حیدرآباد کی گھریلو زندگی میں ماما کا مقام ستون کا تھا۔ جس ہانڈی میں ماما کی چوڑیوں کی جھنکار نہ گونجتی،اس کے پکوان کو ذائقہ نصیب نہ ہوتا۔ جس کا ج کو ماما کی تائید نہ ملتی اس کی بیل، منڈوے نہ چڑھتی ،، جس گھر سے ماما کی آواز بلند نہ ہوتی اس کی رونق کو ہنگامہ حاصل نہ ہوتا۔ حیرت تو اس واقعہ سے ہوتی ہے کہ اس گھریلو مخلوق نے اس عملداری کو محلوں کی خلوت گاہوں تک وسیع کردیا تھا۔ اسٹیت آرکائیوز کے ذخیروں میں میں نے قدیم جاہی بادشاہوں کے ایسے حکم نامے دیکھے ہیں جن پر جلی حروف میں مرقوم ہے۔
"بذریعہ ماما جمیلہ یا بذریعہ ماما نصیبن۔" اور پھراس کے نیچے احکامات کی تفصیل۔۔ اب اس حیرت کی ذہنی فضا میں سوچتے بیٹھئے۔۔ یہ اشرف مخلوق ، اپنی تخلیق میں محنت اور محبت کے اجزا کے ساتھ فراست کا کتنا متوازن جزوشامل رکھتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ان کا دور حکومت ختم ہوچکا ہے۔ لیکن اب اگر کہیں کوئی باقی ہے تو اسی شان سے اس کی حکمرانی باقی ہے۔
"مالن بی! چھ دفعہ آواز دے چکی ہوں۔ اور آپ اب تشریف لائی ہیں؟"
اوئی! بی بی پاؤں میں میرے پہییّ لگے ہیں کیا؟ اور سچ بولے بی بی بڑھاپا تشریفچ لاتا ہے۔ زمین پو پاؤں رکھے تو زمین چھوڑتی چھوڑتی نئیں۔ ارے ارے۔" اور مالن بی نے دونوں ہاتھوں سے اپنی کمر پکڑ لی۔ میں نے کتاب پر سے نظر اٹھائی ، گول بیضوی اور چوکور ان تینوں وضعوں کا ایک ملا جلا چہرہ سانولی، بجھی بجھی سی سایہ دار رنگت، پیشانی پر جھریووں کا جمگھٹ، اس جمگھٹ میں پسینہ کا پن گھٹ آنکھیں چھوٹی مگر روشن اور لانبی۔ چھوٹا قد فربہی کو ابھارتا ہوا ، چھینٹ کا پاجامہ ، ململ کا کرنا، مشروع کا تار تار واسکوٹ۔ تیلیارومال سر پوش۔
"مالن بی آج میں صحن میں سوؤں گی۔" مالن بی کا سیدھا ہاتھ تعجب کا موڑ کاٹتا ہوا ان کے ہونٹوں پر جارکا۔ اور کلمہ کی انگلی کھٹ سے ناک کی چوٹ پر ٹک گئی۔"
"اوئی بی بی! صحن میں؟" میں نے ذرا سخت لہجے میں پووچھا:
"کیوں کیا قباحت ہے؟"
قباحت کیا ہوتی ہے وہ تو مجھے معلوم نہیں۔ پن میری نانی کہتی تھی ، کھلے آسمان کے نیچے نئیں سونا ماں۔۔۔ پھولاں کچھ باتاں کرتئیں، ہواائیاں کچھ پھونکتیں، ہور چاند کو تو بس ٹک ٹک دیکھنا آتا ہے۔۔۔۔"
واہیات چپ رہو۔۔۔"میں نے ڈانٹ دیا۔
مالن بی بڑبڑانے لگیں۔"بھلے کی بات بولو ڈانٹنیاں سنو۔ کیا زمانہ آگیا ماں۔"
اس رات میں صحن میں سوئی۔ لیکن مالن بی نے بھی اپنا بچھونا میرے پائنتی میں ڈال لیا۔ ان کے خراتے تمام رات چاندنی کی نیند پہ سنگباری کرتے رہے۔ صبح جب انہوں نے امی سے جوڑوں کے درد کی شکایت کی تو امی نے باہر سونے کو اس کا سبب گردانا۔ مالن بی نے اپنی صفائی میں کہا۔
"کیا کروں، بی بی باہر سونے پر تل گئی تھیں۔ ان کو اکیلے کیسے سونے دیتی۔"
اس محبت کا کیا مقام ہے ، جو ہر قدم پر قربان ہونے کے بہانے ڈھونڈھے ہے، یقینا وہ فرش نہیں جس پر مالن بی کھڑی ہیں۔!!
گھرکے بچوں کے ساتھ محبت ان ماؤں کی خصوصیت ہوتی ہے۔ جن کے کوئی اولاد نہیں ہوتی۔ بلکہ جن کا دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ جو مامائین شوہہر اور بچے والیاں ہوتی ہیں، وہ گھر والوں کو ثانوی حیثیت دیتی ہیں۔۔۔
ایک مرتبہ بابا کو صبح کہیں جانا تھا۔ میں ناشتہ لانے باورچی خانے میں گئی تو دو پراٹھے تیار تھے۔ اور انڈا توے پر تھا۔ میں نے اٹھتے ہوئے مالن بی سے کہا۔"بابا کھانے کی میزپر آگئے ہیں۔"لیکن مالن بی نے ذرا کھسیاتے ہوئے جواب دیا۔" بی بی میری بہن کے دامدا کو بھی سات بجے کی بس سے گاؤں کو جانا ہے۔پہلے اس کو ناشتہ کرلینے دیو۔۔۔ آپ جاؤ میں سرکار کے واسطے ابی ناشتہ لاتیوں۔۔"
ایک دن میں نے دیکھا کہ مالن بی کی جگہ امی دھوئیں میں گھٹ رہی ہیں چولھے کی گرمی میں پسینہ پسینہ ہورہی ہیں۔ میں نے صدر مقام کی اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو معلو م ہوا کہ مالن بی خفا ہوکر چلی گئی ہیں۔ خفگی اس بات پر تھی کہ وہ تین دن بخار میں بھنتی رہیں اور سب نے ان کی مزاج پرسی کی سوائے بابا کے اور انہوں نے اس گھر کو پیٹھ دکھادی جہاں ان کے خلوص کی ایسی ناقدری ہوئی کہ مزاج پرسی کے دو لفظوں کا بھی مستحق نہ سمجھا گیا۔ بابا خود ان کے گھر گئے۔ ایک درجن موسمیاں ان کی بھینٹ کیں اور ایسا طرز عمل رکھا جیسے ابھی ابھی ان کو مالن بی کی علالت کی خبر ملی ہو۔ بابا سے پہلے ہی مالن بی واپس آگئیں۔ میری ایک سہیلی مالن بی کی جاں نثار وفاداری کو بہت ٹوکتی ہے۔ اور اس کو یہ پسند نہیں کہ، مالن بی کے ساتھ گھر والوں کا سا سلوک کریں۔
"یہ مامائین بڑی بددماغ ہوتی ہیں۔" وہ اپنی دریافت مجھ تک پہنچاتی۔ میں اس کو گھورنے لگتی۔ اور وہ اپنے نظریہ کا پس منظر پیش کرتی۔ گھر میرا فلم اسٹوڈیو بناہوا ہے۔ میں اپنی ماما کو ماما جی پکارتی تھی۔ ایک دن وہ پلٹ کر کھڑی ہوگئیں۔
"بیگم صاحبہ! آپ مجھے ماما بی کیوں پکارتی ہیں؟" میں نے پوچھا کیوں اس میں کیا خرابی ہے؟ ماما جی نے کہا:بیگم صاحبہ میرا تو ایک نام ہے۔ "میں ذرا بوکھلا گئی۔" تو؟" ماما جی نے صحن میں اترتے ہوئے اعلان کردیا۔
مجھے آپ سائرہ بانو پکارا کیجئے۔ مجھ پر ہنسی کا دور ہ سا پڑ گی ا۔ اور بیچاری سہیلی حیرت سے مجھے تکتی رہ گئی کہ یہ کونسا موقع ہنسی کا ہے۔
ہاں تو بات ہماری ماما کی تھی۔۔ ماما کیوں کہوں۔۔ اس میں مجھے تحقیر کا پہلو نظر آتا ہے۔ میں کہوں گی۔۔ مالن بی۔۔ ! وہ ہیں تو گھر ہے گھر والے ہیں۔ آپ کا کام صرف حکم جاری کرنا اور ان کا کام تعمیل۔ بہر حال تعمیل عمدہ تعمیل۔
"مالن بی ، آج رات کے کھانے پر آٹھ مہمان رہیں گے۔" اور رات میں آٹھ مہمان صاحب خانہ کی مدارات کے گن گاتے ہوئے رخصت ہوں گے۔ یہ آٹھ تو معمولی لوگ ہیں۔۔ میری مراد ہے معمولی تعداد۔ آپ تقریبوں کا تعین کردیجئے۔ بسم اللہ، گل پوشی، شادی، چھلہ، چھٹی۔۔ پھر دیکھئے مالن بی کی کرشمہ کاری۔ چراغ کے جن نے جیسے اپنی جنس بدل لی۔ اور مالن بی بی بن کر آیا۔ ایک ایک چیز نظر میں۔ ایک ایک انتظام کا خیال۔۔ پکوان کی دیکھ بھال، نشست کا انتظام۔ اور پھر رسموں کے وقت پیش پیش۔ کبھی ڈھول پیٹ رہی ہیں، کبھی گارہی ہیں ، اور آخر میں اپنی دیرنہ مہارت کا فخریہ طور پر مظاہرہ کرتے ہوئے رسم کو مسلمہ طریقوں سے انجام دلوارہی ہیں۔ ان مصروفیتوں کے باوجود چپلوں اور جوتوں پر نظر رکھنے والی ماماؤں ، آیاؤں ، اور چھوکریوں پر مالن بی کی شاہینی نگاہ۔۔ مجال ہے جو کوئی اپنے ہاتھ کی صفائی دکھلانے میں کامیاب ہوجائے۔ تقریب کے دوسرے دن کی صبح بڑی بے کیف ہوتی ہے۔ لیکن مالن بی اسی مستعدی اور تندہی سے فرش اٹھوانے ، برتن دھلوانے اور رو ز مرہ کا ماحول جمانے میں جتی رہتی ہیں۔ وہی تو ہیں جو ہمارے ل ئے زندگی کو ایک تقریب مسلسل بناتی ہیں۔ میں نے مالن بی کی علالت کا ذکر کیا تھا۔ اب سنئیے کہ دوسروں کی علالت میں ان کا کیا حال ہوتا ہے۔
مالن بی کا دعوی ہے کہ دنیا کی کوئی بیماری ایسی نہیں ہے جو ان کو لاحق نہ ہوئی ہو۔ اس لئے وہ اپنے آپ کو ہر بیماری کا بیمار اور ہر بیماری کا طبیب بھی سمجھتی ہیں۔ گھر میں اگر کسی کی طبیعت خراب ہو تو وہ اپنا علاج آزمانے پر مصر ہو جاتی ہیں۔
مجھے یاد ہے۔ ایک دن میں سخت دھوپ میں کالج سے گھر لوٹی بخار کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ امی کو پریشان دیکھ کر مالن بی باورچی خانے سے کوئی چیز اٹھالائیں اور آہستہ آہستہ میرے تلوؤں پر رگڑنے لگیں۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کوئی گول گول چیز ہے۔ جو میرے تلوؤں پر دبتی ہے تو پھوٹ جاتی ہے۔ اس علاج کا اثر یہ ہواکہ آدھ گھنٹے کے اندر ساری گرمی کافور ہوگئی۔ اور میں بھلی چنگی ہو بیٹھی۔ اب جو میں مالن بی سے پوچھتی ہوں، آخر وہ کیا چیز تھی جس کو تلوؤں پر رگڑنے سے اس قدر جلد افاقہ ہوگیا تو وہ اپنی مخصوص ایک طرفہ مسکراہٹ کے ساتھ خاموش ہورہتی ہیں۔ ان کی ایک طرفہ مسکراہٹ کا خاصہ یہ ہے کہ ان کی سیدھی جانب کے نیچے اوپر کے دانت گر گئے ہیں۔ البتہ بائیں جانب کی دوونوں صفیں سلامت ہیں۔ اس لئے وہ جب بھی مسکراتی ہیں سیدھے رخسار کے گڑھے کو اپنی مسکراہٹ کا Runwayبناتی ہیں۔ بخار کھانسی سے لے کر دمہ اور فالج تک مالن بی کی حکمت کی رسائی ہے۔ اور اس معاملے میں گھر والوں کی ہی تخصیص نہیں۔ محلے میں کسی کے بھی بیمار ہونے کی خبر مل جائے تو مالن بی اس کے سرہانے پہنچ جاتی ہیں۔
مالن بی کا دوسرا محبوب مشغلہ ہے دوسروں کی گتھیوں میں الجھنا اور اپنی الجھبن سے سلجھاؤ کی صورت نکالنا۔ فجر کی نماز کے بعد بابا کا ناشتہ تیار کیا۔ امی کو گرم پانی دیا اور وہ محلہ کی ہوگئیں۔ کہیں سننے میں آتا ہے کہ مالن بی کسی کرایہ دار کو گھر سے نکلوارہی ہیں۔ کبھی سننے میں آتا ہے کہ کسی زمین پر جھونپڑی ڈالنے والے کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں۔ کبھی سننے میں آتا ہے کہ ساس بہو میں مصالحت کروارہی ہیں اور کبھی سننے مین آتا ہے کہ کسی گستاخی پر نوکر کو اس کے مالک سے پٹوارہی ہیں۔ اور کبھی سننے میں آتا ہے کہ کسی پڑوسن کی نانی کراچی میں مر گئی ہے تو مالن بی اس کے گھر میں اکیلی بیٹھی رو رہی ہین۔ کیونکہ وہ اپنی خالہ کو اطلاع دینے کے لئے دارالشفا گئی ہوئی ہے۔ مالن بی کے رونے پر ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ہمارے گھر میں شادی کی چہل پہل تھی۔ رات دیر تک گانا بجانا ہوتا رہا جب لوگ سونے کے لئے اٹھے۔ میں نے دیکھا کہ مالن بی نے فرش پر بکھرے ہوئے پھول چن کر اپنے پلو میں ب اندھ لئے۔ مجھے حیرت ہوئی لیکن میں چپ ہورہی ، مالن بی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ میں اپنے کمرے میں آگئی۔ سونے سے پہلے مجھے خیال آیا کہ الماری کی کنجیاں مالن بی کے پاس ہیں۔ کنجیاں لانے گئی تو دروازہ میں ٹھٹک کر رہ گئی۔ مالن بی کے سامنے صندوق کھلا تھا۔ اور وہ ایک زرد رنگ کے کرتے اور ڈوپٹے کی تہوں میں موتیاں کے پھول جمارہی ہیں۔ صندق بند کرکے انہوں نے پلٹ کر دیکھا، اور میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے ایک طوفان چھلک رہا ہے ، جھپٹ کر انہوں نے مجھے ہٹایا۔ اور اپنے رومال کے کونے سے میری آنکھیں پوچھنے لگیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا مالن آج تو آپ پکڑی گئیں۔۔بولو کیا قصہ ہے۔۔؟
کہنے لگیں بی بی غریبوں کا قصہ کیا۔ ایک بپتا ہے۔۔۔۔جب میری بات کہیں جمی نہیں تو میری ماں نے میری ایک گوری سہیلی کو دلہن بناکر دکھایا۔ دولھے والے راضی ہوگئے۔
طے یہ ہوا کہ آرسی مصحف تک میری سہیلی دلہن بنی رہے گی۔ اور اس کے بعد میں دولھے کے ساتھ جاؤں گی۔ لیکن میرے چچا کا ایک بیٹا تھا اس نے اپنی جلن میں دولھے کے کان تک یہ بات پہنچا دی کہ دلہن بدلنے والی ہے۔ دولھا ہوشیار ہووگیا اور آرسی مصحف کے بعد میری سہیلی کو زبردستی اٹھا کر لے گی ا۔ اور میں منجوں کے جوڑے میں گھر بیٹھی رہی۔ آج تک بیٹھی ہوں۔ میں مالن بی سے لپٹ گئی۔ مالن بی یہ سمجھتی رہیں کہ میں رو رہی ہوں۔۔ اور میں ہنستے ہنستے بے حال ہوگئی۔
مالن بی ہر فن مولا ہیں۔ کچھ تو خود ان کی طبیعت استادانہ ہے۔ اور پھر ملازمت نے ان کو ہر گھاٹ کا پانی پلوادیا ہے۔ اب تک وہ حکی، وکیل، امین، پولیس، سر رشتہ دار، عدالت اور ایک وظیفہ یاب تحصیل دار کا گھر سنبھال چکی ہیں۔ اس لئے ہر معاملہ میں وہ اپنی رائے کے ساتھ ساتھ تجربے کا حوالہ دیتی ہیں۔ اور کہنا پڑتا ہے مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔
ان کی ایک آرزو ہے کہ وہ کسی وزیر کے ہاں بھی کام کریں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چھ مہینے کے اندر وہ اس وزیر کو بادشاہ بنادیں گی۔ رات کے وقت مالن بی ایک خاص جولانی کے ساتھ زندگی کا جائزہ لیتی ہیں۔ دن ان کے نزدیک کاروبار کے لئے ہوتا ہے اوررات جینے کے لئے۔ کسی کو نیند آتی ہے تو وہ بہت چراغ پا ہوتی ہیں۔ کہتی ہیں جو سویا سو کھویا۔ وہ کہانیوں کے انداز میں ماضی کی داستانیں دہراتی ہیں۔ گیت گنگناتی ہیں۔ پہلیاں بجھواتی ہیں۔ ایک دن میں نے دیکھا سارا گھر سورہا ہے اور وہ تنہا اپنے آپ باتیں کرتی بیٹھی ہوئی ہیں۔ نئے زمانے سے ان کو بڑی شکایت ہے ، لیکن آج تک اپنے زمانے کے سوائے کسی نے دوسرے زمانے کو پسند کیا ہے!
مالن بی اگرچہ گھریلو علاج کی ماہر ہیں، لیکن اپنی حد تک وہ ہمیشہ ڈاکٹری علاج چاہتی ہیں۔ میں ان سے پوچھتی ہوں ، کیا مالن بھی مرنے کا ارادہ نہیں ہے؟ تو امی بابا مجھے گھورنے لگتے ہیں۔ مالن بی چلی جاتی ہیں تو امی سرگوشی کے انداز میں مجھ سے کہنے لگتی ہیں۔ بیٹا مالن بی نے تمہیں رات رات بھر اپنی گود میں سنبھالا ہے۔ اور تمہیں یاد ہے کہ جب تمہیںPh.Dکی ڈگری ملی تھی ، مالن بی نے سوا سو روپے کی ساڑی تحفہ میں دی تھی۔ سوا سو روپے اس کی اپنی تنخواہ کے تھے۔ وہ تمہارے لئے جیتی ہے ، بیٹا اس کو جینے دو۔
میں مالن بی کے کمرے میں جا گھسی۔ وہ اپنے بائیں پاؤں کے انگوٹھے کو ڈوری سے کستے ہوئے کراہ رہی تھیں۔ دہلیز ہی سے میں نے پکارا۔ مالن بی زندہ باد۔۔ مالن بی چاہے کیسے ہی خراب موڈ میں کیوں نہ ہوں۔۔۔!زندہ باد کا نعرہ ان کو خوشی کی فضا میں اچھال دیتا ہے۔۔۔!
ماخوذ از کتاب: کاغذی ہے پیرہن (طنز و مزاح)۔ مصنفہ: ڈاکٹر رشید موسوی
ناشر: زندہ دلانِ حیدرآباد، حیدرآباد (سن اشاعت: اکتوبر 1986ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں