قرۃ العین حیدر سے ایک مکالمہ از گلزار جاوید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-01

قرۃ العین حیدر سے ایک مکالمہ از گلزار جاوید

محترمہ قرۃ العین حیدر کا نام اردو ادب کے اعتبار اور وقار کا دوسرا نام ہے۔ جس قدر وست اور نادر خیالی آپ نے اردو ادب کو بکشی ہے اس کی دوسری مثال تلاشنے اور تراشنے میں ایک عمر گزار کر بھی کامیابی یقینی نہ ہے۔۔۔۔!زیر نظر انٹر ویو مارچ2005ء کے سفر دہلی کے دوران محترم پنڈت گلزار دہلوی ، جناب ۔۔ کشور وکرم اور ملک زادہ جاوید صاحب کی ہمراہی، معیت و معاونت میں کیا گیا ہے جس کے لئے ہم محترمہ قرۃ العین حیدر صاحبہ کے ساتھ تینوں محترم احباب کے صدق دل سے ممنون ہیں۔۔۔ بلا شبہ یہ ایک اشتیاقی اور اتفاقی ملاقات تھی جس کا ثمر قارئین’’چہار سو‘‘ کے لئے نئے ذائقے اور نئی لذت کا حال ہونا چاہئے۔۔۔!!!

سوال:
آج کل آپ کے روز و شب کس طرح صرف ہوتے ہیں؟
جواب:
ہم نے تو زندگی کے قیمتی ماہ و سال لکھنے پڑھنے میں صرف کردئیے۔ اس کے علاوہ آنا ہی کیا ہے ہمیں۔ آج کل بھی حسب توفیق لکھتے پڑھتے رہتے ہیں۔

سوال:
کس زبان کا ادب زیر مطالعہ رہاکرتا ہے؟
جواب:
جہاں بھی اچھا ادب دستیاب ہو ضرور پڑھتی ہوں۔ اس میں زبان یا علاقے کی قید ہرگز نہیں ہے ۔ ادب سے ہٹ کر بھی میری دلچسپی کے مضامین جہاں دستیاب ہوں وہ بھی ضرور پڑھتی ہوں۔

سوال:
آپ کے خیال میں ارد و زبان اپنی عمر کے کس مرحلے میں ہے؟
جواب:
ہندوستان، پاکستان کے علاوہ جہاں جہاں اردو بولنے والے ہیں وہاں وہاں اردو کا چلن فطری بات ہے مگر یہ کہنا کہ فرانس ، برطانیہ یا امریکہ میں اردو پھل پھول رہی ہے بالکل غلط ہے ۔

سوال:
اسکا مطلب یہ لیاجائے کہ آپ اردو کی نئی بستیوں میں اردو کے مستقبل سے پر امید نہیں ہیں؟
جواب:
دنیا فانی سے ہر کسی کو ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہے ، پھر جو لوگ ریٹائر ہوکر اپنے اپنے ملکوں میں واپس آجائیں گے ان کے آل اولاد اردو سے کس طرح رشتہ و تعلق برقرا رکھ سکے گی؟

سوال:
ایک طرف یہ صورتحال ہے جب کہ بہت سے پر جوش حلقے اردو کو دنیا کی تیسری بڑی زبان گردانتے نہیں تھکتے؟
جواب:
ہرکسی کو اختیار ہے جو چاہے رائے قائم کرے ۔ میں نے البتہ کبھی یہ رائے قائم نہیں کی کہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ میرے خیال میں چائنیز اور انگلش کے بعد لا طینی جرمن، کاش کے بعد اردو کا نمبر رکھاجائے تو زیادہ مناسب ہے۔

سوال:
بھارت میں اردو کے مستقبل کی بابت آپ کا حسن ظن کیا ہے؟
جواب:
خوبصورت اصطلاحوں اور رنگین محاوروں سے اردو کا مستقبل ہرگز روشن نہیں ہوگا جب تک ہم اردو بولتے رہیں گے تب تک تو ٹھیک ہے مگر موجودہ نسل یعنی ہماری نسل کے لوگ اپنے بچوں کو اردو نہیں سکھائیں گے تو کیسے آگے چلے گی؟ عربوں کی نئی نسل کو اس قدر عربی نہیں آتی جس قدر ان کی پرانی نسل کو آتی ہے ۔ میرے خیال میں کم از کم دو نسلوں تک تو ہندوستان میں اردو کو برقرار رہنا چاہئے۔

سوال:
آپ کو کبھی اردو کی ادیبہ اور قلمکار ہونے پر تنگ دامنی یا ملال کا احساس نہیں ہوتا؟
جواب:
اللہ میاں نے مجھے چائینا میں پیدا کیا نہ برطانیہ میں، جہاں پیدا ہوتی جس زبان میں آنکھ کھولی ، جس میں لوری سنی اسی زبان میں لکھتی ہوں اور لکھتی رہوں گی ۔ کسی طرح کا احسا س کمتری میرے نزدیک کبھی نہیں پھٹکا۔

سوال:
ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مغربی مصنفین کے مقابل شہرت نام و نمود کے حوالے سے کسی طرح کا قلق کبھی دل میں اجاگر نہیں ہوا؟
جواب:
نہیں مجھے کبھی ایسا خیال نہیں آیا، میں جہاں جس حال میں ہوں خوش ہوں۔ ادب کی ترقی میں ادیب کی ترقی پنہاں ہوتی ہے۔ ملک کے حالات کے ساتھ زبان بھی بدلتی ہے ۔ پاکستان میں کیا ہورہا ہے، آپ کے بچوں کو اردو آتی ہے کیا؟ فی زمانہ ترقی یافتہ ہونے کی نشانی انگریزی بولنا ہے ۔ آپ بھی اس رو میں بہے جارہے ہیں اور ہم بھی اس سے پہلو تہی نہیں کرسکتے۔

سوال:
ترقی پسندی کا لیبل بھی آپ کی ذات سے مدت تک منسوب رہا ہے؟
جواب:
میرے خیال میں یہ بہت پرانی بات ہے۔ کوئی نئی بات کیجئے۔

سوال:
ہم یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آج اس نظریہ کی بابت آپ کے خیالات کیا ہیں؟
جواب:
ابن انشا نے اچھی بات کہی تھی کہ صاحب اگر یہ کہاجائے کہ سب انسانوں کو برابری کی سطح پر روٹی، روزی دولت یا خوشحالی ملنی چاہئے تو اس میں ترقی پسندی کی کون سی بات ہے یا کسی سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت کیا ہے؟

سوال:
آپ کے خیال میں اس نظریہ کو شکست ہوئی ہے کہ نہیں؟
جواب:
کمپونزم کے عروج و زوال سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے ۔1969ء میں روس کے حالات مجھے اچھے لگے تھے ۔1974ء میں بھی وہی حالات تھے اگر یہ کہاجائے کہ آزادی اظہار رائے نہیں تھی تو یہ ان کا مسئلہ ہے میں نے کبھی کسی سے دریافت نہیں کیا۔

سوال:
بہت سے ناقدین اور مخالفین آپ کی تخلیقات پر مغربی ادب کے چربہ کا الزام دھرتے ہیں؟
جواب:
جس کا جو دل چاہے کہے میں کیا کرسکتی ہوں۔ آپ جو چاہیں رائے قائم کریں آپ کی مرضی ہے۔ کسی چیز کو اصل ماننے پر آپ لوگ تیار کب ہوتے ہیں۔ چربہ کا الزام آپ نے کس پر نہیں لگایا؟ پریم چند منٹو پر بھی چربہ کا الزام لگتا رہا ۔ بڑی سادہ بات ہے کہ آپ جو سوچ رہے ہیں وہی لکھنے جاتے ہیں۔ میں بھی جو سوچتی گئی لکھتی تھی ۔ آپ کی مرضی ہے اسے مرجینا اولف سے ملا دیجئے یا کسی اور سے بریکٹ کردیجئے ۔ ایک آدمی روس میں بیٹھا ہے ، ایک چین میں، ایک امریکہ میں بیٹھا ہے ان کی سوچ میں تھوڑی بہت مماثلت تو ہوسکتی ہے ہوبہو نہیں ہوسکتی۔

سوال:
یقینا آپ کا استدلال درست ہے۔ اردو ادب کے بہت سے حصے پر مغربی ادب کے چربے کا الزام بھی لگتا رہا ہے؟
جواب:
یہ1936ء کے قریب کی بات ہے جب ترقی پسندی کے حامل پڑھے لکھے لوگوں نے انگریزی ادب کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ میرے خیال میں یہ الزام اسی وقت کے لوگوں سے منسوب تھا جو زیادہ دیر پا ثابت نہ ہوا۔

سوال:
انسان ایک وقت میں ایک سمت میں دو مختلف عمل کامرتکب ہو تو یقینا ایک درست اور ایک غلط تصور ہوگا ۔ آپ کا پاکستان جانا یا جاکر لوٹ آنا کس امر کا غماز ہے؟
جواب:
یہ میرا خالص ذاتی معاملہ ہے ۔ میں آپ سے دریافت نہیں کررہی ہوں کہ آپ کہاں رہتے ہیں اور کیوں رہتے ہیں؟

سوال:
فنکار جب پبلک پر اپرٹی ٹھہرتا ہے تو اس کا کوئی عمل کیونکر ذاتی ہوسکتا ہے؟
جواب:
بھئی جب میں پاکستان گئی ہوں اس وقت ہم سب لوگ ہنگاموں میں پھنسے ہوئے تھے اس لئے پاکستان جانا پڑا ۔ میں پاکستان سے پہلے انگلینڈ گئی بعد میں انڈیا آگئی۔ معاملہ سارا یہ ہے کہ میں ایک خاتون ہوں۔ ہمارے معاشرے میں کوئی خاتون اپنی مرضی سے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی اگر میں نے اٹھا لیا تو قیامت پر برپا ہوگئی۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگ اس حوالے سے میرے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں تو دونوں ملکوں میں کوئی فرق نہ ہے سوائے ہندوستان میں آزادی اظہار کے ۔

سوال:
ایک خیال یہ بھی ہے کہ آپ رائٹرز اگلڈکے کنٹوپ سے خوفزدہ ہوکر پاکستان سے واپس چلی آئیں؟
جواب:
جانے بھی دو میاں کیوں گڑے مردے اکھاڑتے ہو! ہماری تو خیر ہے، تمہیں واپس پاکستان بھی جانا ہے کیوں اپنے بگل اڑوانے پر تلے ہوئے ہو۔

سوال:
تقسیم ہند کی بابت آپ کی اس وقت کیارائے تھی اور آج کیا ہے؟
جواب:
تقسیم کے بارے میں کیا رائے دوں، لاکھوں کتابیں لکھی گئی ہیں اس موضوع پر، یہ بات پرانی ہوچکی ہے جو لوگ ہندوستان سے پاکستان چلے گئے یاپاکستان سے امریکہ، برطانیہ وغیرہ چلے گئے ان سے اب کیا دریافت کریں کہ وہ وہاں کی شہریت کے لئے ائر پورٹ پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا کمپلیکس اور ان کا روب ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ میرے خیال میں تو پورا خطہ ہمارے بزرگوں کو ورثہ ہے جس کا جی جہاں چاہے رہے۔

سوال:
انڈو پاک کے کچھ جذباتی لوگ اپنے اپنے ادب کی بابت بہت سی خوش فہمیوں بلکہ غلط فہمیوں میں بھی گرفتار ہیں؟
جواب:
اس طرح کی بیوقوفانہ باتوں میں آپ نہ پڑئیے۔ یہ تو بچوں والی بات ہے ۔ارے بھئی دیکھئے نا! جہاں افسانہ اچھا لکھاجارہا ہے وہ اچھا ہوگا ۔ جہاں شاعری اچھی کی جارہی ہے وہ اچھی ہوگی ۔ روشنی اور خوشبو کہیں کی بھی ہو اچھی ہوا کرتی ہے۔ یہ چھپائے نہ چھپتی ہے نہ دبائے دبتی ہے۔

سوال:
برصغیر کے چند ایسے نام جو آپ کے خیال میں امید افزا ادب تخلیق کررہے ہیں؟
جواب:
آپ کیوں مجھے پکڑوانے کی باتیں کررہے ہیں!بہت سے لوگ اچھا ادب لکھ رہے ہیں ۔ نام لے کر سب کی نشان دہی میرے لئے ممکن نہیں ۔

سوال:
اپنی تخلیقات کی نسبت ناقدین کی بابت آپ کے احساسات کیا ہیں؟
جواب:
بھئی میں کیا کروں،ہار پھول پہناؤں ناقدین کو؟

سوال:
آپ نے جس قدر لکھا اور جس معنویت سے لکھا، آپ کے دور کے ناقدنے اسے اسی طرح سمجھا ہے کہ نہیں؟
جواب:
جن لوگوں نے سمجھایا جن لوگوں نے نہیں سمجھا ان کی اپنی مرضی اور بصیرت پر منحصر ہے ۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتی ۔ ہم اپنا کام کررہے ہیں نقاد اپنا کام کرتے رہیں گے ۔ بات ساری کمیونی کیشن کی ہوتی ہے اگر آپ کا رابطہ اپنی سطح پر ردرست نہیں تو وہ بات اس تک نہیں پہنچے گی جن تک آپ پہنچانا چاہتے ہیں ویسے بھی آج کل پڑھے لوگوں کا طبقہ کم ہوتا جارہا ہے ۔

سوال:
بہت سے احباب آپ کی تنگ مزاجی کو مغروریت سے تعبیر کرتے ہیں ان کے خیال میں آپ مدمقابل کوبڑی چابک دستی سےDemoralizeکردیتی ہیں؟

جواب:
اس طرح کے لوگوں کی بابت اظہار خیال کرکے میں آپ کا اور اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہتی ۔بلا پیشگی اطلاع کے آپ کی آمد اور اس گفتگو میں آپ کے سوال کا جواب پنہاں ہے ۔

سوال:
ایک سوال یہ بھی بحث طلب ہے کہ قاری کو رائٹر کی سطح تک جانے کے بجائے رائٹر کو قاری کی سطح پر آکر لکھنا چاہئے تاکہ اردو ادب کی قبولیت میں اضافہ ہوسکے ۔
جواب:
جس کا دل چاہے وہ کہے مگر کوئی یہ بھی تو بتلائے کہ رائٹر عوامی سطح پر کیسے آئے اور کیونکر آئے؟ جو افسانہ عوامی رسالہ میں چھپ رہا ہے اس کو تو وہی لوگ پڑھیں گے جو انک ی اپچ ہے۔ گلشن کھتہ کامن میں کے لئے لکھتا تھا۔ کاغذ ختم ہوگیا تھامگر اس کی کتاب فروخت ہونا بند نہ ہوئی تھی ۔ کیااس ادب کا سنجیدہ ادب میں کوئی مقام ہے؟

سوال:
اس طرح تو کامن مین سے ناطہ توڑ کر اردو ادب کا دامن سکڑتا جائے گا؟
جواب:
کامن مین آج کل اخبار اور کتاب پڑھتا کب ہے؟ وہ تو کرکٹ اور ڈرامے کا رسیا ہے جو ٹی۔وی پر دستیاب ہے اسی سبب آج کل ٹی۔ وی کلچر عام ہے ۔

سوال:
آپ کے خیال میں بہتری کے آثار کب تک ہیں؟
جواب:
میں کوئی پیغمبر نہیں ہو ںہ ولی اللہ ہوں کہ کسی طرح کی پیش گوئی کے ذریعہ آپ کو حوصلہ دلا سکوں۔

سوال:
آپ کے خیال میں اس ساری صورت حال سے اردو ادب کو کس طرح کے نقصانات کا سامناہے؟
جواب:
میرے خیال میں تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچایہ الگ بات ہے کہ جو کچھ چھپ رہا ہے اس کو کتنے لوگ پڑھتے ہیں؟ اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے رائے قائم کیجئے۔ایک چھوٹا سا حلقہ کافی ہاؤس اور ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہے اس کی بنیاد پر آپ ادب کے معیار کس طرح قائم کرسکتے ہیںـ؟اگر آپ کے جریدے کی اشاعت پانچ سو ہے تو اسے ہزار دو ہزار لوگ پڑھ لیں گے تو اس محدود حلقے کی بنیاد پر آپ کیا رائے قائم کریں گے؟عام قاری کی دلچسپی ہماری سوچ سے الگ ہے۔

سوال:
بہت سے ادبی جرائد و رسائل ہزاروں کی اشاعت کے دعوے دار بھی ہیں؟
جواب:
سوال پانچ صد یا پانچ ہزار کا نہیں ، کم از کم پانچ لاکھ کاہے مگر ہمارے اور آپ کے ملک میں ایسا کس طرح ہوسکتا ہے؟ ہم لوگ اتنی چھوٹی گلیاں میں گڑ پھوڑرہے ہیں جس کابیان شرمناک ہے باتیں البتہ عالمی دانشوری کی کرتے ہیں۔

سوال:
اس دعویٰ میں کہاں تک صداقت ہے کہ اردو ادب کو عالمی ادب کے مقابل پیش کیاجاسکتا ہے؟
جواب:
بیشک! بہت سی تخلیقات اور قلمکار ایسے ہیں جنہیں مغرب کے مقابل رکھاجاسکتا ہے ۔ آپ فکشن میں مقابلہ کرلیجئے یہ اس سے کسی طرح کم نہیں۔شاعری بھی شاندار ہے پر ترجمہ اس کی روح کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ ہمارا پس منظر بہت مخصوص ہے۔عربی، اردو، فارسی ، ہندی کی آمیزش کے باعث مستعمل استعاروں، مثالوں اور تشبیہات کا ترجمہ ہوہی نہیں سکتا۔ نظم کے حوالے سے کچھ مفید پیش رفت ضرور ہوتی ہے مگر اس قدر حوصلہ افزا نہیں جس قدر ہونا چاہئے تھی۔

سوال:
غزل کو نیم وحشی صنف کہنے والوں نے خود اس کے راستے محدود نہیں کردئیے؟
جواب:
میں غزل وغیرہ کے بارے میں زیادہ نہیں کہہ سکتی۔ ماڈرن غزل بہت عمدہ ہے ۔ شاعری چاہے نئی ہو یا پرانی گمبھیر، سنجیدہ ،خارجی اور داخلی جذبات کا عکس ہوتی ہے۔ چینی، جاپانی شاعری بہت اکہری ہے جب کہ اردو، فارسی اور سنسکرت شاعری کا جواب نہیں۔ ہم مغربی شعرا کو کوٹ کئے بغیر روٹی نہیں کھ اسکتے ان لوگوں کی شاعری جس چیز سے اگی تھی وہ مغربی کلچر اور اپیل سے پیدا ہوا ہے ۔ آپ کا تعلق اس سے نہیں ہے ۔ آپ کا تعلق رامائن اور مہا بھارت سے ہے آپ جب بات کریں گے تو اپنے جغرافیہ کو ضرو ر شامل کریں گے۔ کوئیل اور بلبل یہاں بولتی ہیں وہاں نہیں بولتیں ۔ یہ ہمارا ورثہ ہے ۔ وہ لوگ نہیں جانتے کہ پھولوں میں خوشبو بھی ہوتی ہے صر ف رنگ نہیں ہوتا۔ حالانکہ میں پیانوں بجاتی ہوں مگر مجھے انگریزی میوزک سمجھ نہیں آتا کیوں کہ ہمارے راگ، رنگ میں مذہبی عقیدت ہوا کرتی ہے ۔ ہمارے ہاں روہم ہے ان کے ہاں ہارمنی ہے۔ بر صغیر بہت بد قسمت ہے کہ اس کے علوم و فنون میں فرنٹئر سے لے کر پنجابی، گجراتی ، بنگالی اور مراٹھی کی وسعت و گہرائی ہوتے ہوئے بھی محدودیت کا شکار ہے ۔

سوال:
آ پ کے خیال میں اردو زبان و ادب کو کس چیز سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے؟
جواب:
گروہ بندی سے! یہ ہماری گھٹی میں شامل ہے ۔ بھائی کا بھائی کو کاٹنا۔۔۔ محصفی، آتش، انشا، ناسق سب نے اپنے اپنے شاگرد پالے ہوئے تھے، مخالفوں کی بھد اڑانے کے لئے۔ آپ کے پاکستان میں لاہور، کراچی اور سرگودھا کے دھڑے اس کا ثبوت ہیں۔

سوال:
بر صغیر کے ممالک کے درمیان محبتوں کے پروان چڑھنے سے اردو ادب کے پھلنے پھولنے کے امکانات کس قدر ہیں؟
جواب:
بڑی اچھی بات ہے ، اس محبت کاور بڑھائیے اور پھر سوال کیجئے! لیکن یہ بھی دیکھتے رہئے کہ ہماری اور آپ کی شہ رگوں پر بیٹھے ہوئے لوگ اس ڈور کوکب تک ہلاتے ہیں اور کس طرح ہلاتے ہیں؟

سوال:
آج کل تخلیقی عمل کس رفتار اور مرحلے میں ہے؟
جواب:
وہ پڑھ رہے ہیں آپ! کار جہاں دراز ہے، دو جلدیں تو پاکستان میں چھپ گئی ہیں۔ انہوں نے تین جلدوں کو یکجا کردیا ہے مگر چھاپا بہت خراب ہے۔

سوال:
آپا!وقت کی قلت اور آپ کی مصروفیات آڑے نہ ہوتیں تو یہ مکالماتی سلسلہ منقطع ہرگز نہ کرتے ۔ آخر میں قارئین چہار سو اور اہل پاکستان کے لئے کوئی پیغام؟
جواب:
ارے چھوڑو پیغام ویغام بہت ہوچکے! کام یہ کرو کہ پڑھتے رہو اور دوسرے کی بات بھی سنتے رہو اور تعصب کسی سے مت رکھو ۔ ہوسکتا ہے وہ کوئی کام کی بات کہہ رہا ہون۔ ارے بھائی! وہ جن سنگھی ہے یا جماعت اسلامی سے متعلق ہے اسے اپنی بات کہنے کا حق ہونا چاہئے لہٰذا بولنے سے زیادہ سننے کی عادت ڈالئے اسی میں عافیت ہے۔

ماخوذ از مجلہ : چہار سو (راولپنڈی ، پاکستان) [پروین شاکر نمبر]
جلد: 14 ، شمارہ (جولائی-اگست 2005)

An interview with Qurratulain Hyder.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں