پارٹی - انشائیہ از پرویز ید اللہ مہدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-12

پارٹی - انشائیہ از پرویز ید اللہ مہدی

پڑوس میں کسی کے ہاں پارٹی تھی ، جس کے متعلق ہمارے دوست جو ہمارے میزبان بھی تھے صبح ہی سے نت نئے انکشافات کر رہے تھے فرمایا۔ " ذرا اس پارٹی کا تصور تو کیجئے جس کے پیچھے ایک ساتھ کئی خوشیاں کارفرما ہیں۔ ایک تو صاحبِ خانہ کی 'بے بی' کا جنم دن ہے اور غالباً اس بار بھی انیسویں سالگرہ ہوگی جو پچھلے دو برس سے انتہائی پابندی کے ساتھ منائی جارہی ہے۔ اور آثار بتاتے ہیں کہ اگلے دو چار برس تک بھی انیسویں ہی سالگرہ منائی جاتی رہے گی ، بہرحال واللہ عالم۔۔ دوسرے صاحبِ خانہ کے بڑے صاحب زادے کے بارے میں سنا ہے کہ بی۔ اے کے تین سالہ ڈگری کورس کو پانچ اقساط میں مکمل کرکے برخوردار نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیاہے ، تیسرے ان کے چھوٹی صاحبزادے کا جشنِ صحت ہے اور چوتھے۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ چوتھا سبب بیان کرتے ہم نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ یوں کہئے ان کے ہاں " پارٹی " نہیں بلکہ "پارٹیاں " ہیں۔۔۔


" شام میں جس وقت ہم اپنے دوست اور ان کی بیوی کے ہمراہ پارٹی میں پہنچے بھانت بھانت کے نمونے اچھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔ اور سب کے سب دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ کسی نے کپڑے پہن رکھے تھے۔ تو کسی کو کپڑوں نے پہن رکھا تھا۔ خواتین کی سج دھج دیکھ کر ہمارے چودہ بلکہ اکیس طبق روشن ہوگئے۔ بدن سے لپٹے ہوئے لباس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ کافی ہاتھا پائی کے بعد اسے زیب تن کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں چہروں پر رنگ برنگے میک اپ کی کچھ اتنی تہیں جمی ہوئی تھیں کہ صحیح عمر کا اندازہ لگانا مشکل بلکہ ناممکن تھا ، ویسے بھی الٹراماڈرن خواتین کی صحیح عمر کا اندازہ لگانا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ بلکہ اس کوشش میں تو سُنا ہے کہ اب تک کئی اہل دل و گردہ نہ صرف اپنے دل گردے بلکہ دوسرے کئی ضروری اور اہم ترین اعضا سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ سب کی سب ایک جیسی عمر کی نظر آرہی تھیں، اور یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ ان میں کون ماں ہے کون بے بی ، کون ساس ہے ، کون بہو۔۔ ؟"
ایک طرف الٹراماڈرن نوجوان نسل اپنے اپنے دیڑھ اینٹ کے کلب بنائے چہلیں کرنے میں مگن تھی۔ ان میں یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ کون لڑکی ہے کون لڑکا ؟ یعنی میں و تو کا فرق یکسر مٹ چکا تھا ان سب نے کم خرچ بالانشین ، قسم کا لباس پہن رکھا تھا لگتا ہے آج کے بیشتر ماڈرن نوجوان کپڑوں کے قحط کا زبردست شکار ہیں۔۔
ہال کے وسط میں ایک بڑی سی میز پر ایک چھوٹا سا کیک رکھا ہوا تھا جس پر دائرے کی شکل میں موم بتیاں تو بہت سجی ہوئی تھیں لیکن صرف ایک ہی جل رہی تھی۔ کیک کو دیکھ کر بہت سارے بچوں اور ایسے بوڑھوں کے منہ سے پانی ٹپک رہا تھا جو ذہنی طور پر خود کو بچہ ہی سمجھتے ہیں۔ پانی کی مقدار کو دیکھتے ہوئے بارش ہورہی تھی کہنا بجا ہوگا اور اس بارش سے بچنے کے لیے لوگ صاحب خانہ سے بار بار کیک کٹوانے کی گزارش کررہے تھے بعض اصحاب کو غالباً یہ ڈر لگا ہوا تھا کہ یہ بارش کہیں طوفان کی شکل نہ اختیارکرلے جب اصرار بہت بڑھ گیا توصاحب خانہ نے یہ کہہ کر دلاسا دیاکہ بس ابھی کٹ جاتا ہے کیک اک ذرا چھری آنے کی دیر ہے ، جواب میں ایک ادھیڑ عمر کے خوش پوشاک صاحب نے ایک عدد نئی چمکتی ہوئی چُھری پیش کردی۔ ان کے بارے میں ہمارے دوست نے بتلایا کہ اس علاقے کے مشہور سوشیل ورکر ہیں ، کسی کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتے۔ ہمیشہ چھری کانٹے سے لیس رہتے ہیں۔۔ چُھری دیکھ کر لوگ سنبھل گئے ، پھر کسی نے اعلان کیا کہ " بے بی " تشریف لارہی ہیں کچھ توقف کے بعد سامنے والا پردہ ہٹا۔ اور ایک " بابا " نمودار ہوا۔ لوگوں نے تالیاں اور ہم نے بغلیں بجائیں ، کیا یہی "بے بی " ہے " ہم نے اپنے دوست سے بڑی آہستگی سے پوچھا۔۔
" جی ہاں" وہ بھی اسی آہستگی سے بولے: " اسی بابا کو لوگ 'بے بی' کہتے ہیں ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعی لڑکی ہے۔۔ "


بے بی چھری سنبھال چکی تھیں۔ لیکن موم بتیوں کی تعداد کو دیکھ کر بے بی کا پارہ اس قدر چڑھ گیا کہ اس نے چُھری سمیت ایک قریبی نوجوان پر دھاوا بول دیا۔ اگر لوگ بیچ بچاؤ نہ کرتے تو کیک کی جگہ وہ نوجوان کٹ چکا ہوتا۔ اور پھر بے بی جیل میں۔ نوجوان ہستپال یا قبرستان میں اور سارے مدعوئین گواہی کے سلسلے میں عدالت کے پھیر میں ہوتے۔۔ بے بی کی اس قاتلانہ حرکت کا سبب دراصل موم بتیوں کی تعداد تھی۔ کسی نے شرارتاً کیک پر انیس کی جگہ اکیس موم بتیاں سجادی تھیں۔ اور سچائی کو یوں بے نقاب دیکھ کر " بے بی " آگ بگولہ ہو گئی تھیں۔ خیر حضور کیک کٹ گیا ، کٹ کر بٹ گیا ، تحائف کی موسلا دھار بارش برس کر تھم گئی اور بے بی جواب تک سب کی مرکز توجہ تھیں ان کی جگہ صاحبِ خانہ کے چھوٹے صاحب زادے نے لے لی۔ جن کے بارے میں بتلایا گیا تھا کہ لمبی بیماری کے بعد صحت یاب ہوئے ہیں۔ بیماری کے بعد بھی برخوردار کی صحت اس قدر قابلِ رشک تھی کہ ہم نے دل ہی دل میں یہ دعا مانگی اے بیماریوں کے بخشنے والے ایک نظر کرم ادھر بھی ہوجائے اور اگر اسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو کیا کہنے۔ صاحب زادے کی گل پوشی کے بعد کسی نے اعلان کیا کہ فلاں ڈاکٹر صاحب صحت کے اصولوں پر کچھ روشنی ڈالیں گے ایک صاحب فوراً مین فیوز( Main Fuse ) کی جانب بڑھے ، کسی نے مداخلت کی۔ "اماں کیا کرتے ہو" بولے " فیوز " آف کرتا ہوں تاکہ ڈاکٹر صاحب کی تقریر کی روشنی میں اپنی صحت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاسکوں "۔ دوسرے صاحب بولے "اگر آپ روشنی گل کردیں گے تو ڈاکٹر صاحب کی صحت کا اندازہ لگانا مشکل ہوجائے گا۔۔ " اس جملے نے گویا جادو کا اثر دکھایا اور وہ صاحب اپنے خطرناک ارادے سے باز آگئے ، ڈاکٹر صاحب کی تقریر گرچہ مختصر تھی لیکن تھی بڑی معرکہ خیز ، بلکہ حیرت انگیز ، موصوف نے بنی نوع انسان کی جسمانی ساخت کا موازنہ مختلف النوع جانوروں ، جیسے بھینس ، بکری ، گھوڑا ، گدھا وغیرہ سے کرتے ہوئے چند ایسے نکات بیان فرمائے جسے جاننے کے بعد غالباً ہر فرد نے یہی سوچا ہوگا ، کاش وہ انسان نہیں بلکہ بھینس ، بکری ، گھوڑا ، گدھا ہوتا ، المختصر حیوان ظریف نہیں صرف حیوان ہوتا۔ ہم نے تحسین آمیز نظروں سے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھ کر سوچا۔ "بے چارے انسان ہوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر جانوروں سے کس قدر قریب ہیں۔۔۔ " بعد میں پتہ چلا کہ موصوف دراصل حیوانات کے ڈاکٹر تھے۔ اور چونکہ پارٹی میں کوئی ایم۔ بی۔ بی۔ ایس شریک نہیں تھے اس لیے حیوانات کے ڈاکٹر کی موجودگی کو ہی غنیمت سمجھا گیا۔۔ !!!


کیک کٹ چکا تھا۔ گلپوشی ہوچکی تھی ، تقریر بھی ہوچکی تھی۔ اب نمبر تھا ناچ گانے یعنی اصلی ہنگامے کا۔ سازندوں کے لیے ایک کونہ خالی کردیا گیا۔ جس کی خانہ پُری کرنے کے بعد سُر ملانے کی غرض سے ان لوگوں نے ایک ایسا لرزہ خیز راگ چھیڑ دیا جسے سن کر یہ گمان ہونے لگا جیسے پہلا صُور پھونکا جارہا ہے۔ اب تک سنتے آئے تھے کہ موسیقی روح کی غذا ہوتی ہے اگر یہ دل دہلانے والی موسیقی بھی روح کی غذا کہلاتی ہے تو پھر روح کے ہاضمے کا خدا حافظ ٍ ادھر گت تیز سے تیز تر ہورہی تھی ادھر سب کے کانوں کی گت بن رہی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک منحنی الجثہ نوجوان جسے نوجوان کہنا نوجوانی کی توہین ہوگی آگے بڑھا اور اپنا سارا جسم یوں تھرکانے لگا جیسے کوئی شدید قسم کا دورہ پڑا ہو۔ کوئی پندرہ منٹ تک اپنے جسم کے ہر حصہ کو تھرکانے کے بعد ہانپتا کانپتا بے حال سا ہال سے باہر نکل گیا۔ لوگوں نے تالیوں سے چھت سر پر اٹھالیا۔ اس کارخیر میں ایک باریش بزرگ بھی پیش پیش تھے ، ہم نے ان سے پوچھا ، "قبلہ آپ اس نوجوان کو جانتے ہیں "۔ وہ بولے ، "یہ بھی خوب کہی اماں وہ تو اپنا ہی نورِ نظر لختِ جگر وغیرہ وغیرہ ہے"۔ ان بزرگوں کے بارے میں ہمارے دوست نے بتلایا کہ "مقامی یونی ورسٹی میں صدر شعبۂ اخلاقیات ہیں "۔۔ ہم نے گڑبڑا کر کہا۔" کیا واقعی مجھے تو یہ صدر شعبۂ انگریزی و فرانسیسی لگتے ہیں ، میرے خیال میں انہوں نے اولاد پیدا نہیں کی بلکہ یوروپ و امریکہ سے امپورٹ کی ہے "۔ اندر کے ہنگاموں سے بیزار ہوکر ہم کچھ دیر کے لیے باہر گیلری میں چلے آئے وہ منحنی الجثہ نوجوان بھی وہیں تھا ہم نے جھٹ اسے مبارکباد دے ڈالی۔ واللہ برخوردار تم نے تو کمال کر ڈالا ، اپنے فن کا اس قدر شاندار مظاہرہ کیا ہے کہ زمین لرزگئی ، آسمان دہل اٹھا۔ ویسے کیا آپ کے والد صاحب بقید حیات ہیں۔۔ "
" اجی قید میں ہوں ان کے دشمن۔ " نوجوان نے کسی لڑاکا عورت کی طرح تنک کر کہا۔ " وہ کیوں بقید حیات ہونے لگے وہ تو ابھی تک بہ فضل تعالیٰ شریک حیات ہیں۔۔ " برخوردار کا یہ عدیم المثال جواب سن کر ہمیں ان کی اور ان کے گھر کی اردو کا اندازہ ہوگیا۔۔


جس وقت ہم دوبارہ اندر ہال میں داخل ہوئے ایک صاحب کوئی کلاسیکل قسم کا انگریزی گیت سُنا رہے تھے ، آواز کی نزاکت سے پتہ چلا کہ وہ صاحب نہیں بلکہ صاحبہ ہیں۔ ان کے بعد ایک کمسن نوجوان نے چچا غالب کی ایک غزل سنائی جس کے ہر مصرع پر لوگ بُری طرح سردُھنتے اور ہم پیٹتے رہے۔ نوجوان غالباً اردو سے نابلد تھے ان کی زبانی یہ غزل سن کر یوں لگا جیسے چچا غالب نے یہ غزل خالص انگریزی میں وہ بھی انگلستان جاکر کہی ہے۔ اس ہنگامہ خیز غزل کے بعد نیم کلاسیکی موسیقی کا دور شروع ہوا۔ جس کے آغاز ہی میں ہم نے چاہا کہ کسی نیم کے درخت پر چڑھ کر جائیں لیکن قریب میں چونکہ کوئی نیم کا درخت تھا نہیں اس لیے قریبی کھڑکی کو نیم کے درخت کا نعم البدل سمجھ کر اس کی سلاخوں سے لٹکنے کی کوشش کررہے تھے کہ دو مختلف گروپ کے آپس میں بھڑجانے کی وجہ سے پارٹی کو قبل از وقت یعنی علی الصبح ساڑھے پانچ بجے برخاست کردیا گیا۔ اب اپنے اپنے جوتوں و چپلوں کی تلاش شروع ہوگئی ، دروازے کے پاس جوتوں و چپلوں کا ایک ڈھیر لگا تھا ، بلکہ ڈھیر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جوتوں کا ایک پہاڑ کھڑا تھا اور اس پہاڑ کو کھود کر اپنا چُوہا یعنی جوتا ڈھونڈ نکالنا کم از کم ہمارے حق میں جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ یہی شور سنائی دے رہا تھا۔۔۔ " میرا جوتا ، میری سینڈل ، میری چپل ، میری ٹانگ "۔ اس آخری آواز پر ہم نے اپنے جوتے کی تلاش کو بالائے طاق رکھ کر اس جانب دیکھا۔ ایک صاحب اپنی اکلوتی ٹانگ پر یوں اُچک رہے تھے جیسے لنگڑی کھیل رہے ہوں۔ ان سے استفسار پر پتہ چلا کہ وہ اپنی مصنوعی ٹانگ دروازے کی آڑ میں رکھ کر ایک کونے میں جابیٹھے تھے اور اب لوٹ کر دیکھتے ہیں تو ٹانگ ندارد۔۔ ان کی مصنوعی ٹانگ کی تلاش میں کئی عدد اصلی ٹانگیں حرکت میں آگئیں۔۔۔
گھر لوٹتے ہوئے ہمارے دوست اور ان کی بیوی نے پارٹی کے متعلق اپنا متفقہ فیصلہ صادر فرمایا کہ پارٹی بہرحال پائے کی تھی، جسے ہم نے کچھ یوں پایۂ تکمیل کو پہنچایا کہ پارٹی کے ہنگاموں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پارٹی " چوپائے " قسم کی تھی۔۔ " !!!


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
شادی کا سوٹ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی
یہ ہے بمبئی مری جان - انشائیہ از پرویز ید اللہ مہدی
پڑوسی پڑوسن اور وہ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی
ماخوذ:
"شگوفہ" (حیدرآباد، انڈیا)۔
مدیر و ناشر: مصطفیٰ کمال۔ سن اشاعت: مارچ 2009ء۔

Party. Light Essay by: Pervez Yadullah Mehdi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں