ریاست حیدرآباد اور بعض خود مختار ممالک - از نواب بہادر یار جنگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-16

ریاست حیدرآباد اور بعض خود مختار ممالک - از نواب بہادر یار جنگ

hyderabad-deccan-state

(خلاصہ تقریر نواب بہار یار جنگ بہ تقریب یوم خود مختاری سلطنت آصفیہ)


ہمارے آج کے اجتماع کا مقصد آپ سب کو معلوم ہے ۔ ہم پھر ایک سال کے بعد آجج اس اعلان کی یاد منانے کے لئے جمع ہوئے ہیں ، جو اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خاں بہاد آصف جاہ نے سلطنت دکن کی خود مختاری کی نسبت فرمایا تھا جس طرح انسان کی زندگی کی علامات میں ایک اہم چیز رنج و مسرت کا احساس بھی ہے اسی طرح وہ قومیں زندہ کہلانے کی زیادہ مستحق ہیں جو اپنی خوشی اور رنج کا احساس رکھتی ہیں ۔ اور ان اساسی تغیرات کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، جو ان کی تاریخ حیات کی ترتیب کا مواد بنتے رہے ۔ اس ماہ نومبر کے مہینے میں آپ اس لمحے سے گزر چکے ہیں ، جب کہ گزشتہ جنگ عظیم ایک فتحمندانہ صلح سے بدل گئی تھی ۔ وہ تاریخ وہ لمحہ آج بھی اتحادیوں کے نزدیک ایک یادگار دن ہے ، آپ نے دیکھا کہ اس یادگار کے منانے میں مارکٹوں میں خریدوفروخت عدالتوں اور محکموں میں کاروبار میدانوں میں کھیل ہی نہیں۔ بلکہ سمندروں میں جہازاور فضا میں طیارے ساکن وصامت ہوکر اس دن کی یاد مناتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح حیدرآباد کی تاریخ بھی اپنے اوراق پر پچاسوں ایسے واقعات رکھتی ہے جن میں سے ہر ایک ملکی جشن اور ملکی عید کے لئے منتخب کیاجاسکتا ہے ۔ لیکن کسی ملک کے لئے اس سے بڑھ کر مسرت خیز اور قابل یادگار کوئی اور دن نہیں ہوسکتا جب کہ اس کے بادشاہ نے ایک اور کمزور شہنشاہ کے بے جا انتداب اور تفوق سے نجات حاصل کر کے اپنی خود مختاریتاور استقلال کا اعلان فرمایا ہو اور اس ملک کو دنیا کے دوسرے آزاد خود مختار ممالک کے ساتھ دوش بدوش کھڑے ہونے کا امتیاز بخشے۔ مشرق اور خصوصاً حیدرآباد کی غیر سیاست دانی نے گزشتہ دوسو سال سے اس یوم سعید کو اپنے طاق نسیان کا سرمایہ بنادیا تھا ۔ بالآخر وہ دن بھی آیا کہ حیدرآباد کی خوش نصیبی اس کے تخت پر ایک ایسے بیدار مغز بادشاہ کی رونق افروزی کی صورت میں نمایاں ہوگئی جو نہ صرف رعایا کی جسمانی و معاشرتی فلاح و بہبود کی فکروں میں لگا رہتا ہے ۔بلکہ اس نے اس کی روحانی اور اجتماعی تربیت کا بھی بیڑا ٹھایا ہے تعطیل کے اعلان سے اس یوم سعید کی اہمیت حضرت حکیم السیاست نے ہم کو بتادی۔ اگر ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھارہے ہیں اور وہ ہماری دوسری تعطیلوں کی طرح بیکاری میں گزر رہی ہے تو یہ ہماری بد بختی ہے ۔ آج کے جلسے کے قیام کا مقصد یہی ہے کہ ہم اس اعلان کی اہمیت کا اندازہ کریں اور اس کے تذکرے سے اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو پہچاننے اور اپنی آپ قدر کرنے کے قابل بنیں۔ آپ نے اپنے ملک کی گزشتہ اور موجودہ تاریخ سے متعلق بہت کچھ سنا اور اپنی سلطنت کو ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی طرح ایک ویسی ریاست کہنے کو آپ اپنی اور اپنے ملک کی ذلت تصور فرماتے ہیں۔ آ پ نے معلوم کرلیا کہ آپ ایک مستقل سلطنت ایک مکمل مملکت اور ایسے معاہدات کے ساتھ شہنشاہیت برطانیہ کے حلیف اور یاروفادار ہیں جو آپ کو سلطنت عالیہ برطانیہ کا ایک طاقتور اور خود مختار دوست ثابت کرتے ہیں۔ اب میں یہ بتانے کے لئے آپ کے سامنے کھڑا ہوں کہ دنیا کے آزاد خود مختار ممالک کی فہرست تیار کی جائے اور ان میں سے اکثروں سے آپ کی حکومت و سلطنت کا مختلف نوعیتوں اور حیثیتوں سے مقابلہ کیاجائے تو آپ کسی سے کم ثابت ہوں گے ۔ اور اکثروں سے بحیثیت مختلف آپ کا تفوق مسلم ہوگا۔


کسی سلطنت و مملکت کا جب ہم دوسری سلطنت یا مملکت سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس تقابل میں چند ہی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ رقبہ مملکت، آبادی، رقبہ آبادی کے لحاظ سے فی مربع میل آبادی کا تناسب ، آمدنی، اور اس کے ذرائع و امکانات ، تعلیم و شائستگی وغیرہ۔ اور اب بیسویں صدی میں فوجی و جنگی طاقت سب سے زیادہ قابل لحاظ چیز بن گئی ہے ۔ دنیا کے جغرافیہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس وقت جو ممالک دنیا کی بساط پر سب سے اہم مہروں کا پارٹ ادا کررہے ہیں ان میں بھی اکثروں سے حیدرآباد امتیازات خاص رکھتا ہے ۔ جب ہم کسی ملک کی عظمت و بزرگی کا تخیل کرنے لگتے ہیں تو سب سے پہلا اور اہم سوال جو کسی شخس کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ اس کے رقبہ حکومت کا خیال ہے آج بھی سلطنت برطانیہ کی عظمت سب سے پہلے اس خیال سے پیدا کی جاتی ہے کہ اس کی حدود مملکت سے کہیں آفتاب کی روشنی دور نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں بعض ایسے بھی آزاد اور خود مختار ممالک ہیں جن میں سے بعض کا رقبہ حیدرآباد کے کسی صوبے کے برابر بھی نہیں ہے ۔ لیکن وہ آزادی اور خود مختاری کے ان تمام لوازم سے بہرہ اندوز ہیں جو ایک بڑی سے بڑی آزاد سلطنت رکھتی ہے ۔ مثلاً یونان کا رقبہ انچاس ہزار مربع میل ہے ۔ بلغاریہ کا چالیس ہزار میل ، پرتغال کا پینتیس ہزار پانسو ، البانیہ کا بیس ہزار ، ڈنمارک کا پندرہ ہزار، ہالینڈ کا بارہ ہزار سات سو ، بلجیم گیارہ ہزار مربع میل ہے اور ان سب کے مقابلے میں حیدرآباد کا رقبہ اپنی موجودہ حالت میں بیاسی ہزار چھ سو اٹھانوے مربع میل ہے ۔ گویا جن آزاد بادشاہوں اور جمہوریتوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے بعض سے دگنا بعض سے چار گنا اور بعض سے چھ بلکہ سات گنا زیادہ ہے ۔ لیکن اگر حیدرآباد کے اس موجودہ رقبے مین آپ برار وشمالی سرکار کے رقبے کو بھی شامل کرلیں جو بلا شبہ اور جائز طور پر مملکت حیدرآباد کا ایک جزو ہے تو بلا خوف تردید کہاجاسکتا ہے کہ اس کا رقبہ مملکت یورپ کی درجہ اول کی سلطنتوں ، انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی اور ہسپانیہ سے زیادہ نہیں تو ان کے برابر ضرور ہوجائے گا ۔


دوسری اہم وجہ امتیاز جو ایک مملکت کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حکومت کے زیر سایہ کتنے نفوس انسانی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ بعض ایسے ملک بھی دنیا کے نقشے پر ملیں گے جن کا رقبہ اس براعظم کے اس کنارے سے اس کنارے تک پھیلا ہوا ہے ۔ لیکن آبادی اس میں ویسی ہی ملے گی جیسے ایک صحرائے لق و دق میں سبزہ و گیاہ کا نشان ، آبادی کی کمی اور زیادتی کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں ۔ اراضی کے بڑے حصے کا بنجر صحرا پہاڑ ، اور اسی طرح دوسرے اسباب کی بنا پر ناقابل کاشت ہونا۔ مملکتوں کا غلط نظام حکومت اور رعایا کا اس سے مطمئن نہ ہونا کہیں اقتصادی اور معاشی حالت کی خرابی وغیرہ۔ حیدرآباد کی آبادی گزشتہ مردم شماری کی رو سے بلا شمول صوبہ برار و شمالی سرکار ایک کروڑ چوالیس لاکھ چھتیس ہزار ایک سو پچاس ہے ۔ اگر اس کو رقبہ مملکت پر تقسیم کیاجائے تو فی مربع میل ۱۷۵نفوس کا اوسط آتا ہے ۔ برخلاف اس کے دنیا میں بہت سے ایسے خود مختار اور آزاد ممالک ملیں گے جن کی آبادی کو حیدرآباد کی آبادی سے کوئی نسبت نہیں ہے ۔ اس تناسب آبادی کی قرار داد میں ہم ان ممالک کو نظر انداز کرتے ہیں جن کے رقبہ سے متعلق اوپر بحث ہوئی۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ان کی آبادی بھی رقبہ کے تناسب سے کم ہوگی اور ہے ۔ مثلاً یونان جس کی آبادی صرف ستر لاکھ ہے اور فی مربع میل اس کی آبادی کا اوسط(۶۷) نفوس ہے ۔ بلغاریہ جس کی آبادی صرف پچیس لاکھ ہے اور فی مربع میل(۱۳۷)نفوس ہے۔ البانیہ کی آبادی دس لاکھ اور فی مربع میل(۵۰) نفوس ہے ۔ پرتغال کی آبادی چھپن لاکھ اور فی مربع میل(۱۰۰) نفوس ہے ۔


مذکورہ بالا ممالک کی آبادی کے اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ یہ یورپ کے وہ ممالک ہیں جو کہ زر خیزی کے اعتبار سے مشہور اور ہر قسم کے اقتصادی اور معاشی تفوق سے سرفراز ہیں ۔ اور ان میں سے اکثرو ں کی اپنی بندرگاہیں ہیں ۔ زراعت، تجارت ، صنعت ، کسب معاش کے بیسیوں ذرائع ان کو حاصل ہیں اور ان کا طریقہ حکومت بھی ترقی یافتہ کہاجاسکتا ہے ۔ جو باوجود اس کے کہ وہ حیدرآباد کی آبادی اور رقبے کے ساتھ کسی تناسب میں مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ اب چند ان ممالک پر بھی نظر ڈالئے جو گورقبہ اراضی حیدرآباد سے دو چند اور بعض صورتوں میں چہار چند رکھتے ہیں ۔لیکن آبادی میں حیدرآباد کے ساتھ ان کو کوئی نسبت نہیں دی جاسکتی ۔ مثلاً شہہشاہیت ایران جس کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا آٹھ گنا زیادہ ہے یعنی چھ لاکھ تیس ہزار مربع میل لیکن آبادی حیدرآباد سے کم یعنی صرف ایک کروڑ ہے ۔ آبادی کا تناسب فی مربع میل صرف(۱۶)نفوس پر مشتمل ہے ۔ حکومت نجد و حجاز کا رقبہ گو حیدرآباد سیے بارہ گنا زیادہ یعنی دس لاکھ مربع میل ہے ۔ لیکن آبادی صرف(۱۵) پندرہ لاکھ اور تناسب (دیڑھ) کس فی مربع میل ہے۔ عراق کا رقبہ حیدرآباد سے تقریبا دو گناہ زیادہ یعنی دیڑھ لاکھ مربع میل ہے۔ لیکن آبادی صرف تیس لاکھ اور تناسب بیس کس فی مربع میل ہے۔ مصر کا رقبہ حیدرآباد سے چار گنا زیادہ یعنی تین لاکھ ترسٹھ ہزار دو سو میل لیکن آبادی تقریباً برابر یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ اور تناسب آبادی(۳۸) ایشائی ترکی کا ررقبہ تقریبا پانچ گنا زیادہ یعنی چار لاکھ مربع میل لیکن آبادی حیدرآبادی سے کم یعنی صرف ایک کروڑ بیس لاکھ ہے اور تناسب صرف(۳۰) افغانستانن کا رقبہ بھی تقریباً تین گنا زیادہ یعنی دو لاکھ پینتالیس ہزار مربع میل ہے۔ لیکن آبادی نصف سے بھی کم یعنی ترسٹھ لاکھ اسی ہزار اور تناسب صرف(۲۶) اب اندازہ کیجئے۔ حیدرآباد اپنی آبادی کے اعتبار سے نہ صرف یورپ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں بلجیم، ہالینڈ، البانیہ، یونان، پرتغال، ڈنمارک ، بلغاریہ وغیرہ سے بڑھ کر ہے۔ بلکہ ایشیا کی بڑی بڑی سلطنتوں ایران ، ترکیہ، مصر، نجدو حجاز ، عراق، افغانستان اور نیپال وغیرہ سے بھی بڑھ کر ہے ۔ اور تمام تقابل برار کو شامل کئے بغیر ہے جو مملکت آصفیہ کا ایک زرخیز اور آباد صوبہ ہے ۔ اگر اسکو شامل کرلیاجائے تو شاید یورپ کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی حیدرآباد کا آبادی کے معاملے میں مقابلہ نہ کرسکیں۔ آپ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ایشیا کے بعض ممالک جو اپنے رقبے میں زیادتی پر ناز کرسکتے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ان کے رقبہ مملکت کا بیشتر حصہ غیر آباد ، ویران اور سنسان ہے ۔ اگر کوئی شخص ویرانوں، کھنڈروں اور غیر آباد مقاموں میں کھڑا ہوکر رابن سن کر وسو کی طرح صدا بلند کرسکتا ہے اور دنیا اس کو ایک باعظمت و جبروت بادشاہ مان سکتی ہے تو پھر غیر آباد ممالک بھی بیشک حیدرآباد کے مقابلے میں اپنا تفوق جتا سکتے ہیں لیکن اگر مملکت کے لئے آبادی شرط ہے اور وہ حیدرآباد کی مناسبت سے ان کے یہاں کچھ بھی نہیں تو ان کو حیدرآباد کے تفوق کو ماننا پڑے گا بر خلاف ان ممالک کے جہاں میلوں تک رقبہ اراضی صحرا یا پہاڑوں کی شکل میں بیکار ہے ۔ حیدرآباد میں اس وقت ساڑھے بہتر فیصد اراضی کاشت پر اٹھی ہوئی ہے ۔ بقیہ ساڑھے ستائیس فیصدی رقبہ میں سے بھی ساڑھے اکیس فیصدی جنگل اور کنچہ وغیرہ کی صورت میںذ رائع آمدنی ہے ۔ صرف چھ فیصدی رقبہ کو ناکارہ کہاجاسکتا ہے ۔


موجودہ زمانے میں عظمت و جلال کی ایک بڑی علامت دولت اور آمدنی تصور کی گء یہے ۔ اور یہ ایک حد تک بجا بھی ہے زر کا ستارالعیوب اور قاضی الحاجات ہونا تو ایک حکیم مشرق کی زبان سے صدیوں پہلے تسلیم کرلیا گیا ہے، اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو ممالک دنیا میں آزاد اور ممتاز ہیں ان کے مقابلے میں بلحاظ اپنی آمدنی اور دولت کے حیدرآباد کا کیا درجہ ہے؟ اس وقت ایک بڑی دشواری ہم کو یہ در پیش ہے کہ ہم مغربی و مشرقی سکوں کی شرح تبادلہ سے واقف نہیں ہیں ۔ اس لئے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ ان کی آمدنی جو ہم کو معلوم ہوئی ہے وہ کتنے پاؤنڈ یا کتنے روپیہ کے مساوی ہے ہم کو یقین ہے کہ اگر تھوڑا وقت ملے اور ان سکوں کے شرح تبادلہ سے ہم واقف ہوجائیں تو آسانی سے ہم اس میدان میں بھی حیدرآباد کے تفوق کو ان دوسرے ممالک پر ثابت کرسکیں گے ۔ فی الحال جن ممالک کے سکوں کا ہم کو علم ہے اور جن کی آمدنی پاؤنڈز میں ہم کو معلوم ہوسکے ان سے حیدرآباد کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ نجد و حجاز کو چھوڑئیے کیونکہ وہ یوں بھی ایک بے آب و گیاہ ملک ہے جس کے ایک حصے کو آسمانی زبان میں وادی غیر زی ذرع کا لقب دیا گیا تھا ۔ اور جس کی بڑی آمدنی کا انحصار حجاج کی تعداد پر ہے ۔ نیپال جو ہندوستان کے شمال اور ہمالیہ کے دامنوں میں دوسرے آزاد ممالک سے الگ کوسِ استقلال بجارہا ہے ۔ اس کی سالانہ آمدنی صرف ایک ملین پونڈ یعنی دیڑھ کروڑ روپیہ سکہ عثمانیہ ہے ۔ ایران حیدرآباد سے چھ گنا رقبہ مملک رکھتا ہے اور عراق عرب کے کناروں سے لے کر بلو چستان کے حدود تک اور شمال میں تبریز اور آذر بائیجان کے علاقے میں ایک وسیع سلسلہ بندرگاہوں کا رکھتا ہے اور خلیج فارس اور بحر ہندو خلیج قفقاز سے اس کی آزاد تجارت جاری ہے باوجود اس کے اس کا محاصل حیدرآباد کی آمدنی سے کچھ بہت زیادہ نہیں صرف سات ملین پونڈ یعنی ساڑھے دس کروڑ روپیہ سکہ عثمانیہ ہے ۔ افغانستان کے رقبے کو آپ نے سنا کہ حیدرآبادسے تقریبا ً تین گنا زیادہ ہے۔ لیکن آمدنی کو آپ سنیں گے تو حیرت کریں گے کہ ایسے ممالک بھی دنیا میں آزاد اور خود مختار ہیں اور اپنی خود مختاری کو دنیا سے تسلیم کرارہے ہیں ۔ افغانستان کی موجودہ آمدنی چار کروڑ پچاس لاکھ روپیہ افغانی ہے۔ جس کا شرح تبالہ اس وقت جب کہ میں تھا تین روپیہ کا بلی مساوی ایک روپیہ کندار تھا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ افغانستان کی موجودہ آمدنی صرف ڈیڑھ کروڑ روپیہ ہے ۔ عراق کا رقبہ حیدرآبادسے دو گناہ زیادہ ہے۔ اوریہ وہ ملک ہے جس میں سے دجلہ اور فرات جیسی دریائیں بہتی ہیں جس کو بصرہ جیسا بندرگاہ میسر ہے جو تین آزاد مملکتوں ایران، ترکیہ، اور نجدو حجاز سے اپنے حدود اور تجارت کو راسبتہ رکھتا ہے لیکن باوجود اس کے اس کی آمدنی چار ملین پونڈ یعنی چھ کروڑ سکہ عثمانیہ ہے ۔ جب ہم اپنی مملکت کی آمدنی کا دوسرے ممالک سے مقابلہ کررہے ہیں تو ایک رعایت ملحوظ رکھنے کے قابل ہے ۔ حیدرآباد کی طرح ان ممالک میں جاگیرات انعامات اور ریولوں اور ورگاہوں کی معاشیں مقرر نہیں ہیں ۔ نہ بادشاہ کے لئے ایک علیحدہ رقبہ اراضی صرفخاص کی طرح الگ کیا گیا ہے بلکہ ان کی آمدنی کی کائنات وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ۔ بر خلاف اس کے صوبہ برابر وغیرہ کو نظر انداز کرنے اور جاگیرات سمستان، پائیگاہ اور صرف خاص مبارک کو خارج کرنے کے بعد جن کا اندازہ ایک ثلث سے بھی زیادہ کیاجاسکتا ہے اور کسی بندرگاہ کی عدم موجودگی میں کیونکہ حیدرآباد کی بندرگاہ مسولی پٹم کا سوال ابھی زیر بحث ہے حیدرآباد کی آمدنی ۹کروڑ سکہ عثمانیہ یعنی چھ ملین پونڈ ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ حیدرآباد کی آمدنی عراق سے ڈیڑھ گنی ۔ افغانستان اور نیپال سے چھے گنی زیادہ ہے ۔ اور ایران کی آمدنی کے تقریباً مساوی ہے ۔


ایک بات اور آپ کی توجہ کے قابل ہے وہ یہ کہ دنیا میں وہی شخص مالدار نہیں کہلایاجاسکتا جس کی آمدنی زیادہ ہو بلکہ اس کے تمول کے اندزے کے لئے اس کے خرچ اور قرض کا اندازہ بھی ضروری ہے ۔ دنیا میں ایسی بہت سی عظیم المرتبت سلطنتیں بلکہ شہنشاہتیں آپ کو ملیں گی جو حیدرآباد سے کہیں زیادہ آمدنی رکھتی ہیں لیکن سال میں دو مرتبہ امریکہ کے قرضے کی صرف سود کی ادائی کا سوال ان کے لئے سوہان روح بن جاتا ہے ۔ گزشتہ جنگ عظیم نے ان کے خزانوں وخالی اور ان کی جیبوں کو ہلکا کردیا ۔ لیکن حیدرآباد اپنی روز افزوں ترقیوں اور اخراجات کی زیادتیوں کے باوجود کسی حکومت اور سلطنت کے روبرو شرمندہ اور خجل نہیں ہے ۔ اس کا موازنہ خود موجودہ زمانے میں کساد بازاری اور رعایا کے ساتھ عدیم المثال حسن سلوک کے باوجود اپنے توازن کو نہیں کھوتا بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں سے نگاہیں حسن طلب کے انداز میں اس کے خوان نعمت کی طرف اٹھتی ہیں۔ پھر ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حیدرآباد کی انتہائی آمدنی ہے اور اس نے اپنے تمام ذرائع آمدنی کو بہ تمام و کمال آزمالیا ہے ؟ نہیں۔ ابھی سینکڑوں اس کے معدن زمین کی چادر اوڑھے گمنامی کی نیند سورہے ہیں ۔ اس کی زراعتی ترقی کی پہلی کروٹ پوری بیداری کی شکل اختیار نہیں کرسکی ہے ۔ اس کی صنعت و حرفت کی زندگی ایام طفولیت سے گزر کر عرصہ شباب میں قدم نہیں رکھنے پائی ہے اس کی تجارت بندرگاہ کے فقدان اور رعایا کی عدم رجحان طبع کی وجہ سے ابتدائی مدارج میں ہے۔ اگر روئی اور تیل نکالنے والے اجناس کی کاشت میں محکمہ زراعت کی کوششیں کامیاب ہوجائیں اور ہمارا محکمہ صنعت و حرفت اپنی تمام خام پیداوار کو بکار آمد بنانے کے قابل ہوجائے اور ہماری منڈیاں اپنے مال سے پر ہوکر دوسرے مارکٹوں میں اپنی پیداوار بھیجنے لگیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کا ملک دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے روبرو گردن افتخار دراز کرسکے گا۔ ان تمام نقاط نگاہ سے غور کیجئے اور اپنے آپ کو پہچانئے کہ دنیا کے ممالک میں آپ کا کیا درجہ ہے ۔ یہ مقولہ کہ آپ اپنی قدر کرو، صرف انفرادی زندگی میں نہیں اس سے زیادہ اجتماعی زندگی میں آزمایاجانے کے قابل ہے لیکن آپ اپنی قدر اسی وقت کرسکیں گے جب پہلے اپنے آپ کو پہچان لیں گے ۔


رقبہ آبادی اور دولت ہی کسی ملک کی قابل تعریف خصوصیات نہیں ہوسکتیں ، اگر وہاں کے رہنے والوں میں اس رقبہ آبادی اور آبادی پر حکومت کرنے اور اس دولت کو کام میں لانے کی صلاحیت نہ ہو۔ حیدرآباد نے انتظامی معاملات سے اطمینان حاصل کرنے کے بعد اپنی سب سے بڑی توجہ اپنے فرزندوں کی تعلیم و تربیت میں دی۔ اگر آپ ہمارے ان نتائج تعلیمی کو یورپین ممالک کے مقابلے میں رکھتے ہیں تو بے شک ہم ان سے ابھی پیچھے ہیں لیکن اگر مشرقی آزاد اور خود مختار ممالک سے ہمارا مقابلہ کیاجاتا ہے تو ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے اکثروں کے لئے ہماری مثال دن اور رات یا روشنی یا تاریکی کے مقابلے کے مانند ہے ۔ ہماری خود مختاررعایا پرور حکومت نے اپنی رعایا کی تعلیم ہی کا خیال نہیں کیا بلکہ اس کی تربیت پر بھی توجہ کی۔ برطانوی ہند کے قابل اور تجربہ کار اشخاص کی خدمات بڑی بڑی بیش قرارماہوار پر صرف اس لئے حاصل کی گئیں کہ وہ ملک کے فرزندوں کو ملک کی ضروریات کے مطابق تیار کریں تاکہ آئندہ حیدرآباد کسی دوسرے کی امداد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے ۔ ہم اس غرض سے بلائے جانے والوں اور ہمارے ملک کی خدمات انجام دینے والوں کی خدمات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ جنہوں نے اب حیدرآباد کے فرزندوں کو اس قاببل بنادیا ہے کہ وہ ان کے سہارے کے بغیر کھڑے ہی نہیں بلکہ میدان کارزار میں بلا خوف و خطر دوڑ سکتے ہیں ۔


دنیا میں ہمیشہ اقوام و ممالک کی برتری و عظمت کا دارومدار ان سب اسباب و علامات سے قطع نظر جن کا اوپر ذکر کیا گیا کسی ملک کی عسکریت اور طاقت حربی کے اندازے پر رہا ہے ۔ اب ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ تم نے دوسرے ممالک آزاد پر رقبہ آبادی، تمول، تعلیم ، اور شائستگی کے اعتبار سے تو اپنا تفوق ثابت کیا۔ لیکن اس زمانے میں چھوٹی سے چھوٹی مملک بھی اپنا مکمل فوجی نظام رکھتی ہے۔ کیا تم اس حیثیت سے بھی اپنے امتیاز کو ثابت کرسکتے ہو ؟ میرا جواب بلا تردد اس بات میں یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں نے حیدرآباد پر بہت ہی سر سری نظر ڈالی ہے ۔ انہوں نے اس کی تاریخ اور جغرافیہ کا پورا مطالعہ نہیں کیا۔ وہ صرف امپریل سرویس ٹروپس، گولکنڈہ لانسرز، کیاولری گارڈ، انفنٹری توپ خانہ اور نظم جمعیت کو ہی حیدرآباد کا کل عسکری نظام خیال کرتے ہیں۔ اور الوال، ترلگیری، بلارم کی افواج کو انہوں نے بالکل جداگانہ طاقت خیال کررکھا ہے ۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ فوجیں انتدابی نگراہکار فوجیں نہیں بلکہ عساکر آصفی ہیں جو حیدرآباد کے خرچ پر حیدرآباد کے لئے اس کے قابل احترام حلیف سلطنت غالیہ برطانیہ نے تیار کیں اور تیار رکھی ہیں ۔ اب ان سب قوتوں کو یکجا کرو۔ اور بتاؤ کہ کیا حیدرآباد کا نظام فوجی کسی اور نظام عسکری سے کم ہے ۔ پھر جغرافی حیثیت کو بھی نظر انداز نہ کرنا چاہئے کہ دوسری حکومتیں اپنے اطراف و جوانب اغیار کا ہجوم رکھتی ہیں۔ افغانستان کے ایک طرف انگریز ہیں جن سے اس کی کبھی نہیں بنتی ۔ دوسری طرف روس ہے جو اپنے موقع کو کبھی ہاتھ سے دینا نہیںچاہتا۔ تیسری طرف ایران ہے ، جسے ایک حریف حکومت کہاجاسکتا ہے ۔ جو تاریخ قدیم میں بھی سیستان اور اس کے مشرقی علاقوں سے ہمیشہ بر سر پیکار رہا۔ یہی حال خود ایران، عراق، حجاز، ترکیہ، اور تمام یورپ کی آزاد اور خود مختار مملکتوں کا ہے ۔ برخلاف اس کے حیدرآباد اپنے اطراف صرف ایک مملکت رکھتا ہے ، جو اس کی دوست اور ایسی حلیف ہے کہ جس کے عہد محبت کو سلاطین آصفیہ نے تاریخ کے ہر دور میں مضبوط رکھا ہے ۔ جنوب اور مغرب کی طاقتیں جن سے حیدرآبادکو آئے دن برسر پیکار رہنا پڑتا تھا۔ تاریخ کے ابتدائی اس دور میں ختم ہوگئیں جب کہ وہ اعلان خود مختاری کیا گیا تھا جس کی ہم یاد منارہے ہیں۔ اب حیدرآباد کو کسی سے لڑنا نہیں ہے ، بلکہ جو تیار ی بھی اس نے کی ہے وہ اس لئے زیادہ ہے کہ وہ صرف اپنے طاقت ور حلیف کی وقتاً فوقتاً امداد کے لئے کی گئی ہے ۔ اندرونی انتظام کے لئے وہ جمعیت کافی سے کچھ زیادہ ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ حیدرآباد، افغانستانن ، ترکیہ، حجاز و نجد کی طرح سازشوں کی آماجگاہ نہیں بلکہ یہاں امن و عافیت و اطمینان ہے ۔


غالباً ان تمام حالات کو سن کر اور اپنی مملکت کی عظمت کا تصور کر کے آپ کوحیرت ہوگی اور اس میں اضافہ اس حقیقت نے کیا کہ باوجود دنیا کے اکثر خود مختار اور آزاد ممالک کا ہم پایہ بلکہ بلند پایہ ہونے کے حیدرآباد اس مرتبہ سیاسی سے محروم ہے جو دوسروں کو حاصل ہے ۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیوں ہمارے آپ کے بادشاہ جمجاہ اعلی حضرت سلطان العلوم نواب میر عثمان علی خاں بہادر نظام الملک آصف جاہ سابع خلد اللہ ملکہ کے اسم گرامی کے ساتھ ’’ہز مجسٹی‘‘ کا لقب شامل نہیں ہے آپ بے چینی سے دریافت کررہے ہیں اور آپ کو کرنا چاہئے کہ کیوں آپ کا ٹپہ حدود ہندوستان میں نہیں چلتا، جب کہ ہم سے نہایت کم حیثیت رکھنے والے ممالک کی ڈاک ان ہی کے ٹپے پر دنیا کے طول و عرض کو طے کررہی ہے ۔ کیوں آپ کے سکے کی قیمت حیدرآباد سے باہر نکل کر ٹھیکری اور پیسے سے زیادہ نہیں رہ جاتی ۔ اور بمبئی و مدراس کے مارکٹ میں اس کے لئے گنجائش تبادلہ نہیں ہے ۔ آپ کا یہ سوال بھی ایک حد تک بجا ہے کہ کیوں لندن اور دہلی میں سفارت خانہ حیدرآباد کی کوئی عمارت نظر نہیں آتی ۔ میں حیران ہوں کہ آپ کے ان سوالات کا کیا جواب دوں ۔ اول تو مجھے کوئی جواب سوجھ نہیں رہا ہے ۔ دوسرے شاید جناب صدر بھی اس مقام پر مجھے اپنی حدوں سے گزر ا ہوا محسوس فرمائیں اس لئے صرف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتا ہوں کُلُّ اَمْرٍ مَرْھُوْنٌ بِاَوْقَاتِھَا۔ اور شاید آپ کا احساس اور طلب صادق اس وقت کو جلد لائے۔


***
ماخوذ از کتاب: آزاد حیدرآباد
تالیف: مرزا مظفر بیگ۔ سنہ اشاعت: 1940ء

State of Hyderabad and some sovereign states. Essay: Bahadur Yar Jung

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں