علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
گویا باپ کا سایہ ہے، ماں کی آغوش، بھائی کا بازوئے شمشیر زن ہے۔ یہ یونیورسٹی بھی ہے اور گھر بھی، جس کے آنگن میں سب اس طرح گھلے ملے خوش و خرم نظر آتے ہیں جیسے علم کے ساتھ ساتھ پیار محبت کا درس لینے آئے ہوں۔ اس لیے جب وہ روایتی سند کے علاوہ یہاں سے اخوت کی ڈگری بھی لے کر نکلتے ہیں تو پھر عمر بھر عمل پیرا ہو کر اس کی عظمت کا تحفظ کرتے ہیں اور وقتِ ضرورت یہی سبق دہرایا کرتے ہیں۔ بلاشبہ علیگڑھ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد درسی مضامین تو اکثر حافظہ کی گرفت سے فرار اختیار کر جاتے ہیں۔ کسی کو ہسٹری یاد رہتی ہے نہ جغرافیہ کے اسباق، لٹریچر ہو یا فلسفہ، عمر میں اضافہ کے ساتھ سب ساتھ چھوڑتے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس علیگڑھ سے ملنے والے موانست کے بےلوث درس میں مہ و سال کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے ہر علیگ علیگڑھ اسپرٹ کے دوامی نشے میں سرشار رہتا ہے۔ جس اسپرٹ کی بدولت وہاں کی روپہلی راتوں اور سنہرے دنوں کی شوخ یادیں اس کے ہاتھ میں عصائے پیری نہیں آنے دیتیں، اس لیے وہ تادمِ آخر "بوائے" کے مقام پر فائز رہتا ہے، چنانچہ وقتاً فوقتاً وہ یادوں کے خزینے سے چن چن کر حیات مستعار کو آسودگی بخشتا ہے اور ماحول کو سازگار بناتا ہے۔
لکھنے والوں نے ہر دور میں مادرِ درسگاہ کو اپنا موضوعِ فکر بنایا ہے، محققین نے اس کے محاسن گنائے ہیں، ادیبوں نے اس کے گن گائے ہیں، شعرا نے اس کی شان میں روح پرور نغمے لکھے ہیں۔ مختلف ادوار میں علیگڑھ کی مروجہ روایات اور شوخیوں کی تفاصل نسل در نسل لوگوں تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس کے باوجود کوئی ایسا مرقع سامنے نہیں آیا جس میں روایاتِ علیگڑھ کو یکجا کیا گیا ہو۔ چنانچہ محمد ذاکر علی خاں (حال مقیم کراچی، پاکستان) کی یہ کتاب "روایاتِ علیگڑھ" اسی سمت میں ایک قدم ہے۔۔۔ جس کا مقصد علیگڑھ دوستوں اور آئیندہ نسلوں کو ان واقعات و حالات و کیفیات سے متعارف کروانا ہے جس کی بدولت وہاں کی رہائشی زندگی میں ایک غیرمعمولی کشش وجود میں آئی اور طلبا میں ایسا اٹوٹ ناتا قائم ہو گیا کہ وہ تمام تعصبات سے پاک "رشتۂ علیگیت" میں ہمیشہ کے لیے منسلک ہو گئے اور قید زمان و مکان سے آزاد ہو کر "علیگیرین برادری" کے فرد بنتے جاتے ہیں۔
صاحبِ کتاب محمد ذاکر علی خاں اس کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ:
"روایاتِ علیگڑھ" نہ تو تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے، نہ ہی اسے تاریخ کا باب گرداننا چاہیے۔ ہم نے درسگاہ عالیہ کی یہ ادنیٰ خدمت ہر داد و ستد سے بےنیاز ہو کر خالصتاً فی 'سبیل علیگڑھ' براہِ سرسید انجام دی ہے۔ اس لیے یہ پیشکش اگر علیگڑھ کے شب و روز کے متعلق جاننے والوں کی معلومات میں اضافہ کا باعث بنی تو سمجھیں گے کہ محنت اکارت نہیں ہوئی۔ ہاں اپنے قارئین خصوصاً علیگ بھائیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کام کو آگے بڑھاتے رہیں گے تاکہ علیگڑھ کی بےمثل و پرکشش اقامتی زندگی سے متعلق تازہ واقعات اور معلومات منظرِ عام پر آتی رہیں اور اذہان کو تازگی و مسرت بخشتی رہیں۔
کراچی کے متوطن محمد ذاکر علی خاں کی تصنیف کردہ اس یادگار خودنوشت کی پی۔ڈی۔ایف فائل علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ، تہذیب و تمدن میں دلچسپی رکھنے والے قارئین اور علیگ برادران کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے پیش ہے۔ قریباً پونے تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 11 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
***
نام کتاب: روایاتِ علیگڑھ (خود نوشت)
تصنیف: محمد ذاکر علی خاں
ناشر: علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن (پاکستان)، کراچی۔ سن اشاعت: جنوری 1993ء
تعداد صفحات: 282
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 11 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Riwayaat-e-Aligarh AMU autobiography.pdf
روایاتِ علیگڑھ (خود نوشت) :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | تحریر | صفحہ نمبر |
1 | سیرِ چمن | 11 |
2 | حسنِ روایات | 17 |
3 | انٹروڈکشن نائٹ اور مڈرائٹ | 23 |
4 | رودادِ شیروانی و محفلِ دسترخوان | 33 |
5 | پھیری والے خوراک رساں | 39 |
6 | ہمارے معاونین | 45 |
7 | ذکر اجلا گراں | 49 |
8 | تقسیم خطابات | 53 |
9 | علیگڑھ کی آفیشل سواری | 67 |
10 | کھیلوں کی سرزمین | 75 |
11 | کابل کر باغات پر ہاکی بازوں کی یلغار | 87 |
12 | الیکشن بازی کی رونقیں | 119 |
13 | ایکٹیویٹی (احوالِ شرارت) | 129 |
14 | محافل مشاعرہ | 141 |
15 | دینیات | 145 |
16 | سینیارٹی کا چسکہ | 155 |
17 | 1990ء کی نمائش علیگڑھ کی سیر | 165 |
18 | علیگڑھ اور اسمِ مسعود | 183 |
19 | وفائے عزم | 201 |
20 | کپتان سبھا | 207 |
21 | خدائی فضائیہ کے تین ہواباز | 223 |
22 | سرسید رحمۃ اللہ علیہ کے مدارج کی بلندی | 229 |
23 | چٹکی کا لمس | 235 |
24 | کمالاتِ میر ٹینڈی | 243 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں