نواب بہادر یار جنگ کا ذوقِ مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-30

نواب بہادر یار جنگ کا ذوقِ مطالعہ

reading-standard-of-nawab-bahadur-yar-jang

نواب بہادر یار جنگ کے والد کے انتقال کے ساتھ ہی ان کا درسی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا۔ اس تعلیم سے ان کا رشتہ منقطع ہو چکا تھا۔ جس نظام تعلیم میں 'علم استاد کے دماغ سے شاگرد کے دماغ میں منتقل نہیں ہوتا بلکہ استاد کی نوٹ بک سے شاگرد کی کاپی میں منتقل ہو جاتا ہے۔'
(اصول تعلیم از غلام السیدین)


انگریزوں کامروجہ نظام تعلیم جو لارڈ میکالے کی رپورٹ اور سفارش کے پس منظر میں ہندوستان میں اچھے اور کارکرد محرر پیدا کرنے کی غرض سے رائج کیا گیا تھا۔ جو نظام تعلیم کسی بھی فن میں انسان کو کامل نہ بنا سکت اتھا۔ البتہ اس نظام تعلیم میں یہ خوبی تھی کہ خوئے غلامی کی رسوم کی ادائیگی کی خو سکھانے کی اس میں صلاحیت موجود تھی ، جو اس تعلیم کا منشا تھا۔ الحاد، مذہب بے زاری، اپنی تہذیب سے نفرت اور مغرب زدہ بنانے والا یہ نظام تعلیم شاہین بچوں کے لئے صحبت زاغ کے مصداق تھا۔ اقبال نے اس نظام تعلیم کی حقیقت کو ہم پر عیاں کیا:
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گاالحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر شیشہ فرہاد بھی ساتھ


حصول علم کی سچی تڑپ، کچی عمر میں پکی ہوگئی تھی۔ نوجوانی کے زمانے تک یہ شوق جنون کی سرحدوں کو پار کرچکا تھا۔ نگاہیں ہر وقت ، وقف مطالعہ رہتیں۔ علم کے سربمہر خزانے جس کو عرف عام میں کتاب کہتے ہیں۔ ان کی زندگی کی متاع عزیز تھی۔ ہر روز کم از کم ڈھائی سو صفحات کا مطالعہ کرتے ہر فرصت کا لمحہ کتاب کے ساتھ گزرتا۔ اردو، فارسی، عربی زبانوں میں مختلف علوم پر مشتمل ہزاروں کتابوں کا ان کا اپنا کتب خانہ تھا۔ جس میں فلسفہ ، منطق، علم کلام، عمرانیات ، لسانیات، مذہب ، ادب، ثقافت، معاشیات غرض ہر شعبہ علم کی کتاب موجود تھی۔ کتابوں سے ان کی ایسی دوستی ہوئی کہ خود زندہ کتاب بن گئے۔ وہ رچرڈ بری کی طرح کتابوں کی قدرومنزلت سے آشنا تھے کہ:


"کتاب ہی ہماری استاد ہے۔ وہ ہم کو بغیر تادیب اور زدوکوب کے تعلیم دیتی ہے۔ وہ سختی سے پیش نہیں آتی۔ کبھی غصہ نہیں کرتی اور ہم سے حق تعلیم طلب نہیں کرتی۔ تم اگر اس کے پاس جاؤ تو کبھی وہ تم کو نیند میں سوتے ہوئے یا غافل نہیں نظر آئے گی۔ کسی مضمون کو سوچتے وقت اگر تم اس سے سوال کرو تو وہ کبھی بخل نہیں کرتی۔ اس کا کہنا تمہاری سمجھ میں نہ آئے تو وہ ناخوش نہیں ہوتی۔ اگر تمہارے سمجھنے میں قصور ہو تو وہ کبھی تمہارا مضحکہ نہیں اڑاتی۔ اس لئے ہر علم و فن کی کتابوں کا ذخیرہ اس دنیا میں تمام دولت سے بڑھ کر قابل قدر ہے۔"
(حصول مسرت از رچرڈ بری 1244ء)


وہ آخری دور میں اپنی قومی مصروفیات کے باعث اپنے عزیز ذوق سے بڑی حد تک محروم ہوگئے تھے:
"ایک زمانہ تھا کہ سارا دن کتاب بینی میں گزرتا تھا اور اب روز کے اخبار مشکل سے پڑھ سکتا ہوں۔"
(خط نمبر 144، مکاتب بہادر یار جنگ)


ان کو کتابیں اتنی عزیز تھیں کہ ہر کتاب کی خوب صورت جلد بندی کروائی جاتی۔ ساری کتابیں ترتیب و قرینے سے کانچ کے شیشوں سے اپنا اور مصنف کا نام بتادیتیں۔ احمد سعید جلد ساز، اور سید ابراہیم نے برسوں نواب صاحب کے کتب خانے کی کتابوں کی جلد بندی کا کام انجام دیا۔
"سید ابراہیم بہت اچھے جلد ساز ہیں۔ میرے کتاب خانے میں برسوں تک کام کیا ہے۔"
(مکاتیب بہادر یار جنگ، 195 جلد دوم)


نواب صاحب کو اپنے دادا کا کتب خانہ بھی ملا، جس میں عربی و فارسی کی نایاب کتابیں موجود تھیں۔ یہ بڑے صاحب ذوق آدمی تھے اور شب بیدار بزرگ بھی۔ نواب صاحب کے والد میں بھی یہ خوبی موجود تھی کہ وہ اہل علم و فضل لوگوں کی قدر فرماتے تھے۔ اگرچہ کہ وہ خود ذی علم نہیں تھے۔ کتابوں کی صفائی کا بھی بڑا اہتمام کیاجاتا۔ دھوپ میں کتابیں رکھی جاتیں اور بعد صفائی الماریوں میں جمع کردی جاتیں۔
"تمام دن مکان پر مختلف مصروفیات میں گزرا۔ کچھ دیر قدیم کتب خانہ( دادا کا کتب خانہ ) کی صفائی اور ترتیب میں مشغول رہا۔"
(بہادر یار جنگ کی ڈائری، صفحہ 254)


"ایک گھنٹہ تک کتب خانہ کی کتابیں جمائیں جو صبح کو دھوپ دینے کے لئے نکلوائی تھیں۔"
(بہادر یار جنگ کی ڈائری صفحہ 52،53)


نواب صاحب کی دیوڑھی کا ایک حصہ کتب خانے کا حصہ تھا۔ جن دنوں حیدرآباد کی بڑی عدالت ہائی کورٹ کے کتب خانے کا فرنیچر بنوایاجارہا تھا نواب صاحب کو اطلاع ہوئی کہ اعلیٰ درجے کے کاریگروںں نے یہ کام انجام دیا ہے تو خود اپنی آنکھوں سے اس فرنیچر کو دیکھا۔ کام پسند آیا۔ اپنی ضرورت اور پسند کے مطابق ڈیزائن دے کر پوری لائبریری کا فرنیچر دیوار سے دیوار تک ، دروازے سے دروازے تک تیار کروایا کتابوں کو کیا کمی تھی۔ ہر ماہ پابندی سے کتابیں خریدی جاتیں۔ خوشنما جلدوں کی یہ کتابیں شیشہ کی الماری میں اہل ذوق سے داد پاتیں۔


قدیم اور نایاب کتابیں، ملا مراد نامی صاحب بپابندی نواب صاحب کو ان کی مطلوبہ کتابیں فراہم کرتے:
"ملا مراد صاحب کتب فروش میری مطلوبہ کتابیں لائے تھے خریدیں ملا صاحب حیدرآباد کے مشہور اور قدیم کتب فروش ہیں۔90 سال سے زیادہ کی عمر ہے۔ مثنوی شریف کے دو ہزار سے زیادہ شعر یاد ہیں۔ قرآن شریف ہر وقت ہاتھ میں رہتا ہے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ کہتے تھے ہر دوسرے روز ایک ختم ہوتا ہے۔"
( صفحہ 16،17، بہادر یار جنگ کی ڈائری)


نواب صاحب کے مطالعے اور علمیت کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر رضی الدین صاحب نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
"مرحوم کی طالب علمانہ زندگی بہت جلد ختم ہوگئی اور وہ ابتدائی عمر ہی میں دنیا کے دھندوں میں پھنس گئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علمی اداروں کی باضابطہ تعلیم یا امتحانات کی کامیابی کی اسناد نہیں رکھتے تھے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ علم محض مدرسوں یا کالجوں میں حاصل نہیں ہوتا۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مکتب اور ملا انسان کی صلاحیتوں کو جو اکتساب علم کے لئے فطرت سے ودیعت کی جاتی ہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، جب وہ کہتے ہیں:
اے کہ در مدرسہ جوئی ادب و دانش و ذوق
نہ خرد بادہ کش از کار کہ شیشہ گراں


تاریخ عالم اور خصوصاً مشرق کی تاریخ میں اکثر علماء نے باضابطہ مدرسوں میں نہیں بلکہ محض اپنی ذاتی کوششوں سے علم و فن میں کمال حاصل کیا۔ مولوی محمد بہادر خاں مرحوم کا شمار بھی اسی گروہ میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے اپنے فطری ذوق علم کی تشفی خود اپنے مطالعہ سے کی اور علم کی جن جن شاخوں سے ان کو دلچسپی تھی ان میں اس قدر طولیٰ حاصل کیا کہ باضابطہ استاد رکھنے والوں سے بدرجہا آگے بڑھ گئے۔ مطالعہ کرتے تھے ، مشاہیر علماء سے بحث کرتے تھے اور خود غوروفکر کرنے کے عادی تھے۔ اکتساب علم کے یہی تین ضروری اجزاء ہیں اور مرحوم ان تینوں سے بہرہ ور تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ معدودے چند کتب خانوں میں سے ہے۔ جن میں مختلف علوم و فنون کی معیاری اور نایاب کتابیں موجود ہیں۔ انہوں نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور ان کتابوں پر جابجا ان کے مطالعہ کے نشانات موجود ہیں۔
بلاد اسلامیہ کے سفر میں اور ہندوستان کے متعدد دوروں میں ان کی ملاقات بڑے بڑے علماء سے ہوئی اور اپنی ذکاوت اور ذہن رسا کی بدولت وہ ان علماء کی گفتگو اور بحث و مباحثہ سے بہترین طور پر استفادہ کرسکے۔ ان کی قوت فکر کا اظہار، ان کی تقریروں اور علمی صحبتوں میں اچھی طرح ہوتا تھا۔ غرض ایک عالم کے لئے جتنی ضروری صفات ہیں وہ ان میں کافی موجود تھیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مختلف النوع کمالات میں ان کے علمی کمالات کو بھی جگہ دینا لازمی ہے۔"
(بہادر خاں مرحوم ایک عالم کی حیثیت سے: اخبار تنظیم قائد ملت نمبر)


"علم و فضل کچھ مدرسہ اور ڈگریوں پر منحصر نہیں ہے بلکہ عطیہ قدرت اور فیضان الٰہی ہے کہ انسان کدھر سے کدھر پہنچ جاتا ہے۔"
(قائد ملت بہادر خاں مرحوم مولوی محمد مظہر، روح ترقی رجب 1367ھ)


ڈاکٹر محمد حمید اللہ نواب صاحب کے مطالعے، علمیت اور اکتساب کے تعلق سے اپنے مخصوص عالمانہ انداز میں تحریر فرماتے ہیں:
"نواب صاحب مرحوم بہت ذکی اور عمدہ حافظہ کے مالک تھے ، والد کی وفات اور خانگی مشاغل نے بھی امتحانی تعلیم کا موقع نہ دیا۔ لیکن مطالعہ کا بڑا شوق تھا اور اسی مطالعہ نے رسمی تعلیم کی کمی کی تلافی کردی تھی۔ دستوریات وغیرہ کے ادق مسائل پر ابتداء ً وہ حقیقت میں کورے تھے لیکن فرقہ واری سیاسی سمجھوتوں کی محفلوں نے چند ہی دنوں میں ان میں اور کہنہ مشق نظریات دانوں میں معلومات کی حد تک کوئی فرق نہ رکھا۔
انگریزی دور میں کشمیر کی جو دستوری حیثیت مسلمہ تھی، اس کے خلاف انہوں نے ایک ذہانت آمیز نکتہ پیدا کیا اور ایک مرتبہ سر شاہ سلیمان جیسی شخصیت سے ( جو فڈرل کورٹ کے نامور جج تھے) اس پر بحث ہی نہیں حجت کی۔ شاہ سلیمان مرحوم کو آخر میں یہ کہنا پڑا کہ نواب آپ کا استدلال اچھوتا اور دلچسپ ہے۔ فی الوقت میں آپ کا ہمنوا ہوگیا ہوں لیکن مزید غور کرکے آپ کو اطلاع دوں گا۔
عالم اسلام کے ایک طویل سفر نے بھی ان میں کافی وسعت نظر پیدا کردی تھی۔"
(دکن کی ایک کثیر جہتی شخصیت از ڈاکٹر محمد حمید اللہ ، صفحہ 5، روح ترقی، رجب 1367ھ)


جاگیر کی ابتدائی تنظیم کے زمانے میں نواب صاحب کو مہینوں جاگیر میں رہنا پڑا۔ بھائیوں( ماندورخاں ، دولت خاں) کو اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ نواب صاحب مہینوں گاؤں میں کس طرح سکونت پذیر ہوتے ہیں:
"دونوں بھائیوں کو حیرت ہے کہ اس تنہائی کے مقام پر جہاں کوئی انیس و جلیس نہیں ، میں دو دو تین تین ماہ کس طرح رہتا ہوں۔ میں نے کہا تم کو نظر نہ آتے ہوں تو ایک بات ہے ورنہ میرے ساتھ تو ہر وقت دنیا کے منتخب لوگ موجود رہتے ہیں۔ مثلاً شبلی ، حالی، نذیراحمد، آزاد ، سدرشن، ابوالکلام، سید سلیمان ندوی، مسٹر آرتھر، کانٹس، ڈائل، ماس بیلزاک ، براؤن، وکسٹر، ہیوگو وہ تو اس وقت بھی میرے ساتھ موجود ہیں۔ ہر شخص میرے لئے علاحدہ علاحدہ دلچسپی فراہم کرتا ہے۔"
(بہادر یار جنگ کی ڈائری صفحہ 112)


ایک جہاں دیدہ انسان ، صاحب طراز ادیب خواجہ حسن نظامی سے بہادر خاں کی ملاقات پہلی بار 16؍جولائی 1923ء کو ہوئی جب ان کی عمر صرف 18 سال تھی۔ اس ملاقات کا ذکر خواجہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:
"نواب نصیب یاور جنگ کے صاحبزادے بہادر خاں صاحب ملنے آئے، یہ بڑے ذی علم، پرجوش، دین دار اور دانش مند صاحبزادے ہیں۔ اسلامی درد رگ رگ میں بھرا ہوا ہے۔"
(درویش ولی، 15؍اگست 1923ء ، جلد30)


کتنی حیرت کا مقام ہے کہ 18 سالہ نواب زادے کے بارے میں خواجہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :
" یہ بڑے ذی علم صاحبزادے ہیں ، نو عمری سے ہر عالم، ہر عاقل، ہر دانش مند سے اپنے علم و عقل کی داد پائی۔’ اتنے وسیع مطالعہ اور علمیت کے باوجود ان کا خیال تھا کہ:
"میری قابلیت علمی چاہے علوم دینیہ و السنہ مشرقیہ سے متعلق ہو ، چاہے علوم جدید مغربیہ کی نسبت، بہت سطحی اور صرف بقدر ضرورت ہے۔"


نواب صاحب کا ایک مضمون "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟" سید علی شبیر ہاشمی کی خواہش پر نواب صاحب نے قلمبند فرمایا تھا( جو "ہماری کتابیں" شمارہ اگست 1942ء جلد1،3) میں شائع ہوا۔
نواب صاحب کے مطالعے کے بارے میں یہ مضمون ایک اہم حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔


میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا

***
میری حالت ان نوجوانوں سے مختلف نہ تھی جو ابتدائی درسی کتابوں سے فارغ ہوکر عام مطالعہ کی ابتدا کرتے ہیں۔ اس عمر میں جب کہ دماغی صلاحیتیں پوری طرح ابھری ہوء نہیں ہوتیں اچھی اور بری کتاب کی تمیز بہت کم ہوتی ہے۔ قصص اور حکایات مبتدی کی توجہ کو جلد اپنی طرف پھیر لیتے ہیں۔ میرے مطالعہ کی ابتدا بھی حکاایت و قصص سے ہوئی۔ مدرسہ اور گھر پر اساتذہ کی گرفت سے چھوٹنے کے بعد جو اوقات فرصت مل جاتے وہ زیادہ تر کسی ناول یا فسانہ کی نظر ہوجایا کرتے تھے۔ کھیل کود سے مجھ کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ یا سچی بات یہ ہے کہ کھیل کود کے قابل ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ قد کی بلندی نے اب اعضا میں تھوڑا تناسب پیدا کردیا ہے۔ ورنہ اپنی عنفوان شباب کی تصویر دیکھتا ہوں تو موجودہ متحارب اقوام کے بنائے ہوئے کسی آتش افروز بم کی تشبیہہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ چار قدم چلتا تھا تو ہانپنے لگتا تھا اور کھیلنے کے بجائے خود دوسروں کے لئے تماشہ بن جاتا تھا۔ اس لئے میری زندگی کا عملی دستور " اگر خواہی سلامت برکنار ست" تھا نگاہیں کبھی کھیلتے ہوئے احباب پر پڑتی تھی اور کبھی صفحات کتاب کے میدان میں دوڑنے لگتی تھی اور جب پلے گراؤنڈ سے اٹھ کر گاڑی میں سوار ہوتا تو مدرسہ سے گھر پہنچنے تک ناول کے ایک دو باب ضرور ختم ہو جاتے تھے۔
رفتہ رفتہ اس شوق نے جنون کی شکل اختیار کرلی۔ میول خوری کے نام سے جو کچھ ملتا وہ کتابوں کی نذر ہوجاتا۔ اتالیق سمجھا کر تھک جاتے اور ناشتے کے دستر خوان پر بھی ہمارے ہاتھ سے کتاب نہ چھوٹا کرتی تھی۔ عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی یہ جنون ویسے ویسے اعتدال پر آتا گیا۔ ایک طرف موضوع مطالعہ میں تبدیلی ہوئی اور افسانوں اور حکایات کی بجائے سوانح عمری اور سیرت کا مطالعہ شروع ہوا اور مطالعہ کے اوقات متعین و معین ہونے لگے۔


بیسویں صدی عیسوی کے ہر نوجوان کی طرح شاعری کا خبط شعور کی ابتدا کے ساتھ پیدا ہو چکا تھا اور شوق شعر گوئی نے شعرا کے تذکروں اور دواوین کی طرف متوجہ کردیا تھا۔ آج اپنے کلام کا پرانا نمونہ سامنے آجاتا ہے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ لیکن آج سے 25برس قبل ہم اپنے آپ کو غالب اور ذوق سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہ سمجھتے تھے۔ ہماری شعر گوئی اور مطالعہ دواوین کا سب سے اچھا وقت صبح کے ابتدائی لمحات ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ادب نے ایک معیاری کیفیت پیدا کی تو خود بخود یہ احساس ہونے لگا کہ شاعر پیدا ہوتا ہے بنتا نہیں اور ہماری میز سے ہٹ کر دواوین الماریوں کی زینت بنتے گئے۔ اور بانگ درا کے سوا میز پر کچھ باقی نہیں رہا۔ آخری دور میں اگر کسی کے کلام نے اقبال کے کلام کا ساتھ دیا تو وہ مولوی روم کی مثنوی اور سعدی کی گلستاں تھی۔


مطالعہ کا طریقہ یہ تھا کہ ایک پنسل ہاتھ میں اور ایک نوٹ بک جیب میں ہوتی۔ میرے کتاب خانے میں مشکل سے کوئی کتاب ہوگی جس پر تاریخ ابتداء اور انتہائے مطالعہ درج نہ ہو جو فقرے ادبی ، تاریخی یا کسی اور حیثیت سے پسندیدہ ہوتا اس پر یا تو کتاب ہی میں نشان لگادیاجاتا اور بار بار اس پر نظر ڈالی جاتی یا پھر نوٹ بک پر درج کرلیا جاتا اور اس کو یاد کرنے کی کوشش کی جاتی والد مرحوم کی خدمت میں شمالی ہند کے اکثر اصحاب تشریف لایا کرتے تھے ، ان کی گفتگو سن کر اپنی زبان کے نقائص کا احساس بڑھتا گیا۔ نتیجہ سب سے زیادہ توجہ زبان کی درستی پر مرکوز رہی۔ کوئی اچھی ترکیب سے کوئی نئی تشبیہ کوئی انوکھا استعارہ نظر سے گزرتا تو سب سے بڑی فکر یہ دامن گیر ہوجاتی تھی کہ اس کو جلد سے جلد صحیح طریقے پر اپنی گفتگو میں استعمال کرلیاجائے۔ ابتداً یہ تمنا صرف جذبہ خود نمائی کا نتیجہ تھی لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ حافظہ کسی بات کو اس وقت تک صحیح طور پر محفوظ نہیں رکھ سکتا، جب تک ایک مرتبہ زبان یا قلم اس کو استعمال نہ کرے آج اپنی زندگی میں اپنی اس ابتدائی عادت کے نتائج کو پوری طرح کارفرما دیکھتا ہوں۔ اس عادت نے رفتہ رفتہ شدت اختیار کرلی تھی کہ میں اچھے ادیبوں کے کئی کئی فقرے بے تکلف اور بلا کسی کم و بیش کے استعمال کرتا تھا اور یہی میری زبان کی درستی کا سب سے بڑا آلہ ثابت ہوا۔


جب ہم اپنے گھر میں جوان اور بڑے سمجھے جانے لگے تو ہماری بیٹھک کے کمرے الگ کردئیے گئے تھے اور احباب کی محفلیں جمنے لگی تھیں۔ لغویات سے فطرتاً نفرت تھی۔ علم و ادب زندگی کا سب سے دلچسپ مشغلہ بن گئے تھے۔ ابتدائً محض تفریح کے طور پر میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ یعنی یہ ہوتا کہ الہلال، ہمایوں، ہزار داستان ، معارف، زمانہ یا کوئی اور معیاری ادبی و علمی رسالہ یا کوئی اچھی کتاب کسی ایک صاحب کے ہاتھ میں ہوتی اور اکثر میں ہی قاری کی خدمت انجام دیاکرتا۔ ایک ایک فقرے پر ہم اکٹھے خیال آرائیاں ہوتیں اختلاف و اتفاق ہوتا۔ بحث و تکرار ہوتی اور یہ بحث دماغ کے صفحہ پر خیالات کے کبھی نہ مٹنے والے تسامات کا باعث بنتی۔
تجربے نے بتلایا کہ خاموش اور انفرادی مطالعہ سے یہ مشترک مطالعہ کا طریقہ زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہے جب سیروتراجم تذکرہ و تاریخ سے آگے بڑھ کر ذوق مطالعہ نے ٹھوس اور سنجیدہ فلسفیانہ و سیاسی، اخلاقی و مذہبی علوم کی طرف توجہ کی تو ایک اور طریقے نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا۔ فلسفہ اور علم کلام یا مذہب و سیاست کے کوئی مقامات اگر سمجھ میں نہ آتے تو میں ان کو اپنی اس چھوٹی نوٹ بک میں جو میرے جیب کا مستقل سرمایہ بن گئی تھی ، نوٹ کرتا اور جن بزرگوں کی نظر ان علوم پر میرے نزدیک عمیق تھی ان سے ملاقات کے جلد سے جلد مواقع تلاش کرتا اور ان سے ان اشکال کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ آج اپنے ان لمحات کو اپنی حیات گزشتہ کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔
لوگ صرف کتاب پڑھنے کو مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک کسی کے مطالعہ کا مطالعہ یہی سب سے اچھا مطالعہ ہے۔ جب والد مرحوم کے انتقال کی وجہ سے اٹھارہ برس کی ابتدائی عمر ہی میں میرے سر پر گھر کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا اور مدرسہ کی تعلیم ناقص حالت میں ختم ہوگئی۔تو میرے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے مختلف اصناف علم میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا ہو ان کو اپنے اطراف جمع کرلوں یا ان کی خد مت میں حاضر ہوجاؤں اور ان کی عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ ان سے سنوں اور پھر کانوں کے ذریعہ اس کا مطالعہ کروں ، اسی تمنا نے آوارہ گردی، و صحرا نوردی پر آمادہ کیا۔ مصرو شام ، عراق ، ترکیہ، ایران و افغانستان کی مشکل سے کوئی اہم ہستی ایسی ہوگی جس سے شرف تقرب کی کوشش نہ کی ہو، اور آج اپنے قلب اور دماغ کو ان کے مطالعہ کے نتائج کا مرہون منت پاتا ہوں۔


لوگ اوراق کاغذ کے مجموعے کو الٹنے اور اس پر لکھی ہوئی سیاہ لکیروں کو پڑھنے کا نام مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے پیش نظر ہمیشہ سے ایک اور کتاب رہی ہے۔ جس کے صرف دو ورق ہے لیکن جس میں سب کچھ ہے اور یہ کتاب صحیفہ کائنات ہے۔ آسمان اور زمین کے ان دو اوراق کے درمیان مہر و ماہ کواکب و سیارات ، شفق، قوس قزح، ابروباد، کوہ صحرا، سمندر و ریگستان نے ایسے ایسے خطوط کھینچے ہیں جن میں فکر کرنے والی نگاہ اپ نے لئے سب کچھ حاصل کرسکتی ہے۔ مجھے اس کتاب کی طرف آذر کے بیٹے نے متوجہ کردیا جس نے ڈوبتے ہوئے تاروں اور غروب ہوتے ہوئے چاند اور سورج کو دیکھ کر لا احب الافلین کہا اور فاطر السموات والارض کا پتہ چلایاتھا۔ میری اس خیال کی تصدیق حرا کے بیٹھنے والے نے بھی کی اور یہی دو مجھے اس مطالعہ کی طرف متوجہ کرنے کا باعث ہوئے اور یہ پہچاننے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ کس طرح دنیا میں اگنے والے درختوں کا ہر ورق معارفِ کرد گار کا ایک دفتر ہے۔


آہ دنیا بدل گئی، فرصت کے وہ رات دن اب خود میرے لئے افسانہ بن گئے۔ اب ان کو جی ڈھونڈتا ہے مگر پانہیں سکتا۔ قوم و ملت کی جو ذمہ داریاں ہم نے ابتدائً اوقات فرصت کو صرف کرنے کے لئے اپنی مرضی سے قبول کی تھی ، اپنی زندگی کے سارے لمحات پر مسلط ہوگئیں۔ کتاب سامنے آتی ہے تو تنگی وقت کا تصور آہ بن کر زبان سے نکلتا ہے اخبار ہی پڑھنے سے فرصت نہیں کتاب کا ذکر کیا۔ اب کتاب پڑھنے کی سب سے اچھی جگہ ریل گاڑی کا ڈبہ ہے اور سفر کی وہ منزلیں جو طے ہونے سے رہ جائیں۔ جب سفر پر جاتا ہوں تو سامان کے صندوق کے ساتھ ان کتابوں کا ایک ڈبہ ہوتا ہے جن کو اس عرصہ میں پڑھنے کے قابل سمجھ کر جمع کرلیا ہوں ، اور غنیمت سمجھتا ہوں کہ زندگی کے گزرتے ہوئے لمحات کی یاد سفر کے ان اوقات میں تازہ ہو جاتی ہے۔
***


"حقیقت یہ ہے کہ انہیں خداونداں مکتب سے پالا نہیں پڑا تھا اور صرف استاد ازل ہی کے سامنے انہوں نے زانوئے ادب کو تہہ کیا تھا۔ حسن معنی کو مشاطگی کی ضرورت نہ تھی۔ فطرت نے خود بخود اس "لالے" کی حنا بندی کر دی تھی وہ صرف کتاب خواں ہی نہیں"صاحب کتاب" بھی تھا۔
(ہمارا قائد: مولوی محمد احمد خاں)


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
میرِ کارواں - بہادر یار جنگ : شکور پٹھان
ریاست حیدرآباد اور بعض خود مختار ممالک - از نواب بہادر یار جنگ
سوانح بہادر یار جنگ حصہ اول - از نذیر الدین احمد - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
ماخوذ از کتاب: سوانح بہادر یار جنگ (حصہ اول)
ناشر: بہادر یار جنگ اکیڈیمی، حیدرآباد (سن اشاعت: 2006ء)

The reading standard of Nawab Bahadur Yar Jang. Essay by: Nazeeruddin Ahmed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں