برصغیر پاک و ہند کی جملہ زبانوں میں اردو ہی وہ واحد زبان ہے جو ہر جگہ سمجھی اور بولی جاتی ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اردو کے سمجھنے اور بولنے والے اکثر مل جاتے ہیں۔ قائد پاکستانؒ عصبیت سے بالاتر تھے لہذا انہوں نے اپنی مادری زبان پر بھی اردو کو ترجیح دی اور اسے پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔
قومی زبان اور قومی معاشرت و تمدن قوم کا عزیز ترین سرمایہ ہوتے ہیں اور ایک خوددار اور باوقار قوم اس سرمایہ کہ نہ صرف پوری قدر اور حفاظت کرتی ہے بلکہ اس پر فخر بھی کرتی ہے۔ اپنی زبان کی اہمیت بڑھانا اور اس کو صحیح درجہ دینا ناگزیر ہے۔
"مادری زبان کی تعلیم" فنِ تعلیم کی اردو کتابوں میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ اس کتاب کے مصنف یونس حسن فروغ علوی ہر چند کہ انگریزی زبان کے اچھے معلم، مخلص اور محنتی استاد ہیں مگر انہوں نے اردو ادب کی تعلیم میں خاص مہارت حاصل کی ہے جس کے محاسن و معائب کا ان کو پورا اندازہ بھی ہے اور اس پر انہیں باریک بیں نظر بھی حاصل ہے۔ صاحبِ کتاب لکھتے ہیں:
"کوئی غیر زبان ہماری جملہ ضروریات پوری نہیں کر سکتی اور ہم اپنی زبان سے بےنیار نہیں ہو سکتے بلکہ جملہ علوم و فنون میں صحیح استعداد اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب اپنی زبان ہی میں ان کی تعلیم دی جائے۔ اس لیے اپنی زبان کو اہمیت اور وسعت دینے اور اس میں کامیابی سے ہر قسم کے مضامین و مطالب کے اظہار کی قابلیت حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔
یہ کتاب اسی اہم مقصد کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے اور میں مصنف نے مادری زبان کی تعلیم کے اسی اہم پہلو سے سیر حاصل بحث کی ہے جو ایک متعلم میں تخلیقی و اظہاری صلاحیت پیدا کرنے اور اسے ترقی دینے سے تعلق رکھتا ہے اور اظہار خیال و جذبات کے جتنے تقریری و تحریری طریقے ہو سکتے ہیں، سب نہایت وضاحت سے بیان کیے ہیں۔ اور ان کو ترقی دینے کے ایسے طریقے بتائے ہیں جو نہ صرف اصول تعلیم اور نفسیات کے مطابق ہیں بلکہ دلچسپ بھی ہیں۔
بین الاقوامی یومِ مادری زبان (21/فروری) کے موقع پر، تعمیرنیوز کے ذریعے یہ اہم کتاب پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 12 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
***
نام کتاب: مادری زبان کی تعلیم
مصنف: پروفیسر یونس حسن فروغ علوی۔ ناشر: اکیڈیمی آف ایجوکیشنل ریسرچ، کراچی۔ سنہ اشاعت: 1957ء
تعداد صفحات: 298
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 12 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Maadri Zaban Ki Taleem by Younus Hasan.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | |
1 | زبان کی تعلیم کا مقصد اور اس کی اہمیت | |
2 | مادری زبان کی اہمیت | |
3 | انسان اور اظہار خیال | |
4 | موضوع کا انتخاب | |
5 | زبانی اظہار (Oral Composition) اور اس کا مقصد | |
6 | زبانی اظہار کی اقسام | |
6.1 | الف: مکالمہ | |
6.2 | ب: بیان | |
6.3 | ج: تقریر | |
6.4 | د: مباحثہ | |
6.5 | ہ: تمثیل | |
7 | تحریری اظہار یا انشا (Written Composition) | |
8 | تحریری اظہار کی خوبیاں اور ان کا حصول | |
8.1 | الف: سادی بیانیہ نثر لکھنا | |
8.2 | ب: بیان کا صاف اور واضح ہونا | |
8.3 | ج: تشریح تام | |
8.4 | د: تحریر میں مکالمہ کا استعمال | |
8.5 | ہ: افسانے میں مکالمہ کی اہمیت | |
8.6 | و: مکالمہ اور الفاظ کلام | |
8.7 | ز: تحریری مکالمہ کی تدریجی تعلیم | |
9 | املا اور اس کی صحیح اہمیت | |
10 | نقل نویسی یا دیکھ کر لکھنا (Transcription) | |
11 | خطوط نویسی | |
11.1 | الف: بچوں کے لیے خط کی اقسام | |
11.2 | ب: اعلیٰ جماعتوں کی خطوط نویسی | |
11.3 | ج: خطوط کا سلسلہ | |
11.4 | د: کاروباری خطوط | |
12 | مضمون نگاری | |
12.1 | الف: معاشرتی اظہار | |
12.2 | ب: انفرادی اظہار | |
12.3 | ج: طلبہ ی انفرادی نگرانی | |
12.4 | د: مضمون نگاری کی اہمیت، اصول اور قاعدے | |
13 | افسانہ نگاری | |
14 | تمثیل نگاری | |
15 | شاعری | |
15.1 | الف: موزونیت کا احساس | |
15.2 | ب: تدریجی تعلیم | |
15.3 | ج: نمونے کا استعمال | |
16 | اظہار کے اہم لوازم و نقائص | |
16.1 | الف: الفاظ کا استعمال | |
16.2 | ب: خیالات کا سچا اظہار | |
16.3 | ج: جذبات کا سچا اظہار | |
16.4 | د: وقت، جگہ اور طریقہ | |
16.5 | ہ: رائے کا اظہار | |
16.6 | و: تقریری مشق کی اہمیت | |
16.7 | ز: بیان کی غلطیاں | |
16.8 | ح: ثقیل الفاظ کے استعمال کی عادت اور طولِ کلام | |
16.9 | ط: نثر کے نمونوں کا استعمال | |
17 | معلم اظہار کی کچھ تعلیمی مشکلات | |
17.1 | الف: بدخطی کا تدارک | |
17.2 | ب: املا کی غلطیاں | |
17.3 | ج: طلبا کے تحریری کام کی اصلاح | |
18 | خاتمہ | |
19 | ضمیمہ: مکمل نصاب تعلیم اردو، برائے مدارس ثانوی | |
19.1 | الف: مطالعہ یا کتابی تعلیم | |
19.2 | ب: قواعد زبان (علم ہجا، علم صرف، علم نحو وٖغیرہ کی تعلیم) | |
19.3 | ج: تصنیف یا اظہار کی تعلیم |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں