اردو زبان و ادب میں مزاح نگاری کا منفرد رنگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-21

اردو زبان و ادب میں مزاح نگاری کا منفرد رنگ

humour-in-urdu-literature

افلاطون نے اپنی کتاب Philebus میں فن مزاح پر تبصرہ کرتے ہوئے سقراط سے کہا تھا کہ :
" تمسخر کا نچوڑ کمزور کی نادانی میں پایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنا مذاق اڑائے جانے کی صورت میں اس کا بدلہ لے سکے۔ یہی چیز ادب میں مزاح کا سبب بنتی ہے "۔


افلاطون نے شاید یہ بھی کہا تھا :
" لیکن پیارے سقراط ہزاروں سال بعد دکن کی سرزمین پر ایک مزاح نگار پیدا ہوگا جو کسی کمزور اور نادان کا استہزا کیے بغیر ہی ایسا مزاح پیدا کرے گا کہ سننے والے عوام جھوم اٹھیں گے "۔


اس تبصرہ کے بعد ہمارے پاس رہ ہی کیا جاتا ہے ؟ واقعی اس شخص کو کیا کہیں جو
داڑھی کے فنی محاسن و عیوب پر مزاح نگاری کرنے سے پہلے خود داڑھی بڑھائے اور اتنی بڑھائے کہ بڑے بڑے مولویوں کی داڑھیاں اپنی کوتاہ قامتی کا گلہ کرنے لگیں اور اس کے بعد مختلف تجربات کی روشنی میں ریش درازی کی افادیت کے ایسے پہلو اجاگر کرے کہ پڑھنے والے اپنی اپنی داڑھیوں پر ہاتھ پھیرتے رہ جائیں۔


افلاطون کے بعد اس کے شاگرد کے شاگرد حکیم ارسطو نے اپنی کتاب Poetics میں مزاح کے بنیادی عناصر پر یوں تبصرہ کیا تھا کہ :
' بدنمائی ( بدصورتی ، بھدّا پن ، گھناونا پن ) جس سے تنفریا اکراہ نہ ہو ، وہ مزاح کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے '۔
ارسطو کے نزدیک بھی مزاح کے لیے انسانی کمزوریوں کا اس طرح نشانہ بنایا جانا کہ جس سے ہدف سے نفرت نہ ہو ضروری قرار پایا۔


ارسطو کی Poetics کا جب عربی ترجمہ ہوا تو ابوالبشر ، اس کا شاگرد ابوالنصر الفارابی ، ابی سینا اور ابی راس جیسے عرب علماء نے فن مزاح کی وسیع تر تشریح کی ، جو بالاخر طنز اور طرب کو ہم معنی قرار دینے پر اختتام پذیر ہوئی اور جو ارسطو کے نظریہ مزاح سے بالکل جداگانہ شکل میں ڈھل گئی۔ اس کی وجہ شاید تہذیبوں کا اختلاف تھا ، جس نے عرب علماء کو یونانی فلاسفہ کے بنیادی نقاط نظر سے اختلاف کرنے پر مجبور کیا۔ یونانیوں کے نزدیک مزاح عام طور پر ڈرامہ کی شکل میں تخلیق کیا جاتا تھا اور عربوں نے ان کی اپنی شاعری کو مزاح کی تخلیق کا ذریعہ بنایا۔ کیوں کہ عربوں کے پاس ڈرامہ کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس طرح عربی شاعری میں ہجو گوئی کے ذریعہ مزاح نگاری کی کوششیں کی گئیں۔


قدیم یونانی مزاح کی ایک خاص صفت Comedy ( طربیہ ڈرامہ ) ہوا کرتی تھی جس کا آغاز کلفت کے واقعات سے ہوتا اور انجام شادمانی پر مبنی ہوتا۔ لیکن عرب فَلاسفہ نے طرب (Comedy) کو محض فن عیب جوئی ہی جانا۔ اس طرح یونانی فلاسفہ اور عرب فلاسفہ میں بعد المشرقین پیدا ہوتا گیا۔ یونانی فَلاسفہ کے نزدیک مزاح کا تفریح پر منتج ہونا لازمی تھا ، جب کہ عرب میں ہجو کے ذریعہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا او راپنی زبان دانی کا مظاہرہ کرنا مزاح کا لازمی عنصر قرار پایا۔


مزاح نگاری سے متعلق یوروپی فلاسفہ نے اپنی ایک الگ ڈگر بنائی جو یونانی اور لاطینی نظریات سے بہت مختلف ہے۔ ایمانویل کانٹ نے مزاح کی تشریح نظریہ عدم توافق (Theory of Incongruity) کے ذریعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے خیال میں مزاح ( 'طرب' Comic ) ایسے جال کا نام ہے جس کے بچھائے جانے کے بعد توقعات تو پیدا ہوتی ہیں کہ کچھ ہوگا لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ اس کے باوجود نتیجہ مایوسی نہیں بلکہ تفریح طبع کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ ہنری برگسان (Bergson) نے اپنے مضمون "Laughter: An essay on the meaning of the Comic" میں جو 1900 میں لکھا گیا ، نظریہ عدم توافق کو مزید وسعت دی اور بلوغ کو پہنچایا۔ برگسان کے مطابق مزاح دو متضاد چیزوں کو ایک دوسرے کے مقابل رکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی قہقہہ بردوش ادب وہ ہوتا ہے جو دو متضاد چیزوں کے تقابل سے مضحکہ خیزی پیدا کرے۔


ماخوذ: "شگوفہ" (حیدرآباد، انڈیا)۔
مدیر و ناشر: مصطفیٰ کمال۔ سن اشاعت: مارچ 2009ء۔

Humour in Urdu Literature, by: Mohammad ali Rafat.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں