اردو صحافت اپنے آغاز و ارتقاء کے تقریباً 190 سال کا طویل عرصہ گزار چکی ہے۔ اس تقریباً دو سو سال کے سفر میں اردو صحافت نے متعدد نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ جنگ آزادی میں اردو صحافت نے اپنا سب کچھ نثار کیا ہے۔ خواہ پیام دہلی ہو، زمیندار اور ہمدرد ہوں، الہلال یا البلاغ ہوں۔ مدینہ ہو یا حریت۔ اردو اخبارات نے آزادی کی دلہن کے حصول کے لیے ہر وقت عوام کو بیدار کرنے کا کام کیا ہے۔ اردو صحافت پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ اس کے قاری کم ہیں اور اس کا اثر عوام پرنہیں ہے۔ لیکن اردو صحافت نے اپنے اوپر لگنے والے اس الزام کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ آج اردو صحافت نے بٹلہ ہاؤس ،ممبئی دھما کہ، مالیگاؤں بم کانڈ، گجرات فساد اور راجستھان فساد وغیرہ کی شاندار رپورٹنگ سے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اردو صحافت ہمیشہ عوام کی نبض ٹٹولتی رہی ہے۔ گذشت تقریباً 20 برسوں میں اردو صحافت میں زبردست انقلابات آئے ہیں۔ پرنٹ سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک اردو نے بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے قدم جمائے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بڑی بڑی کاروباری کمپنیاں اور دیگر زبانوں کے اخبارات اردو کی طرف رخ کر رہے ہیں، نت نئے رسائل اردو کی زینت میں اضافہ کررہے ہیں۔ رسائل کی اس بھیڑ میں بیسویں صدی کا اپنا الگ مقام رہا ہے۔
آج بیسویں صدی 83 سال میں داخل ہو چکا ہے۔ ابتدا خوشتر گرامی نے کی بڑی مضبوط و مستحکم بنیادفراہم کی۔ ایک زمانہ تھا جب بیسویں صدی اردو کا سب سے مقبول رسالہ تھا۔ ہر بڑا اور اہم مصنف بیسویں صدی میں شائع ہونا فخر کی بات سمجھتا تھا۔ خوشترگرامی کے بعد جب رحمٰن نیّر نے بیسویں صدی کو سنبھالاتو ادبی حلقوں میں رسالے کے مستقبل کو لے کر مایوسی کے سائے لہرانے لگے تھے۔ لوگوں کو امید تھی کہ اب یہ نیم ادبی اور سنسنی خیزی پیش کرنے والا رسالہ بن کر رہ جائےگا۔لیکن تاریخ شاہد ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ تغیرات کی ہوا تو چلی اور اس نے بیسویں صدی کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ نہ صرف گیٹ اپ بدلا، بلکہ رحمٰن نیّر کی مدیرانہ صلاحیتوں نے بیسویں صدی کونئے رنگ و روپ میں پیش کر کے لوگوں کو حیران کردیا۔ بیسویں صدی کے قارئین کا گراف ایک بار پھر اوپر اٹھتا ہی چلا گیا۔ جامعہ میں دوران طالب علمی، میری رحمٰن نیّر سے ملاقات ہوئی۔ میری رحمٰن نیّر کے ساتھ کام کرنے کی خواہش اس وقت پوری ہوئی جب رحمٰن نیّر نے مجھے خبر نامہ کی ترتیب اور ادبی واقعات پر مضمون لکھنے کے طور پر مامور کیا۔ دوسال کے دوران مجھے رحمٰن نیّر کی مدیرانہ صلاحیتوں کا علم ہوا۔ انہوں نے بیسویں صدی کو ایک مقبول ماہنامہ بنانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ وہ چاہتے تو بیسویں صدی کوفلمی پر چہ بنا کر اچھا خاصا کاروبار کر سکتے تھے۔ سرورق پر تصویر کی پالیسی کو بھی انہوں نے غیر مہذب نہ ہونے دیا۔ ساتھ ہی ساتھ رسالے کے مشمولات پر خصوصی توجہ صرف کی۔ بیسویں صدی میں افسانے اور غزلیں تو ایک خاص معیار کی ہوتی ہی تھیںادباء وشعراء بیسویں صدی میں شائع ہونا باعث افتخار سمجھتے تھے) رحمٰن نیّر نے ادبی تخلیقات کے علاوہ بیسویں صدی کو سیاسی اور ادبی منظر نامے میں بھی وقار عطا کیا۔ انہوں نے بیسویں صدی میں قسط وار ناول، سفرنامے، خودنوشت سوانح وغیرہ بھی شائع کیے جس سے قارئین کی ایک مخصوص تعدادقسطوں کی ہر ماہ منتظر رہا کرتی۔ یہی نہیں رحمٰن نیّر نے اپنی صحافی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بیسویں صدی میں کئی اہم اوردلچسپ کالم شروع کیے۔
تیر ونشتر:
تیر ونشتر ، خوشترگرامی کے زمانے سے ہی بیسویں صدی کی الگ شناخت بن چکا تھا۔ اس کالم کے تحت تازہ ترین سیاسی ،سماجی اور معاشی معاملات پر کسی خبریاکسی کے قول کے ساتھ اسی انداز میں طنز و مزاح میں دو یا تین سطروں میں جواب تحریر کیا جاتا تھا۔ قارئین بیسویں صدی سب سے پہلے اسی کالم کو پڑھنا چاہتا تھا۔ خوشترگرامی کے بعد رحمٰن نیّر نے اسے مزید بہتر بنا کر پیش کیا۔ دو تین تیرونشتر ملاحظہ فرمائیں:۔
* مہاراشٹر ہندوستان کا یتیم خانہ نہیں ہے۔۔۔۔ بال ٹھاکرے
** یتیم خانہ تو نہیں ہے لیکن اب اس پر پاگل خانہ ہونے کا گمان ہونے لگا ہے۔ (بیسویں صدی جولائی 1995)
* تامل ناڈو میں امیدواروں پر حملہ۔ ایک ورکر کاکان کترلیا گیا۔ ایک خبر
** شکر کرو ناک کٹنے سے بچ گئی۔ (بیسویں صدی فروری 1985)
* ملک میں کروڑوں نوجوان بے روزگار ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک خبر
** اس لیے فرقہ پرست جماعتیں ان کی آمدنی کا بندوبست کررہی ہیں (بیسویں صدی ستمبر 2000)
تیر نشتر کے طنز و مزاح کا لطف، جواب کی برجستگی اور شگفتگی نے اس کالم کو ہندوستان کے قارئین کے درمیان بہت مقبول بنادیا تھا۔ یہ کالم اپنے عہد کا واحد کالم تھا دوسرے رسائل میں اس طرح کے کالم کا فقدان تھا۔
قلمی چہرہ:
تیرو نشتر کی طرح قلمی چہرہ بھی بیسویں صدی کی مضبوط و مستحکمشناخت تھا۔ یہ کالم رحمٰن نیّر کی ذہنی اپج تھا۔ اسے معروف ادیب و شاعر ظفر احمد نظامی مرحوم لکھا کرتے تھے۔ انہیں لفظوں میں پیکر تراشی کا ہنر آتا تھا۔ اس کالم کے تحت مشہور و معروف ادیب، شاعر فن کار سیاست داں وغیرہ کے اوصاف ظاہری اور باطنی کے عین مطابق لفظوں اور جملوں میں اس کی تصویرکشی کی جاتی تھی۔ قارئین اس کالم کے لیے بڑے بے تاب رہتے تھے۔ جن کے قلمی خاکے، اس کی زینت بنتے تھے وہ خودکو بڑا خوش نصیب سمجھتے تھے۔ اس کالم کے تحت صاحب خاکہ کی ایک تصویر کا اسکیج بھی شائع ہوتا تھا۔ تصویر اور شخصیت کا پرتو تحریر میں کچھ اس انداز میں جھلکتا تھا کہ قارئین خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔ اندر کمار گجرال کاقلمی چہرہ ملاحظہ ہو:
"کتابی چہرا،شیشے سی آنکھوں پرشیشوں کا پہرا، تابحد نظر پیشانی، علامت عظمت وعلم دانی ،نمایاں ناک - زباں کی دور دور تک دھاک، طویل قامت وقد،دلکش خال وخد ،لینن نماداڑھی شخصیت فیرینی کی طرح گاڑھی، یہ ہیں متحدہ پنجاب کے ممتاز فردپچھتر سالہ جواں مرد، وزیر برائے خارجی امور، دانش وری کے مینارہ نور ، صاحب بلند اقبال بینی اندر کمار گجرال۔"
(بیسویں صدی : دسمبر 1994)
اس کالم کی ایک خوبی ، نثر میں شاعری کا لطف تھی ، ظفر احمد نظامی نثر میں بھی قافیہ پیمائی کیا کرتے تھے جو اس کالم کی جان ہوا کرتی تھی۔
خبر نامہ:
خبرنامہ ادبی رسائل کے لیے بالکل نیا آئٹم تھا۔ یہ کالم رحمٰن نیّر کی صحافتی صلاحیتوں کا مظہر تھا انہوں نے قارئین کو ادبی ، سماجی اور نیم سیاسی جلسوں محفلوں اور معاملات کی جانکاری فراہم کرنے کے لئے اسے شروع کیا تھا۔ اپنی متعدد اورمختلف خبروں کے لیے یہ کالم بیسویں صدی کی دلکشی میں چار چاند لگایا کرتا تھا۔ اس کالم میں کتابوں کے اجراء ادباء و شعراء کو انعامات ملنے ،وفات، شام افسانہ محفل مشاعرہ مذاکرہ، سیمینار وغیرہ کی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔
سرگوشیاں:
یہ کالم بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد کالم تھا۔ اس کالم کے تحت قارئین کے اہم اور غیر اہم سوالوں کا جواب شگفتگی اورشائستگی سے دیا جاتا تھا۔ سوال کے عین مطابق اور ضرورت کے تحت دیے جانے والے جواب جہاں چونکانے والے ہوتے تھے وہیں دلچسپ بھی ہوا کرتے تھے یہ کالم بھی بیسویں صدی کی پہچان تھا۔ دو چارسرگوشیاں ملاحظہ کریں:
س: ماں اورمحبوب کے پیار میں کیا فرق ہے؟
ج: زمین آسمان کا ۔۔۔ ماں کے پیار کی نظیر نہیں ملتی ، وہ انمول ہوتی ہے۔
س: موت کیا ہے؟
ج: ہم زندگی کےنقیب ہیں۔ ہم سے پوچھئے زندگی کیا ہے؟
س: دانش مندی کیا ہے؟
ج: حماقت سے دامن بچانا (بیسویں صدی ستمبر 2000)
صحت و زندگی:
اردو رسائل میں صحت کے تعلق سے موادکا ملنا، بڑی حیرانی کی بات ہے۔ بیسویں صدی نے اپنے قارئین کی ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کا بھی ہمیشہ خیال رکھا ہے۔ اس کالم کے تحت انسان کو صحت مند رہنے کے نسخے ، سبزیوں اور پھلوں کے اوصاف اوربیماریوں میں ان کا اور جڑی بوٹیوں کا استعمال بتایا جاتا تھا۔
تصویر اور شعر:
اس کالم کے تحت بیسویں صدی کے ان سائڈ ٹائٹل فرسٹ پر خاتون کی تصویر اور تصویر کی مناسبت سے کسی شاعر کا شعر شائع ہوتا تھا۔ جنوری ۱۹۹۷ کے شمارے میں ایک دوشیزہ کی مسکراتی ہوئی ایسی تصویر شائع کی تھی جو ایک ہاتھ سے ساڑی کے پلو سے پردہ کررہی ہے۔ اس تصویر پرشعر کچھ اس طرح تھا۔
ہر ایک شئے میں تم مسکراتے ہو گویا
ہزاروں حجابوں میں یہ بے حجابی
(احسان دانش)
ان کالموں کے علاوہ رحمٰن نیّر نے بیسویں صدی کو ہم عصری مسائل اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اسی لیے ابتدا میں گاہے بگا ہے اور بعد میں ہر شمارے میں کسی نہ کسی بڑے سیاسی واقعے یا ادبی اہم معاملے پر ایک دو مضامین، بیسویں صدی میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ہر شمارے میں ایک طنزیہ ومزاحیہ مضمون بھی شامل اشاعت ہوا کرتا تھا۔ خودنوشتوں اور ناولوں کو قسط وار شائع کر کے بیسویں صدی نے ان کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔
رحمٰن نیّر نے اپنی صحافتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بیسویں صدی کو ایک ایسا رسالہ بنادیا تھا جو سماج کے ہر طبقے کے لیے دلچسپی کا سامان اور ضرورت بن گیا تھا۔ انہوں نے بیسویں
صدی کے ساتھ ساتھ روبی کوبھی معیار اور وقار عطا کیا تھا۔ یہ رسالے اردو ادب کی صحافت یعنی ادبی صحافت میں جدید عہد کے غماز ہیں۔ ان رسائل کے ذریعہ اردو میں اس طرح کے رسائل کی روایت مضبوط و مستحکم ہوتی ہے۔ آج اردو کے رسائل جدید صحافت کے دوش پر سوار ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ہم انہیں کسی بھی زبان کے اچھے رسائل کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور اردو کے ادبی اورنیم ادبی رسائل کو اس مقام پر لانے کے اسباب اور اشخاص میں سے ایک اہم نام رحمٰن نیّر کا بھی ہے۔
ماخوذ از کتاب: اردو صحافت کا نیر تاباں - ضیاء الرحمن نیر - حیات و خدمات
مرتبہ: ڈاکٹر شمع افروز زیدی۔ ناشر: بیسویں صدی بک ڈپو، نئی دہلی (سن اشاعت: 2013ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں