اداکارہ نرگس - موسم بہار کی کلی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-07-31

اداکارہ نرگس - موسم بہار کی کلی

actress-nargis

ہر عہد جو دس ، بیس ، تیس سال پر محیط ہوتا ہے اپنا الگ موسم رکھتا ہے۔ کسی عہد پر بہار کی حکومت ہوتی ہے اور کسی عہد پر خزاں کا راج ہوتا ہے۔اور اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ کسی عہد میں دیو زاد ہستیاں ابھرتی ہیں ، اور کسی عہد میں بونے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تیسرے درجہ کے لوگ اپنی بڑائی کی ڈینگ ہانکتے رہتے ہیں۔ نرگس موسم بہار کی کلی تھی۔


یہ وہ عہد تھا جس میں سیاست کی دنیا پر مہاتما گاندھی ، جواہر لال نہرو ، مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں کا سایہ تھا۔ ادب میں ٹیگور اور اقبال کے انتقال کے بعد بھی انہیں کی حکمرانی تھی اور جوش ملیح آبادی کا جاہ و جلال تھا۔ فلمی دنیا کے ڈائرکٹروں اور پروڈیوسروں میں محبوب خاں اور شانتا رام کا سکہ چلتا تھا۔ ان کے بعد والی نسل میں جو نرگس کی ہم عمر تھی راجکپور ، دلیپ کمار اور گرودت جیسے فنکار تھے اور ان کے پیش رو سہگل،پرتھوی راج اور اشوک کمار تھے۔


نرگس کی ہم عمر ہیروئنوں میں مینا کماری جیسی باکمال اور وجینتی مالا جیسی دلنواز ہستیاں تھیں۔ ستاروں کے اس خوبصورت جھرمٹ میں نرگس اپنے نور کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہاجاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔


میں نے نرگس کو سب سے پہلے اس عمر میں دیکھا تھا جب یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ فن کی ان بلندیوں کو چھولے گی جن کی حسرت میں نہ جانے کتنے فنکار اپنی عمریں گنوادیتے ہیں۔ 1942ء میں جب میں بمبئی آیا تھا تو دو تین سال کے اندر نرگس کی والدہ جدن بائی کا نام سنا۔ وہ مرین ڈرائیو کے ایک فلیٹ میں رہتی تھیں اور مجھے کئی بار جوش ملیح آبادی کے ساتھ شیٹوونڈ سر میں جانے کا موقع ملا۔ جدن بائی خود ایک باوقار شخصیت کی مالک تھیں اور ان کی زندگی میں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاؤ تھا۔ ورنہ جوش ملیح آبادی جیسا تنک مزاج اور بلند مرتبہ شاعر وہاں ہرگز نہ جاتا۔ میں نے وہاں نرگس کو کم عمری کے عالم میں دیکھا تھا۔


وہ زمانہ ترقی پسند تحریک کے شباب کا زمانہ تھا اور جدن بائی بھی اکثر نرگس کے ساتھ ہمارے جلسوں میں شریک ہوتی تھیں۔ اس زمانے کی ایک تصویر میرے پاس تھی جس میں جدن بائی اور نرگس بیٹھی ہوئی سجاد ظہیر کی تقریر سن رہی ہیں۔ ہم ترقی پسند مشاعروں اور جلسوں کے لئے جدن بائی سے چندہ بھی حاصل کرتے تھے۔ 1947؁ء سے پہلے بمبئی کی ایک پنجاب اسوسی ایشن ہر سال یوم اقبال مناتی تھی۔ نرگس جدن بائی کے ساتھ ان جلسوں میں بھی شریک ہوتی تھی۔ فلمی زندگی کی مصروفیات کے باوجود ادب اور شاعری کا یہ ذوق نرگس میں آخر وقت تک باقی رہا۔


میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم 'انہونی' میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے " میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دوہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک"شریف زادی" ہے اور دوسری"طوائف"۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیاجائے گا۔


نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953؁ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953؁ء میں پہلا فلمی ڈیلی گیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلی گیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔اور اراکین میں بمل رائے ، راجکپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راجکپور کی فلم 'آوارہ، دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سار ے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راجکپور اور نرگس ، نرگس اور راجکپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا۔ آوارہ ہوں"گایا جا رہا تھا۔ جب میں دسمبر 1953؁ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجکپور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔


ایک روز دسمبر1953ء میں میں ماسکو کے ایک ہوٹل میں چلی کے شاعر پیلو نرووا۔ ترکی کے شاعر ناظم حکمت، سویت ادیب ایلیا اہرن برگ اور میکسیکو کے ناول نگار امارد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ دوران گفتگو میں"آوارہ" کا ذکر آیا۔ ناظم حکمت جو ایک صوفے پر لیٹا ہوا تھا ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اتنی خوبصورت لڑکی اس سے پہلے اسکرین پر نہیں آئی تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ نرگس کے سادہ اور پروقار چہرے میں وہ کون سا حسن آگیا جس نے ناظم حکمت کو تڑپا دیا اور سوویت یونین کے نوجوانوں کو دیوانہ کردیا۔ یہ اس کے فن کا حسن تھا جس نے اس کی پوری شخصیت کو بدل دیا تھا۔ اور چہرے کو وہ تابناکی دے دی تھی جو صرف عظیم فنکاروں کو فطرت کی طرف سے عطیہ کے طور پر ملتی ہے۔ نرگس کو جو مقبولیت سوویت یونین میں ملی وہی مقبولیت ہندوستان میں بھی حاصل تھی لیک یہ سستی قسم کی فلمی مقبولیت نہیں تھی۔ لوگوں کی نظروں میں نرگس کا احترام تھا۔


فلمی دنیا بڑی حد تک نماشء ہے جس کی شوبزنس (SHOW BUISNESS) کہاجاتا ہے اور اپنی مقبولیت کے زمانے میں بہت سے فلمی ستاروں کو اس بات کا اندازہ نہیں رہ جاتا کہ ان کی مقبولیت میں نمائش کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ اور وہ اپنا توازن کھودیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہوجاتا ہے تو احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نرگس کو اپنی فلمی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی دلچسپی تھی، سیاست سے بھی لگاؤ تھا۔


جب فیض احمد فیض راولپنڈی کا نسپرسی کیس کے بعد پہلی بار ہندوستان آئے تو نرگس نے ان کی مہمان نوازی بھی کی اور ہر محفل اور ہر جلسے میں شرکت کی۔ اس وقت کی بعض تصویریں میرے پاس محفوظ ہیں۔ اس کے بعد جب بھی فیض بمبئی آئے ہیں تو نرگس کے گھر پر ان کی دعوت ضرور ہوئی ہے جس کا خاتمہ مشاعرے پر ہوا ہے۔ آخری دعوت غالباً اپریل 1979؁ء میں نرگس اور سنیل دت کے گھر پر ہوئی تھی جس میں بمبئی اور ہندوستان کے بہت سے شاعر مدعو تھے۔


نرگس کی آخری اور شہکار فلم 'مدر انڈیا'ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھولیا ہے۔ ماں کے کردار کے لئے محبوب خاں کی نگاہ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کردیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لئے ترک کردیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "مایا موہ" کہاجاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔


نرگس سے یہ سبق ہر فلمی ستارے کو سیکھنا چاہئے کہ وہ اس لمحے کو پہچان لے جس کے بعد محفل کو سلام کر کے رخصت ہوجانا چاہئے۔ نرگس نے اس لمحے کو پہچان لیا تھا۔ اگر نرگس اپنا کام جاری رکھتی تو مدر انڈیا سے بہتر کام نہیں کرسکتی تھی۔ اسی جگہ اصلی فنکار پہچانا جاتا ہے۔


مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لئے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چھولے گا۔


میں آخری بار نرگس سے اس وقت ملا جب وہ بیمار تھی۔ مجھے اس کی بیماری کا کوئی علم نہیں تھا۔ اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ نرگس کو اس کا علم تھا یا نہیں۔ اندرا گاندھی نے نرگس کے فن کی داد اس طرح دی کہ اس راجیہ سبھا کا ممبر بنادیا میں ایک روز دہلی سے بمبئی واپس آ رہا تھا ، پالم پر نرگس سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے ایک نظر میں محسوس کیا کہ نرگس بیمار ہے میں نے پوچھا کہ آپ نے اپنی غذا میں کمی کردی ہے۔ نرگس نے ہنس کر انکار کردیا۔ میں نے پھر کہا کہ آپ کچھ دبلی معلوم ہورہی ہیں تو نرگس نے جواب دیا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔


چند ماہ بعد خبر ملی کہ سنیل دت اس کے علاج کے لئے نیویارک لے گئے ہیں۔بیماری کے آخری دنوں میں میں ایک رات کے لئے نیویارک گیا تھا۔ اور باوجود شدید خواہش کے سنیل دت کے پاس اسپتال جاکر نرگس کی خیریت معلوم نہیں کرسکا۔ دوستوں نے بتایا کہ وہ سنیل دت سے ملے تھے اور نرگس کا حال اچھا نہیں ہے۔


اور آخر وہ لمحہ آگیا جب نرگس نے اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کرلیں۔ لیکن وہ آنکھیں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور فلم کے پردۂ سیمیں سے اپنا نور برساتی رہیں گی۔
نرگس موسم بہار کی کلی تھی اور ہمیشہ موسم بہار کی کلی رہے گی۔


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
نرگس کو میرا آخری سلام - از راج کپور
ہندوستانی فلموں کی مقبول اداکارہ نرگس - 85 ویں سالگرہ
***
ماخوذ از رسالہ: (ششماہی) فن اور شخصیت (نرگس دت نمبر)
مدیر اعلیٰ: صابر دت۔ شمارہ: 15-16 (ستمبر-82، مارچ-83، ستمبر-83) (سن اشاعت: اگست 1984ء)

Actress Nargis, a bud of spring season, Essay: Ali Sardar Jafri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں