شرف الدین بوعلی شاہ قلندر کے والد فخرالدین عراقی معروف بہ سالار شاہ نعمت اللہ کرمانی کے مرید تھے جو ۶۰۰ھ یعنی ۱۲۰۳عیسوی میں عراق سے ہندوستان تشریف لائے اوریہیں ۶۰۴ھ میں صوبہ ہریانہ کے شہر پانی پت میں بو علی شاہ قلندر پیدا ہوئے۔ قطب ابدال ، قتال،عاشق الہی رومی ثانی اور بخشی ہند مختلف آپکے القاب ہیں۔ آپکی والدہ بی بی حافظہ جمال شاہ نعمت اللہ کرمانی کی ہمشیرہ تھیں۔ فارسی آپکی مادری زبان تھی۔ سلسلہ نسب چند واسطوں سے امام ابوحنیفہ نعمان کوفی سے ملتا ہے۔
قلندر نے اوائل عمر میں مروجہ علوم متداولہ مولانا سراج الدین مکی سے حاصل کرکے چالیس سال تک پانی پت میں علم فقہ و حدیث کا درس دیتے رہے۔مزید تعلیم کے لئے دار الحکومت دہلی کا رخ کیا اور مدرسہ بام بہشت میں وقت کے جید علماء کے سامنے زانوادب تہہ کیا۔اور تقریبا بیس سال تک مسجد قو ت الاسلام میں مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ا س و قت دہلی اہل علم و ادب اور سیاست کا بڑا مرکز تھا۔ اور قلندر سے اس عہد کے سلاطین مثلا سلطان غیاث الدین بلبن ، جلال الدین خلجی اور علاء الدین خلجی بڑی عقیدت و احترام سے پیش آتے تھے۔ آپکے معاصرین مشایخ اور علماء میں مولانا ضیاء الدین سنامی، خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی ، شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء، خواجہ نجم الدین قلندر، خواجہ نظام الدین اولیاو حضرت امیر خسرو قلندر سے محبت و عقیدت رکھتے تھے۔جیسا کہ مشہور ہے امیر خسرو سلطان علاء الدین خلجی کے طحائف کے ساتھ قلندر کے یہاں حاضری دی اور انکو اپنے اشعار سنائے تھے۔ اور انکا کلام بھی سنا تھا۔ خسرو نے جو غزل سنائی تھی اسکے چند اشعار حسب ذیل ہے:۔
ای کہ گوئی ہیچ سختی چون فراق یار نیست
گر امید وصل باشد آ ن چنان دشوار نیست
عاشقان را در جہان یکسان نباشد روزگار
زانکہ این انگشت ہابر دست من ہموار نیست
خلق را بیدار باید بود از آب چشم من
این عجب کان وقت مینگریم کہ کس بیدار نیست
چند می گوئی برو ز نار بند ای بت پرست
برتن خسرو کدامی رنگ کہ آن زنار نیست
قلندر نے خسرو کی یہ غزل سن کر ان کو تحسین و آفرین کے کلمات سے نوازا اور پھر خود فی البدیہ غزل پڑھی:
دیہیم خسروان برما نعل استر است
خسرو کسی کہ خلعتی تجرید دربر است
سیمرغ وار روئی نہفتم بقاف عشق
کز ہر دو کون دانہ روحم نہ خوراست
وحدت ورای کنگرہ کبریا کشد
کو عارفی کی منظر او عرش اکبر است
ماییم کوی عشق وخرابات بی خودی
وین رسم وسیرتیست کہ خاص قلندر است
درس شرف نبود از الواح ابجدی
لوح جمال دوست اورادر برابر است
اس حسین اور یادر گار ملاقات کو علامہ اقبال نے نظم میں بیان کرکے چار چاند لگادیئے ہیں :
خسروشیرین زبان رنگین بیان
نغمہ ہایش از ضمیر کن فکان
فطرتش روشن مثال ماہتاب
گشت از بہر سفارت انتخاب
چنگ را پیش قلندر چون نواخت
از نوائی شیشہ جانش گداخت
شوکتی کو پختہ چون کہسار بود
قیمت یک نغمہ گفتار بود
نیشتر بر قلب درویشان مزن
خویش را در آتش شوزان مزن
بو علی صرف ایک مجذوب صوفی کامل اور قلندر کی حیثیت ہی سے معروف نہیں بلکہ ایک اچھے عالم، صاحب قلم اور عمدہ شاعر کی حیثیت سے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ نثر میں مکتوبات بنام اختیار الدین اور حکم نامہ شرف الدین کا ذکر ملتاہے:۔ بقول شاہ عبدالحق محدث ہلوی :
ـ" او را مکتوب است بہ زبان عشق ومحبت مشتمل بر معارف وحقائق توحید و ترک دنیا وطلب آخرت و محبت مولی" اخبار الاخیار۔ص ۱۲۵
قلندر نثر سے کہیں زیادہ نظم میں جیسے نعت ، قصیدہ ، غزل ،رباعی اورمثنوی میں دسترس رکھتے تھے۔وہ خود کو ایک پر گو شاعر ا ور نظامی گنجوی اورخاقانی شروانی کا مد مقابل سمجھتے تھے:۔
شرف در عشق روی تو کلام از قدس آوردہ
نہ چون نظم نظامی دان نہ چون اشعار خاقانی
قلندر نے متقدمین شعرا ء جیسے سلمان ساوجی اور ظہیر فاریابی کے کلام کا مطالعہ کیا تھااور انکی تقلید پر افتخار بھی کرتے ہیں:۔
برادریم من وساوجی زما ہریک
ہمان قدر کہ بود جامگی مناسب برد
کر دم مطابقت بہ ظہیر آنکہ گفت او
شرح غم تو لذت شادی بہ جان دہد
قلندر ہندوستان میں پیدا ہونے کے ساتھ ہندپرست بھی تھے لیکن عراقی ہونے پر فخر کرتے اور فرماتے تھے کہ انکی ولایت اور شاعری کی شہرت ہندوستان کے باہر روم و خراسان میں بھی پہنچ گئی ہے۔
شرف بہ ہند در عارفی کشاد و فشرد
ولی بروم و خراسان ولایتش دانند
مراگلہ زہندوستان است ہندوی
شرف بہ ہند پرست ولیکن عراقیست
انکے آثار میں دو مثنویاں اور ایک کلیات یادگار ہیں۔ یہ مثنوی کنزالاسرار اور رسالہ عشقیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ کنزالاسرار مختلف حکایات کا مجموعہ اور رسالہ عشقیہ تین سو باسٹھ اشعار پر مشتمل ہے۔ کلیات میں تقریبا سترہ سو اشعار ہیں۔ جس میں قصیدہ ،رباعی ، قطعہ اور غزل کے عمدہ نمونے ہیں۔ عشقیہ قلندر کی مشہور ترین مثنوی ہے۔ بقول شخصی:
"ہربیتش از متاع عرفان معمور و ہر شعرش عارفان را موجب وجد وسرورـ"
قلندر نے مقدمین شعرا میں عطار نیشاپوری کی مثنویــ منطق الطیر کی زمین میں اور اسی بحرمیں ایک مکمل مثنوی گل بلبل کے نام کہی جسکے چند شعر بطور نمونہ پیش ہیں مطلع منطق الطیر :
صوفیی را گفت آن پیر کہن
چند از مردان حق گوئی سخن
مطلع گل و بلبل:
مرحبا ای بلبل باغ کہن
ازگل رعنا بہ گو با ما سخن
مرحبا ای ہد ہد فرخندہ فال
مرحبا ای طوطی شکر مقال
قلندرکا کلام پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے عہد کے معروف شعراء جیسے امیرخسرو، سعدی شیرازی ، اور مولانا بلخی کی پیروی میں اشعار کہے۔مثلاامیرخسرو کی غزل :
ای چہرہ زیبای تو رشک بتان آزری
ہر چند وصفت می کنم در حسن زآن زیبا تری
کی تقلید میں قلندر نے کہا:
صد جان بیازم در غمت ہرگزنیازم داوری
جان خود چہ باشد در بدن جائز تو جان دیگری
ہر گز نباید در نشان نور جمالش بی گما ن
گہ در خدائی شد عیان گہ در بتان آزری
جیسے سعدی کی غزل :
امشب سبکتر می زنند این طبل بی ہنگام را
یاوقت بیداری غلط بود است مرغ بام را
اسی زمین اور اسی بحر میں قلندر نے کہا:
ساقی ما از شراب کہنہ پر کن جام را
خاک پرسرکن چو بینی زاہدان خام را
عاشق بی ننگ و نامم نعرہ خوش می زنم
من نہ خواہم ننگ را ومن جویم نام را
مولانا بلخی کا اثر انکے بیشتر اشعار میں موجود ہے۔ خاص طور رسالہ عشقیہ اور مثنوی کنز الاسرارکے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے بلکہ بعض اشعار پر تو گمان ہوتا ہے کہ وہ مولانا کے کہے ہوئے ہیں۔رومی کی مثنوی کی منظوم حکایتوں کی جھلک قلندر کی مثنوی میں نظر آتی ہے۔ مثلا:
"داستان ماہی و مگر " الماس وپسرمالدار" استاد وشاگرد احول " اور داستان قلندر " وزیر ماکر چھودان کہ درمیان نصرانیان فساد انگیخت " محقق نصر الدین و افضل " مرد جاہل در محفل دانایان " دونابینا و چھار رقیقان کہ ثبو تی یافتند" اور شاعر پسر بوالہوس و شیخ سادہ لوح و مریدان "
اس کے علاوہ رسالہ عشقیہ میں بعض عنوانات جیسے حکمت عارفان، عشق و عاشق ، ایمان کامل، ظاہر وباطن ، علم الیقین و عین الیقین وحق الیقین ، حقیقت ذات حق، خود شناسی وغیرہ نظم میں بیان کئے ہیں۔ اگر ہم انکی گیرائی میں جائیں تو مولانا کی صدائے باز گشت صاف سنائی دیتی ہے۔
قلندر کی مثنوی کے وہ اشعار جن میں مولانا کے خیالات کا عکس نظر آتا ہے۔ ذیل میں دلیلوں کے پیش خدمت ہیں۔ مولانانے عشق کو جالینوس اور افلاطون قرار دیا ہے۔ دیکھئے قلندر اسے کس طرح پیش کرتے ہیں۔
عشق می داند ہمہ بازی و پیچ
غیر عشق آخر چہ باشد ہیچ ہیچ
عشق شور انگیز باشد در جہاں
او خبر دارد ز خورشید نہان
چیست اسرار نہان عشقت وبس
کی شناسد عشق را بوالہوس
عشق چون مستی کند ای ہوشیار
صد ہزاران می کشد دریای دار
زندگی اور دنیا کا سارا سوزوساز عشق کا مرہون منت ہے۔ قلندر کے نزدیک انکی تمنا ہے کہ سوز عشق دم بدم بڑھتا رہے۔ اور پروانے کی طرح تن من سوزہوتا رہے۔ قلندر نے اپنے کلام میں مولانا کے الفاظ ، کلمات اور محاورات کو استعمال کرکے اپنے کلام کی زینت بنایا اور بعض اصطلاحات کوبغیر کسی تبدیلی کے اپنے کلام میں موزوں کیاہے۔مولانا کے ایک لفظ ـ" سوفسطائی " کو قلندر نے اس طرح استعمال کیاہے۔
گفت سوفسطائی آن دانائی دہر
کین جہاں وہم و خیال ست در نگر
قلندر کے ان خیالات کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ اندازہ ہوگا کہ وہ مولانا کے ہم خیال ہی نہیں بلکہ انکے افکار وخیالات کے ترجمان ہیں۔ وہ تمام جذبات و مستی ،شور ہیجان ، ہمہمہ وولولہ اور وجدانی کیفیت جو مولانا کے اشعار میں ہے قلندر کے کلام میں اسکا پرتو نظر آتا ہے۔
بو علی قلندر کی غزلیات بھی فارسی زبان وادب میں خاص کر متصوفانہ شاعری میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں انکی اعلی غزل گوئی ،معنی آفرینی ، قادر الکلامی اور شاعرانہ عظمت کی دلیل ہیں۔انہوں نے مثنوی کی طرح اپنی غزلیات میں بھی صوفیاء کے فلسفہ عشق کو موضوع سخن بنایا ہے۔ انکے کلام میں عشق حقیقی کی گرمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ وعشق الہی میں فنا فی اللہ نظر آتے ہیں۔
گر عشق نبودی وغم عشق نبودی
چندین سخن نغز کہ گفتی کہ شنودی
گر عشق نبودی بخداکس نرسیدی
حسن ازلی پردہ زرخ بر نکشودی
قلندر کا خیال ہے اگر عشق نہ ہوتا تواس دنیا کا وجود نہ ہوتا اس کاینات میں ہر آدمی عشق کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے۔اور خدا تک رسائی کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ غرض انکی نظر میں عشق الہی ہی کمال معراج ہے۔
اسکے علاوہ قلندر کے تمام اشعار میں صنایع وبدایع حد درجہ پائے جاتے ہیں۔ جیسے تشبیہات ، استعارہ ، کنایہ ، جناس ، اشتقاق، ترصیع ، تکرار ، قطار البعیر، مراعات النظیر ، تضاد اور تلمیحات کا بر ملا استعمال کا ہے۔ انہوں نے غزلیات میں تاریخی واقعات کو قلمبند کر کے کلام میں معنویت اور اثر پیدا کر دیا ہے۔ انبیا ء علیہم السلام سے منسلک تاریخی اور مذہبی واقعات و معجزات کو کمال خوبی سے نظم کیاہے۔ مثلا حضرت آدم ؑ، حضرت موسی ؑ اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے معجزات وخصوصیات کو عشق حقیقی کے سراپا میں جلوہ گر کیا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کے معجزہ کی طرف اشارہ ہے۔
رخ او نور مقدس لب او روح مصفا
جعداو افعی موسی کف او چون ید بیضا
مریم از قدس لبش حاملہ روح اللہ
آدم ازپرتو رویش ز گلی یافتہ احیاء
حضرت یوسف ؑاور زلیخا کے حسن وعشق کی جانب اشارہ ہے:
یوسف از عکس جمالش نگزیدی در حوری
مست وسرگشتہ شدی چونکہ برو بود زلیخا
غزل کی طرح قلندر کی رباعیات بھی انکے صوفیانہ عشق کی حامل ہیں۔ ایک مقام پر وہ حضرت علی علیہ السلام سے غایبانہ اور والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
بنوشتہ چو بوعلی بطغرای من است
در حیدر یان بلند تر جای من است
مولامنم آن را بولا و بوفا
آن حیدر کر رار کہ مولای من است
غرض مقدمین ومعاصرین شعراء کی پیروی کو پیش نظر رکھ کر قلندر پانی پتی نے شاعری کی ہر صنف میں شاعرانہ جوہر دکھاتے ہوئے اپنے صوفیانہ مسلک کو کمال خوبی سے بیان کیا ہے۔ قلندر کے کلام میں سادگی ،سلاست ،روانی ، رنگ وآہنگ ، سوز وگداز ، جوش وخروش، جذب واستغراق اور کشش اس قدر پائی جاتے ہیں کی قاری اور سامع کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ بلکہ عرفان کا ایسا گہرا سمندرہے جس میں عشق، معرفت، استغنا، توحید ، ترک دنیا، طلب آخرت، محبت مولا، فنا اور وصل کے موتی پائے جاتے ہیں۔ انکے تمام اشعارتصوف واخلاق، عشق الہی ،مدح رسول اکرم ﷺوامام علی علیہ السلام میں سرشار ہیں۔
حوالہ جات:
۱۔الخاموشی بشیر انصاری، تذکرہ اولیاء کرام پانی پت ،قلندر چوک ، پانی پت ،۱۹۷۶
۲۔ دہلوی عبد الحق محدث، اخبار الاخیار ، انجمن آثار مفاخر فرہنگی ، تہران ۱۳۸۳ھ
۳۔شبلی محمد صدیق خان، ترجمہ دیوان بو علی قلندر مع مثنوی ، ترکمان گیٹ ، دہلی ۲۰۰۵
۴۔ عباس امیر ،مطالعہ انتقادی شعر بو علی شاہ قلندر پانی پتی ، مانو، حیدرآباد۲۰۱۷
۵۔ محمد اقبال ڈاکٹر، فارسی ادب کے ارتقاء میں پانی پت کا حصہ، دریاگنج ، دہلی ۱۹۹۶
۶۔ نظامی ، محمد عطا وحبیب اللہ مظہر، مفتاح الغیب شرح دیوان بو علی قلندر،سیالکوٹ، ۱۹۳۳
امیر عباس
ریسرچ اسکالر ، شعبہ فارسی ، دہلی یونیورسٹی۔
Email: abbasameer59[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں