حکایات ملا نصرالدین ہدیٰ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-22

حکایات ملا نصرالدین ہدیٰ

stories-of-mulla-nasruddin

آدھی رات کے وقت دو نقاب پوش ڈاکو ملا نصر الدین کے گھر میں داخل ہوئے۔ آہٹ پانے پر ملا سب کچھ تاڑ گیا اور اپنی جان بچانے کے لیے جلدی سے ایک الماری میں چھپ گیا۔ ڈاکو کمرے میں پہنچے تو سیدھے الماری کی طرف لپکے۔ پٹ کھولا تو ملا نصرالدین کو سامنے یا۔ ان میں سے ایک نے کہا: "ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ ہم ایک بوڑھے آدمی کو نہیں مار سکتے! باہر آ جاؤ، چھپنے کی کوئی ضرورت نہیں۔"
ملا نے جواب دیا: "میں جان بچانے کے لیے نہیں چھپا ہوں۔ دراصل میں منہ دکھانے کے قابل نہیں، زہے نصیب کہ آپ ایسے شرفاء نے یہاں آنے کی زحمت گوارا فرمائی لیکن گھر میں سوائے ویرانی کے اور کچھ نہیں۔ اسی لیے منہ چھپائے کھڑا ہوں۔"


سات سو برس پہلے کا یہ واقعہ ترکی میں کوئی موقعوں پر بیان کیا گیا ہے۔ اور اس دور میں اس کے لیے ایک خاص موقعہ وہ ہے جب اسمبلی کا کوئی امیدوار ووٹ کی خاطر کسی گھر میں قدم رکھتا ہے یا کسی جماعت کا کوئی رکن چندہ لینے کے لیے کسی دروازے پر دستک دیتا ہے۔ ترکی کے ہر شعبہ زندگی میں ملا نصر الدین کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ علمی، ادبی، فنی، تہذیبی ، معاشرتی، تجارتی اور سیاسی مسائل جب الجھ کر اکتا دینے والی حد تک لا ینحل سے نظر آتے ہیں تو اس وقت ملا نصر الدین کی ایک شگفتہ مسکراہٹ ساری الجھن کو دور کر دیتی ہے۔ ملا نصر الدین کی پرانی باتیں آج بھی اپنی تروتازگی سے نئی شگفتگی پیدا کرتی ہیں۔


ملانصر الدین کوئی خیالی کردار نہیں ، البتہ کئی من گھڑت واقعات اس کی ذات سے وابستہ کر دئے گئے ہیں۔ ویسے اس کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور گزرے ہیں جو اپنے انوکھے پن کی وجہ سے بڑی دلچسپی کا باعث ہیں۔ انہی واقعات نے ملا کو بڑی شہرت بخشی اور ترکی کی ہر محفل میں اس کا ذکر ہونے لگا۔ ملا ترکی کے ایک گاؤں ہورتو میں 1208ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ عبداللہ اسی گاؤں میں مسجد کا امام تھا۔ اس نے اپنے بیٹے نصر الدین کو اس زمانے کے لحاظ سے اچھی تعلیم دلوائی۔ نصر الدین جوان ہوکر عالموں میں شمار ہونے لگا۔ اور اس حیثیت سے ملا کا خطاب ملا۔
نصر الدین اپنے وقت کا واحد ملا تھا جو زاہد خشک اور تنگ نظر نہیں تھا۔ وہ ہر وقت ہنستا مسکراتا اور ہنسی ہنسی میں بڑی اہم اور سنجیدہ باتیں سمجھا دیا کرتا تھا۔ اس کی مزاح و طنز سیے بھرپور باتیں دل پر اثر کرتیں اور سننے والے ہنستے ہنستے زندگی کی کوئی بڑی حقیقت پر غور کرنے لگتے۔ ملا نصر الدین نے پند و نصائح سے ہمیشہ گریز کیا۔ اس کا یہ نظریہ تھا کہ اس روتی بسورتی دنیا میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی سمجھ کے مطابق بات سمجھائی جائے اور بارت سمجھانے کے لیے ہنسی مذاق کو اپنا شعار بنایا جائے۔ ملا نصر الدین نے اپنے اس نظریے کو اس حد تک عملی جامہ پہنایا کہ وہ خود جان بوجھ کر بیوقوف بنتا رہا۔ لوگ اس کی بے وقوفہ پر ہنستے اور دوسرے لفظوں میں کسی اچھی بات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی عقلمندی کا ثبوت دیتے۔


ملا نصر الدین اپنی حاضر جوابی ، خوش باشی اور زندہ دلی کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ یوں تو وہ جسمانی طور پر 71/ برس تک حیات رہا اور اب وہ ابدی نیند سو رہا ہے۔ ملا نصر الدین کی زندگی کے پورے واقعات تو کسی کو معلوم نہیں۔ البتہ اس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اپنے گاؤں کا قاضی بھی تھا۔ وہ شاعر اور فلسفی تھا۔ صاف ستھرا ، خوش پوش اور ہنس مکھ انسان اس نظریے کا حامل تھا کہ بڑی سے بڑی بات ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز سے موثر پیرائے میں کہی جا سکتی ہے۔ اس کی یہ بات کسی ایک واقعے سے یوں ظاہر ہوتی ہے کہ ایک بار وہ گاؤں سے باہر سڑک پر مزے مزے سے جا رہا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں رسی کا ایک رساؤ تھام رکھا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے گدھا چل رہا تھا۔ چلتے چلتے گدھے کی پیٹھ پر لدی ہوئی بوری میں سے مٹی کا ایک پیالہ گر کرزمین پر ٹوٹ گیا۔ لیکن ملا نصر الدین بغیر رکے اور بغیر پیچھے دیکھے اپنی راہ چلتا رہا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک راہ گیر نے یہ خیال کرکے کہ شاید ملا کو پیالے کے ٹوٹنے کی خبر نہیں ، ٹوٹے پوئے پیالے کی طرف اشارہ کیا۔ ملا نے جواب دیا۔"مجھے معلوم ہے لیکن جب پیالہ ٹوٹ گیا تو ٹوٹ گیا"۔
ایسے موقع پر دراصل سوائے اس کے کہ کوئی چارہ ہی نہ تھا کہ بجائے اس نقصان پر رونے دھونے کے وہ اپنی رفتار جاری رکھتا۔ ملا کا یہ جواب مزاح اور طنز کے پردے میں ٹوکنے والے شخص کی سمجھ پر ایک کڑی تنقید ہے۔ یہ جواب دوسرے شخص کے لیے یہ معنی رکھتا ہے کہ: "تم کتنے بے وقوف ہو۔ پیالہ ٹوٹا تو ٹوٹ گیا اس کو جوڑا تو جا نہیں سکتا تو ٹھہر کر افسوس کرنے اور وقت ضائع کرنے سے فائدہ؟"


ایک دن ملا نصر الدین نہانے کے لیے گرم حمام میں پہنچا۔ معمولی سے کپڑوں میں ملبوس ملا کو حمام والوں نے معزز نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اسے پھٹا پرانا اور میلا کچیلا اور کپڑے دھونے والے صابن کا ننھا سا ٹکڑا دے کر اس غسل خانے میں بٹھا دیا جہاں نہانے دھونے کا معقول انتظام نہ تھا۔ ملا نہا دھوکر باہر نکلا اس نے حمام کے دونوں آدمیوں کو ایک ایک اشرفی انعام کے طور پر دی۔ وہ دونوں دم بخود ہو کر رہ گئے۔ اور دل ہی دل میں افسوس کرنے لگے کہ ہم نے اس انسان کو پہچاننے میں بڑی غلطی کی۔ دوسری بار ملا جو آیا تو انہوں نے مل کر ملا کی بڑی خدمت کی، ایک نے نیا تولیہ، خوشبو دار صابن، اس غسل خانے میں رکھا جو خاص لوگوں کے استعمال میں آتا تھا۔ دوسرے نے ملا کے بدن کی مالش کی اور جب ملا نہا دھوکر باہر نکلا تو اس نے دونوں کی ہتھیلی پر تابنے کا ایک ایک پیسہ رکھ دیا۔ اس پر وہ بہت حیران ہوئے، ملا سے کہا: "جب ہم نے کوئی خدمت نہ کی تو ہمیں ایک ایک اشرفی ملی ، اور آج ہماری خدمت کا بس اتنا عوضانہ ۔۔۔؟"
ملا نے جواب دیا: "اس دن تم نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی، اس کا معاوضہ تمہیں آج ملا اور آج تم نے بڑی خدمت کی تو اس کا معاوضہ تمہیں اس دن پیشگی دے دیا گیا تھا۔"


ملا نصر الدین سے کسی نے پوچھا:" عورت کوئی راز ا پنے سینے میں محفوظ رکھ سکتی ہے؟"
"کیوں نہیں؟"
ایک نے پوچھا: "کون سا راز؟"
ملا نے جواب دیا: "فقط ایک راز، اپنی عمر کا راز۔"
اس پر ایک اور نے پوچھا: "ملا تمہاری عمر کیا ہوگی؟"
اس نے جواب دیا: "چالیس برس کا ہوں۔"
ایک اور نے کہا: "لیکن ملا پچھلے برس بھی تم نے یہی الفاظ کہے تھے۔"
ملا نے جواب دیا: "ہاں کہا تھا۔ میں اپنے الفاظ سے پھرنے والا نہیں ہوں اور آج بھی انہی الفاظ پر کاربند ہوں۔"


ایک پبلک جلسے میں ایک لیڈر جب تقریر کرنے کے لیے اسٹیج پر آیا تو جم غفیر دیکھ کر وہ ایسا سٹپٹایا کہ اس کی زبان گنگ ہو گئی اور تقریر دل ہی دل میں ہوتی رہی۔ اس پر اس کے بہت سے عقیدت مندوں نے زندہ باد کے نعرے لگائے تاکہ اس عرصے میں وہ سنبھل جائے لیکن وہ نہ سنبھل سکا۔ آخر ایک آواز آئی: "آپ کچھ تو کہئے۔"
اس نے کہا: "کیا کہوں، میں تو کچھ سوچ بھی نہیں سکتا۔"
ملا اٹھ کر اسٹیج کے پاس آیا اور اس سے کہا: "کیا یہ بھی نہیں سوچ سکتے کہ اسٹیج سے فوراً نیچے اتر آؤ۔"


ایک کسان اپنے گھوڑے کی لمبی دم تراش رہا تھا کہ پاس سے ملا نصر الدین گزرا۔ کسان نے ملا سے پوچھا۔ "دیکھو، کتنی دم ٹھیک رہے گی۔"
ملا نے جواب دیا: "میرے بھائی تم گھوڑے کی دم چھوٹی تراشو یا بڑی، وہ بعض لوگوں کے لیے بہت چھوٹی اور بعض لوگوں کے لیے بہت لمبی رہے گی"۔


ایک کسان احمد نامی ملا کے ہاں مہمان ٹھہرا۔ اس نے ایک ننھا سا چوزہ ملا کو تحفتاً دیا، ملا نے اس کی بڑی خاطر تواضع کی۔ اس کے رخصت ہونے کے چند بعد ایک اور شخص آیا اور اس نے ملا سے کہا کہ "میں احمد کا دوست ہوں۔" ملا نے اس کی بھی تواضع کی، تیسرے دن ایک اور شخص آیا اس نے کہا: "میں احمد کا دوست ہوں۔"‘ ملا نے پھر وضع داری کا ثبوت دیا اس کے جانے کے ایک ہفتہ بعد ایک اور شخص آیا اس نے کہا: "میں احمد کا دوست ہوں۔۔۔" ملا نے اسے اپنے دیوان خانے میں بٹھایا۔ اتفاق سے وہ کھانے کا وقت تھا۔ دستر خوان بچھایا گیا تو مہمان کے سامنے ملا نے ایک بڑے کٹورے میں خالی گرم پانی پیش کرتے ہوئے کہا۔ "یہ احمد کے دئے ہوئے چوزے کے شوربے کے شوربے کا شوربہ ہے۔"


ایک دن ملا نصر الدین نے اپنے بیٹے سے کہا: "کنویں سے پانی کا گھڑا بھر لاؤ اور دیکھنا کہیں گھڑا نہ ٹوٹ جائے۔"
یہ کہتے ہوئے اس نے بیٹے کے گال پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ پاس کھڑے ہوئے ایک شخص نے کہا تم نے اپنے بیٹے کو کیوں مارا؟ اس غریب نے گھڑا کہاں توڑا تھا۔
ملا نے جواب دیا۔" گھڑا توڑنے کے بعد اگر میں اسے سزا دیتا تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔"


ملا نصر الدین کا ایک پڑوسی بڑا لالچی اور بے ایمان تھا۔ ایک شام ملا نے اس سے فرائی پین (تلنے کا برتن) مانگا۔ پڑوسی نے اسے فرائی پین دے دیا۔ ملا کو دراصل فرائی پین کی ضرورت نہ تھی۔ وہ اپنے پڑوسی کو ایک سبق دینا چاہتا تھا۔ پندرہ دن بعد جب اس نے اپنے پڑوسی کو اس کا فرائی پین واپس دیا تو اس کے ساتھ ایک اور چھوٹا سا فرائی پین بھی دیا۔ پڑوسی نے پوچھا: "یہ کیا ہے؟"
ملا نے جواب دیا: "تمہارے فرائی پین نے بچہ دیا ہے۔"
پڑوسی بہت خوش ہوا اور ننھا فرائی پین بھی لے لیا۔
تیسرے دن ملا نے پھر اس سے فرائی پین مانگا اور اپنے پاس ایک ماہ تک رکھا اور جب پندرہ دن اور گزرگئے تو پڑوسی خود ملا کے پاس آیا اور اس نے اپنا فرائی پین مانگا۔ ملا نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا: "تمہارا فرائی پین مر چکا ہے۔"
پڑوسی سیخ پا ہوگیا اور گرج کر بولا: " کبھی فرائی پین بھی مرسکتا ہے ، کیا بکتے ہو۔"
ملا نے کہا: "جب فرائی پین بچہ دے سکتا ہے تو مر بھی سکتا ہے۔"



ماخوذ:
مجلہ "نقوش" (طنز و مزاح نمبر)
شمارہ 71-72 (جنوری-فروری 1959)
ناشر: ادارہ فروغ اردو ، لاہور (پاکستان)

The stories of Mulla Nasruddin.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں