھے۔ اسی ماحول میں 1953ء میں پہلے پہل رشید موسوی کو دیکھا۔ نہایت سرخ و سفید رنگت والی دھان پان سی لڑکی تھیں۔ کم گو اور باوقار، اپنے آپ کو ہمیشہ اپنے آپ میں سمیٹی ہوئیں۔ یوں بھی اُن دنوں کے معاشرہ میں مخلوط تعلیم کے باوجود طلبہ میں ایک غیر مخلوط فضا ہمیشہ قائم رہتی تھی۔
رشید موسوی اگرچہ زمانہ طالب علمی میں ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں لیکن اس کے باوجود اُن سے ملاقاتیں نرسری ہی رہیں۔ البتہ اُن کی ایک سہیلی سے میری کسی قدر غیر سرسری ملاقات تھی۔ ایک دن میں نے اس سے رشید موسوی کے بارے میں پوچھا : آخر یہ ہمیشہ اتنی سنجیدہ، متین اور برد بار کیوں بنی رہتی ہیں۔ ہنسنا تو شاید جانتی ہی نہیں ہیں۔ سچ بتاؤ کیا تم نے کبھی اُنھیں ہنستے ہوئے دیکھا ہے ؟"
اس پر وہ بولی :
"تم کیا جانو کہ اس متانت میں کتنی شرارت ہے۔ اس سنجیدگی میں کتنی شگفتگی ہے۔ جتنی وہ بردبار ہیں، اتنی ہی قہقہہ بار بھی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس شرارت اور شوخی کا جلوہ عام نہیں ہے بلکہ اس کا دیدار، سہیلیوں کی محفل خاص میں ہی ہوتا ہے۔"
مگر مجھے اُن کی سہیلی کی بات پر یقین نہ آیا اور میں، اسی یقین کے ساتھ کالج سے نکل آیا۔ درمیان میں ایک طویل عرصے تک ڈاکٹر رشید موسوی سے کوئی ربط قائم نہ ہو سکا۔ البتہ اُن کے کارناموں کی اطلاعیں ضرور مل جاتی تھیں۔ پتہ چلا کہ رشید موسوی نے ایم۔ اے کر لیا ہے۔ پھر پتہ چلا کہ وہ ایک کالج میں اردو کی استاد لگ گئی ہیں اور لڑکیوں کو اردو پڑھا رہی ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ انھوں نے "دکن میں مرثیہ اور عزاداری" کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کرلی ہے۔ اس موضوع کا عنوان جان کر میرا یہ یقین دوبارہ پختہ ہو گیا کہ رشید موسوی واقعی ہنسنا نہیں جانتیں۔


ڈاکٹر رشید موسوی کو میں نے کالج سے نکلنے کے پورے تیرہ برس بعد 1968ء کے آس پاس اس وقت دوبارہ اور بہ انداز دگر دریافت کیا جب وہ زندہ دلان حیدرآباد کی سرگرمیوں میں عملی طور پر حصہ لینے لگیں۔ میرے لئے یہ ایک حیرت انگیز انکشاف تھا۔ یہ اُن کا نیا روپ تھا۔ جس میں وہ مزاح نگار بن کر ابهریں۔ زندہ دلان حیدرآباد کی وہ نائب صدر بھی رہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ ہنسنے ہنسانے کے لئے اپنے مقالے کی تکمیل کا انتظار کر رہی تھیں۔ جس میں دور دور تک ہنسی مذاق کی کوئی گنجایش نہیں نکل سکتی تھی۔ یہ سچ بھی ہے کہ ہنسی دل لگی ، اُسی وقت اچھی لگتی ہے جب آدمی اپنے سارے بنیادی اور ضروری کام کر لے۔ ہماری طرح نہیں کہ زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا، اور لگ گئے ہنسنے ہنسانے میں۔ اب تو ہنسنا ہنسانا ہی اپنا واحد کام نظر آتا ہے۔


رشید موسوی نے پورے اعتماد اور دل مجھی کے ساتھ مزاح نگاری شروع کی اور یہ اعتماد ان کی تحریروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ میرا ایسا خیال ہے کہ انھوں نے 1968ء میں اچانک مزاح لکھنا شروع کیا اور 1973ء تک لگاتار مزاح لکھتی چلی گئیں۔ اس عرصے میں انھوں نے نہ صرف مزاح نگاری میں دلچسپی لی بلکہ حیدرآباد کے سب سے بلند قامت مزاح نگار حمایت اللہ میں بھی دلچسپی لینی شروع کی۔ اور نتیجہ میں ان دونوں کی شادی ہو گئی گویا مزاح نگاری ان کے لئے اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ مجھے یاد ہے کہ حمایت اللہ اور ڈاکٹر رشید موسوی کی شادی کی اطلاع جب اشفاق حسین مرحوم کو ملی تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں اس بندھن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
"اردو ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مرتبہ اور مزاج کا ملاپ ہو رہا ہے۔"

یہ بھی پڑھیے:
نریندر لوتھر صاحب - خاکہ از ڈاکٹر رشید موسوی
مالن بی - انشائیہ از ڈاکٹر رشید موسوی

حمایت اللہ میرے عزیز ترین دوستوں میں سے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ حمایت اللہ سے ڈاکٹر رشید موسوی کی شادی کے بعد ہی مجھے انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔
رشید موسوی اپنے مزاج کے اعتبار سے بلند بانگ قہقہہ لگانے کی قائل نہیں ہیں بلکہ زیر لب تبسم کو مہذب آدمی کی نشانی سمجھتی ہیں۔ اگرچہ مزاح خود بے اعتدالی اور عدم آہنگی کی پیداوار ہوتا ہے۔ لیکن رشید موسوی اپنے مزاح کو اعتدال میں رکھنے اور اسے ایک آہنگ عطا کرنے کو ضروری سمجھتی ہیں۔ مزاح نگاروں کی نجی محفلوں میں بھی جب میں اور حمایت اللہ بے تحاشہ قہقہے لگانے میں مصروف ہوتے ہیں تو رشید موسوی اپنی پوری انفرادیت کے ساتھ چُپ چاپ اپنے ہونٹوں پر تبسم کی ایک ہلکی سی جھلک سجائے بیٹھی رہتی ہیں۔ ان کا تبسم شاذ و نادر ہی قہقہہ میں تبدیل ہوتا ہے۔ جو رکھ رکھاؤ اور قرینہ ان کی شخصیت میں ہے وہی ان کی مزاح نگاری میں بھی نظر آتا ہے۔


میرا قیاس ہے کہ ڈاکٹر رشید موسوی نے تقریباً پانچ برسوں تک لگاتار مزاح نگاری کی تھی۔ اس مجموعہ میں شامل اکثر مضامین اُسی خوشگوار دور کی یادگار ہیں۔ اُن کے ساتھ کئی محفلوں میں مجھے بھی شرکت کرنے کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے کہ انجینیروں کے ایک جلسے میں انھوں نے اپنا ایک مضمون سنایا تھا جو اس مجموعہ میں بھی شامل ہے۔ یہ مضمون اس جلسہ کا سب سے کامیاب مضمون تھا۔ رشید موسوی نے جس ذہانت کے ساتھ غالب کی شاعری میں انجینیرنگ کے گوشے تلاش کئے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے۔


اُن کی ذہانت فطری، مشاہده تیز، شخصیت دل نواز، نگاه دور رس اور مزاح شگفتہ ہے۔


ان مضامین میں ایک باشعور مزاح نگار نے شگفتگی، بے ساختگی اور وارفتگی کے جو پھول کھلائے ہیں ، وہ اردو مزاح نگاری کے چمن زار میں ایک حسین اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یوں تو اس مجموعہ کے سارے ہی مضامین دلکش اور دلچسپ ہیں لیکن میں یہاں خصوصیت کے ساتھ اس خاکہ کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کا عنوان ہے: "مالن بی"۔
ڈاکٹر رشید موسوی نے جس خوب صورتی کے ساتھ ایک معمولی کردار کو غیر معمولی ، بظاہر ایک غیر اہم شخصیت کو اہم بنایا ہے ، یہ اُن کے حُسن بیان کا آئینہ دار ہے۔ جس چابک دستی کے ساتھ انھوں نے اس کردار کے خط و خال ابھارے ہیں وہ ان کی اعلیٰ فن کارانہ صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔ رشید موسوی نے بہت کم خاکے لکھے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ وہ اس طرح کے خاکے اور بھی لکھیں اور اردو ادب کے سرمایہ کو مالا مال کریں۔
ادھر ایک عرصے سے ڈاکٹر رشید موسوی نے مزاح نگاری کے معاملہ میں چُپ سادھ رکھی ہے۔ نہ جانے یہ اُن کی کونسی ادا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ پھر سے اچانک اس جانب توجہ کریں گی، جیسا کہ اُن کی عادت ہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا یہ پہلا مجموعہ ان کے مضامین کے اور بھی کئی مجموعوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔


یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ڈاکٹر رشید موسوی نے بالآخر ان مضامین کو اکٹھا کرنے اور انھیں شائع کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اگر وہ اپنی روایتی بے نیازی کے تحت ان مضامین کو کتابی صورت میں شائع نہ کرتیں تو ہم اُن کا کیا بگاڑ لیتے۔ تاہم اردو مزاح نگاری کا ضرور کچھ نہ کچھ بگڑ جاتا۔ میں ڈاکٹر رشید موسوی کو ان کے مجموعہ مضامین کی اشاعت پر مبارک باد دیتا ہوں۔


مجتبی حسین
نئی دہلی
15/ اگست 1986ء

***
ماخوذ از کتاب: کاغذی ہے پیرہن (طنز و مزاح)۔ مصنفہ: ڈاکٹر رشید موسوی
ناشر: زندہ دلانِ حیدرآباد، حیدرآباد (سن اشاعت: اکتوبر 1986ء)

Rasheed Mosavi, a sketch by Mujtaba Hussain.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں