نریندر لوتھر صاحب - خاکہ از ڈاکٹر رشید موسوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-21

نریندر لوتھر صاحب - خاکہ از ڈاکٹر رشید موسوی

narendra-luther-by-rasheed-moosavi

قدیم زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ کوئی شخص ایک مرتبہ جو پیشہ اختیار کرلیتا، مرتے دم تک اسی کو سنبھالے رکھتا تھا۔ مثلاًیہ کہ اگر کوئی سپاہی ہوتا تو وہ کسی اور پیشہ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا۔ اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قوتیں اس میں صرف کردیتا۔ شاعر ہوتا تو بس ساری زندگی شاعری کرتے گزار دیتا۔خواہ بھوکوں مرنا پڑے، فاقے کرنا پڑیں۔۔ مگر کیا مجال جو دوسرے پیشے سے روزی روٹی کا بندوبست کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرے۔ دور کیوں جائیے، آپ کے ہمارے جانے پہچانے مرزا غالب ہی کی مثال لیجئے۔ سو پشت سے پیشۂ آبا، سپہ گری ہوتے ہوئے بھی جب ایک بار اپنے موروثی پیشہ کو ترک کرکے، پیشہ شاعری اختیار کیا تو تو پھر پیچھے پلٹ کر انہوں نے اس کی طرف نگاہ نہ ڈالی۔ حالانکہ قرض کی شراب پیتے رہے اور جب لوگوں نے قرض دینا بندکردیا تو دعوتِ آب و ہوا کے لئے خرقہ و سجادہ کو بھی رہن رکھوانا گوارا کرلیا! جسمانی ساخت کے اعتبار سے وہ اس قابل تھے کہ اگر قلم رکھ کر تلوار اٹھالیتے۔ تو موروثی پیشہ میں ضرور کوئی اعلی عہدہ حاصل کرلیتے، مگر وضع داری بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ مرتے مرگئے۔۔ ساری زندگی قرض خواہوں کی کڑوی کسیلی سنتے رہے مگر کیا مجال جو کسی اور پیشہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا بھی ہو!!


مگر آج ہم یہ دیکھتے ہیں یہ احسا، یہ وضع داری بالکل جاتی رہی۔۔۔ ادب تو Noman's Landکی طرح ہوگیا ہے جس کا جی چاہا، منہ اٹھائے گھسا چلا آتا ہے ، سب سے پہلے تو ڈاکٹروں نے چوری چھپے دائم المریض ادیبوں اور شاعروں کا علاج کرتے کرتے ان کا سہارا لے کر ادب میں دخل در معقولات شروع کی۔ یہاں تک کہ بعض ہٹ دھرم ڈاکٹروں نے باقاعدہ طور پر مریضوں کو ڈرا دھمکا کر اور کبھی مفت علاج کا لالچ دے کر ادیب اور شاعر کا لیبل لگا ہی لیا۔


اور اب۔۔ ایک اور گروہ I.A.S آفیسروں کا پیدا ہوگیا ہے جو دفتر میں اپنے حصے کی فائلوں کے انبار بھی اپنے اسیسٹنٹس کے حوالے کرکے ادیبوں اور شاعروں کو مسکرا مسکراکر اپنے اجلاس پر بڑھاوا دے کر آہستہ آہستہ ادب میں اپنی جگہ بنارہے ہیں پہلے بھارت چند کھنہ، پھر خواجہ عبدالغفور اور اب نریندر لوتھر ادب کے میدان میں زور آزمائی کرنے کے لئے اتر آئے ہیں۔ ان کو دیکھ کر دوسرے آئی۔ اے ، ایس آفیسروں نے بھی نبرد آزما ہونے کی کوشش کی۔ لیکن بہت جلد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ بھاررت چند کھنہ خواجہ عبدالغفور اور نریندر لوتھر صرف آئی، اے ، ایس ہونے کی وجہ سے ادیب نہیں کہلائے بلکہ ادب ان کی شخصیتوں میں رچ بس چکا ہے۔ ان کا آئی، اے ، ایس ہوجانا تو محض اتفاقات سے ہے۔ بنیادی طور پر یہ تینوں انسان دوست ،و سیع النظر ادیب ہیں۔ اگر یہ آئی، اے ، ایس نہ ہوتے تو ادیب ضرور ہوتے۔ بلکہ یہ کہئے تو بے جا نہ ہوگا کہ فائلوں نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا۔ ورنہ ادیبوں میں ان کا ثانی نہ ہوتا۔


لوتھر صاحب سے میری جملہ چار ملاقاتیں ہوئیں۔ ان چاروں ملاقاتوں کا مجموعیDuration۹۵ منٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پہلی ملاقات صرف پانچ منٹ کی، دوسری، تیسری اور چوتھی بار زیادہ سے زیادہ تیس منٹ فی ملاقات کا حساب پڑتا ہے، لیکن اس کے باوجود میں نے ان پر قلم اٹھانے کی ہمت کی ہے۔


کئی سال قبل ہمارے ایک پڑوسی کی وساطت سے لوتھر صاحب سے تعارف حاصل ہوا۔ یہ اس صبح کی بات ہے جس کی شام لوتھر صاحب کے مضامین کے مجموعہ "بند کواڑ" کی رسم اجرا اردو ہال میں انجام دی جانے والی تھی۔ صبح صبح لوتھر صاحب کا مجھ سے یہ کہہ کر تعارف کروایا گیا۔یہ"بند کواڑ" کے مصنف نریندر لوتھر ہیں۔۔۔
باوجود اس کے کہ تعارف کروانے والے صاحب کی آواز گونجیلی، الفاظ نہایت واضح اور صاف تھے ، مگر پھر بھی ذہن ان الفاظ کی پذیرائی کے لئے تیار ہی نہ تھا۔ بھلا یہ مصنف کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیوں کر ہوسکتے ہیں۔۔۔۔!! ان میں مصنفوں والی ایک بھی تو بات نہ تھی۔ نہ ان کے چہرے پر پھٹکار ، نہ ان کا لباس بوسیدہ، نہ ان کی کمر خمیدہ، نہ ان کا حلیہ فاقہ زدہ ، نہ ان کے دانت میلے ، نہ ہی ان کے میل سے بھرے ہوئے ناخن۔ پھر یہ بھلا مصنف کیوں کر ہوسکتے ہیں۔ میرے سامنے صاف ستھرے، تازہ دم، آسودہ حال، خوش پوش، نفیس اور قیمتی لباس میں ملبوس۔ جھینپے جھینپے سے لوتھر صاحب تشریف فرما تھے۔ دل نے گواہی دی۔۔ یہ انگریزی زبان کے ادیب ہوسکتے ہیں۔ اردو کے تو قطعی نہیں۔ کیوں کہ جو محرومی ، کس مپرسی اور نکبت و زبوں حالی اردو والوں کے حصے میں آئی ہے ، ان سے وہ قطعی بیگانہ تھے۔ بہر حال میرے سلام کے جواب میں ، میں نے دیکھا کہ ان کے نرم ونازک نقوش والے چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ گئی ،"بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر"۔ رسمی سا جملہ ادا کرکے گویا انہوں نے مجھ سے جان چھڑوانی چاہی۔ اور شام کی محفل میں شرکت کا وعدہ کرکے میں اپنے گھر چلی آئی۔ یہ تھی پہلی اور اس دور کی آخری ملاقات۔ آخری ان معنوں میں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد لوتھر صاحب کا تبادلہ ہوگیا تھا۔ اور وہ شہر سے باہر چلے گئے تھے۔ اور جب وہ دوبارہ یہاں آئے تو ہمارے پڑوسی دیس چھوڑ کر پردیس کے ہورہے تھے۔


ایک دن اچانک زندہ دلان حیدرآباد کی ایک میٹنگ میں لوتھر صاحب نظر آگئئے۔ یقین ہی نہ آتا تھاکہ لوتھر صاحب یوں کمرہ نمبر۲۷ میں مسکراتے لجاتے ، سگار کے کش لگاتے مل جائیں گے۔ میٹنگ کے اختتام پر معتمد عمومی نے تعارف کروایا تو میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ مگر پھر بھی اپنی مخصوص مسکراہٹ سے خواہ مخواہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ میں ان کے لئے اجنبی نہیں ہوں۔ میں نے اپنے پڑوسی کے حوالے سے یادہانی کروائی تو بے چین سے ہوکر یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ دبیز مسکراہٹ کے پردے میں ماضی میں کھوسے گئے۔ اور پھر چند لمحوں بعد چہرے پر بچوں کی سی معصوم خوشی پھیل گئی اور کہنے لگے:
"ہاں جی ہاں! خوب یاد آیا۔ پہچان لیا میں نے!" اور اس مرتبہ چہرے سے صداقت بھی عیاں تھی۔


تیسری ملاقات بھی زندہ دلان کی میٹنگ میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں بعض ارکان میں آپس میں تلخ الفاظ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ فضا مکدر سی ہونے لگی تھی۔ لوتھر صاحب سگار منہ میں دبائے، آنکھیں موندھے، زیر لب لطیفے سناکر دونوں پارٹیوںکے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اور دس منٹ کے اندر انہوں نے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔


چوتھی ملاقات حال ہی میں زندہ دلان کی کل ہند کانفرنس کے اس اجلاس میں ہوئی جس میں زندہ دلان کی مطبوعات کی رسم اجرا ہورہی تھی ، میٹنگ ختم ہونے کے بعد کچھ دیر باتیں ہوئیں۔ یہ نسبتاً خوشگوار ملاقات تھی۔ اس لئے کہ اس دوران مجھے ان کی چند خصوصیات کا اندازہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ لوتھر صاحب انتہائی سادہ مزاجج اور کھلے دل و دماغ کے مالک ہیں۔ اپنے کسی غیر مطبوعہ مضمون کے بارے میں جس فراغ دلی سے گفتگو کی اور مجھ سے مشورہ لیا ، اس سے ظاہر ہورہات ھا کہ وہ اپنے سے کم عمر والوں کی بھی عزت کرنا جانتے ہیں۔ لوتھر صاحب اپنے ہم عصر ہم میدان ادیبوں کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ جی کھول کر ان کو سراہتے بھی ہیں۔


لوتھر صاحب کی شخصیت بڑی پہلودار اور تہہ دار ہے۔ وہ مختلف النوع مصروفیات کے آدمی ہیں، بحیثیت آئی ، اے ،ایس آفیسر وہ خواہ مخواہ کسی پر دھونس نہیں جماتے بلکہ ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ہر ایک کی مدد کریں، رہنمائی کریں، اور دلوں میں جگہ پیدا کریں۔
بھارت چند کھنہ اور رشید قریشی کی طرح یہ بھی اپنی بیوی کے مارے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اکثر مضامین کی تخلیق کا سہرا انہوں نے بھی اپنی بیوی ہی کے سر باندھا ہے۔ اور اس بات کا فراغ دلی سے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا ہے کہ وہ بیوی زدہ شوہر ہیں۔
نائب صدر کی حیثیت سے زندہ دلان حیدرآباد کی میٹنگوں میں مستقل مسکراتے رہنا، صدر صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے رہنا اور گرم ہونے والوں پر خاص طور پر اپنی مسکراہٹ نچھاور کرنا لوتھر صاحب کی اہم خصوصیات ہیں۔


***
ماخوذ از کتاب: کاغذی ہے پیرہن (طنز و مزاح)۔ مصنفہ: ڈاکٹر رشید موسوی
ناشر: زندہ دلانِ حیدرآباد، حیدرآباد (سن اشاعت: اکتوبر 1986ء)

Narendra Luther, a sketch by Dr. Rasheed Moosavi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں