ہندوستانی معاشرت پر چند باتیں - از قرۃ العین حیدر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-23

ہندوستانی معاشرت پر چند باتیں - از قرۃ العین حیدر

indian-society-culture-essay-by-qurratul-ain-haider

تاریخ، تہذیب اور معاشرت قرۃ العین حیدر کی دلچسپی کے خصوصی موضوعات تھے۔ انہوں نے اپنے حالیہ افسانوی مجموعہ "قندیل چین" (مرتبہ: جمیل اختر۔ ناشر: قومی اردو کونسل ، نئی دہلی) کے طویل دیباچے میں اپنے ان افکار کو مخصوص و دلچسپ پیرائے میں قلم بند کیا ہے۔ اس تحریر کا ایک ٹکڑا یہاں پیش ہے۔
بشکریہ: ماہنامہ "آجکل"۔ شمارہ: نومبر 2007 (قرۃ العین حیدر نمبر)

۔۔۔ دراصل ہم اردو والوں نے ایک خیالی جنت آباد کرکھی ہے۔ پانچ سو ایک یا ایک ہزار کتابوں کا ایڈیشن شائع ہوتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا نے ہماری تصنیف کا مطالعہ کرلیا ہے۔ ترقی پسند ادیب بڑے جوش و خروش سے عوامی ادب کی بات کرتے تھے۔ لیکن وہ عوام محض ان ہی کی طرح کے چند سو آرمڈ چیئر انٹکچوئیل تھے۔ اصل عوامی ادب وہ تھا جو شمع اور بیسویں صدی میں شائع ہوتا تھا اور اب تو وہ رسالے بھی کب کے بند ہوچکے ہیں۔ لیکن مجھے اپنے اسکول کا وہ زمانہ یاد ہے جب غیر منقسم ہندوستان میں لاہور ایک انتہائی بارونق شہر تھا۔ جس میں مسلمان،ہندو اور سکھ تینوں فرقوں کے جیالے نہایت جوش و خروش اور انبساط کے ساتھ اردو کی آبیاری کرنے میں مصروف تھے۔ ادبی رسالے نیرنگ خیال عالم گیر، ہمایوں ، ادبی دنیا، ادب لطیف اور ان کے ساتھ جہازی سائز پر چھپنے والے رنگ برنگے ہفتہ وار۔ جن میں سے"چتراویکلی" مجھے اب تک یاد ہے۔ یہ عوامی رسالے بھی تھے اور ان میں سنجیدہ مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔
لاہور مشہور کالجوں کا شہر بھی تھا۔ جس میں گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج یعنی فورمین کرشچن کالج آکسفورڈ یا کیمبرج کے کسی کالج کا درجہ رکھتا تھا۔ تینوں فرقوں کے اہم ترین دانشور اسی کالج سے نکلے۔ ان کے علاوہ دیال سنگھ کالج اور اسلامیہ کالج بھی بہت مشہور تھے۔ لڑکیوں کا کنیر ڈکالج بھی لکھنو کے ازابلا تھوبرن کالج کی ٹکر کا ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ دراصل امریکن مشنریوں نے سات سمندر پار انڈیا آکر علم کی روشنی بڑے انہماک سے پھیلائی۔ میرا خیال ہے کہ جتنی محنت اور جانفشانی سے انہوں نے یہاں کالج اسکول اور اسپتال قائم کئے اس کے لحاظ سے ان کو اتنے بپتسمہ حاصل کرنے والے نہیں ملے۔ اگر ہندو یا مسلمان مشنری کسی دوردراز ملک میں جاکر اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے اور اس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہوتے لیکن یہ یسوع مسیح کے مبلغین ڈٹے رہے اور آج بھی جنگلی قبائل ان کو مار ڈالتے ہیں لیکن ان کے جوش ایمان میں کمی نہیں آتی۔ میں نے ایک امریکن مشنری کالج میں پڑھا ہے اور میں اس کی گواہی دیتی ہوں کہ کبھی ان امریکن خواتین نے بھولے سے بھی اپنے مذہب کی بات نہیں کی بلکہ اس کے برعکس ہندو اور مسلمان لڑکیاں بڑی دھوم دھام سے کالج میں عید اور دیوالی کے تہوار مناتی تھیں۔


دراصل یہ مغربی لوگ پڑھے جن ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ انیسویں صدی کب کی گزر چکی جب اہل مشرق گوروں سے مرعوب تھے۔ اب وہ خود اپنی اپنی تہذیبوں پر بے حد نازاں فرحاں ہیں۔ لیکن ان مشنریوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ گواب انہیں اتنے کنورٹ نہیں ملتے لیکن وہ لوگ اپنے ھسن سلوک ، اخلاق، ضبط و نظم اور تعلیم کے اعلیٰ معیار کی بدلوت آج بھی اس بر صغیر میں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ مثلاً مشنریوں نے ان غریبوں کو بپتسمہ دینے کے بعد انہیں صاف ستھرا رہنا سکھایا۔ انہیں تعلیم دی، اچھی تربیت کی اور وہ ایک عام ہندو یا مسلمان نفر سے بہتر شہری ثابت ہوئے۔ مجھے اب تک یاد ہے۔دہرہ دون میں ہمارا ایک ملازم جس کا نام دولت مسیح تھا کمروں کی صفائی کرنے کے بعد اپنے کوارٹر میں جاکر کپڑے تبدیل کرتا اس کے بعد ایک چوکی پر کھانا رکھ کر دو زانو بیٹھتا اور بہ آواز بلند کہتا ہمارے آسمانی باپ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے مجھے آج کے دن اپنی وعدہ کی ہوئی روٹی مہیا کی۔ باپ بیٹا اور روح القدس کے نام پر آمین۔ کرشچن آیائیں ہماری ماماؤں اور اصیلوں کے مقابلے میں بے حد صاف ستھری ہوئی تھیں۔ جس ملک میں پانی کی اتنی فراواننی ہے وہاں صاف نہ رہنے کی عادت کی وجہ میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی۔ ہمارے باورچی خانے کیسے ہوتے ہیں۔۔ اللہ اکبر۔۔۔۔،اگر میں ان کے بارے میں کچھ لکھوں گی تو قارئین کرام خفا ہوجائیں گے۔ بہر حال یہ کہاوت بے بنیاد نہیں تھی کہ پکانے کی جگہ ہندوؤں کی اچھی۔ کھانے کی جگہ انگریزوں کی اچھی اور کھانا مسلمانوں کا اچھا۔۔۔


لیکن بہر حال روس ، انگلستان امریکہ وغیرہ کے زیر سایہ ہی ہماری مختلف زبانوں کے ادب ترقی کرتے رہے۔ مشرق کی ساری کولو نیل، تہزیب ، اینگلو سیکسن ذہن کی بہت حد تک مرہون منت ہے۔ مجھ سے ایک بار ڈاکٹر ملک راج آنند نے کہا تھ اکہ اگر کیٹس اور شیلے نہ ہوتے تو رابندر ناتھ ٹیگور بھی نہ ہوتے۔ اردو میں حکایات کا بہت بڑا خزانہ مغربی افسانے سے بالکل علیحدہ اور خود مختار سلطنت تھی۔ لیکن یہ روایت حکایات سے آگے نہیں بڑھی۔


ہر زمانے کا ادب اس دور کی طرز معاشرت اور طریقہ تعلیم کانمائندہ ہوتا ہے۔ پردیے کی روایت ہمارے مشرق کی ایک بڑی اٹل سماجی حقیقت رہی ہے۔ اب ہم نئی قوم پرستی کے جوش میں کتنا ہی کہہ لیں کہ ہماری عورتیں شہ سواری کرتی تھیں۔ اعلی تعلیم یافتہ تھیں وغیرہ وغیرہ اس میں غلو کافی حد تک شامل ہے۔ ہند و اور مسلمان دونوں فرقوں کی عورتیں سماجی پابندیوں میں مقید تھیں۔ محض ارباب نشاط ان قیود سے آزاد تھے۔ اور ان ہی کے یہاں پیرس کے سیلو(Salon) کی طرح ادبی محفلیں منعقد ہوتی رہیں۔ ارباب نشاط نے غزلیں بھی خوب خوب کہیں نوحے اور مرثیے بھی لکھے جنہیں وہ خود اپنے تعزیوں کے ساتھ پڑھتی ہوئی جلوس میں نکلتی تھیں۔ یہ ایک پوری نہایت جاندار اورجگمگاتی ہوئی کلچر تھی۔ سوز خانی کلاسیکل راگوں میں کی جاتی تھی اور ساز کے بجائے مرثیہ خواں کے دونوں طرف بیٹھے ہوئے دو افراد مسلسل تان لگاتے تھے جو بغیر سانس ٹوٹے تان لگانا ایک بے حد مشکل فن ہے۔ لیکن اہل لکھنو نے سوز خوانی کے فن کو بھی اعلی ترین مرتبے تک پہنچادیا۔ لکھنو کے علاوہ جون پور اور مرادآباد کے سوز خواں بھی آج تک بڑی شہرت رکھتے ہیں۔


دراصل تعزیہ داری کے پورے رواج نے گائیکی کے علاوہ گھریلو صنعتوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ بھانت بھانت کے تعزیوں کی تیاری اور ا کی تزئین میں عجیب و غریب جدتیں شامل کی جاتی تھیں۔ مثلاً گھاس کے تعزیے میں بہت پہلے سے گھاس اور پودے بوئے جاتے تھے۔ ان رسوم کی ادائیگی ہزاروں افراد کی روزی روٹی کا وسیلہ بنتی ہے۔ چند سال قبل میں امروہے گئی وہاں ایک تعزیہ بنتا دیکھا جو دنیا کا سب سے اونچا تعزیہ ہے اسے سال بھر تک تیار کیاجاتا ہے اور شہر کے مفلوک الحال عقیدت مند اہل سنت روزانہ اس کی تیاری میں اپنا یوگ دان دیتے ہیں۔ محرم میں جس روزیہ تعزیہ نکالا جاتا ہے میونسپل بورڈ سے خاص اجازت لے کر ایک راستے کے تار اپنی جگہ سے منتقل کردئے جاتے ہیں۔ اس بلند ترین تعزیے کو عجائب عالم میں شمار کرنا چاہئے۔ لیکن ہمارے یہاں امروہے سے باہر ہی بہت کم لوگ اس سے واقف ہیں اور پریس اس سے بے نیاز ہے۔البتہ شیعہ ، سنی، جھگڑے کی خبریں جلی حروف میں شائع کی جاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ ہمارے یہاں زندگی کے ہر شعبے میں منفی سوچ کارفرما ہے۔ جب کہ اہل مغرب چار سو سال سے مثبت خیالات کے فوائد پہچان گئے ہیں۔


ہندوستان کے محرم اور رام لیلا کے انتہائی جاذب نظر جلوسوں کی مثال ہمیں ایک حد تک مغرب کے رومن کیتھولک ممالک میں دکھلائی دیتی ہے۔ جہاں بی بی مریم کے مجسمے کا جلوس بڑی شان و شوکت کے ساتھ نکالاجاتا ہے۔ ممبئی میں تعزیہ داری کی دھوم دھام دیکھ کر لوک مانیہ تلک نے گنپتی کے جلوس کا آغاز کیا۔ جو اب ایک بہت بڑے تہوار میں تبدیل ہوچکا ہے۔ گنپتی کی مورتیاں بنانے والے کمہاروں کو اس کی وجہ سے بہت فائدہ پہنچا۔ دراصل ہندوستان کے سارے تہوار عوام کے لئے فائدہ مند رہے۔ عید کے لیے سویاں بنانے والے، دیوالی کے مٹھائی فروش ، ہولی کے لئے رنگ اور پٹاخے اور مٹی کے کھلونے بنانے والوں کی پوری انڈسٹری قائم ہے۔ شب برات کے لئے آتش بازی بھی اسی میں شامل ہے۔ رکشا بندھن کے لئے رنگ برنگی راکھیاں بنائی جاتی ہیں۔ مغرب میں محض ایک کرسمس کیک۔


لیکن وہ لوگ اپنی اجتماعی زندگی کو نہایت سلیقے سے سجانا اور سنوارنا جان گئے ہیں۔ ہم اپنی اجتماعی زندگی کو جی بھر کر بگاڑنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہولی اور محرم اگر ساتھ ساتھ پڑ جائیں تو پبلک سہم جاتی ہے کہ اب جانے کتنا سر پھٹول ہوگا۔


کیا محض جہالت اور غربت ہی اس بگڑی ہوئی اجتماعی نفسیات کی ذمہ دار ہے یا اس کی کوئی بنیادی وجوہ بھی ہیں؟ میں نے پہلے کہیں تذکرہ کیا ہے کہ ہماری والدہ کے ایک کزن جو ایک چھوٹی سی ریاست کے نواب تھے ان کے یہاں میں نے بچپن میں دیکھا ہولی کے روز ہلیارے رنگوں کی پچکاریاں لے کر زنانہ محل سرا کی ڈیوڑھی پر آئے اور ہماری بوبو کا دوپٹہ باہر بھیجا گیا جس پر انہوں نے رنگ چھڑکا۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہماری اس مرحوم تہذیب کی رواداری اور رونق کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔


اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سیاست خواص و عوام کے ذہنووں پر مسلط نہیں ہوئی تھی۔ ریڈیو ناپید تھا۔ مواصلات کی اس ترقی نے راتوں رات دنیا بدل دی۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر حکومت ہند نے اپنے پروپیگنڈے کے لئے ریڈیو کی نشریات میں زبردست اضافہ کیا۔ مجھے یادہے مرادآباد کے چوراہوں پر لاؤڈ اسپیکر لگ گئے جہاں سے آل انڈیا ریڈیو کی خبریں نشر کی جاتی تھیں اور اس وقت تک عوام کی بھیڑ وہاں جمع ہوجاتی تھی۔ برادر معظم دہلی سے خبریں پڑھتے محلے میں غل مچ جاتا جلدی آؤ بھیئیے چھبو میاں خبریں پڑھ رہے ہیں۔ گویا اب جدید تکنالوجی اور مواصلاتی نظام ہندوستان تک پہنچ چکاتھا۔ ورنہ مجھے یاد ہے میرے بچپن میں پڑوس کے ایک انگریز کے بنگلے سے ریڈیو پر بی بی سی کی میوزک سنائی دیتی تو بہت افسانوی سی بات معلوم ہوتی۔ جنگ عظیم شروع ہوتے ہی حکومت نے اپنی نشریات گھر گھر پہنچادی۔ ان ہی کے ذریعے پبلک میں بے داری کی ایک نئی لہر دوڑی۔ اس وقت کانگریس کی تحریک بھی اپنے عروج پہ تھی۔ اسی زمانے کا یا اس سے ذرا پہلے کا مجھے ایک منظر اچھی طرح یاد ہے۔ ممبئی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر میں والدہ کے ساتھ ٹرین کے کمپارٹمنٹ کی ایک کھڑکی میں بیٹھی ہوئی گریس سوٹ میں ملبوس جناح صاحب والد مرحوم کے ساتھ پلیٹ فام پر ٹہل رہے ہیں۔ اس وقت تک پاکستان کے مطالبے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا اور جناح صاحب قائد اعظم نہیں کہلاتے تھے۔


پشاور اور چٹا گانگ تب ہندوستان ہی کے شہر تھے۔ اس کے چند سال بعد کالج میں ہماری ایک کلاس فیلو ریکھا چکرورتی کہاکرتی تھی وہ چھٹیوں میں اپنے وطن ڈھاکہ جارہی ہے۔ اس کے والد شاید چیف انجینئر تھے اور فیض آباد روڈ پر ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ ریکھا اب بحیثیت مسز مکھرجی شاید ممبئی میں رہتی ہے۔ جہاں اس کے شوہر ہندوستانی بحریہ کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ڈھاکہ اب ریکھا کے لئے اس کا وطن نہیں رہا۔ زمانے کا جن کیسی کیسی قلابازیاں کھاتا رہتا ہے اور اگر دیکھاجائے تو فرق کسی چیز سے کچھ نہیں پڑتا۔


سلسلۂ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات


سلسلہ روز و شب ، تارحریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات


سلسلہ روز و شب ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیرو بم ممکنات


تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روز و شب صیرفی کائنات


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ماہنامہ آج کل - قرۃ العین حیدر نمبر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
قرۃ العین حیدر سے ایک مکالمہ از گلزار جاوید
***
ماخوذ: ماہنامہ "آجکل"۔ شمارہ: نومبر 2007 (قرۃ العین حیدر نمبر)

A few words on Indian society, by: Qurratul Ain Haider.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں