ڈاکٹر راجندر پرشاد - ہندوستان کا ایک سادگی پسند قائد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-22

ڈاکٹر راجندر پرشاد - ہندوستان کا ایک سادگی پسند قائد

Dr-Rajendra-Prasad

ڈاکٹر راجندر پرشاد کا تعلق ہمارے ملک کے ان قائدین کی نسل سے ہے جو اب ناپید ہوچکی ہے اور ادب وہ لوگ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں جنہوں نے گاندھی جی کے بعد راجندر پرشاد اور اسی قبیل کے دوسرے قائدین کے ساتھ کام کیا تھا اور ان کے شانہ بشانہ جدو جہد آزادی میں حصہ لیا تھا۔


ڈاکٹر راجندر پرشاد کا تعلق اسی نسل سے بھی تھا جس نے گاندھی جی کے حلقہ اثر میں آجانے کے بعد عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کہہ کر سادگی پسندی کو اپنا شعار بنایا تھا۔ وہ اس قدر سادہ زندگی کے عادی ہوگئے تھے کہ جب 1934ء میں اندور میں ہندی ساہتیہ سمیلن کا اجلاس ہوا تو وہ شاہی مہمان تھے۔ گاندھی جی کے لئے تو ان کی مقررہ غذا فراہم کردی گئی لیکن راجندر پرشاد یا راجن بابو اور ان کے ساتھیوں کے لئے شاہی آداب کے مطابق چاندی کے برتنوں میں پورے لوازمات کے ساتھ چکنائی سے بھرپور کھانا پروسا گیا۔ جب گاندھی جی کو کسی طرح اس کی اطلاع ملی کہ راجن بابو او ران کے دیگر ساتھیوں کو ایسی غذا سربراہ کی جارہی ہے جو ان کے لئے ناقابل ہضم ہے تو انہوں نے ایوان شاہی میں کہلا بھیجا کہ میرے ساتھیوں کو بھی وہی غذا فراہم کی جائے جو ان کے لئے پکتی ہے اس سے ان کی سادہ زندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


ڈاکٹر راجندر پرشاد کی پیدائش 3/دسمبر 1884ء کو بہار کے ایک گاؤں میں ہوئی۔ اس گاؤں کو ان کے دادا نے یو۔ پی سے آکر خرید لیا تھا اور یہیں بود و باش اختیار کرلی تھی۔ کائستھ خاندانوں میں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے راج دربار میں بھی ان کو بڑا مقام ملنے لگا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ راجن بابو کے دادا منشی چودھر لال تقریباً چوتھائی صدی تک ریاست ہنھورا کے دیوان بھی رہے اور بڑا نام کمایا۔


راجن بابو کے والد منشی مہادیو سہائے بڑے ملنسار اور پیشے کے اعتبار سے حکیم تھے حالانکہ انہوں نے حکمت کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن تجربے کی بنائ پر انہوں نے اس پیشے میں بڑا نام کمایا۔ وہ غریبوں کا مفت علاج کرتے تھے اور صاحب ثروت افراد سے فیس اور دوا کے پیسے لیاکرتے تھے وہ اپنے گاؤں میں اتنے با اثر تھے کہ گاؤں کے مقدمات عدالت میں جانے کے بجائے ان کے سامنے پیش ہوتے تھے اور وہ جو تصفیہ کرتے فریقین کے لئے قابل قبول ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ راجن بابو کو بھی اپنے گھر کا یہ ماحول دیکھ کر وکیل بننے کی خواہش پیدا ہوئی اور وہ اپنی زندگی میں اتنے بڑے وکیل بجے کہ لندن کی پری وی کونسل میں تک انہوں نے ایک مقدمے کی پیروی کی۔


راجن بابو اپنے والد کی پانچویں اور آخری سنتان تھی ان کی ابتدائی تعلیم اس وقت کے رواج کے مطابق ہوئی۔ چنانچہ وہ اپنی خود نوشتہ سوانح حیات میں اس تعلق سے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
"اس زمانے کے مروجہ رسم کے مطابق بسم اللہ مولوی صاحب نے کرائی تھی۔ جس دن تعلیم شروع ہوئی ، حرف شناسی کی ابتداء بسم اللہ سے ہوئی۔ شیرنی بانٹی گئی اور مولوی صاحب کو روپے بھی دئے گئے۔"
یہ ان کی تعلیم کی ابتدا تھی اور انتہا اس وقت ہوئی جب انہوں نے کلکتہ ہائی کورٹ میں ایم۔ اے ،ایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت کے دوران ایم۔ ایل کا امتحان پاس کیا، یہ پہلے بہاری تھے جنہوں نے یہ امتحان کامیاب کیا تھا۔


راجن بابو ابتدا ہی سے بڑے شرمیلے اور جھنیپو قسم کے انسان تھے۔ چنانچہ وہ خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
"میں بچپن میں بڑا دبو رہا ہوں اور کسی بڑے معاملے میں فوری فیصلہ کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔"
لیکن زندگی میں ایک منزل ایسی بھی آئی کہ جب گوپال کرشن گوکھلے نے انہیں سروینٹ آف انڈیا سوسائٹی SERVANT OF INDIA SOCIETY میں شرکت کی دعوت دی تو وہ فوراً تیار ہوگئے۔ یہ ان کی عوامی زندگی کی ابتدا تھی اور وہ اس سوسائٹی کے رکن اس لئے بھی بنے کہ ملک کی کچھ خدمت کرسکیں۔ وکالت کے ساتھ ساتھ انہوں نے پیشہ تدریس کو بھی اپنایا تھا۔ کلکتہ اور بہار کے ایک کالج میں وہ لکچرار کی حیثیت سے بھی کام کرنے لگے تھے۔
لیکن جب گاندھی جی نے بائیکاٹ کا آندولن شروع کیا تو انہوں نے نہ صرف وکالت ترک کردی بلکہ پیشہ تدریس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی اور اس کے بعد عوامی خدمت ہی کو انہوں نے بقیہ زندگی میں اپنا شعار بنالیا۔ گاندھی جی نے جب جنوبی افریقہ سے لوٹ کر ہندوستانی سیاست میں قدم رکھا تو اس وقت پہلی جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی اور انگریوں نے وعدہ خلافی کرکے ہندوستان میں اصلاحات کے نفاذ کے بجائے رولٹ ایکٹ نافذ کر دیا، جس کی وجہ سے پورے ملک میں تہلکہ مچ گیا اور سیاسی شورش برپا ہوگئی۔
سامراجیوں نے ہندوستانی قوم پر اتنے ظلم ڈھائے کہ ہندوستانیوں کے دلوں میں بھی انتقام کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ لیکن گاندھی جی کی قیادت نے اس کو انقلابی صورت اختیار کرنے نہیں دیا اور عدم تشدد پر کاربند رہنے کی ملک والوں کو تلقین کی۔ اس تلقین کا راجن بابو پر اتنا اثر پڑا کہ وہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
"گاندھی جی نے نامناسب برتاؤ کو ہمیشہ غلط بتایا کیونکہ اس سے ایک تو سچی کامیابی نہیں ہو سکتی اور اگر کامیابی قسم کی کوئی چیز نظر بھی آئی تو وہ اس مقصد کی کامیابی نہیں ہوسکتی کیونکہ ہمارے غلط عمل کی وجہ سے وہ مقصد ہی بدل جاتا ہے جس کے لئے ہم جدو جہد کررہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سچ اور اہنسا کی پابندی ہر حالت میں اور ہر موقع کے لئے ضروری اور لازمی بتائی۔"


1921ء سے 1946ء تک ملک میں جو سیاسی تحریکیں چلیں ان سب میں راجن بابو نے عملی طور پر حصہ لیا اور قید و بند کی مصیبتیں بھی جھیلیں۔ یہ تین بار یعنی 1934ء۔1936ء اور 1947ء میں کانگریس کے صدر بنائے گئے۔ یہ وہ ادوار ہیں جب ہمارے ملک میں سیاسی طور پر جو بڑی تحریکیں چلیں ان میں راجن بابو نے حصہ لیا اور کامیابی سے ہمکنار رہے۔


2/ستمبر 1946ء کو ہندوستان میں ایک عارضی قومی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ جس میں مسلم لیگ نے پہلے تو شرکت نہیں کی اس لئے کانگریس نے یہ حکومت بنائی لیکن بعد میں لیگ کو بھی اس عارضی حکومت میں شریک ہونا پڑا۔ اس عارضی حکومت میں راجن بابو ملک کے وزیر زراعت واغذیہ تھے۔ دسمبر 1946ء میں جب دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تو راجن بابو اس کے صدر بنائے گئے اور 26/جنوری 1950ء کو دستور کی منظوری کے بعد ہمارا ملک جمہوری ہندوستان میں تبدیل ہوا تو یہ اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔


دستور ساز اسمبلی کے صدر منتخب ہونے پر مسز سروجنی نائیڈو نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:
" مجھ سے کچھ لوگوں نے خواہش کی کہ اس موقع پر میں کوئی رزمیہ نظم لکھوں تاکہ راجن بابو کی خدمت میں اسے پیش کیاجاسکے۔ تو میں نے اپنے دل سے کہا کہ اگر میرا قلم سونے کا بھی ہو اور میں اسے شہد بھری دوات میں ڈبوکر بھی نظم لکھنا چاہوں تب بھی میں ان خوبیوں کو اجاگر نہیں کر سکتی جو راجن بابو کا وصف رہی ہیں"
اس موقع پر ڈاکٹر رادھا کرشن نے جو تقریر کی تھی وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب بن چکی ہے۔


26/جنوری 1950ء کو راجن بابو جمہوریہ ہند کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور پورے بارہ سال تک انہوں نے بحیثیت صدر جمہوریہ ملک کی جو خدمت کی اور اس کے نام کو ساری دنیا میں جس طرح سے روشن کیا وہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ناقابل بیان ہے۔ 1962ء میں صدارت کے عہدۂ جلیلہ سے سبکدوش ہونے کے بعد پٹنہ کے صداقت آشرم میں سکونت اختیار کی اور 28/فروری 1963ء کو انہوں نے آخری سانس لی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گئے۔


راجن بابو صرف سیاست داں ہی نہیں تھے بلکہ ان میں بحیثیت ادیب وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک ادیب میں ہونی چاہئے۔ ابتداء ہی سے ان کو ادب اور شاعری سے دلچسپی رہی تھی اور جن لوگوں نے ان کی خود نوشتہ سوانح عمری پڑھی ہے جو ہندی میں لکھی گئی تھی وہ ان کے ادبی ذوق کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سردار پٹیل جیسے شخص نے اس سوانح حیات کے بارے میں لکھا تھا کہ:
"اس کے ہر صفحہ پر راجن بابو کی زندگی کی ملائمت کے نقوش ملتے ہیں۔ یہ ہماری سیاسی زندگی کی تیس سال کی ایک طرح سے مستند تاریخ ہے اور سیاسیات کا کوئی بھی طالب علم اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔"


آخر میں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ راجن بابو کی صدارت کے زمانے میں جواہر لال نہرو ہندوستان کے وزیر اعظم تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا ایک بھڑکنے والا شعلہ تھا تو دوسرا دھیمی اور مدھم آنچ تھی لیکن ان دونوں نے مل کر جس خوبی کے ساتھ ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور دنیا میں ہندوستان کے نام کو روشن کیا وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
اردو کے خلاف صدر جمہوریہ راجندر پرشاد کے فیصلہ کن ووٹ کی حقیقت
***
ماخوذ از کتاب: یہ لوگ (خاکے)
مصنف: سری نواس لاہوٹی۔ ناشر: انجمن ترقی اردو ہند (نئی دہلی)۔ سنہ اشاعت: 1989ء

Rajendra Prasad, a simple and straightforward leader of India. Article by: Srinivas Lahoti

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں