رہ کے خاموش بولیں کتابیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-11

رہ کے خاموش بولیں کتابیں

rah-ke-khamosh-bolein-kitabein

نقوش ذہن سے مٹ جاتے ہیں، یادیں ماند پڑ جاتی ہیں، حافظے تھک ہار کر جواب دے دیتے ہیں، مگر کتاب تمام یادوں کو سمیٹ کر ، اپنے سنہرے صفحات پر بکھیرے رہتی ہے، جب ماضی کی یادیں دھندلی ہوں، جب اقوامِ گذشتہ کے حالات میں جھانکنا ہو کتاب اٹھائی اور اس کی انگلی تھامے ہم نئے نئے دیس کی سیر کو نکل گئے۔
جب کبھی اداسی اور تنہائی حد سے سوا ہوجاتی ہے تو ایسے میں کچھ لوگ اپنی تنہائی بانٹنے کے لیے سوشل میڈیا کاسہارا لیتے ہیں، اور اس کی رنگارنگ روشنیوں میں کھو کر اپنا دکھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے دکھوں کا درماں فقط کتابیں ہوتی ہیں، جن کا ہاتھ تھامے وہ اپنی من پسند دنیا میں سیر کرتے ہیں، اپنے خیالی کرداروں سے باتیں کرتے ہیں، ان سے اپنے دکھ سکھ کہتے ہیں، اور یوں کتابیں خاموش رہ کر بھی ہماری پریشانیاں اور ہماری تکالیف سنتی ہیں، ہمارے دکھ کو بانٹتی ہیں اور ہماری مونس و غم خوار بن جاتی ہیں۔


گرمی کی لمبی دوپہروں میں جب لوگ دروازے بند کیے کمرے میں اندھیرا کرکے سورہے ہوں تو ایسے میں کھڑکی سے آتی مدھم سی روشنی میں اپنی من پسند کتاب پڑھنا، چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مطالعے سے بھی لطف اندوز ہونا، رات دیر گئے کتابوں میں کھوئے رہنا، کاغذ کی انوکھی مہک، کتاب کا لمس ، یہ سب اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک چاند آسمان پر جگمگاتا ہے، جب تک پھول باغوں میں کھلتے ہیں، جب تک ستارے ٹمٹماتے ہیں اور جب تک بچے مسکراتے ہیں۔


میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کو ماضی میں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، ان کے نام ڈھیروں رسائل و جرائد آتے تھے لیکن اب دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مطالعہ کے لیے وقت نہیں ملتا، دوسرے لفظوں میں وہ کتابیں وقت کاٹنے کے لیے پڑھتے تھے اور اب موبائل جیسی ہمہ وقت مشغولیت کے سامنے کتابیں کون پڑھے۔
اپنے گرد و پیش کے ان لوگوں کو دیکھ کر کبھی کبھی مجھے یوں لگتاہے کہ اب بس مطالعے کا دور ختم ہوا، بقول شاعر:” یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔” لیکن پھر بھی میرا ماننا ہے کہ کچھ لوگ بھلے کتابوں سے دور ہوجائیں مگر کتابوں کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ یہ روشن امید رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر کتابیں نہ صرف چھپ رہی ہیں بلکہ خریدی اور پڑھی جارہی ہیں، ترقی یافتہ ممالک اور شہروں میں کتاب میلے کی پذیرائی کی خبریں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم بھلے ہی نہ پڑھیں، مگر دنیا پڑھ رہی ہے، جو اپنے ذہنوں کو روشن رکھنا چاہتے ہیں، جو عام لوگوں سے ہٹ کر سوچتے ہیں، وہ کتابیں پڑھتے ہیں کیوں کہ کتابیں غور وفکر کے نئے زاویے وا کرتی ہیں، زندگی کو بامقصد جینے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں، کتابیں ہمیں ہمارے ذوق کے مطابق نئے نئے جہانوں کی سیر کراتی ہیں۔


میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے زمانے کی بدلتی رتوں سے متاثر ہوکر الیکٹرانک دنیا کی چکاچوند میں کھوکر کتابوں سے اپنا ناطہ نہیں توڑا، جو کتابوں کے ان کہے لفظوں کو سننے کا ہنر جانتے ہیں، جن کا رشتہ ماضی کی طرح اب بھی کتابوں سے استوار ہے۔
ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا تھا، کتابوں کی دنیا انھیں دوستوں کی دلچسپ محفل سے زیادہ حسین لگتی تھی۔ اس ضمن میں ایک واقعہ پڑھیے اور سر دھنیے:


ایوب بن شجاع کہتے ہیں کہ میں نے اپنا غلام عبداللہ اعرابی کے پاس انھیں بلانے کے لیے بھیجا۔ غلام نے واپس آکر کہا: میں نے انہیں اطلاع تو کردی ہے لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہیں ان سے فارغ ہوکر آتا ہوں حالاں کہ وہ کتابوں کے مطالعہ میں مصروف تھے، کتابوں کے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ ہاں ان کے سامنے کچھ کتابیں تھیں کبھی اس میں دیکھتے کبھی اس میں۔
کچھ دیر بعد عبد اللہ آئے تو ایوب نے ان سے پوچھا: تمہارے پاس تو کوئی نہ تھا پھر تم نے غلام سے یہ بات کیسے کہہ دی؟ عبد اللہ میں جواب میں چند اشعار پڑھے:
لنا جلساء لا نمل حدیثھم
الباء مامونون غیبا و مشھدا
یفیدوننا من علمھم علم من مضی
وعقلا وتادیبا ورایا مسددا
فلا فتنہ تخشی ولا سوء عشرۃ
ولا نتقی منھم لسانا ولا یدا
فان قلت احیاء فلست بکاذب
وان قلت اموات فلست مفندا
(ازہار العرب:ص:90)


ہمارے چندعقلمند ہم نشیں ایسے ہیں جن کی باتوں سے ہم نہیں اکتاتے موجودگی اور عدم موجودگی دونوں صورتوں میں ہم ان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔
وہ ہمیں گذرے ہوئے لوگوں کے علم، عقل و ادب اور صحت رائے کا فائدہ دیتے ہیں۔
نہ ان سے کسی فتنے کا اندیشہ ہے اور نہ بری صحبت کا اور نہ ہی ہم ان کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے ڈرتے ہیں۔
انہیں مردہ کہنے کی صورت میں آپ کو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا اور اگر آپ انہیں زندہ کہیں تب بھی آپ کو غلط اور بے عقل نہیں کہا جا سکتا۔



***
سحر اسعد (بنارس)
saharasad739[@]gmail.com
Value the books. - Article: Sahar Asad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں