نرگس کو میرا آخری سلام - از راج کپور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-08

نرگس کو میرا آخری سلام - از راج کپور

nargis-and-raj-kapoor

ہم تمام لوگ یہ جانتے تھے کہ مرض لاعلاج تھا۔ پھر جب میں نے یہ سنا کہ نرگس دت کو سلون - کٹرنگ میموریل لے جایا جا رہا ہے (وہی ہسپتال جہاں میں اپنے والد کو لے گیا تھا) تو مجھے ایک مخلص اور ضعیف العمر امریکن خاتون کی وہ بات یاد آ گئی جو اس نے مجھے اس وقت کہی تھی۔
میں ہسپتال کے ویٹنگ روم میں کھڑا تھا جب اس خاتون نے اپنی آنسو بھری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تھا!
"میرے بیٹے!! ایسا نہیں کہ کوئی ہسپتال اچھی جگہ ہو، لیکن بالخصوص یہ ہسپتال بہت منحوس جگہ ہے۔ اس لئے کہ اگر ایک بار تم یہاں آ گئے تو۔۔۔۔ " اور پھر وہ ہچکیاں لینے لگی۔


اور حقیقتاً یہ ہسپتال بہت منحوس جگہ ثابت ہوئی جیسا کہ اس شریف النفس امریکن خاتون نے کہا تھا۔ اس موذی مرض کے بارے میں سبھی جانتے تھے جس سے مسز دت نبرد آزما تھیں، پھر بھی ہم عیادت میں مصروف رہے ، دعائیں کیں اور یہ امید باندھے رکھی کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔
اس کے علاوہ مسٹر دت نے اپنی بیوی کی تیمارداری جس عقیدت اور لگن سے کی اسے دیکھتے ہوئے ہماری یہ خواہش تھی کہ معجزہ اگر ساوتری اور سیتا دن کے ساتھ ہو سکتا ہے تو اس مرتبہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہماری آرزو تھی کہ وہ بدترین حالات سیے کامیاب و کامران لوٹیں مگر یہ نہ ہو سکا۔


یہ بات نہ ہو سکی اور یہ ہمارے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ صدمہ صرف ان کی موت کا نہیں کیونکہ انہیں کم از کم اذیتوں اور تکالیف سے نجات مل گئی لیکن صدمہ اس بات کا ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہیں۔ اس سفید پوش خاتون نے اپنی زندگی میں بہت کامیابیاں حاصل کیں۔ اور صرف فلموں ہی میں نہیں، فلموں میں تو خیر وہ چند بہترین ہندوستانی اداکاراؤں میں سے ایک تھیں لیکن اس کے علاوہ وہ اپنی سرزمین کی بہترین ہندوستان خاتون تھیں۔ انہوں نے جو بھی کام کیا خلوص، ہمدردی، محبت اور عقیدت کے ساتھ کیا۔


سلون کیٹرنگ میموریل ہسپتال کے ڈاکٹر میرے والد سے کہا کرتے تھے:
"جناب، آپ کو کینسر ہے۔"
اور میرے والد ہنس دیا کرتے تھے۔ امریکن ڈاکٹروں کو اس بات پر بھی تعجب تھا کہ ایک بیٹا جو خود کئی بچوں کا باپ ہے اپنے والد کو ہسپتال لے آیا اور اس کے ساتھ رہا۔ آج کی امریکن تہذیب کے لئے یہ ایک عجیب و غریب بات تھی جہاں اگر ان کے والدین بیمار پڑتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ نیک خواہشات کا کارڈ بھجوا دیتے ہیں، یا پھر پھولوں کے گلدستے روانہ کر دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس وقت بھی ان کے جذبات وہی ہوں گے جب انہوں نے مسٹر دت اور ان کے بچوں کو مسز دت کی تیمارداری کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔


یہ بات اس ملک کے ان تمام لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے جو فلمی دنیا کے تعلقات ، شادیوں اور خاندانوں کی ہر وقت تذلیل کرتے رہتے ہیں۔ دت خاندان کے افراد نے اپنے بحرانی وقت کے دوران جس ثابت قدمی کا ثبوت دیا اسی سے ایسے تمام لوگ اس بات کااندازہ کر سکتے ہیں کہ ہاں یہ ایک خاندان ، ایک گھر اور میاں بیوی کے تعلقات کی عمدہ ترین مثال ہے۔
اس مثال کے قائم ہو جانے سے آج تک کی تذلیل شدہ فلمی دنیا اور اس کے خاندانی تعلقات دنیا کی نظروں کے سامنے بلند ہو گئے۔ اور اس کے لئے میں مسٹر دت کا احسان مند ہوں۔ یہی میرا ان کے لئے نذرانۂ عقیدت ہے۔


1920ء میں جب پرتھوی راج نے فلمی دنیا سے اپنا رشتہ جوڑا تو وہ ایک پڑھے لکھے ، مہذب اور اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ تھے اور انہوں نے فلمی دنیا کے گھٹیا اور بدکردار امیج کو اونچا کرنے کی کوشش کی تھی۔ سنیل دت نے اپنے خاندان کے تعلق سے جس پرخلوص عقیدت کا مظاہرہ کیا، اس سے انہوں نے اس امیج کو اور زیادہ باوقار اور بلند بنایا۔ مجھے ان پر فخر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنا تن من دھن سب نچھاور کر دیا۔ وہ نرگس دت کے برابر قوت اور بہادری کے ایک ستون کی طرح کھڑے رہے۔


ہم میں سے وہ جو مسز دت کو جانتے تھے یا ان کی مصروفیات کو جانتے تھے۔ جیسے معذور بچوں کی فلاح و بہبود میں انہیں دلچسپی تھی، آج یہ عہد کریں اور مجھے امید ہے کہ وہ کریں گے کہ ان کو قائم رکھنے کیلئے ہم ان کے ادھورے خوابوں اور کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔


نرگس میں جو عورت موجود تھی وہ ایک بے مثال عورت تھی۔ وہ مسلمان اور ہندو والدین کی اولاد تھیں۔ ان کی پرورش موسیقی اور رقص کے ماحول میں ہوئی تھی۔ ان کی ذات میں تمام تہذیبوں کی عمدہ باتیں موجود تھیں۔
پھر جب وہ جوان ہوئیں تو ایک مہذب، تعلیم یافتہ زندہ دل شخصیت کی طرح دنیا کے سامنے آئیں اور اپنے اطراف کے ماحول میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ اپنے اطراف کی ہر چیز سے وہ رابطہ قائم کرنا چاہتی تھیں، اپنے آپ میں اور اپنے اطراف کے ماحول میں مطابقت پیدا کرنا چاہتی تھیں، اسی لئے انہوں نے فلموں میں جو کردار ادا کئے ہیں وہ صرف فلمی کردار نہیں تھے بلکہ ایسے کردار تھے جو انہوں نے جئے تھے، اپنے پر بھگتے تھے۔


خواجہ احمد عباس کی فلم "انہونی" نے، جس میں انہوں نے جڑواں بہنوں کا کردار ادا کیا تھا، ان کی بے پناہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ اور زندگی کی اس راہ پر جس پر وہ چل رہی تھیں، جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی گئیں ان میں پختگی اور بہتری آتی گئی اور وہ بہترین اداکاری کا ثبوت دیتی رہیں۔ چاہے محبوبہ کا رول ہو ، تقسیم ہند کی ستائی ہوئی نوجوان لڑکی کا کردار یا "مدر انڈیا" کا عظیم ترین کردار، نرگس نے ہر جگہ اپنی خوبصورت اور لاجواب اداکاری سے ایک معیار قائم کر دکھایا۔


یہ کردار نگاری کسی پروفیشنل اداکار کی کردار نگاری نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسی عورت کی کاوشوں کا نتیجہ تھی جس نے ان کرداروں کو محسوس کیا۔ ان سے ہم آہنگ ہو گئیں اور ان میں سانسیں لیں۔ اور یہ اس لئے ممکن ہو سکا کہ وہ بذاتِ خود اچھائیوں اور خوبیوں کا نمونہ تھیں۔ یہ صرف ان کی ذات کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا۔


معمولی معمولی باتیں بھی ان کے لئے بہت معنی رکھتی تھیں۔ تقریبات کے دوران یا عوامی جلسوں میں وہ دور سے تماشا نہیں دیکھا کرتی تھیں۔ چاہے امیر ہو یا غریب ، اونچی ذات کا ہو یا نچلی ذات کا وہ سب کے ساتھ بیٹھتیں ، کھانا کھاتیں ، جونیئر اداکاراؤں کے بال سنوارنے لگ جاتیں یا ان کے لباس درست کرنا شروع کر دیتیں۔ انہیں اپنے سپر اسٹار ہونے کا گھمنڈ کبھی بھی نہیں رہا۔ یہ تمام حرکتیں وہ دکھاوے کے لئے نہیں کرتی تھیں کیونکہ اس زمانے میں ایسے صحافی نہیں ہوا کرتے تھے جو سٹس پر آ کر تصویریں کھینچتے ہیں، ان کے برتاؤ میں سادگی تھی ، ان کے سفید لباس میں سادگی تھی۔ ان میں بناوٹ ، دکھاوا یا نام نہاد اسٹار پن نہیں تھا وہ ایک انتہائی سادہ اور حقیقت پسند خاتون تھیں۔


ایک مرتبہ ایک الیکٹریشین بہت اونچائی سے گر گیا تھا ، اسے ہسپتال لے جایا گیا اور یہ بھی اس کے ساتھ گئیں۔ اسے ایک جنرل وارڈ میں رکھا گیا تھا لیکن انہوں نے اس بات کی تاکید کر دی کہ اسے تمام دوائیں اور سہولتیں مہیا کی جانی چاہئیں۔ جب تک وہ ہسپتال میں زیر علاج رہا اس کے افراد خاندان کو روپیہ پیسے بھیجا کرتیں۔
انہوں نے اس آدمی کی زندگی بچائی۔ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب وہ صحت یاب ہوکر ہسپتال سے لوٹا تو اسی نے دوسرے لوگوں کو بتایا اور اس طرح دوسرے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا۔ وہ خود ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں شاید اس لئے کہ ان کے والد بھی ایک ڈاکٹر تھے اور شاید اسی خواہش کی وجہ سے وہ بیمار لوگوں کی تیمارداری میں جٹ جایا کرتی تھیں۔ ان تمام باتوں نے ان کے کردار میں فلورنس نائٹ اینگل والی بات پیدا کر دی تھی۔


خلوص و محبت اور بے پناہ صلاحیتیں انہیں اپنے والدین کی طرف سے ملی تھیں۔ کئی لوگ انہیں جانتے تھے، میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک جنہیں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ ادارہ جسے "آر۔ کے" کہا جاتا ہے اسے قائم کرنے میں ان کی ذات ایک تحریکی قوت رہی ہیے۔ یہی ان کے لئے میری شردھانجلی ہے۔


***
ماخوذ از رسالہ: فن اور شخصیت (نرگس دت نمبر) (شمارہ: ستمبر-82، مارچ-83، ستمبر-83)۔ اشاعت: اگست 1984ء
مدیر: صابر دت

My last greetings to Nargis. Article: Raj Kapoor

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں